• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محترمی! میں سو فیصد دیوبندی ہوں۔
میری سمجھ میں یہ مسئلہ نہیں آتا کہ ایک علمی معاملہ میں آپ اس طرح کی بحث کیوں کر رہے ہیں؟ ابن ہمامؒ نے یہ مسلک اختیار کیا ہے اور وہ حنفی ہیں۔ اگر آپ کو ان کے اس مسلک سے اختلاف ہے تو آپ وہ بیان کر سکتے ہیں۔
آپ نے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ آٹھ رکعات تراویح کی حدیث مخالفین پیش کریں۔ اور آپ کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے آپ کو وہ روایت چاہیے جس میں تراویح کا لفظ ہو۔ میرے محترم یہ تو بعض جہال کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ ایک حنفی ہونے کی وجہ سے میں اگر آپ کو بے شمار مقامات دکھا دوں جہاں کوئی خاص لفظ نہیں تھا پھر بھی احناف نے کسی خاص چیز پر استدلال کیا ہے تو وہاں آپ کا کیا جواب ہوگا؟؟ اس کی بنیاد دیگر دلائل یا سیاق و سباق وغیرہ پر ہوتی ہے۔

عن جابر بن عبد الله قال:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد، حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله! رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: "كرهت أن يكتب عليكم الوتر"(صحیح ابن خزیمہ ۔ 1070)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رمضان میں رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہمیں آٹھ رکعت (تراویح )،اور پھر وتر پڑھائے ۔اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے
اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ ہمیں پڑھانے تشریف لائیں گے ؛ لیکن صبح تک انتظار کے بعد بھی آپ تشریف نہ لائے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی دیوبندی فرماتے ہیں : (إسناده حسن. عيسى بن جارية فيه لين. المروزي، كتاب الوتر 196 - 197 من طريق يعقوب)

آپ بالکل صحیح فرماتے ہیں کہ اس قسم کی روایات میں تراویح کا لفظ نہیں ہے۔ لیکن ایک تو یہ معروف ہے کہ یہ واقعہ تراویح کے سلسلہ میں ہوا تھا۔
دوسرا کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کی یہ بات آپ کے اپنے مسلک کو کہاں مجروح کر رہی ہے؟ اگر یہ تراویح نہ تھیں تو پھر زیادہ سے زیادہ چار رکعات عشاء کی نماز کی تھیں اور باقی چار کیا تھیں؟ ظاہر ہے نفل یا سنت تھیں۔
اور کیا آپ کے مسلک میں نفل کی جماعت ثابت ہے؟؟؟؟
جزاک اللہ بھائی -
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اشماریہ صاحب کیطرح سمجہنے اور سمجہانے کا اسلوب اسی طرح ہونا چاہئے اور یہی علم حاصل کرنیکا اور علم دینے کا طریقہ اچہا لگتا ہے ۔ علماء کا کام ہی اصلاح ہے ۔ اللہ ہم سب کو بہترین توفیق عطاء کرے ۔ دین کی فہم عطاء کرے ۔ صراط مستقیم پر چلائے ۔ دنیا و آخرت میں کامیابی دے ۔ آمین
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ویسے اگر ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں ۔ ان غلطیوں پر ندامت نہ محسوس کریں ، تو نہ ہم خود اپنی اصلاح کر پائینگے اور نہ ہی کوئی دوسرا ہماری اصلاح کر پائیگا ۔
اللہ اور اسکے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چلنا ہے یہی ہر فقیہ ، ہر عالم کا قول ہے انکی خواہش بهی ۔
بیشک توفیق منجانب اللہ ہے ، ہم اس سے ہی بہتر توفیق مانگتے ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند



بَاب فِي الْقَاضِي يُخْطِئُ


باب: قاضی (جج) سے فیصلہ میں غلطی ہوجائے تو کیسا ہے؟


3573- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ السَّمْتِيُّ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ؛ فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ >.

[قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ شَيْئٍ فِيهِ، يَعْنِي حَدِيثَ ابْنِ بُرَيْدَةَ: الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ]۔


الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 3573

خلاصة حكم المحدث: صحيح

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

’’ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی،رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے‘‘۔
اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔


ابو داود کہتے ہیں: یہ یعنی ابن بریدہ کی ’’ تین قاضیوں ‘‘ والی حدیث اس باب میںسب سے صحیح روایت ہے۔

لمحہ فکریہ ! مفتی حضرات کے لئے
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند



بَاب فِي الْقَاضِي يُخْطِئُ


باب: قاضی (جج) سے فیصلہ میں غلطی ہوجائے تو کیسا ہے؟


3573- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ السَّمْتِيُّ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ؛ فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ >.

[قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ شَيْئٍ فِيهِ، يَعْنِي حَدِيثَ ابْنِ بُرَيْدَةَ: الْقُضَاةُ ثَلاثَةٌ]۔


الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 3573

خلاصة حكم المحدث: صحيح

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

’’ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی،رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے‘‘۔
اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔


ابو داود کہتے ہیں: یہ یعنی ابن بریدہ کی ’’ تین قاضیوں ‘‘ والی حدیث اس باب میںسب سے صحیح روایت ہے۔

لمحہ فکریہ ! مفتی حضرات کے لئے
محترمی! ہر مفتی اور عالم کے سوچنے اور سمجھنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ وہ اس طریقے سے سوچ اور سمجھ کر بات کرتا ہے۔ اس میں اس کی جانب سے ناانصافی یا غلط بیانی نہیں ہوتی۔
دوسرا اسی چیز کو دوسرے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
ایک چیز جو آپ کے لیے ایک طرح ہے ان کے لیے اس طرح نہیں ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):

ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترجمہ :
فقہ حنفی کی مشہور و مستند کتاب " الدرالمختار " کے حاشیہ میں علامہ احمد بن محمد الطحطاوی المصری (المتوفی 2131ھ ) ایک نامی گرامی حنفی فقیہ امام ابن الھمام (المتوفی 861ھ ) کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
"علامہ ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔
اور یہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔

اور جو مصنف ابن ابی شیبہ میں جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح کی روایت آئی ہے اس کی اسناد ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top