باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
نیٹ پر کسی جگہ ایک دینی علمی مضمون پڑھ رہا تھا ، اچانک خیال آیا کہ کچھ الفاظ و فقروں کے الٹ پھیر سے ایک اور نقطہ نظر کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ اعجاز الدین عمری صاحب کے شکریے کے ساتھ راقم کی طرف سے تبدیل شدہ تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
فکر و نظر اپنے بطن میں انمول جواہر رکھتے ہیں مگر مسئلہ یہی ہے کہ ہر کوئی اس سے غافل ہے! شاید کسی نے سچ کہا ہو کہ ہر نادان کو یہاں دانائی کا غرور ہے ، ہر بےخبر کو اپنی بیداری کا دعویٰ ہے۔
چند مخصوص قسم کی کتابیں اپنے محدود ذوق کے سہارے کیا پڑھ ڈالیں ، بندہ سمجھتا ہے کہ وہ علم میں ماہر ہو گیا ، علامہ بن گیا ، علماء و فضلاء سے کچھ اتنا آگے بڑھ گیا کہ ببانگ دہل کہنے لگ گیا کہ ۔۔۔۔
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے !!
حالانکہ جھوٹ اور سچ کے مابین فرق کرنے والی لکیر ایک زمانے سے جو واضح چلی آتی ہے ، تنگ پگڈنڈیوں سے گزرنے والا یہ راہی اس سے واقف ہی نہیں ہوتا۔
بات یہ ہے کہ جو طالب علم کسی گھٹی گھٹی سی کوٹھری کے دقیانوسی ماحول کا عادی ہو اسے وسیع اور اجلی روشن علمی دنیا کے مناظر بھی دھندلے دھندلے سے نظر آتے ہیں۔ اپنے محدود ، غیر مصدقہ اور کچے علم کا ماتم کرنے کے بجائے وہ دوسروں کی قسمت کو روتا ہے ، دوسروں کے علم کو نشانہ بناتا ہے۔
یہ کم علم نہیں جانتا کہ اس بازارِ حیات میں اسرارِ علم سے صرف وہ واقف نہیں بلکہ وہ بھی واقف ہیں جن کے نطفے کے سہارے وہ اس دنیا میں وارد تو ہوا مگر دعویٰ یہ ٹھوک ڈالا کہ پانی کے ایک قطرے سے علم کے سمندر تک عروج پانے کے اسرار و رموز آپ نہیں جانتے بلکہ آپ کے بالمقابل میں زیادہ بہتر جانتا ہوں۔
اور کبھی اپنے اساتذہ سے الجھ پڑا کہ ۔۔۔۔ ہم آپ کے مقلد نہیں کہ آپ کی ہر بات کو قرآن و سنت پر پیش کئے بغیر اسے قبول کریں ۔۔۔ حالانکہ یہ نادان بھول گیا کہ کسی بات کو قرآن و سنت پر پیش کرنے کے لیے "قرآن و سنت" کا وہ علم بھی درکار ہے جس کے پیچھے اس کے قابل و فاضل اساتذہ نے ایک عمر گزار ڈالی۔
کبھی نعرہ لگایا کہ یہ علامہ یہ امام یہ مولوی اسلام کی تبلیغ نہیں کرتا بلکہ "اسلام دشمن" ہے۔ یعنی اپنی ہی سوچ کو اس نے اسلام کی توضیح و تشریح کا پیمانہ قرار دے دیا کہ جو "اسلام" اس کی سمجھ میں آئے ، اس کی کسوٹی پر اگر فلاں فلاں پورا اترتا ہے تو بالکل ٹھیک ! یہ اسلام دوست ہے ! ورنہ اسے دائرۂ اسلام سے نکال باہر کرو ، یہ کافر تو نہیں البتہ "اسلام دشمن" ضرور ہے! اب چاہے دنیائے علم و فن کے ماہرین لاکھ سر پٹخ لیں کہ فلاں فلاں مولوی علامہ یا امام کی علمیت و فضلیت پر دنیائے علمِ نافع کے محققین و ماہرین نے تصدیق کی مہرِ زرین ثبت کر رکھی ہے۔
مگر بھئی ! اسلام تو وہ ہے جو میری سمجھ میں آئے اور اس کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا جا سکے گا کہ کون "اسلام دوست" ہے اور کون "اسلام دشمن"؟
باقی جائیں بھاڑ میں ، ہم کوئی ان کے مقلد ہیں؟
راہِ حیات کے ہر موڑ پر، بشر کے سفر کے ہر نقشِ قدم میں "فریبِ مطالعہ" کے ڈسے ہوئے لوگ کہیں نہ کہیں ایسے مل ہی جاتے ہیں جن کی نگاہِ دل پر تالا ہے اور سر کی آنکھوں پر وہم و گماں کا مایا جال ہے ۔۔۔۔
قرآن نے فرمایا ہے ۔۔۔۔۔
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُور
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (ترجمہ : سید مودودی)
ہاں ! کتنا سچ کہا میرے رب کے کلام نے !!
فکر و نظر کی بلوغت کو نہ پانے والے ، کثرت مطالعہ کو اپنا شغل نہ بنانے والے ، علم و فن کے ماہرین کی متفقہ آراء کو جھٹلانے والے ۔۔۔ کتنے بودے ہوتے ہیں۔
یہ ہی تو ہیں جنہیں قرآن نے "دل کے اندھے" کا لقب عطا کیا ہے۔
فکر و نظر اپنے بطن میں انمول جواہر رکھتے ہیں مگر مسئلہ یہی ہے کہ ہر کوئی اس سے غافل ہے! شاید کسی نے سچ کہا ہو کہ ہر نادان کو یہاں دانائی کا غرور ہے ، ہر بےخبر کو اپنی بیداری کا دعویٰ ہے۔
چند مخصوص قسم کی کتابیں اپنے محدود ذوق کے سہارے کیا پڑھ ڈالیں ، بندہ سمجھتا ہے کہ وہ علم میں ماہر ہو گیا ، علامہ بن گیا ، علماء و فضلاء سے کچھ اتنا آگے بڑھ گیا کہ ببانگ دہل کہنے لگ گیا کہ ۔۔۔۔
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے !!
حالانکہ جھوٹ اور سچ کے مابین فرق کرنے والی لکیر ایک زمانے سے جو واضح چلی آتی ہے ، تنگ پگڈنڈیوں سے گزرنے والا یہ راہی اس سے واقف ہی نہیں ہوتا۔
بات یہ ہے کہ جو طالب علم کسی گھٹی گھٹی سی کوٹھری کے دقیانوسی ماحول کا عادی ہو اسے وسیع اور اجلی روشن علمی دنیا کے مناظر بھی دھندلے دھندلے سے نظر آتے ہیں۔ اپنے محدود ، غیر مصدقہ اور کچے علم کا ماتم کرنے کے بجائے وہ دوسروں کی قسمت کو روتا ہے ، دوسروں کے علم کو نشانہ بناتا ہے۔
یہ کم علم نہیں جانتا کہ اس بازارِ حیات میں اسرارِ علم سے صرف وہ واقف نہیں بلکہ وہ بھی واقف ہیں جن کے نطفے کے سہارے وہ اس دنیا میں وارد تو ہوا مگر دعویٰ یہ ٹھوک ڈالا کہ پانی کے ایک قطرے سے علم کے سمندر تک عروج پانے کے اسرار و رموز آپ نہیں جانتے بلکہ آپ کے بالمقابل میں زیادہ بہتر جانتا ہوں۔
اور کبھی اپنے اساتذہ سے الجھ پڑا کہ ۔۔۔۔ ہم آپ کے مقلد نہیں کہ آپ کی ہر بات کو قرآن و سنت پر پیش کئے بغیر اسے قبول کریں ۔۔۔ حالانکہ یہ نادان بھول گیا کہ کسی بات کو قرآن و سنت پر پیش کرنے کے لیے "قرآن و سنت" کا وہ علم بھی درکار ہے جس کے پیچھے اس کے قابل و فاضل اساتذہ نے ایک عمر گزار ڈالی۔
کبھی نعرہ لگایا کہ یہ علامہ یہ امام یہ مولوی اسلام کی تبلیغ نہیں کرتا بلکہ "اسلام دشمن" ہے۔ یعنی اپنی ہی سوچ کو اس نے اسلام کی توضیح و تشریح کا پیمانہ قرار دے دیا کہ جو "اسلام" اس کی سمجھ میں آئے ، اس کی کسوٹی پر اگر فلاں فلاں پورا اترتا ہے تو بالکل ٹھیک ! یہ اسلام دوست ہے ! ورنہ اسے دائرۂ اسلام سے نکال باہر کرو ، یہ کافر تو نہیں البتہ "اسلام دشمن" ضرور ہے! اب چاہے دنیائے علم و فن کے ماہرین لاکھ سر پٹخ لیں کہ فلاں فلاں مولوی علامہ یا امام کی علمیت و فضلیت پر دنیائے علمِ نافع کے محققین و ماہرین نے تصدیق کی مہرِ زرین ثبت کر رکھی ہے۔
مگر بھئی ! اسلام تو وہ ہے جو میری سمجھ میں آئے اور اس کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا جا سکے گا کہ کون "اسلام دوست" ہے اور کون "اسلام دشمن"؟
باقی جائیں بھاڑ میں ، ہم کوئی ان کے مقلد ہیں؟
راہِ حیات کے ہر موڑ پر، بشر کے سفر کے ہر نقشِ قدم میں "فریبِ مطالعہ" کے ڈسے ہوئے لوگ کہیں نہ کہیں ایسے مل ہی جاتے ہیں جن کی نگاہِ دل پر تالا ہے اور سر کی آنکھوں پر وہم و گماں کا مایا جال ہے ۔۔۔۔
قرآن نے فرمایا ہے ۔۔۔۔۔
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُور
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (ترجمہ : سید مودودی)
ہاں ! کتنا سچ کہا میرے رب کے کلام نے !!
فکر و نظر کی بلوغت کو نہ پانے والے ، کثرت مطالعہ کو اپنا شغل نہ بنانے والے ، علم و فن کے ماہرین کی متفقہ آراء کو جھٹلانے والے ۔۔۔ کتنے بودے ہوتے ہیں۔
یہ ہی تو ہیں جنہیں قرآن نے "دل کے اندھے" کا لقب عطا کیا ہے۔