ابو عبدالله
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 28، 2011
- پیغامات
- 723
- ری ایکشن اسکور
- 448
- پوائنٹ
- 135
رفع یدین اور عدم رفع میں غلو و تشدد !
میں الحمد للہ چودہ پندرہ سال کی عمر سے ان لوگوں میں ھوں جو رفع یدین کرتے بھی ھیں اور 30 سال سے ان کی امامت بغیر رفع یدین سے کر رھا ھوں مگر آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا ، اگرچہ یہ ان کا ملک ھے اور مہمان کو اخلاقاً اپنے میزبان کی فقہ کا اکرام کرنا چاھئے !
اگر بات رفع یدین کی ھے تو امام شافعی رفع یدین اور دیگر مسائل میں سلفی حضرات کی موافقت فرماتے ھیں لہذا اس کے لئے نئی فقہ کی ضرورت نہیں تھی ،، یہ ضرورت کیوں محسوس کی گئ یہ اگر موقع ملا تو اپنے موقعے پر بیان کرونگا ! خیر مجھے رفع یدین یا عدم دونوں پر کوئی اعتراض نہیں ھے ، اور نہ ھی عدم اور رفع کے قائلین اسلاف کو کبھی تھا اور نہ ھی برصغیر کے علاوہ دنیا میں کہیں کسی اور جگہ کسی کو بھی ھے ،، یہ صرف پاک ھند ھی وہ مبارک اور پاک طینت و صاف نیت خطہ ھے کہ جہاں ان مستحبات کے بنیاد پر مساجد تقسیم کی گئ ھیں ،، باقی دنیا میں لوگ ایک ھی مسجد میں رفع یدین کرتے بھی ھیں اور نہیں بھی کرتے،، امام رفع یدین کرتا ھے تو بہت سارے مقتدی نہیں کرتے اور امام نہیں کرتا تو بہت سارے مقتدی کرتے ھیں،،مگر مساجد سے اٹھا کر باھر پھینکنے کا رواج صرف اپنے یہاں ھی ھے ،،
یہ میرا اصل پؤائنٹ تھا کہ مساجد کی علیحدگی کس حدیث سے ثابت ھے ؟ جتنی احادیث تصور شاہ صاحب نے اسکین کر کے لگائی ھیں ،ان میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ ابوبکر صدیقؓ رفع یدین نہیں کرتے تھے تو ابن عمرؓ نے ساتھ کے محلے میں اپنی مسجد بنا کر لوگوں کو رفع یدین کرنے کی سہولت فراھم کر دی تھی ! مجھے تو یہ ان احادیث میں نظر نہیں آیا کہ مدینے اتنی مساجد آمین بالجھر اور رفع یدین کرنے والوں کی تھیں اور اتنی مساجد آمین بالسر کرنے اور رفع یدین نہ کرنے والوں کی تھیں،، اگر کسی اور کو کہیں کسی حدیث یا تاریخ کی کسی کتاب میں نظر آئے تو ضرور شیئر کریں ،، یہ علامے اور شیوخ جو چھینکتے بھی دلیل کے ساتھ ھیں ،، مساجد الگ کرنے کی کیا دلیل دیتے ھیں ،، سوائے اس کے کہ فتنہ رفع کرنے کے لئے ضروری ھے،، پہلے عورتوں کا مسجد میں جانا فتنہ تھا اب پچھلی نصف صدی سے مردوں کا ایک مسجد میں اکٹھا ھونا بھی فتنہ ھے ،، سبحانک ھذا بہتانۤ عظیم ،، بجائے اس کے کہ ھم اپنے سینوں کا گند نکال باھر کرتے ،، کلمے سے اپنے سینوں کی صفائی ستھرائی کرتے اور ان کو وسیع کرتے ھم نے نبی کی امت کو مستحبات پر بانٹ کر پارہ پارہ کر دیا اور دنیا بھر میں جنگ ھنسائی کا سامان پیدا کر دیا ،، جو کلمہ ان کے سینے روشن نہیں کر سکا پتہ نہیں وہ ان کی قبریں کیسے روشن کرے گا جنہوں نے اللہ کی مساجد کو ویارن کر دیا ،، جو کلمہ ان کے دلوں میں وسعت پیدا نہیں کر سکا پتہ نہیں ان کی قبروں کو کیسے وسیع کرے گا ،جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟
ان مستحبات کے معاملے میں یعنی جن میں اختلاف ھونے یا نہ ھونے کا نہیں بلکہ ھر دو صورتوں میں استحباب کا ھے ،حلال اور حرام کی سطح کی شدت اور مناظرہ بازی قطعاً دین کی خدمت نہیں بلکہ اولاً منکرین حدیث کے ھاتھ مضبوط کرنا اور ثانیاً ملحدیں کی تعداد میں اضافہ کرنا ھے اور یہ دونوں کام نہایت سرعت کے ساتھ ھو رھے ھیں ! آخر یہ کیسا دین سکھانے کا مشن تھا کہ جس میں آدھا گھنٹہ خرچ کر کے نبی ﷺ ایک طریقے سے نماز پڑھنا بھی نہیں سکھا سکے ،، آپ 23 سال کسی مولوی صاحب کے پاس بچا بٹھائے رکھئے اور وہ مولوی صاحب اس کو نماز بھی نہ سکھا سکیں تو پھر اس مولوی صاحب کے پاس وقت کا ضیاع ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ھے ! جس سوال ملحدین و منکرین حدیث بار بار اٹھاتے ھیں اور ھم سوائے ان کو بلاک کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے ،، پھر جس عبادت کو آسمانوں پر فرض کیا گیا ،، سب سے پہلے فرض کیا گیا ،، جس کو ھم دن میں پانچ بار 1425 سال سے کرتے چلے آرھے ھیں ،، جس کا حکم قرآن میں درجنوں بار دیا گیا ،ھر نبی کو رابطے کے بعد پہلا حکم نماز کا دیا گیا ،، اگر اس میں تعلیم کا نتیجہ یہ ھے کہ امت ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیسے عمل پذیر ھوتا تھا ،، تو دین کے باقی معاملات میں کیسے اعتبار کیا جا سکتا ھے کہ ھم نے بڑے تیر مار لئے ھونگے ؟
لوگ جمہوریت کو علامہ اقبال کے اس قول سے بدنام کرتے ھیں کہ " جہاں بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے " اور جہاں امرود کی ریڑھی پر بیٹھے اور ملک کے چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے ،یعنی دونوں کا عقل و شعور اور آئی کیو برابر ھے ! مگر نہایت افسوس کی بات ھے کہ معاملہ دین میں بھی یہی ھے ،، صدیاں گزریں ھمارے محدثین نے یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ نبی ﷺ کے ساتھ 23 سال شب و روز چلنے پھرنے والے اور مشورے دینے والے کہ جن سے نبی ھر معاملے میں مشورہ طلب کیا کرتے تھے، اور نبی ﷺ کے وصال سے ڈیڑھ سال پہلے اسلام قبول کرنے والا محدثین کے نزدیک برابر تھے ،، الصحابہ کلھم عدول تو تھے ،، مگر انہیں کلھم سواءً بنا دیا گیا ،، اس کے بعد پھر وھی ھونا تھا جو ھو رھا ھے، جب نامہ نگار کو صرف خبر سے مطلب ھو سورس کی اھمیت کوئی نہ ھو تو پھر بریکنگ نیوز تو بنتی رھیں گی مگر اضطراب اپنی جگہ رھے گا !
حفظ مراتب میں نبی ﷺ کے پیچھے اصحابِ بدر پہلی دو صفوں میں ھوتے تھے ،یعنی پہلی دو صفیں اصحاب بدر کی ھوتی تھیں ،ابن عمر بچوں کی صف میں بہت پیچھے ھوتے تھے اور ابوھریرہؓ تو صحابہ کے طبقات میں چودھویں نمبر پر آتے تھے ،، نہ وہ السابقون الاولون میں سے تھے ،نہ مہاجرین میں سے تھے نہ اصحاب بدر میں سے تھے اور نہ اصحاب احد میں سے تھے نہ وہ بیعت رضوان والوں میں سے تھے ،، وہ بہت پیچھے کھڑے ھوتے تھے ! نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کے سوا ھر ذمہ داری ابوبکر صدیقؓ کو منتقل ھو گئ تھی وہ صرف امام مسجد نہیں بنے تھے کہ مرضی انتظامیہ کی چلتی تھی،، وہ سربراہ مملکت تھے، چیف جسٹس تھے، مفتئ اعظم تھے ،، چیف آف آرمی اسٹاف تھے ،، انہیں مشورہ تو دیا جا سکتا تھا ،، ان کے خلاف نہ کوئی فتوی دیا جا سکتا تھا اور نہ ان کے حکم کے بغیر کوئی اجتماعی کام کیا جا سکتا تھا ،، ھمیں مولوی جس مقام پہ ملا ھے ،ھم وھی مقام خلفاء راشدین کو بھی دیتے ھیں ،، جبکہ وہ دین کی ضروریات کے کفیل تھے اور جہاں جس جگہ دین کو ضرورت محسوس ھوئی انہی کے حکم کے مطابق پوری کی گئ ،، نہ کہ ابوھریرہؓ یا ابن عمرؓ سے فتوی لے کر پوری کی گئ !
نبئ کریمﷺ کی زندگی میں ابوبکر صدیقؓ نے ساری ذمہ داری ٹیک اوور کر لی تھی ، اور نبیﷺ نے حکم دے کر انہیں کھڑا کیا تھا ،، اور آخری نماز میں جب آپ ﷺ پہنچے تو جہاں فاتحہ کی قرأت صدیق چھوڑ کر پیچھے ھٹے تھے وھیں قرأت شروع فرمائی ! رفع یدین کے معاملے میں چاروں خلفاء میں اتفاق ھے ان کی نماز میں کوئی اختلاف نہیں تھا اور چاروں خلفاء رفع یدین نہیں کرتے تھے ،، کیوں نہیں کرتے تھے یہ فیصلہ اب قیامت کو ھو گا کہ کیا وہ نبی ﷺ کی مخالفت میں ایسا کرتے تھے یا اسے سنت سمجھ کر نہیں کرتے تھے ،، دین کے سفر کا رستہ خلفاء راشدین ھیں،، باقی صحابہؓ نہیں،، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ کے بعد دائیں بائیں سے ریفرینس لینا اور اسے دین بنا لینا خود نبی کریمﷺ کے قول و منشاء کے خلاف ھے !
امام اوزاعی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے مکالمے میں جو حدیث علقمہ والاسود عن ابن مسعودؓ روایت کی گئ ھے کہ" ان رسول اللہ ﷺ کان لا یرفع یدیہ الا عند افتتاح الصلوۃ، ولا یعود لشئٍ من ذلک ، ایک صحیح روایت ھے جس پر کلام ممکن نہیں ،، پھر پھر ابن عدی ،دار قطنی، بیھیقی، کی روایت ،، اسی سند کے ساتھ نقل ھوئی ھے کہ : صلیت مع رسول اللہ ﷺ و ابی بکرؓ و عمرؓ فلم یرفعوا ایدیھم الا عند استفتاح الصلوۃ ،، عبداللہ ابن مسعود فرماتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نمازیں پڑھی ھیں ،، ان میں سے کوئی بھی سوائے افتتاح والی جگہ کے کہیں رفع یدین نہیں کرتا تھا ! پھر براء ابن عازبؓ کی روایت میں جسے امام طحاوی نے نقل کیا ھے ، اس کے الفاظ ھیں،، جب نبیﷺ نماز کا افتتاح فرماتے تو اپنے ھاتھ یہانتک اٹھاتے کہ وہ کان کی نرم جگہ کے برابر پہنچ جاتے اور پھر اس کے بعد کہیں بھی نہیں اٹھاتے تھے !
ابن زبیر نے ایک شخص کو رکوع کے بعد ھاتھ اٹھاتے دیکھا تو اسے روک دیا کہ " یہ کام نبی ﷺ نے پہلے کیا تھا پھر ترک کر دیا تھا " ھذا امرٓ فعلہ رسول اللہ ﷺ ثم ترک ! اس موضوع صفحے کے صفحے کالے کیئے جا سکتے ھیں مگر اس بنیاد پر مساجد کی علیحدگی کبھی بھی سنت فعل قرار نہیں دی جا سکتی ،،
اصلاً یہ ھماری جینیاتی کمزوری ھے ،جو خدا الگ نہیں بنا سکے انہوں نے مساجد الگ بنا کر اپنے آباء و اجداد کی روحوں کو خوش کر دیا ھے کہ اگرچہ ھم مسلمان بن گئے ھیں مگر اتنے بھی نہیں بنے کہ الگ الگ دیوتاؤں کو پوجنے کی لت مر گئ ھو ،، وہ کمی ھم نے الگ الگ مساجد سے پوری کر لی ھے ،، جسے نسوار نہ ملے تو تھوم رکھ کر گزارہ کر لیتا ھے !
میں نے جس دن سے خلفاء کو سنت کا معیار اور پیمانہ مان کرنبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق داڑھوں سے پکڑ لیا ھے ،، الحمد للہ اندر باھر سکون ھی سکون ھے ! کبھی ایک لحظہ بھی تذبذب میں نہیں گزرا ،، چاھے باقی سارے صحابہؓ ایک طرف ھوں !
لنک
اس شخص کی پروفائل پر میں نے دیکھا کہ خضر حیات اور سرفراز فیضی بھائی بھی اس کی فرینڈز لسٹ میں شامل ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ وہ دونوں اس پر کیا تبصرہ کریں گے۔۔۔؟؟؟
میں الحمد للہ چودہ پندرہ سال کی عمر سے ان لوگوں میں ھوں جو رفع یدین کرتے بھی ھیں اور 30 سال سے ان کی امامت بغیر رفع یدین سے کر رھا ھوں مگر آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا ، اگرچہ یہ ان کا ملک ھے اور مہمان کو اخلاقاً اپنے میزبان کی فقہ کا اکرام کرنا چاھئے !
اگر بات رفع یدین کی ھے تو امام شافعی رفع یدین اور دیگر مسائل میں سلفی حضرات کی موافقت فرماتے ھیں لہذا اس کے لئے نئی فقہ کی ضرورت نہیں تھی ،، یہ ضرورت کیوں محسوس کی گئ یہ اگر موقع ملا تو اپنے موقعے پر بیان کرونگا ! خیر مجھے رفع یدین یا عدم دونوں پر کوئی اعتراض نہیں ھے ، اور نہ ھی عدم اور رفع کے قائلین اسلاف کو کبھی تھا اور نہ ھی برصغیر کے علاوہ دنیا میں کہیں کسی اور جگہ کسی کو بھی ھے ،، یہ صرف پاک ھند ھی وہ مبارک اور پاک طینت و صاف نیت خطہ ھے کہ جہاں ان مستحبات کے بنیاد پر مساجد تقسیم کی گئ ھیں ،، باقی دنیا میں لوگ ایک ھی مسجد میں رفع یدین کرتے بھی ھیں اور نہیں بھی کرتے،، امام رفع یدین کرتا ھے تو بہت سارے مقتدی نہیں کرتے اور امام نہیں کرتا تو بہت سارے مقتدی کرتے ھیں،،مگر مساجد سے اٹھا کر باھر پھینکنے کا رواج صرف اپنے یہاں ھی ھے ،،
یہ میرا اصل پؤائنٹ تھا کہ مساجد کی علیحدگی کس حدیث سے ثابت ھے ؟ جتنی احادیث تصور شاہ صاحب نے اسکین کر کے لگائی ھیں ،ان میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ ابوبکر صدیقؓ رفع یدین نہیں کرتے تھے تو ابن عمرؓ نے ساتھ کے محلے میں اپنی مسجد بنا کر لوگوں کو رفع یدین کرنے کی سہولت فراھم کر دی تھی ! مجھے تو یہ ان احادیث میں نظر نہیں آیا کہ مدینے اتنی مساجد آمین بالجھر اور رفع یدین کرنے والوں کی تھیں اور اتنی مساجد آمین بالسر کرنے اور رفع یدین نہ کرنے والوں کی تھیں،، اگر کسی اور کو کہیں کسی حدیث یا تاریخ کی کسی کتاب میں نظر آئے تو ضرور شیئر کریں ،، یہ علامے اور شیوخ جو چھینکتے بھی دلیل کے ساتھ ھیں ،، مساجد الگ کرنے کی کیا دلیل دیتے ھیں ،، سوائے اس کے کہ فتنہ رفع کرنے کے لئے ضروری ھے،، پہلے عورتوں کا مسجد میں جانا فتنہ تھا اب پچھلی نصف صدی سے مردوں کا ایک مسجد میں اکٹھا ھونا بھی فتنہ ھے ،، سبحانک ھذا بہتانۤ عظیم ،، بجائے اس کے کہ ھم اپنے سینوں کا گند نکال باھر کرتے ،، کلمے سے اپنے سینوں کی صفائی ستھرائی کرتے اور ان کو وسیع کرتے ھم نے نبی کی امت کو مستحبات پر بانٹ کر پارہ پارہ کر دیا اور دنیا بھر میں جنگ ھنسائی کا سامان پیدا کر دیا ،، جو کلمہ ان کے سینے روشن نہیں کر سکا پتہ نہیں وہ ان کی قبریں کیسے روشن کرے گا جنہوں نے اللہ کی مساجد کو ویارن کر دیا ،، جو کلمہ ان کے دلوں میں وسعت پیدا نہیں کر سکا پتہ نہیں ان کی قبروں کو کیسے وسیع کرے گا ،جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟
ان مستحبات کے معاملے میں یعنی جن میں اختلاف ھونے یا نہ ھونے کا نہیں بلکہ ھر دو صورتوں میں استحباب کا ھے ،حلال اور حرام کی سطح کی شدت اور مناظرہ بازی قطعاً دین کی خدمت نہیں بلکہ اولاً منکرین حدیث کے ھاتھ مضبوط کرنا اور ثانیاً ملحدیں کی تعداد میں اضافہ کرنا ھے اور یہ دونوں کام نہایت سرعت کے ساتھ ھو رھے ھیں ! آخر یہ کیسا دین سکھانے کا مشن تھا کہ جس میں آدھا گھنٹہ خرچ کر کے نبی ﷺ ایک طریقے سے نماز پڑھنا بھی نہیں سکھا سکے ،، آپ 23 سال کسی مولوی صاحب کے پاس بچا بٹھائے رکھئے اور وہ مولوی صاحب اس کو نماز بھی نہ سکھا سکیں تو پھر اس مولوی صاحب کے پاس وقت کا ضیاع ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ھے ! جس سوال ملحدین و منکرین حدیث بار بار اٹھاتے ھیں اور ھم سوائے ان کو بلاک کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے ،، پھر جس عبادت کو آسمانوں پر فرض کیا گیا ،، سب سے پہلے فرض کیا گیا ،، جس کو ھم دن میں پانچ بار 1425 سال سے کرتے چلے آرھے ھیں ،، جس کا حکم قرآن میں درجنوں بار دیا گیا ،ھر نبی کو رابطے کے بعد پہلا حکم نماز کا دیا گیا ،، اگر اس میں تعلیم کا نتیجہ یہ ھے کہ امت ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیسے عمل پذیر ھوتا تھا ،، تو دین کے باقی معاملات میں کیسے اعتبار کیا جا سکتا ھے کہ ھم نے بڑے تیر مار لئے ھونگے ؟
لوگ جمہوریت کو علامہ اقبال کے اس قول سے بدنام کرتے ھیں کہ " جہاں بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے " اور جہاں امرود کی ریڑھی پر بیٹھے اور ملک کے چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے ،یعنی دونوں کا عقل و شعور اور آئی کیو برابر ھے ! مگر نہایت افسوس کی بات ھے کہ معاملہ دین میں بھی یہی ھے ،، صدیاں گزریں ھمارے محدثین نے یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ نبی ﷺ کے ساتھ 23 سال شب و روز چلنے پھرنے والے اور مشورے دینے والے کہ جن سے نبی ھر معاملے میں مشورہ طلب کیا کرتے تھے، اور نبی ﷺ کے وصال سے ڈیڑھ سال پہلے اسلام قبول کرنے والا محدثین کے نزدیک برابر تھے ،، الصحابہ کلھم عدول تو تھے ،، مگر انہیں کلھم سواءً بنا دیا گیا ،، اس کے بعد پھر وھی ھونا تھا جو ھو رھا ھے، جب نامہ نگار کو صرف خبر سے مطلب ھو سورس کی اھمیت کوئی نہ ھو تو پھر بریکنگ نیوز تو بنتی رھیں گی مگر اضطراب اپنی جگہ رھے گا !
حفظ مراتب میں نبی ﷺ کے پیچھے اصحابِ بدر پہلی دو صفوں میں ھوتے تھے ،یعنی پہلی دو صفیں اصحاب بدر کی ھوتی تھیں ،ابن عمر بچوں کی صف میں بہت پیچھے ھوتے تھے اور ابوھریرہؓ تو صحابہ کے طبقات میں چودھویں نمبر پر آتے تھے ،، نہ وہ السابقون الاولون میں سے تھے ،نہ مہاجرین میں سے تھے نہ اصحاب بدر میں سے تھے اور نہ اصحاب احد میں سے تھے نہ وہ بیعت رضوان والوں میں سے تھے ،، وہ بہت پیچھے کھڑے ھوتے تھے ! نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کے سوا ھر ذمہ داری ابوبکر صدیقؓ کو منتقل ھو گئ تھی وہ صرف امام مسجد نہیں بنے تھے کہ مرضی انتظامیہ کی چلتی تھی،، وہ سربراہ مملکت تھے، چیف جسٹس تھے، مفتئ اعظم تھے ،، چیف آف آرمی اسٹاف تھے ،، انہیں مشورہ تو دیا جا سکتا تھا ،، ان کے خلاف نہ کوئی فتوی دیا جا سکتا تھا اور نہ ان کے حکم کے بغیر کوئی اجتماعی کام کیا جا سکتا تھا ،، ھمیں مولوی جس مقام پہ ملا ھے ،ھم وھی مقام خلفاء راشدین کو بھی دیتے ھیں ،، جبکہ وہ دین کی ضروریات کے کفیل تھے اور جہاں جس جگہ دین کو ضرورت محسوس ھوئی انہی کے حکم کے مطابق پوری کی گئ ،، نہ کہ ابوھریرہؓ یا ابن عمرؓ سے فتوی لے کر پوری کی گئ !
نبئ کریمﷺ کی زندگی میں ابوبکر صدیقؓ نے ساری ذمہ داری ٹیک اوور کر لی تھی ، اور نبیﷺ نے حکم دے کر انہیں کھڑا کیا تھا ،، اور آخری نماز میں جب آپ ﷺ پہنچے تو جہاں فاتحہ کی قرأت صدیق چھوڑ کر پیچھے ھٹے تھے وھیں قرأت شروع فرمائی ! رفع یدین کے معاملے میں چاروں خلفاء میں اتفاق ھے ان کی نماز میں کوئی اختلاف نہیں تھا اور چاروں خلفاء رفع یدین نہیں کرتے تھے ،، کیوں نہیں کرتے تھے یہ فیصلہ اب قیامت کو ھو گا کہ کیا وہ نبی ﷺ کی مخالفت میں ایسا کرتے تھے یا اسے سنت سمجھ کر نہیں کرتے تھے ،، دین کے سفر کا رستہ خلفاء راشدین ھیں،، باقی صحابہؓ نہیں،، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ کے بعد دائیں بائیں سے ریفرینس لینا اور اسے دین بنا لینا خود نبی کریمﷺ کے قول و منشاء کے خلاف ھے !
امام اوزاعی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے مکالمے میں جو حدیث علقمہ والاسود عن ابن مسعودؓ روایت کی گئ ھے کہ" ان رسول اللہ ﷺ کان لا یرفع یدیہ الا عند افتتاح الصلوۃ، ولا یعود لشئٍ من ذلک ، ایک صحیح روایت ھے جس پر کلام ممکن نہیں ،، پھر پھر ابن عدی ،دار قطنی، بیھیقی، کی روایت ،، اسی سند کے ساتھ نقل ھوئی ھے کہ : صلیت مع رسول اللہ ﷺ و ابی بکرؓ و عمرؓ فلم یرفعوا ایدیھم الا عند استفتاح الصلوۃ ،، عبداللہ ابن مسعود فرماتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نمازیں پڑھی ھیں ،، ان میں سے کوئی بھی سوائے افتتاح والی جگہ کے کہیں رفع یدین نہیں کرتا تھا ! پھر براء ابن عازبؓ کی روایت میں جسے امام طحاوی نے نقل کیا ھے ، اس کے الفاظ ھیں،، جب نبیﷺ نماز کا افتتاح فرماتے تو اپنے ھاتھ یہانتک اٹھاتے کہ وہ کان کی نرم جگہ کے برابر پہنچ جاتے اور پھر اس کے بعد کہیں بھی نہیں اٹھاتے تھے !
ابن زبیر نے ایک شخص کو رکوع کے بعد ھاتھ اٹھاتے دیکھا تو اسے روک دیا کہ " یہ کام نبی ﷺ نے پہلے کیا تھا پھر ترک کر دیا تھا " ھذا امرٓ فعلہ رسول اللہ ﷺ ثم ترک ! اس موضوع صفحے کے صفحے کالے کیئے جا سکتے ھیں مگر اس بنیاد پر مساجد کی علیحدگی کبھی بھی سنت فعل قرار نہیں دی جا سکتی ،،
اصلاً یہ ھماری جینیاتی کمزوری ھے ،جو خدا الگ نہیں بنا سکے انہوں نے مساجد الگ بنا کر اپنے آباء و اجداد کی روحوں کو خوش کر دیا ھے کہ اگرچہ ھم مسلمان بن گئے ھیں مگر اتنے بھی نہیں بنے کہ الگ الگ دیوتاؤں کو پوجنے کی لت مر گئ ھو ،، وہ کمی ھم نے الگ الگ مساجد سے پوری کر لی ھے ،، جسے نسوار نہ ملے تو تھوم رکھ کر گزارہ کر لیتا ھے !
میں نے جس دن سے خلفاء کو سنت کا معیار اور پیمانہ مان کرنبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق داڑھوں سے پکڑ لیا ھے ،، الحمد للہ اندر باھر سکون ھی سکون ھے ! کبھی ایک لحظہ بھی تذبذب میں نہیں گزرا ،، چاھے باقی سارے صحابہؓ ایک طرف ھوں !
لنک
اس شخص کی پروفائل پر میں نے دیکھا کہ خضر حیات اور سرفراز فیضی بھائی بھی اس کی فرینڈز لسٹ میں شامل ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ وہ دونوں اس پر کیا تبصرہ کریں گے۔۔۔؟؟؟