• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں پھر عرض کرتا ہوں کہ :
نہایت دکھ کی بات ہے کہ صرف اہل حدیث کو برا کہنے کی عادتِ بد میں نامور حنفی فقہاء رحمہم اللہ کو یہود کے زمرے میں کھڑا کردیا ،انا للہ و انا الیہ راجعون ؛
اور اسی لئے علماء کہتے ہیں کہ تقلید اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861ھ):
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ‘‘
اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔)
اور علامہ ابن نجیم البحر الرائق میں لکھتے ہیں :
(وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
اور یہ (وتر سمیت گیارہ رکعت صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس ::
ایسے مشہور اور محقق فقیہ جنہوں نے ساری عمر حنفی فقہ کی جزئیات کو مدلل ثابت کرنے ،اور اس کی نشر و اشاعت میں کھپا دی،
اوکاڑوی مقلد ایسے بڑے عالم کو ’’ یہودیانہ تحریف ‘‘ کا مرتکب قرار دیتا ہے ،
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اور اسی لئے علماء کہتے ہیں کہ تقلید اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
افسوس صد افسوس ::
ایسے مشہور اور محقق فقیہ جنہوں نے ساری عمر حنفی فقہ کی جزئیات کو مدلل ثابت کرنے ،اور اس کی نشر و اشاعت میں کھپا دی،
اوکاڑوی مقلد ایسے بڑے عالم کو ’’ یہودیانہ تحریف ‘‘ کا مرتکب قرار دیتا ہے ،
مجھے معلوم نہ تھا کہ جناب ان کے بھی مقلد ہیں!!!!!!
میں نے خواہ مخواہ آپ لوگوں کو ”غیر مقلد“ کی بجائے ”لا مذہب“ لکھا !!!!!
اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔)
اور علامہ ابن نجیم البحر الرائق میں لکھتے ہیں :
(وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
اور یہ (وتر سمیت گیارہ رکعت صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
متعلقہ حدیث کا مکمل متن تحریر فرما دیں تاکہ آپ کی بات کا تجزیہ ہو سکے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں پھر عرض کرتا ہوں کہ :
نہایت دکھ کی بات ہے کہ صرف اہل حدیث کو برا کہنے کی عادتِ بد میں نامور حنفی فقہاء رحمہم اللہ کو یہود کے زمرے میں کھڑا کردیا ،انا للہ و انا الیہ راجعون ؛
اور اسی لئے علماء کہتے ہیں کہ تقلید اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861ھ):
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ‘‘
اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔)
اور علامہ ابن نجیم البحر الرائق میں لکھتے ہیں :
(وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
اور یہ (وتر سمیت گیارہ رکعت صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس ::
ایسے مشہور اور محقق فقیہ جنہوں نے ساری عمر حنفی فقہ کی جزئیات کو مدلل ثابت کرنے ،اور اس کی نشر و اشاعت میں کھپا دی،
اوکاڑوی مقلد ایسے بڑے عالم کو ’’ یہودیانہ تحریف ‘‘ کا مرتکب قرار دیتا ہے ،
انتہائی محترم @عبدالرحمن بھٹی بھائی۔ فقہائے احناف میں سے ایک جماعت کا واقعی یہ مذہب ہے جو کہ اوپر تحریر ہوا ہے۔
اور یہ مذہب ایک حد تک مضبوط بھی معلوم ہوتا ہے۔ اگر امام اعظمؒ سے اس بارے میں مروی الفاظ کا محمل اداء تراویح اور جماعت تراویح سمجھا جائے (جو کہ عین ممکن ہے) تو یہ قرین قیاس نظر آتا ہے کہ آٹھ رکعت سنت موکدہ اور باقی بارہ سنت لیکن غیر موکدہ ہوں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اور یہ مذہب ایک حد تک مضبوط بھی معلوم ہوتا ہے۔ اگر امام اعظمؒ سے اس بارے میں مروی الفاظ کا محمل اداء تراویح اور جماعت تراویح سمجھا جائے (جو کہ عین ممکن ہے) تو یہ قرین قیاس نظر آتا ہے کہ آٹھ رکعت سنت موکدہ اور باقی بارہ سنت لیکن غیر موکدہ ہوں۔
محترم! ہر متقی پرہیزگار عالم قابلِ احترام ضرور ہوتا ہے لیکن لازم نہیں کہ اس کی ہر بات صحیح ہو۔ ایک ہے علم حدیث اور ایک ہے فہم حدیث۔ ہمین فہم حدیث کی طرف رغبت ہونی چاہیئے اور فہم حدیث میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
بیس رکعات تراویح پر عمل مسجدِ حرام اور مسجد نبوی میں خلیفہ راشد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے اب تک ہو رہا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بیس رکعات تراویح پر عمل مسجدِ حرام اور مسجد نبوی میں خلیفہ راشد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے اب تک ہو رہا ہے۔
یہ کھوکھلا اور بے بنیاد دعوی ہے ،بلکہ محض ایک جھوٹ ہے ، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔
اگر ہے تو سامنے لایا جائے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم! ہر متقی پرہیزگار عالم قابلِ احترام ضرور ہوتا ہے لیکن لازم نہیں کہ اس کی ہر بات صحیح ہو۔ ایک ہے علم حدیث اور ایک ہے فہم حدیث۔ ہمین فہم حدیث کی طرف رغبت ہونی چاہیئے اور فہم حدیث میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
بیس رکعات تراویح پر عمل مسجدِ حرام اور مسجد نبوی میں خلیفہ راشد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے اب تک ہو رہا ہے۔
تو یہاں فہم حدیث میں کیا اختلاف ہے؟
اور یہ عمل مستقل تو یقینا ہو رہا ہے لیکن کیا اس سے سنت "موکدہ" ہونا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے تو استحباب ثابت ہونا چاہیے اور جو چیز صراحتا نبی کریم ﷺ کے عمل کے طور پر منقول ہے اس سے سنت موکدہ ثابت ہونی چاہیے۔ اصول تو یہی کہتا ہے۔
اگر ہم پوری بیس رکعات کو اسی طرح جماعت کے ساتھ سنت موکدہ مانتے ہیں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
ایک تو یہ کہ کیا نبی ﷺ اور ابو بکر رض اس سنت موکدہ کے تارک تھے؟
دوسرا یہ کہ جس طرح کسی شرعی مسئلے میں کمی درست نہیں اسی طرح اسی حیثیت سے زیادتی بھی بدعت ہے۔ تو امام مالکؒ جو چھتیس کے قائل ہیں تو کیا یہ بدعت نہیں ہو گیَ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ کھوکھلا اور بے بنیاد دعوی ہے ،بلکہ محض ایک جھوٹ ہے ، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔
اگر ہے تو سامنے لایا جائے ۔
محترم اسحاق سلفی بھائی ظاہر تو وہ ہے جو ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور معروف ہے۔ اور ثبوت دینا خلاف ظاہر والے کے ذمہ ہوتا ہے کیوں کہ خلاف ظاہر کا داعی مدعی ہوتا ہے۔ تو ثبوت تو آپ کے ذمہ ہوگا نہ کہ عبد الرحمان بھٹی بھائی کے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اور یہ عمل مستقل تو یقینا ہو رہا ہے لیکن کیا اس سے سنت "موکدہ" ہونا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے تو استحباب ثابت ہونا چاہیے اور جو چیز صراحتا نبی کریم ﷺ کے عمل کے طور پر منقول ہے اس سے سنت موکدہ ثابت ہونی چاہیے۔ اصول تو یہی کہتا ہے۔
محترم؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو جاری رکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہوں اور بسبب جاری نہ رکھ سکیں تو اس کو کیا کہا جائے گا؟

اگر ہم پوری بیس رکعات کو اسی طرح جماعت کے ساتھ سنت موکدہ مانتے ہیں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
ایک تو یہ کہ کیا نبی ﷺ اور ابو بکر رض اس سنت موکدہ کے تارک تھے؟
ہر وہ کام جسے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نہ کیا ہو پھر کرنے لگ گئے ہوں تو اس سے ”تارک“ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ اس پر نہ کھلا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوتا۔

دوسرا یہ کہ جس طرح کسی شرعی مسئلے میں کمی درست نہیں اسی طرح اسی حیثیت سے زیادتی بھی بدعت ہے۔ تو امام مالکؒ جو چھتیس کے قائل ہیں تو کیا یہ بدعت نہیں ہو گیَ؟
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ باجماعت چھتیس کے قائل نہیں بلکہ مدینہ کے لوگ ہر ”ترویحہ“ میں چار رکعات نفل پڑھ لیتے تھے لہٰذا روایت کرنے والے نے (بیس جمع سولہ) چھتیس کی روایت کر دی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو جاری رکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہوں اور بسبب جاری نہ رکھ سکیں تو اس کو کیا کہا جائے گا؟
اس کو یہ کہا جائے گا کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام کو جاری رکھنا کسی وجہ سے پسند نہیں فرمایا تو بعد والے کون ہوتے ہیں جاری رکھنے والے (ابتسامہ)۔
بھائی پہلا سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم ﷺ نے جو تین دن تراویح پڑھائی تھیں وہ بیس رکعت تھیں؟
اگر بیس رکعت نہیں تھیں (یا بیس رکعت کا ثبوت نہیں ہے) تو پھر اس بحث کا کیا فائدہ کہ آپ کی اس کو جاری رکھنے کی خواہش تھی؟
اور اگر بیس رکعات تھیں تو پھر نبی ﷺ کے خود انہیں چھوڑ دینے کے بعد انہیں اختیار کرنا تو آپ کے عمل کے الٹ ہے۔
ہر وہ کام جسے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نہ کیا ہو پھر کرنے لگ گئے ہوں تو اس سے ”تارک“ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
بھائی اگر میں کہوں کہ آپ اسے ثابت کریں کہ نبی ﷺ آخر میں یہ عمل فرمانے لگ گئے تھے تو مجھے امید ہے آپ کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔ لیکن یہ بات آپ کی اگلی بات کے منافی ہے کہ:
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ اس پر نہ کھلا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوتا۔
اگر نبی ﷺ نے یہ کام شروع فرما دیا تھا تو پھر ابو بکر رض کا سینہ کیسے نہیں کھلا تھا؟؟؟

بہر حال اس بات کو چھوڑیے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک کام نبی ﷺ اور ابو بکر رض کے زمانے میں نہیں ہوا اور اس کے بعد شروع ہوا تو وہ سنت تو ہے اور اس کی اتباع کا بھی حکم ہے لیکن ہم اسے سنت موکدہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ ہم خود یہ حکم لگاتے ہیں کہ سنت موکدہ کا مستقل تارک شفاعت سے محروم ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ نبی ﷺ کی نہیں بلکہ صحابہ کرام کی سنت ہوگی جو کہ لائق اتباع تو یقینا ہے لیکن اس قدر مضبوط کہ سنت موکدہ ہو اور سنت غیر موکدہ جسے ہم مستحب کہتے ہیں سے بڑھ جائے بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟

ویسے اگر آپ وہ روایت نقل فرما دیں جو ہماری مستدل ہے تو میں ایک اور نکتہ اس میں بتاتا ہوں ان شاء اللہ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ باجماعت چھتیس کے قائل نہیں بلکہ مدینہ کے لوگ ہر ”ترویحہ“ میں چار رکعات نفل پڑھ لیتے تھے لہٰذا روایت کرنے والے نے (بیس جمع سولہ) چھتیس کی روایت کر دی۔
امام مالک رح کے مسلک کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ تراویح سنت چھتیس رکعت ہے۔ دوسرا قول جو نووی نے عینی سے نقل کیا ہے گیارہ رکعات کا ہے۔ ان اقوال میں اس بات کا مجھے کوئی حوالہ نہیں ملا کہ امام مدینہ کے نزدیک یہ چھتیس اس طرح ہیں کہ بیس تو جماعت کے ساتھ اور سولہ بغیر جماعت کے۔ اس کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیے۔
رہ گئی بات اہل مدینہ کے عمل کی تو یہ فقط ان کے عمل کی ایک توجیہی صورت ہے اور اس کے علاوہ توجیہات بھی نقل ہوئی ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس کو یہ کہا جائے گا کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام کو جاری رکھنا کسی وجہ سے پسند نہیں فرمایا تو بعد والے کون ہوتے ہیں جاری رکھنے والے (ابتسامہ)۔
محترم! تراویح کو صرف باجماعت پڑھانا چھوڑامطلقا تراویح پڑھنا نہیں چھوڑا۔

اور اگر بیس رکعات تھیں تو پھر نبی ﷺ کے خود انہیں چھوڑ دینے کے بعد انہیں اختیار کرنا تو آپ کے عمل کے الٹ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسبب باجماعت پڑھانی چھوڑیں مگر اس کی خواہش تھی۔ بعد میں میں جب سبب ختم ہو گیا کہ نزولَ وحی وصال سے ختم ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی حالت میں جاری کردیا۔

بھائی اگر میں کہوں کہ آپ اسے ثابت کریں کہ نبی ﷺ آخر میں یہ عمل فرمانے لگ گئے تھے تو مجھے امید ہے آپ کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔ لیکن یہ بات آپ کی اگلی بات کے منافی ہے کہ:
محترم! صرف باجماعت تراویح چھوڑی مطلقآ تراویح نہیں چھوڑی وہ بعد میں بھی ادا کرتے رہے۔

اگر نبی ﷺ نے یہ کام شروع فرما دیا تھا تو پھر ابو بکر رض کا سینہ کیسے نہیں کھلا تھا؟؟؟
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کا ان مختلف ٹولیوں کو ایک امام کی اقتدا میں کردینے کی بات دل میں نہ آسکی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں آگئی۔

بہر حال اس بات کو چھوڑیے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک کام نبی ﷺ اور ابو بکر رض کے زمانے میں نہیں ہوا اور اس کے بعد شروع ہوا تو وہ سنت تو ہے اور اس کی اتباع کا بھی حکم ہے لیکن ہم اسے سنت موکدہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ ہم خود یہ حکم لگاتے ہیں کہ سنت موکدہ کا مستقل تارک شفاعت سے محروم ہے۔
جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا وہ سنت مؤکد ہی ہوتی ہے۔ ہاں ایک مسجد میں ایک قاری کے پیچھے پڑھنے کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ سنت مؤکد نہیں۔

دوسرے لفظوں میں یہ نبی ﷺ کی نہیں بلکہ صحابہ کرام کی سنت ہوگی جو کہ لائق اتباع تو یقینا ہے لیکن اس قدر مضبوط کہ سنت موکدہ ہو اور سنت غیر موکدہ جسے ہم مستحب کہتے ہیں سے بڑھ جائے بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟
صحابہ کی سنت کو سنت مؤکد کسی نے نہیں بنایا۔
 
Top