الٹا مجھ سےسوال ؟؟؟؟؟؟؟ امام کے پیچھےکا لفظ کس جملے کا ترجمہ ہے اور زورسے آمین کس کا ؟؟؟؟؟؟؟؟ اتنا بتا دو بات ختم
محترم جناب پاکستان آپ نہ دیئے گئے مشورے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اس سوال کاجواب دیتے ہیں جس کے جواب میں ہی آپ کا جواب ہوتا ہے۔چلیں خیر۔جوحدیث رانا بھائی نے پیش کی وہ کچھ یوں تھی
" عن عائشۃ رضی اللہ عنہا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ماحسدتکم الیہود علی شیئ ماحسدتکم علی السلام والتامین " (البخاری فی الادب المفرد : 988 ۔ سنن ابن ماجہ :856 ۔ صحیح ابن خزیمہ : 1585)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : یہود قوم {تمھارے آپس میں }سلام کرنے اور {امام کے پیچھے }آمین بولنے پر جسقدر حسد کرتی ہے اسقدر کسی اور چیز پر حسد نہیں کرتی ۔
اس پر آپ نے سب سے پہلے کہا کہ آمین دعا ہے اور دعا میں افضل آہستہ ہے۔ لیکن اس پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی بلکہ اپناخیال ذکر کیا۔جو کہ مردود ہے۔اس کے بعد پھر آپ نے کہا کہ کس لفظ کا مطلب ہے امام کے پیچھے آمین بولنے کا اور پھر یہ بھی سمجھنے کےلیے کہا کہ اس سے آمین بالجہر ہی مراد ہے؟ پھر کہا کہ آپﷺ ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں بلند آواز سے آمین کہتے؟ پھر کہا کہ آپ لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ نماز کی آمین مراد ہے دعا کی نہیں ؟ یہ چند باتیں پیارے پاکستان آپ نے کی ہیں۔
حدیث میں جن اعمال سے یہود حسدکرتے تھے ان کو بیان کیا گیا ہے۔ان میں ایک سلام کرنا اور دوسرا آمین کہنا ہے۔اور بھائی نے ان کاترجمہ یوں کیا ہے
’’علی السلام والتامین‘‘
( تمھارے آپس میں) سلام کرنے اور (امام کے پیچھے) آمین بولنے پر
محترم پاکستان آپ کے مین دو اعتراض ہیں
1۔امام کے پیچھے آمین کن الفاظ کاترجمہ ہے۔
2۔دوسرا اعتراض کہ کیااس سے مراد آمین بالجہر ہی ہے؟
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ وہ ترجمہ بریکٹ میں بطور وضاحت کیا گیا ہے۔حدیث میں موجود الفاظ کا ترجمہ نہیں۔جب حدیث میں موجودکسی بھی لفظ کاترجمہ نہیں تو اس لیے بریکٹ میں لکھا گیا ہے۔تاکہ مراد حدیث واضح ہوجائے۔اس پر آپ کا یہ اعتراض بھی باطل ٹھہرا کہ کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔؟ غور سے ایک بار پڑھ لیا جائے تو اس طرح کے اعتراض کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
آپ کا دوسرا اعتراض کہ اس سے مراد آمین بالجہر ہی ہے؟ محترم اس بارے چند باتیں پیش ہیں۔جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد آمین بالجہر ہے۔اور آمین بالجہر اجتماعی طور پر نمازوں میں ہی ہوا کرتی ہے۔
(الا قلیل اس کے علاوہ باقی کوئی ایسا موقع بن جائے۔مثلاً دعا وغیرہ کا جس میں لوگ اونچی آواز سےآمین کہیں۔کیونکہ جہری نمازیں تین ہیں اور ان تین نمازوں میں چھ بار بالجہر سب لوگ مجتمع ہوکر آمین کہتے ہیں۔تو یہودیوں کو حسد میں مبتلا کرنے کےلیے یہی چھ مواقع سمجھ میں آتے ہیں۔کیونکہ اس کے علاوہ باقی موقعوں کی آمین نہ تو اتنی اونچی آواز سے ہوتی ہے اور نہ ایک وقت میں سب مل کر ایک ہی آواز میں کہہ رہے ہوتے ہیں۔)
کیونکہ جب سب لوگ بآواز بلند ایک ہی وقت میں ایک ہی آواز میں جہراً آمین کہیں تو تب ہی اس کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے۔اس لیےان باتوں کومد نظر رکھتےہوئے آمین بالجہر امام کے پیچھے مراد لینا ہی صحیح ہے۔
اس کے ساتھ باقی کچھ باتیں مزید عرض ہیں جو قرینہ کی وجہ سے اس بات پر دال ہیں کہ لفظ ’’والتامین‘‘ سے مراد امام کے پیچھے آمین بالجہر ہی مراد لی جائے۔
1۔پہلا قرینہ’’ والتامین ‘‘ سے قبل ’’ السلام ‘‘ کا لفظ ہے۔کیونکہ جب ہم ایک دوسرے سےسلام کرتےہیں تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اونچی آواز سے ہی کہتے ہیں۔(اونچی آواز کامطلب لینے سے ہی یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہودی سلام سن کر حسد کرتے ہونگے۔کیونکہ اگر آہستہ آواز سے کہنا مراد لیں تو پھر یہودیوں کا حسد کرنا سمجھ نہیں آتا ۔) اس قرینہ کی وجہ سے آمین بالجہر ہی مراد لیں گے۔کیونکہ جب سلام اونچی آواز سے کہا جاتا ہے تو ظاہر ہے آمین بھی اونچی آواز والی مراد ہوگی کیونکہ دو حکم ایک ہی حدیث میں بیان ہوئے ہیں اور دونوں میں مناسبت بالجہر ہی ہے۔
2۔حدیث کے الفاظ سےآمین بالجہر اور آمین بالسر دونوں مطلب لیےجاسکتے ہیں۔ایک کو مراد لینے سے دوسرے کا انکار نہیں۔لیکن محل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہاں مراد آمین بالجہر ہی ہے۔
3۔آمین بالسر مراد لینے کا سرے سےکوئی قرینہ موجود ہی نہیں۔اورنماز میں امام کے پیچھے آمین بالجہر مراد نہ لینے کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
نوٹ
امید ہے کہ میں اپنی بات بالتفصیل سمجھا پایاہوں لیکن اگر ابھی بھی کوئی اشکال ہےتو بحث برائےبحث سے بچتےہ وئے ذکر کرنا۔ان شاءاللہ ممکن حد تشفی کی جائے گی۔