عمران احمد سلفی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 14، 2017
- پیغامات
- 9
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 10
اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کو بیٹے اور بیٹیوں کی نعمت عطا کی آپ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن کے نام ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
نبی ﷺ کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئیں سوائے ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ رضي اللہ تعالی عنہاکے بطن سے تھے ۔ ماریہ قبطیہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی ﷺ کوبطورہدیہ پیش کی گئ تھیں ۔
بیٹے :
1 – قاسم
2 - عبداللہ
3 - ابراہیم
بیٹیاں :
1 - زینب رضي اللہ تعالی عنہا
2 - رقیہ رضي اللہ تعالی عنہا
3 - ام کلثوم رضي اللہ تعالی عنہا
4 - فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
یہ بات صحیح ہے کہ اسلامی تاریخ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا کثرت سے ذکر ملتا ہے بنسبت دوسری بیٹیوں کے آخر ایسا کیوں؟
دراصل مسئلہ یہ ہیکہ صحیح اسلامی تاریخ اور سیرت کی معتبر کتب میں آپ ﷺ کی ساری اولاد کا ذکر موجود ہے بلکہ جس سے متعلق جو حالات اور واقعات ہیں سب کا مکمل تذکرہ موجودہے۔
بہت بعد کے زمانہ میں جو تاریخ کی کتابیں یا اہل بیت کے تعارف میں جو کچھ بھی لکھا گیا اس کو پڑھنے کے بعدایسامحسوس ہوتا ہیکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ شاید اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی دوسری اولاد نہیں تھیں۔یہ اہل تشیع اور روافض کی کارستانیاں ہیں ، انہوں نے ہی اپنی کتابوں میں صرف اور صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا اور بقیہ کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
اس کے پیچھے ان کے دیناوی اور سیاسی مقاصد کار فرما ہیں, یہ تاریخ اسلام کی شباہت بگاڑ کر اپنے پلید مقاصد کو پائے تکمیل تک پہونچانا چاہتے ہیں۔ان روافض کی اس کارستانی سے اثر یہ ہواکہ اہل سنت و الجماعت کے مورخین کے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے رسائل اور کتابچوں میں قریب قریب یہی اثرات مرتب ہوگئے ۔ عوام تو صحیح اور معتبر تاریخی مراجع و مصادر کی طرف رجوع نہیں کرتی ، ان کا اعتماد یہی چھوٹے رسائل ، افسانوی قصے کہانیاں اور غیر معتبرکتابوں پر ہوتاہے۔اس وجہ سے فاظمہ رضی اللہ عنہا کا ہی ذکر زیادہ سے زیادہ ملتا ہے۔
ہم ذیل میں آپ ﷺ کی چاروں بیٹیوں کی حالات زندگی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اہل تشیع اور روافض کی کچھ اہم کتابوں کا حوالہ بھی پیش کریں گے تاکہ عوام اور خواص کے درمیان طول پکڑتے اس امر کی وضاحت ہو جائے۔
زینب رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۰ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھے۔ ان سے دو بچے علی رضی اللہ عنہ اور امامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنھا اپنے شوہر کے ساتھ کافی دنوں تک مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہیں۔ جب اسلام نے مشرکین کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے اپنے شوہر سے اپنے والد کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ عنھا کافی تکلیفوں اور پریشانیوں سے گزرکر مدینہ منورہ اپنے والد کے پاس پہونچیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ بھی ایمان لے آئےتو آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوبارہ نکاح کردیا لیکن مدینہ منورہ پہونچکر حضرت زینب رضی اللہ عنھا صرف ۷ یا ۸ ماہ ہی باحیات رہیں اور ۳۰ سال کی عمر میں ۸/ہجری میں انتقال فرماگئیں۔
رقیہ رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۳ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا۔ جب "سورہ تبت یدا"نازل ہوئی تو باپ کے کہنے پر عتبہ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کو طلاق دیدی۔ پھر ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہواجو بچپن میں ہی انتقال کرگیا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا ۲/ ہجری میں انتقال فرماگئیں ۔ انتقال کے وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کی عمر تقریباً ۲۰ سال تھی۔
ام کلثوم رضی اللہ عنھا: آپ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے ساتھ ہوا تھا۔ جب "سورہ تبت یدا"نازل ہوئی تو ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹے نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو طلاق دیدی۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کے انتقال کے بعد، ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ ۹ ہجری میں انتقال فرماگئیں ، انتقال کے وقت حضرت ام کلثومؓ کی عمر تقریباً ۲۵ سال تھی۔ حضرت ام کلثوم ؓ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس کوئی دوسری لڑکی (غیر شادی شدہ ) ہوتی تو میں اسکا نکاح بھی عثمان سے کردیتا۔
فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے بہت محبت فرماتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۵ یا ۴۱ سال تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کا نکاح مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ ہوا۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر کی تسبیحات ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے دن بھر کی تھکان کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آئے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا ۲۳ یا ۲۹ سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں۔
ذیل کے سطور میں ہم اہل تشیع اور روافض کی کتابوں سے حوالہ پیش کررہے ہیں جس سے روافض کی غلط بیانی کی نشاندہی ہو جائیگی کہ خود ان کے گھر کی معتبر کتابیں اس بات کی شہادت دیتیں ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی کل چار بیٹیاں تھیں۔
شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے۔
نمبر 1 : اصول کافی
نمبر2: من لا یحضر الفقیة
نمبر3: تهذيب الاحکام
نمبر4: الاستبصار
نمبر 1 اصول کافی کا حوالہ
ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں۔ کلینی 329ھ میں فوت ہوا۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی " کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ " میں ذکر کیا ہے کہ "وتزوج الخديجة وهو ابن بضع وعشرین سنة فولدہ منهاقبل مبعثه القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاهر وفاطمةعليها السلام" (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)
ترجمہ:یعنی نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔
قرائین کرام ! اصول کا فی جو اصول اربعہ کی نمبر1 کتاب ہے اس نے مسئلہ بالکل واضح کر دیا کہ رسالت مآب ﷺ کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہ الکبری سے متولد ہیں اور پھر اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔
نمبر2 : قرب الاسناد کاحوالہ
اب شیعہ مذہب کی دوسری کتاب كا حوالہ ملاحظہ ہو۔مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب " قرب الاسناد" لکھتے ہیں " ولد لرسول اﷲ من خدیجة القاسم والطاهر وام کلثوم رقیة وفاطمة وزینب وتزوج علی علي عليه السلام فاطمة عليها السلام وتزوج بن الربیع وهو من نبی امیة زینب وتزوج عثمان بن عفان ام کلثوم ولم یدخل بها حتی هلكت وزوجه رسول اﷲ ﷺ كانها رقیة " (قرب الاسناد لابی العباس)
ترجمہ: کہ حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنھاسے جناب رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔القاسم، الطاہر۱ ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اوزینب رضی اللہ عنھا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فو ت ہوگئیں پھر رسول اﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔
قارئین کرام ! اس روایت نے مسئلہ ہذا کو مزید واضح کر دیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجة الکبری کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد اﷲ العزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص245)
ليجئے اب تو اس مسئلہ پر امام مہدی (جو شیعہ عقائد کے مطابق” روپوش“ ہیں اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے) اس کی مہر لگ گئی ہے نیز اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبداﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے۔ اب شیعہ حضرات خود فیصلہ صادر فرمائیں کہ ان کے سابق اکابر حضرات حق پر تھے یا يہ آج کل کے مجلس خوان ذاکر؟؟؟؟
نمبر3: کتاب الخصال کا حوالہ
شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کےا ندر متعدد بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے چنانچہ ايک مقام پر قول نبی ﷺ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔" ان خدیجة رحمهاﷲ و لدت منی طاهر وهو عبدﷲ هو المطهر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب " (کتاب الخصال للصدوق ص375) ۔
ترجمہ: یعنی (رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا) اﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد اﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔
نمبر4: انوار نعمانیہ کا حوالہ
گیارہویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت اﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ
" انما ولدت له ابنان واربع بنات زینب ورقیة وام کلثوم وفاطمة"۔ترجمہ:حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھن۔
قارئین کرام ! يہ نعمت اﷲ الجزائری صاحب وہ ہیں جنہوں نے ”متعے“ کی فضلیت پر بھی بہت کچھ لکھا ہے اس لئے کم ازکم شیعوں کو ” ان صاحب“ کی بات تو ضرور مان لینی چاہيے کیوں کہ انہوں نے ملت شیعہ پر احسان عظیم کیا ہے کہ" متعہ جیسی لذیذ" عبادت پر قلم چلایا ہے ۔
نمبر 5: منتھی الآمال کا حوالہ
شیخ عباس قمی چودہویں صدی کے مجتہد شیدہ ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”منتھی الآمال “ میں لکھا ہے کہ "از حضرت صادق علیہ السلام شدہ است برائے رسول خدا ﷺ از خدیجة متولدشدنہ طاہر وقاسم وفاطمہ و ام کلثوم ورقیہ و زینب" ترجمہ : حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ﷺ کی يہ اولاد متولد ہوئی ۔طاہر، قاسم ، فاطمہ، ام کلثوم، رقیہ اور زینب۔ آگے لکھتے ہیں۔" تزویج نمود فاطمہ رابجضرت امیرالمومنین علیہ السلام وزینب رابابی العاص بن ربیع از نبی امیہ ابود و ام کلثوم رابعثمان بن عفان " (منتھی الآمال للشیخ عباس فارسی طبع تہران) ترجمہ: یعنی فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہوئی زینب رضی اﷲ عنہا کا ابو العاص رضی اﷲ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور ام کلثوم کا عثمان ابن عفان رضی اﷲ عنہ سے نکاح ہوا جب ان کی وفات ہوئی تو رقیہ کی تزویج بھی عثمان رضی اﷲ عنہ سے کر دی ۔
نمبر6: حیا ت القلوب کا حوالہ
قارئین کرام !!! نبی اکرم ﷺہیں اور آج تک علی التواتر شیعہ مذہب کی ”امہات الکتب“ میں ان چاروں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے ۔شیعہ مذہب کے ايک اور متبحر عالم اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتے ہیں۔
"پس اول فرزند کہ از برائے او بہم رسید عبد اﷲ بود کہ اور بعبد اﷲ وطیب طاہر ملقب ساختند و بغد از قاسم متولد شدو بعضے گفتہ کہ قاسم ازعبداﷲ بزرگ توبود چہار دختراز وبرائے حضرت آورد زینب و زقیہ ان کلثوم وفاطمہ" (حیات القلوب ج2ص728طبع لکھنو) ترجمہ: یعنی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے جناب رسول کرےم ﷺ کے ہاں پہلے فرزند عبد اﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبد اﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہن۔
قارئین کرام پر واضح ہو گیا کہ ملا باقر مجلسی نے بھی اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے صاف اقرار کیا کہ صاحبزادیاں چار ہی تھیں اور يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ ۔کتابہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید۔(کشف الاسرار)
ترجمہ:وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو۔
نمبر7: تاریخ یعقوبی کا حوالہ
شیعہ مذہب کے قدیم مورخ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں رقمطراز ہیں: " وتزوج رسول اﷲ خدیجة بنت خویلد وله خمس وعشرون سنة وقیل تزوجها وله ثلاثون سنة وولدت له قبل ان یبعث القاسم ورقية وزینب وام کلثوم وبعد ما بعث عبداﷲ وهو الطيب وطاهر لأنه ولد فی الاسلام وفاطمة"۔(تاریخ یعقوبی ج2 ص20)ترجمہ: کہ جس وقت حضور اکرم ﷺ نے خدیجہ الکبری سے رشتہ وجیت قائم فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق30سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبد اﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے) اور فاطمہ رضی اﷲ عنما متولد ہوئیں۔
قارئین کرام ! ديگر کتابوں کی طرح اس تاریخ یعقوبی کو بھی شیعہ مذہب میں کافی اہمیت حاصل ہے اب ان تمام متعبر کتابوں کے حوالہ جات کے بعد آپ اس نتیجہ پر ضرور پہنچیں گے کہ تمام صاحبزادیوں کا حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے متولدہونا شیعہ و سنی سب کے نزدیک مسلمہ امر ہے مگر آج کے شیعہ اپنی سابقہ کتب کی تکذیب پر ڈٹے ہوئے ہیں اگر شیعہ حضرات سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو کم ازکم اس اس مسئلہ پر تو اختلاف ختم ہو سکتا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی ديکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شیعہ قوم کبھی بھی اس کےلئے تیار نہیں ہوگی۔ واﷲ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم
نمبر8: نہج البلاغہ کا حوالہ
شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب”نہج البلاغہ“ ہے حضرات علماءشیعہ کے نزدیک يہ کتاب انتہائی معتبر ہے اس کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی اﷲ عنہ آپ رسول اﷲ ﷺ کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضی اﷲعنہما نہیں پاسکے۔’ ’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو۔" وانت اقرب الی رسول اﷲ ﷺ شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ " (نہج البلاغہ ص303جلد1مطبوعہ تہران)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرگت علی کرم اﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو رسول اﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی سرکار طیبہﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
ان واضح تائیدات کے باوجود بھی اگر شیعہ تین صاحبزادیو ں کا انکا رکریں تو يہ صرف اور صرف دروغ گوئی اورحضرت علی رضی اﷲ عنہ کے فرمان کی کھلی تکذیب ہے۔
نمبر9: کشف الغمہ کا حوالہ
مشہور شیعہ عالم علی بن عیسیٰ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ " وکانت اول امراة تزوجها رسول اﷲ ﷺ و اولاد كلهم منها الاابراهيم فانه من مارية القبطية "(کشف الغمہ)ترجمہ: یعنی خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا حضور اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا سے متولد ہوئے۔
نمبر10: تنقیح المقال کا حوالہ
علماءشیعہ کے معروف عالم شیخ عبداﷲ مامقانی اپنی مشہور تصنیف”تنقیح المقال فی احوال الرجال“ رقمطراز ہیں:
" وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم" (تنقیح المقال ج3ص73طبع لنبان) ترجمہ:یعنی خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔
یہ وہ حوالہ ہیں جو دور حاضر کے روافض کی غلط بیانی کی پول کو کھولتے ہیں اورہدایت کے متلاشی کیلئے ایک ہی دلیل کافی ہے۔
تحریر : عمران احمد ریاض الدین سلفی
داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابظہ : 966506116251+
نبی ﷺ کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئیں سوائے ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ رضي اللہ تعالی عنہاکے بطن سے تھے ۔ ماریہ قبطیہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی ﷺ کوبطورہدیہ پیش کی گئ تھیں ۔
بیٹے :
1 – قاسم
2 - عبداللہ
3 - ابراہیم
بیٹیاں :
1 - زینب رضي اللہ تعالی عنہا
2 - رقیہ رضي اللہ تعالی عنہا
3 - ام کلثوم رضي اللہ تعالی عنہا
4 - فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
یہ بات صحیح ہے کہ اسلامی تاریخ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا کثرت سے ذکر ملتا ہے بنسبت دوسری بیٹیوں کے آخر ایسا کیوں؟
دراصل مسئلہ یہ ہیکہ صحیح اسلامی تاریخ اور سیرت کی معتبر کتب میں آپ ﷺ کی ساری اولاد کا ذکر موجود ہے بلکہ جس سے متعلق جو حالات اور واقعات ہیں سب کا مکمل تذکرہ موجودہے۔
بہت بعد کے زمانہ میں جو تاریخ کی کتابیں یا اہل بیت کے تعارف میں جو کچھ بھی لکھا گیا اس کو پڑھنے کے بعدایسامحسوس ہوتا ہیکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ شاید اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی دوسری اولاد نہیں تھیں۔یہ اہل تشیع اور روافض کی کارستانیاں ہیں ، انہوں نے ہی اپنی کتابوں میں صرف اور صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا اور بقیہ کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
اس کے پیچھے ان کے دیناوی اور سیاسی مقاصد کار فرما ہیں, یہ تاریخ اسلام کی شباہت بگاڑ کر اپنے پلید مقاصد کو پائے تکمیل تک پہونچانا چاہتے ہیں۔ان روافض کی اس کارستانی سے اثر یہ ہواکہ اہل سنت و الجماعت کے مورخین کے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے رسائل اور کتابچوں میں قریب قریب یہی اثرات مرتب ہوگئے ۔ عوام تو صحیح اور معتبر تاریخی مراجع و مصادر کی طرف رجوع نہیں کرتی ، ان کا اعتماد یہی چھوٹے رسائل ، افسانوی قصے کہانیاں اور غیر معتبرکتابوں پر ہوتاہے۔اس وجہ سے فاظمہ رضی اللہ عنہا کا ہی ذکر زیادہ سے زیادہ ملتا ہے۔
ہم ذیل میں آپ ﷺ کی چاروں بیٹیوں کی حالات زندگی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اہل تشیع اور روافض کی کچھ اہم کتابوں کا حوالہ بھی پیش کریں گے تاکہ عوام اور خواص کے درمیان طول پکڑتے اس امر کی وضاحت ہو جائے۔
زینب رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۰ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھے۔ ان سے دو بچے علی رضی اللہ عنہ اور امامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنھا اپنے شوہر کے ساتھ کافی دنوں تک مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہیں۔ جب اسلام نے مشرکین کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے اپنے شوہر سے اپنے والد کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ عنھا کافی تکلیفوں اور پریشانیوں سے گزرکر مدینہ منورہ اپنے والد کے پاس پہونچیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ بھی ایمان لے آئےتو آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوبارہ نکاح کردیا لیکن مدینہ منورہ پہونچکر حضرت زینب رضی اللہ عنھا صرف ۷ یا ۸ ماہ ہی باحیات رہیں اور ۳۰ سال کی عمر میں ۸/ہجری میں انتقال فرماگئیں۔
رقیہ رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۳ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا۔ جب "سورہ تبت یدا"نازل ہوئی تو باپ کے کہنے پر عتبہ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کو طلاق دیدی۔ پھر ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہواجو بچپن میں ہی انتقال کرگیا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا ۲/ ہجری میں انتقال فرماگئیں ۔ انتقال کے وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کی عمر تقریباً ۲۰ سال تھی۔
ام کلثوم رضی اللہ عنھا: آپ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے ساتھ ہوا تھا۔ جب "سورہ تبت یدا"نازل ہوئی تو ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹے نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو طلاق دیدی۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کے انتقال کے بعد، ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ ۹ ہجری میں انتقال فرماگئیں ، انتقال کے وقت حضرت ام کلثومؓ کی عمر تقریباً ۲۵ سال تھی۔ حضرت ام کلثوم ؓ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس کوئی دوسری لڑکی (غیر شادی شدہ ) ہوتی تو میں اسکا نکاح بھی عثمان سے کردیتا۔
فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے بہت محبت فرماتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۵ یا ۴۱ سال تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کا نکاح مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ ہوا۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر کی تسبیحات ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے دن بھر کی تھکان کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آئے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا ۲۳ یا ۲۹ سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں۔
ذیل کے سطور میں ہم اہل تشیع اور روافض کی کتابوں سے حوالہ پیش کررہے ہیں جس سے روافض کی غلط بیانی کی نشاندہی ہو جائیگی کہ خود ان کے گھر کی معتبر کتابیں اس بات کی شہادت دیتیں ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی کل چار بیٹیاں تھیں۔
شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے۔
نمبر 1 : اصول کافی
نمبر2: من لا یحضر الفقیة
نمبر3: تهذيب الاحکام
نمبر4: الاستبصار
نمبر 1 اصول کافی کا حوالہ
ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں۔ کلینی 329ھ میں فوت ہوا۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی " کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ " میں ذکر کیا ہے کہ "وتزوج الخديجة وهو ابن بضع وعشرین سنة فولدہ منهاقبل مبعثه القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاهر وفاطمةعليها السلام" (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)
ترجمہ:یعنی نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔
قرائین کرام ! اصول کا فی جو اصول اربعہ کی نمبر1 کتاب ہے اس نے مسئلہ بالکل واضح کر دیا کہ رسالت مآب ﷺ کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہ الکبری سے متولد ہیں اور پھر اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔
نمبر2 : قرب الاسناد کاحوالہ
اب شیعہ مذہب کی دوسری کتاب كا حوالہ ملاحظہ ہو۔مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب " قرب الاسناد" لکھتے ہیں " ولد لرسول اﷲ من خدیجة القاسم والطاهر وام کلثوم رقیة وفاطمة وزینب وتزوج علی علي عليه السلام فاطمة عليها السلام وتزوج بن الربیع وهو من نبی امیة زینب وتزوج عثمان بن عفان ام کلثوم ولم یدخل بها حتی هلكت وزوجه رسول اﷲ ﷺ كانها رقیة " (قرب الاسناد لابی العباس)
ترجمہ: کہ حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنھاسے جناب رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔القاسم، الطاہر۱ ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اوزینب رضی اللہ عنھا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فو ت ہوگئیں پھر رسول اﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔
قارئین کرام ! اس روایت نے مسئلہ ہذا کو مزید واضح کر دیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجة الکبری کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد اﷲ العزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص245)
ليجئے اب تو اس مسئلہ پر امام مہدی (جو شیعہ عقائد کے مطابق” روپوش“ ہیں اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے) اس کی مہر لگ گئی ہے نیز اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبداﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے۔ اب شیعہ حضرات خود فیصلہ صادر فرمائیں کہ ان کے سابق اکابر حضرات حق پر تھے یا يہ آج کل کے مجلس خوان ذاکر؟؟؟؟
نمبر3: کتاب الخصال کا حوالہ
شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کےا ندر متعدد بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے چنانچہ ايک مقام پر قول نبی ﷺ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔" ان خدیجة رحمهاﷲ و لدت منی طاهر وهو عبدﷲ هو المطهر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب " (کتاب الخصال للصدوق ص375) ۔
ترجمہ: یعنی (رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا) اﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد اﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔
نمبر4: انوار نعمانیہ کا حوالہ
گیارہویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت اﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ
" انما ولدت له ابنان واربع بنات زینب ورقیة وام کلثوم وفاطمة"۔ترجمہ:حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھن۔
قارئین کرام ! يہ نعمت اﷲ الجزائری صاحب وہ ہیں جنہوں نے ”متعے“ کی فضلیت پر بھی بہت کچھ لکھا ہے اس لئے کم ازکم شیعوں کو ” ان صاحب“ کی بات تو ضرور مان لینی چاہيے کیوں کہ انہوں نے ملت شیعہ پر احسان عظیم کیا ہے کہ" متعہ جیسی لذیذ" عبادت پر قلم چلایا ہے ۔
نمبر 5: منتھی الآمال کا حوالہ
شیخ عباس قمی چودہویں صدی کے مجتہد شیدہ ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”منتھی الآمال “ میں لکھا ہے کہ "از حضرت صادق علیہ السلام شدہ است برائے رسول خدا ﷺ از خدیجة متولدشدنہ طاہر وقاسم وفاطمہ و ام کلثوم ورقیہ و زینب" ترجمہ : حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ﷺ کی يہ اولاد متولد ہوئی ۔طاہر، قاسم ، فاطمہ، ام کلثوم، رقیہ اور زینب۔ آگے لکھتے ہیں۔" تزویج نمود فاطمہ رابجضرت امیرالمومنین علیہ السلام وزینب رابابی العاص بن ربیع از نبی امیہ ابود و ام کلثوم رابعثمان بن عفان " (منتھی الآمال للشیخ عباس فارسی طبع تہران) ترجمہ: یعنی فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہوئی زینب رضی اﷲ عنہا کا ابو العاص رضی اﷲ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور ام کلثوم کا عثمان ابن عفان رضی اﷲ عنہ سے نکاح ہوا جب ان کی وفات ہوئی تو رقیہ کی تزویج بھی عثمان رضی اﷲ عنہ سے کر دی ۔
نمبر6: حیا ت القلوب کا حوالہ
قارئین کرام !!! نبی اکرم ﷺہیں اور آج تک علی التواتر شیعہ مذہب کی ”امہات الکتب“ میں ان چاروں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے ۔شیعہ مذہب کے ايک اور متبحر عالم اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتے ہیں۔
"پس اول فرزند کہ از برائے او بہم رسید عبد اﷲ بود کہ اور بعبد اﷲ وطیب طاہر ملقب ساختند و بغد از قاسم متولد شدو بعضے گفتہ کہ قاسم ازعبداﷲ بزرگ توبود چہار دختراز وبرائے حضرت آورد زینب و زقیہ ان کلثوم وفاطمہ" (حیات القلوب ج2ص728طبع لکھنو) ترجمہ: یعنی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے جناب رسول کرےم ﷺ کے ہاں پہلے فرزند عبد اﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبد اﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہن۔
قارئین کرام پر واضح ہو گیا کہ ملا باقر مجلسی نے بھی اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے صاف اقرار کیا کہ صاحبزادیاں چار ہی تھیں اور يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ ۔کتابہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید۔(کشف الاسرار)
ترجمہ:وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو۔
نمبر7: تاریخ یعقوبی کا حوالہ
شیعہ مذہب کے قدیم مورخ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں رقمطراز ہیں: " وتزوج رسول اﷲ خدیجة بنت خویلد وله خمس وعشرون سنة وقیل تزوجها وله ثلاثون سنة وولدت له قبل ان یبعث القاسم ورقية وزینب وام کلثوم وبعد ما بعث عبداﷲ وهو الطيب وطاهر لأنه ولد فی الاسلام وفاطمة"۔(تاریخ یعقوبی ج2 ص20)ترجمہ: کہ جس وقت حضور اکرم ﷺ نے خدیجہ الکبری سے رشتہ وجیت قائم فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق30سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبد اﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے) اور فاطمہ رضی اﷲ عنما متولد ہوئیں۔
قارئین کرام ! ديگر کتابوں کی طرح اس تاریخ یعقوبی کو بھی شیعہ مذہب میں کافی اہمیت حاصل ہے اب ان تمام متعبر کتابوں کے حوالہ جات کے بعد آپ اس نتیجہ پر ضرور پہنچیں گے کہ تمام صاحبزادیوں کا حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے متولدہونا شیعہ و سنی سب کے نزدیک مسلمہ امر ہے مگر آج کے شیعہ اپنی سابقہ کتب کی تکذیب پر ڈٹے ہوئے ہیں اگر شیعہ حضرات سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو کم ازکم اس اس مسئلہ پر تو اختلاف ختم ہو سکتا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی ديکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شیعہ قوم کبھی بھی اس کےلئے تیار نہیں ہوگی۔ واﷲ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم
نمبر8: نہج البلاغہ کا حوالہ
شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب”نہج البلاغہ“ ہے حضرات علماءشیعہ کے نزدیک يہ کتاب انتہائی معتبر ہے اس کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی اﷲ عنہ آپ رسول اﷲ ﷺ کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضی اﷲعنہما نہیں پاسکے۔’ ’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو۔" وانت اقرب الی رسول اﷲ ﷺ شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ " (نہج البلاغہ ص303جلد1مطبوعہ تہران)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرگت علی کرم اﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو رسول اﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی سرکار طیبہﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
ان واضح تائیدات کے باوجود بھی اگر شیعہ تین صاحبزادیو ں کا انکا رکریں تو يہ صرف اور صرف دروغ گوئی اورحضرت علی رضی اﷲ عنہ کے فرمان کی کھلی تکذیب ہے۔
نمبر9: کشف الغمہ کا حوالہ
مشہور شیعہ عالم علی بن عیسیٰ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ " وکانت اول امراة تزوجها رسول اﷲ ﷺ و اولاد كلهم منها الاابراهيم فانه من مارية القبطية "(کشف الغمہ)ترجمہ: یعنی خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا حضور اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا سے متولد ہوئے۔
نمبر10: تنقیح المقال کا حوالہ
علماءشیعہ کے معروف عالم شیخ عبداﷲ مامقانی اپنی مشہور تصنیف”تنقیح المقال فی احوال الرجال“ رقمطراز ہیں:
" وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم" (تنقیح المقال ج3ص73طبع لنبان) ترجمہ:یعنی خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔
یہ وہ حوالہ ہیں جو دور حاضر کے روافض کی غلط بیانی کی پول کو کھولتے ہیں اورہدایت کے متلاشی کیلئے ایک ہی دلیل کافی ہے۔
تحریر : عمران احمد ریاض الدین سلفی
داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابظہ : 966506116251+