عجیب قسم کی تحریر ہے ۔ کوئی واضح نظریہ تو مل نہیں رہا ۔ بات کہاں سے شروع کی اور کہاں جاکر ختم کی ۔
خیر تحریر سے اتنا واضح ہوتا ہے کہ رفع الیدین کے بارے میں ان صاحب کے موقف ہے کہ ’’ کرنا نہ کرنا ‘‘ دونوں ہی ٹھیک ہیں ۔
یہ ان کا کوئی نیا موقف نہیں ، اس سے پہلے بھی کئی لوگوں نے ایسا موقف اپنایا ہے ۔ لیکن بلا کسی دلیل ۔
کیونکہ رفع الیدین ایسی سنت نہیں جس کے بارے میں حضور سے ’’ فعل اور ترک ‘‘ دونوں مروی ہوں کہ ہم کہہ سکیں کے ’’ کرنا نہ کرنا ‘‘ دونوں ٹھیک ہیں ۔
اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔
لیکن اس کے اندر بنیادی دو ہی قول ہیں : جو کرتے ہیں ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا ہی ثابت ہے ۔
اور جو نہیں کرتے ان کے نزدیک حضور کی یہی سنت ہے ۔
’’ کر لو نہ کر لو ‘‘ والے لوگ نظریہ ’’ تقارب ادیان و مسالک ‘‘ کے متأثرین میں سے ہیں ۔ جن کے پاس دلیل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔
یہ احکامات دین ہیں ، نصوص شریعت کا مسئلہ ہے ، کسی گاؤں کی بیٹھک یا چوہدری کے ڈیرے پر لگنے والی پنچائیت نہیں کہ ’’ صلح ‘‘ کی خاطر جو مرضی فیصلہ کردیا جائے ۔
ہاں البتہ :
ایسے مختلف فیہ مسائل میں یہ طرز فکر ہونا چاہیے کہ آپ جس بات کو قرآن وسنت کی روشنی میں حق سمجھتے ہیں اس کو بالکل نہ چھوڑیں ، لیکن فریق مخالف کے خلاف محاذ جنگ قائم نہ کریں ۔ اس کے خلاف سخت سے سخت فتوی لگانے کی فکر میں نہ رہیں ۔ جو رفع الیدین نہیں کرتا اس کی نماز آپ کے نزدیک خلاف سنت ہے ۔ یہ ایک سیدھی سادھی بات ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر نصوص کو تروڑ مروڑ کر اس کی نماز کے بطلان یا اس طرح کے فیصلے یہ بالکل مناسب نہیں ہیں ۔
اختلاف حل کرنا اور ہے جبکہ اختلاف کو دبانا اور چیز ہے ۔ ایک تیسری چیز ہے اختلاف کو برداشت کرنا ۔
میرے خیال میں اختلاف کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اگر حل نہ ہوسکے تو اس کو دبانے کی بجائے برداشت کرنا چاہیے ۔
میرے نزدیک اس طرح کے معاملات میں دو لفظی بات یہ ہے کہ :
’’ جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں اس کو ہرگز نہ چھوڑیں ، لیکن جو آپ کا مخالف ہے اس کو بھی برداشت کریں ۔‘‘