• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ ﷺ کی بیٹیوں میں صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہی شہرت کیوں ؟

شمولیت
فروری 14، 2017
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
10
اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کو بیٹے اور بیٹیوں کی نعمت عطا کی آپ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن کے نام ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
نبی ﷺ کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئیں سوائے ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ رضي اللہ تعالی عنہاکے بطن سے تھے ۔ ماریہ قبطیہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی ﷺ کوبطورہدیہ پیش کی گئ تھیں ۔

بیٹے :
1 – قاسم
2 - عبداللہ
3 - ابراہیم

بیٹیاں :
1 - زینب رضي اللہ تعالی عنہا
2 - رقیہ رضي اللہ تعالی عنہا
3 - ام کلثوم رضي اللہ تعالی عنہا
4 - فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
یہ بات صحیح ہے کہ اسلامی تاریخ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا کثرت سے ذکر ملتا ہے بنسبت دوسری بیٹیوں کے آخر ایسا کیوں؟
دراصل مسئلہ یہ ہیکہ صحیح اسلامی تاریخ اور سیرت کی معتبر کتب میں آپ ﷺ کی ساری اولاد کا ذکر موجود ہے بلکہ جس سے متعلق جو حالات اور واقعات ہیں سب کا مکمل تذکرہ موجودہے۔
بہت بعد کے زمانہ میں جو تاریخ کی کتابیں یا اہل بیت کے تعارف میں جو کچھ بھی لکھا گیا اس کو پڑھنے کے بعدایسامحسوس ہوتا ہیکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ شاید اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی دوسری اولاد نہیں تھیں۔یہ اہل تشیع اور روافض کی کارستانیاں ہیں ، انہوں نے ہی اپنی کتابوں میں صرف اور صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا اور بقیہ کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
اس کے پیچھے ان کے دیناوی اور سیاسی مقاصد کار فرما ہیں, یہ تاریخ اسلام کی شباہت بگاڑ کر اپنے پلید مقاصد کو پائے تکمیل تک پہونچانا چاہتے ہیں۔ان روافض کی اس کارستانی سے اثر یہ ہواکہ اہل سنت و الجماعت کے مورخین کے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے رسائل اور کتابچوں میں قریب قریب یہی اثرات مرتب ہوگئے ۔ عوام تو صحیح اور معتبر تاریخی مراجع و مصادر کی طرف رجوع نہیں کرتی ، ان کا اعتماد یہی چھوٹے رسائل ، افسانوی قصے کہانیاں اور غیر معتبرکتابوں پر ہوتاہے۔اس وجہ سے فاظمہ رضی اللہ عنہا کا ہی ذکر زیادہ سے زیادہ ملتا ہے۔
ہم ذیل میں آپ ﷺ کی چاروں بیٹیوں کی حالات زندگی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اہل تشیع اور روافض کی کچھ اہم کتابوں کا حوالہ بھی پیش کریں گے تاکہ عوام اور خواص کے درمیان طول پکڑتے اس امر کی وضاحت ہو جائے۔

زینب رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۰ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھے۔ ان سے دو بچے علی رضی اللہ عنہ اور امامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنھا اپنے شوہر کے ساتھ کافی دنوں تک مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہیں۔ جب اسلام نے مشرکین کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے اپنے شوہر سے اپنے والد کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ عنھا کافی تکلیفوں اور پریشانیوں سے گزرکر مدینہ منورہ اپنے والد کے پاس پہونچیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ بھی ایمان لے آئےتو آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوبارہ نکاح کردیا لیکن مدینہ منورہ پہونچکر حضرت زینب رضی اللہ عنھا صرف ۷ یا ۸ ماہ ہی باحیات رہیں اور ۳۰ سال کی عمر میں ۸/ہجری میں انتقال فرماگئیں۔
رقیہ رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۳ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا۔ جب "سورہ تبت یدا"نازل ہوئی تو باپ کے کہنے پر عتبہ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کو طلاق دیدی۔ پھر ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہواجو بچپن میں ہی انتقال کرگیا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا ۲/ ہجری میں انتقال فرماگئیں ۔ انتقال کے وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کی عمر تقریباً ۲۰ سال تھی۔
ام کلثوم رضی اللہ عنھا: آپ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے ساتھ ہوا تھا۔ جب "سورہ تبت یدا"نازل ہوئی تو ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹے نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو طلاق دیدی۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کے انتقال کے بعد، ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ ۹ ہجری میں انتقال فرماگئیں ، انتقال کے وقت حضرت ام کلثومؓ کی عمر تقریباً ۲۵ سال تھی۔ حضرت ام کلثوم ؓ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس کوئی دوسری لڑکی (غیر شادی شدہ ) ہوتی تو میں اسکا نکاح بھی عثمان سے کردیتا۔
فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا : آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے بہت محبت فرماتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۵ یا ۴۱ سال تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کا نکاح مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ ہوا۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر کی تسبیحات ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے دن بھر کی تھکان کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آئے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا ۲۳ یا ۲۹ سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں۔
ذیل کے سطور میں ہم اہل تشیع اور روافض کی کتابوں سے حوالہ پیش کررہے ہیں جس سے روافض کی غلط بیانی کی نشاندہی ہو جائیگی کہ خود ان کے گھر کی معتبر کتابیں اس بات کی شہادت دیتیں ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی کل چار بیٹیاں تھیں۔
شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے۔
نمبر 1 : اصول کافی
نمبر2: من لا یحضر الفقیة
نمبر3: تهذيب الاحکام
نمبر4: الاستبصار
نمبر 1 اصول کافی کا حوالہ
ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں۔ کلینی 329ھ میں فوت ہوا۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی " کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ " میں ذکر کیا ہے کہ
"وتزوج الخديجة وهو ابن بضع وعشرین سنة فولدہ منهاقبل مبعثه القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاهر وفاطمةعليها السلام" (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)
ترجمہ:یعنی نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔
قرائین کرام ! اصول کا فی جو اصول اربعہ کی نمبر1 کتاب ہے اس نے مسئلہ بالکل واضح کر دیا کہ رسالت مآب ﷺ کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہ الکبری سے متولد ہیں اور پھر اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔

نمبر2 : قرب الاسناد کاحوالہ
اب شیعہ مذہب کی دوسری کتاب كا حوالہ ملاحظہ ہو۔مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب " قرب الاسناد" لکھتے ہیں " ولد لرسول اﷲ من خدیجة القاسم والطاهر وام کلثوم رقیة وفاطمة وزینب وتزوج علی علي عليه السلام فاطمة عليها السلام وتزوج بن الربیع وهو من نبی امیة زینب وتزوج عثمان بن عفان ام کلثوم ولم یدخل بها حتی هلكت وزوجه رسول اﷲ ﷺ كانها رقیة " (قرب الاسناد لابی العباس)
ترجمہ: کہ حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنھاسے جناب رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔القاسم، الطاہر۱ ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اوزینب رضی اللہ عنھا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فو ت ہوگئیں پھر رسول اﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔
قارئین کرام ! اس روایت نے مسئلہ ہذا کو مزید واضح کر دیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجة الکبری کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد اﷲ العزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص245)
ليجئے اب تو اس مسئلہ پر امام مہدی (جو شیعہ عقائد کے مطابق” روپوش“ ہیں اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے) اس کی مہر لگ گئی ہے نیز اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبداﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے۔ اب شیعہ حضرات خود فیصلہ صادر فرمائیں کہ ان کے سابق اکابر حضرات حق پر تھے یا يہ آج کل کے مجلس خوان ذاکر؟؟؟؟

نمبر3: کتاب الخصال کا حوالہ
شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کےا ندر متعدد بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے چنانچہ ايک مقام پر قول نبی ﷺ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔" ان خدیجة رحمهاﷲ و لدت منی طاهر وهو عبدﷲ هو المطهر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب " (کتاب الخصال للصدوق ص375) ۔
ترجمہ: یعنی (رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا) اﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد اﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔

نمبر4: انوار نعمانیہ کا حوالہ
گیارہویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت اﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ
" انما ولدت له ابنان واربع بنات زینب ورقیة وام کلثوم وفاطمة"۔ترجمہ:حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھن۔
قارئین کرام ! يہ نعمت اﷲ الجزائری صاحب وہ ہیں جنہوں نے ”متعے“ کی فضلیت پر بھی بہت کچھ لکھا ہے اس لئے کم ازکم شیعوں کو ” ان صاحب“ کی بات تو ضرور مان لینی چاہيے کیوں کہ انہوں نے ملت شیعہ پر احسان عظیم کیا ہے کہ" متعہ جیسی لذیذ" عبادت پر قلم چلایا ہے ۔

نمبر 5: منتھی الآمال کا حوالہ
شیخ عباس قمی چودہویں صدی کے مجتہد شیدہ ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”منتھی الآمال “ میں لکھا ہے کہ "از حضرت صادق علیہ السلام شدہ است برائے رسول خدا ﷺ از خدیجة متولدشدنہ طاہر وقاسم وفاطمہ و ام کلثوم ورقیہ و زینب" ترجمہ : حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ﷺ کی يہ اولاد متولد ہوئی ۔طاہر، قاسم ، فاطمہ، ام کلثوم، رقیہ اور زینب۔ آگے لکھتے ہیں۔" تزویج نمود فاطمہ رابجضرت امیرالمومنین علیہ السلام وزینب رابابی العاص بن ربیع از نبی امیہ ابود و ام کلثوم رابعثمان بن عفان " (منتھی الآمال للشیخ عباس فارسی طبع تہران) ترجمہ: یعنی فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہوئی زینب رضی اﷲ عنہا کا ابو العاص رضی اﷲ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور ام کلثوم کا عثمان ابن عفان رضی اﷲ عنہ سے نکاح ہوا جب ان کی وفات ہوئی تو رقیہ کی تزویج بھی عثمان رضی اﷲ عنہ سے کر دی ۔
نمبر6: حیا ت القلوب کا حوالہ
قارئین کرام !!! نبی اکرم ﷺہیں اور آج تک علی التواتر شیعہ مذہب کی ”امہات الکتب“ میں ان چاروں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے ۔شیعہ مذہب کے ايک اور متبحر عالم اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتے ہیں۔
"پس اول فرزند کہ از برائے او بہم رسید عبد اﷲ بود کہ اور بعبد اﷲ وطیب طاہر ملقب ساختند و بغد از قاسم متولد شدو بعضے گفتہ کہ قاسم ازعبداﷲ بزرگ توبود چہار دختراز وبرائے حضرت آورد زینب و زقیہ ان کلثوم وفاطمہ" (حیات القلوب ج2ص728طبع لکھنو) ترجمہ: یعنی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے جناب رسول کرےم ﷺ کے ہاں پہلے فرزند عبد اﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبد اﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہن۔
قارئین کرام پر واضح ہو گیا کہ ملا باقر مجلسی نے بھی اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے صاف اقرار کیا کہ صاحبزادیاں چار ہی تھیں اور يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ ۔کتابہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید۔(کشف الاسرار)
ترجمہ:وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو۔

نمبر7: تاریخ یعقوبی کا حوالہ
شیعہ مذہب کے قدیم مورخ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں رقمطراز ہیں: " وتزوج رسول اﷲ خدیجة بنت خویلد وله خمس وعشرون سنة وقیل تزوجها وله ثلاثون سنة وولدت له قبل ان یبعث القاسم ورقية وزینب وام کلثوم وبعد ما بعث عبداﷲ وهو الطيب وطاهر لأنه ولد فی الاسلام وفاطمة"۔(تاریخ یعقوبی ج2 ص20)ترجمہ: کہ جس وقت حضور اکرم ﷺ نے خدیجہ الکبری سے رشتہ وجیت قائم فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق30سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبد اﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے) اور فاطمہ رضی اﷲ عنما متولد ہوئیں۔
قارئین کرام ! ديگر کتابوں کی طرح اس تاریخ یعقوبی کو بھی شیعہ مذہب میں کافی اہمیت حاصل ہے اب ان تمام متعبر کتابوں کے حوالہ جات کے بعد آپ اس نتیجہ پر ضرور پہنچیں گے کہ تمام صاحبزادیوں کا حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے متولدہونا شیعہ و سنی سب کے نزدیک مسلمہ امر ہے مگر آج کے شیعہ اپنی سابقہ کتب کی تکذیب پر ڈٹے ہوئے ہیں اگر شیعہ حضرات سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو کم ازکم اس اس مسئلہ پر تو اختلاف ختم ہو سکتا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی ديکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شیعہ قوم کبھی بھی اس کےلئے تیار نہیں ہوگی۔ واﷲ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم

نمبر8: نہج البلاغہ کا حوالہ
شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب”نہج البلاغہ“ ہے حضرات علماءشیعہ کے نزدیک يہ کتاب انتہائی معتبر ہے اس کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی اﷲ عنہ آپ رسول اﷲ ﷺ کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضی اﷲعنہما نہیں پاسکے۔’ ’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو۔" وانت اقرب الی رسول اﷲ ﷺ شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ " (نہج البلاغہ ص303جلد1مطبوعہ تہران)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرگت علی کرم اﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو رسول اﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی سرکار طیبہﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
ان واضح تائیدات کے باوجود بھی اگر شیعہ تین صاحبزادیو ں کا انکا رکریں تو يہ صرف اور صرف دروغ گوئی اورحضرت علی رضی اﷲ عنہ کے فرمان کی کھلی تکذیب ہے۔

نمبر9: کشف الغمہ کا حوالہ
مشہور شیعہ عالم علی بن عیسیٰ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ " وکانت اول امراة تزوجها رسول اﷲ ﷺ و اولاد كلهم منها الاابراهيم فانه من مارية القبطية "(کشف الغمہ)ترجمہ: یعنی خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا حضور اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا سے متولد ہوئے۔
نمبر10: تنقیح المقال کا حوالہ
علماءشیعہ کے معروف عالم شیخ عبداﷲ مامقانی اپنی مشہور تصنیف”تنقیح المقال فی احوال الرجال“ رقمطراز ہیں:
" وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم" (تنقیح المقال ج3ص73طبع لنبان) ترجمہ:یعنی خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔
یہ وہ حوالہ ہیں جو دور حاضر کے روافض کی غلط بیانی کی پول کو کھولتے ہیں اورہدایت کے متلاشی کیلئے ایک ہی دلیل کافی ہے۔
تحریر : عمران احمد ریاض الدین سلفی
داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابظہ : 966506116251+
 
شمولیت
فروری 14، 2017
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
10
چند دنوں پہلے اللہ تعالی کی توفیق سےایک مضمون لکھنے کا موقعہ ملا جسکا عنوان تھا "آپ ﷺ کی بیٹیوں میں صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہی شہرت کیوں ؟" دراصل ہمارے درس میں شریک ہونے والے ایک بھائی کا سوال تھا کہ روافض کی اکثریت در پردہ اس بات کا اعتقاد رکھتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا،مضون کے ارسال کے بعد ہمارے بہت ہی عزیز قابل قدر بھائی جناب ثناء اللہ صادق ساگر تیمی حفظہ اللہ کا ایک تبصرہ آیا کہ اگر ان کتابوں کا بھی حوالہ لکھ دیا جائے جن میں روافض نے اس بات کو بیان کیا ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی ہیں تو مزید لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔لہذا ذیل میں ان کتابوں اور روایتوں کو پیش کیا جا رہا ہے جس سے روافض استدلال کرتے ہیں۔
(۱)اس باب میں روافض کا استدال اور بنیاد اس حدیث پر ہے کہ(قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) لعلي (عليه السلام) : « ياعلي أُوتيت ثلاثاً لم يؤتهن أحد ولا أنا ، أُوتيت صهراً مثلي ولم أُوت أنا مثلي وأُوتيت صدِّيقة مثل ابنتي ، ولم أُوت مثلها زوجة وأُوتيت الحسن والحسين من صلبك ولم أُوت من صلبي مثلهما ولكنّكم منّي ، وأنا منكم »۔(درر السبطين ، الزرندي الحنفي 114 ، مقتل الحسين الخوارزمي 1 / 109 ، إحقاق الحقّ 4 / 444 ، 5 / 74)
(۲) روافض عام طور سے ظاہرااللہ کے رسولﷺ کی تمام آل و اولاد رضی اللہ عنھم کو تسلیم کرتے ہیں مگر دوسری طرف اپنی سب سے عظیم عبادت تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے اس حقیقت سےانکاربھی کرتے ہیں،جس بات کا شاہد ان کی کیابیں اور تحریریں ہیں جن میں وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاہیں اور حضرت زینب،رقیہ،ام کلثوم رضی اللہ عنھن نہ آپ کی صاحب زادیاں ہیں اور نہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بلکہ یہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں،جن کی وفات کے بعد اللہ کے رسول ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے پرورش کی۔(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "بنات النبی ام ربائبه"جعفر مرتضی العاملی/// مأساة الزهراء عليهما السلام والصحيح من السيرة : 2 /129 /// مناقب آل أبي طالب ابن شهرآشوب)
اللہ تعالی امت کو روافض کے مکروفریب سے محفوظ رکھے۔آمین
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
چند دنوں پہلے اللہ تعالی کی توفیق سےایک مضمون لکھنے کا موقعہ ملا جسکا عنوان تھا "آپ ﷺ کی بیٹیوں میں صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہی شہرت کیوں ؟" دراصل ہمارے درس میں شریک ہونے والے ایک بھائی کا سوال تھا کہ روافض کی اکثریت در پردہ اس بات کا اعتقاد رکھتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا،مضون کے ارسال کے بعد ہمارے بہت ہی عزیز قابل قدر بھائی جناب ثناء اللہ صادق ساگر تیمی حفظہ اللہ کا ایک تبصرہ آیا کہ اگر ان کتابوں کا بھی حوالہ لکھ دیا جائے جن میں روافض نے اس بات کو بیان کیا ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی ہیں تو مزید لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔لہذا ذیل میں ان کتابوں اور روایتوں کو پیش کیا جا رہا ہے جس سے روافض استدلال کرتے ہیں۔
(۱)اس باب میں روافض کا استدال اور بنیاد اس حدیث پر ہے کہ(قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) لعلي (عليه السلام) : « ياعلي أُوتيت ثلاثاً لم يؤتهن أحد ولا أنا ، أُوتيت صهراً مثلي ولم أُوت أنا مثلي وأُوتيت صدِّيقة مثل ابنتي ، ولم أُوت مثلها زوجة وأُوتيت الحسن والحسين من صلبك ولم أُوت من صلبي مثلهما ولكنّكم منّي ، وأنا منكم »۔(درر السبطين ، الزرندي الحنفي 114 ، مقتل الحسين الخوارزمي 1 / 109 ، إحقاق الحقّ 4 / 444 ، 5 / 74)
(۲) روافض عام طور سے ظاہرااللہ کے رسولﷺ کی تمام آل و اولاد رضی اللہ عنھم کو تسلیم کرتے ہیں مگر دوسری طرف اپنی سب سے عظیم عبادت تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے اس حقیقت سےانکاربھی کرتے ہیں،جس بات کا شاہد ان کی کیابیں اور تحریریں ہیں جن میں وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاہیں اور حضرت زینب،رقیہ،ام کلثوم رضی اللہ عنھن نہ آپ کی صاحب زادیاں ہیں اور نہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بلکہ یہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں،جن کی وفات کے بعد اللہ کے رسول ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے پرورش کی۔(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "بنات النبی ام ربائبه"جعفر مرتضی العاملی/// مأساة الزهراء عليهما السلام والصحيح من السيرة : 2 /129 /// مناقب آل أبي طالب ابن شهرآشوب)
اللہ تعالی امت کو روافض کے مکروفریب سے محفوظ رکھے۔آمین
جزاك الله خير
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ان سے ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہواجو بچپن میں ہی انتقال کرگیا
یہ بات بھیعبد اللہ بن رقیہؓ کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔
بچپن میں فوت ہونی کی بات بھی ایک افسانہ ہے وقت ہوا تو اس پر بھی عرض کروں گا ان شاء اللہ تعالٰی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کی تعداد کتنی؟

عموما ہمارے ہاں پاک و ہند میں یہ تصور عام ہے کہ رسول الله ﷺ کی ایک ہی بیٹی تھی یعنی سیدة النساء العالمين فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ مگر یہ بات پاک و ہند سے باہر اتنی عام نہیں ہے، بلکہ ہمیں اسکے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ ہم کچھ صحیح الإسناد احادیث نقل کریں گے اور قرآن سے بھی بات کریں گے اسکے متعلق۔
قرآن کہتا ہے:
يا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗوَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ آیا ہے بناتك یعنی اپنی بیٹیوں، ادھر الله ﷻ نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہوکر یہ فرما رہا ہے۔ تو یہ ایک سے زیادہ کا ذکر ہے، کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ادھر بھی الله ﷻ نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ذکر جمع سے کیا جیسے مباہلہ کے متعلق کیا نساءنا یعنی ہماری عورتوں سے کہہ کر، مگر ہمارے پاس نص قطعی موجود ہے کہ رسول الله ﷺ مباہلہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ساتھ لیکر گئے تھے جبکہ ہمارے پاس کوئی نص قطعی نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی باقی بیٹیوں کو مختلف نام سے بلایا گیا بنت محمد کے علاوہ۔ اور مباہلہ جس وقت ہوا تب تک باقی بیٹیاں وفات پا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ رسول الله ﷺ کی دیگر بیویوں سے بیٹیاں مراد ہیں، مگر اگر اس طرح سے ذکر کرنا ہوتا تو الله ﷻ اسکا ذکر ایسے کرتا جیسے اس آیت میں کیا: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد, جن سے تم نے دخول کیا ہے ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے۔ اگر اس طرح سے ذکر کرنا ہوتا تو ربائب کا لفظ آتا بنات کی جگہ۔
اب کچھ احادیث دیکھتے ہیں:
یہ دعاء امام موسی کاظم علیہ السلام سے منسوب ہے:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْقَاسِمِ وَ الطَّاهِرِ ابْنَيْ نَبِيِّكَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى رُقَيَّةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا
اے الله ﷻ! صلوات بھیج اپنے نبی کے بیٹے قاسم اور طاہر پر، اے الله ﷻ! صلوات بھیج رقیہ پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اسکے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی، اے الله ﷻ! صلوات بھیج ام کلثوم پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اسکے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی۔
تهذيب الأحكام، ج 3، ص 120
شیخ طوسی اسکو اپنی کتاب تهذيب الأحكام میں لائے ہیں صحیح سند کے ساتھ۔ تهذيب الأحكام ہماری کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیوں کا ذکر ہو رہا ہے، رقیہ اور ام کلثوم، سلام اللہ علیہا۔
اسکی سند:
محمد بن يعقوب عن علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن محبوب عن علي بن رئاب عن عبد صالح عليه السلام قال، ادع بهذا الدعاء في شهر رمضان مستقبل دخول السنة
محمد بن یعقوب، جنہوں نے روایت کی علی بن ابراہیم سے اور انہوں نے اپنے والد سے، انکے والد نے محبوب سے اور انہوں نے علی بن رئاب سے، جنہوں نے عبد صالح (امام موسى الكاظم) عليه السلام سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ اس دعاء سے الله ﷻ کو پکارو آئندہ جب بھی نیا سال آئے۔۔۔ پھر دعاء تعلیم فرمائی جسکا کچھ حصہ اوپر نقل کیا ہے۔ سند کے تمام راوی معتبر ہیں، علامہ مجلسی نے اسکی سند کو حسن کہا ہے۔
أحمد بن محمد عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام ان أباه حدثه ان امامة بنت أبي العاص بن الربيع وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فتزوجها بعد علي عليه السلام
احمد بن محمد، جنہوں نے روایت کی ابن ابی عامر سے اور انہوں نے حماد سے جنہوں نے حلبی سے اور انہوں نے امام الصادق علیہ السلام سے جنہوں نے فرمایا کہ انکے والد (امام الباقر ع) نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جنکی والدہ زینب بنت رسول الله ﷺ تھیں نے علی علیہ السلام کے بعد شادی کی۔۔۔ الخ
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زینب بھی رسول الله ﷺ کی بیٹی تھیں۔
تهذيب الأحكام، ج 8، ص 258
اسکے علاوہ یہ روایت ہے:
وَ إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا
زینبت بنت نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو فاطمہ علیہا السلام اپنے عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی۔
اسکی بھی سند معتبر ہے۔
تهذيب الأحكام، ج 3، ص 333
ایک اور حدیث:
قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال: " ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن ربيعة - وهو من بني أمية - زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية. ثم ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله - من أم إبراهيم - إبراهيم، وهي مارية القبطية۔۔۔
اور اس نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا مسعدہ بن صدقہ نے، اس نے کہا مجھ سے جعفر بن محمد عليه السلام نے بیان کے اپنے والد (امام الباقر عليه السلام) سے کہ رسول الله ﷺ کی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اولاد تھی قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ، اور زینب۔ پھر علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام سے شادی کی، اور زینب کی شادی ہوئی ابو العاص بن ریبعہ سے، اور وہ بنی امیہ سے تھا۔ اور عثمان بن عفان کی شادی ہوئی ام کلثوم سے اور وہ ان میں داخل نہ ہوا حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔ پھر اسکی جگہ رسول الله ﷺ نے اسکی شادی رقیہ سے کردی، پھر رسول الله ﷺ کو اولاد ملی ام ابراہم سے، اور وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔۔۔ الخ
اسکی سند موثق کے درجے سے نہیں گرتی اکثر علماء کے نزدیک۔
قرب الإسناد، رقم الحديث: 29
نہج البلاغہ:
وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ(صلى الله عليه وآله) وَشِيجَةَ رَحِم مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.
امام علی علیہ اللسام نے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے کہا: ابو قحافہ کا بیٹا اور خطاب کا بیٹا زیادہ افضل نہیں تھے نیک عمل کے لحاظ سے تم سے، اور تم ان دونوں سے زیادہ قریب تھے رسول الله ﷺ کے بطور نسبت، اور تم شادی کی وجہ سے بھی ان سے تعلق رکھتے ہو جو کہ وہ دونوں نہیں رکھتے تھے۔
نهج البلاغة، رقم الخطبة: 164
ہمیں بعض روایات میں ملتا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد میری بہن زینب کی بیٹی امامہ سے شادی کرنا، اور پھر بعد ازاں شادی کی تھی آپ علیہ السلام نے۔ اسکے متعلق ایک روایت:
مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُکَیْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ ع إِلَی عَلِیٍّ ع أَنْ یَتَزَوَّجَ ابْنَةَ أُخْتِهَا مِنْ بَعْدِهَا فَفَعَلَ
زرارہ سے روایت ہے کہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ وہ انکی بہن کی بیٹی سے شادی کرلیں انکے بعد، تو امام علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔
سند معتبر ہے اور تمام راوی ثقہ ہیں۔
الكافي، ج 5، ص 555
اسکے علاوہ کلینی سے لیکر خمینی تک کثیر تعداد میں علماء تشیع کا یہی موقف رہا ہے کہ رسول الله ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہ سلام الله علیهن۔
امام مھدی عج کے نائب کا بیان:
كم بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ فقال: أربع، قال (4): فأيهن أفضل؟ فقال: فاطمة
حسین بن روح (نائبِ امام عج) سے پوچھا گیا کہ رسول الله ﷺ کی کتنی بیٹیاں تھیں؟ انہوں نے کہا چار۔ پوچھا گیا کہ سب سے افضل کونسی تھیں؟ انہوں نے کہا فاطمہ سلام اللہ علیہا۔
الغيبة للطوسي، ج 1، ص 409
ایسے ہی شیخ الكليني الكافي میں لکھتے ہیں:
وَ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ وَ هُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَ عِشْرِینَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ ع الْقَاسِمُ وَ رُقَیَّةُ وَ زَیْنَبُ وَ أُمُّ کُلْثُومٍ وَ وُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَ الطَّاهِرُ وَ فَاطِمَةُ ع وَ رُوِیَ أَیْضاً أَنَّهُ لَمْ یُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلَّا فَاطِمَةُ ع
اور آپ ﷺ کی شادی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی جب آپ ﷺ کی عمر بیس اور کچھ سال تھی، تو بعثت سے قبل انکو ان سے اولاد میں قاسم اور رقیہ اور زینب اور ام کلثوم ملے اور بعثت کے بعد طیب اور طاہر اور فاطمہ علیہا السلام، اور روایت کی گئی ہے کہ انکی کوئی اولاد نہ ہوئی بعثت کے بعد سوائے فاطمہ علیہا السلام۔۔۔ الخ
الكافي، ج 1، ص 439
ایسے ہی شیخ مفید نے لکھا ہے:
أن زينب ورقية كانتا ابنتى رسول الله صلى الله عليه وآله والمخالف لذلك شاذ بخلافه
زینب اور رقیہ رسول الله ﷺ کی بیٹیوں میں سے دو ہیں اور اس بات کا مخالف شاذ ہے اپنی مخالفت میں۔
المسائل العكبرية، ص 120
ایسے ہی شیخ طوسی نے مبسوط میں اور ابن شہر آشوب نے مناقب آل أبي طالب میں، شیخ عباس قمی نے منتهي الآمال میں، علامہ مجلسی نے حیات القلوب میں اور بحار الأنوار میں بہت سی مختلف روایات اس ضمن میں جمع کی ہیں، اور ایسے ہی دیگر علماء نے یہی ذکر کیا ہے۔
ایک بیٹی کی بات جو آج پاک و ہند میں رائج بھی ہے یہ سب سے پہلے علی بن احمد کوفی نے ایجاد کی کہ یہ خدیجہ س کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں، اسکو ابن شہر آشوب نے بدعت کہا ہے:
والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة
یہ بات بدعت ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو کہ خدیجہ کی بہن تھیں۔
مناقب آل أبي طالب، ج 1، ص 138
ایسے ہی شیخ تستری نے نقل کیا ہے:
لا ريب أن زينب ورقية كانتا ابنتي النبي (صلى الله عليه وآله). والبدع الذي قال هو كتاب أبي القاسم المذكور
اس بات میں شک نہیں کہ زینب اور رقیہ دونوں نبی ﷺ کی بیٹیاں تھیں۔ اور یہ بات بدعت ہے جو کہ ابو القاسم (الكوفي) کی کتاب میں مذکور ہے۔
قاموس الرجال، ج 9، ص 450
ابو القاسم الکوفی علی بن محمد کے متعلق رجال کی کتب میں ملتا ہے کہ وہ ایک غالی تھا اور کذاب تھا، وہ چوتھی صدی ہجری میں وفات پاگیا تھا۔ دیکھئے الفهرست للطوسي، رجال النجاشي، معجم رجال الحديث وغیرہ۔
ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن نے بھی بنات یعنی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جب رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کا ذکر کیا ہے، اور ایسے ہی ہمیں کثرت سے احادیث ملتی ہیں دیگر بیٹیوں کے متعلق جس میں سے ہم نے چند نقل کردیں باقی بھی کتب احادیث میں موجود ہیں اور علامہ مجلسی نے بحار کی جلد 2، صفحہ 151 پر باب باندھا ہے “عدد أولاد النبي (صلى الله عليه وآله) وأحوالهم” یعنی نبی ﷺ کی اولاد کی تعداد اور انکے احوال۔ ام کلثوم اور رقیہ بنا کسی اولاد کے فوت ہوگئی تھیں رسول الله ﷺ کی زندگی میں اور ایسے ہی زینب بنت محمد ﷺ کی بھی وفات رسول الله ﷺ کی زندگی میں ہوگئی، آپ ﷺ کی اولاد کا سلسلہ صرف فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہی چلا۔ اب اگر کوئی اس بات سے اعتراض کرتا ہے تو وہ احادیث پیش کر سکتا ہے جس میں ذکر ہو کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا واحد بیٹی تھیں، ہم نے بعض افراد سے سنا ہے جو کچھ ریاضیات کے ذریعے نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ چونکہ رسول الله ﷺ کی شادی کے وقت عمر تھی 25 سال اور بعد ازاں چار سال تک اولاد نہ ہوئی پھر انکے بیٹے قاسم کی ولادت ہوئی، پھر باقی اولاد۔۔۔ الخ، مگر یہ باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ ان تواریخ میں ویسے ہی اختلاف ہے تو انکو بنیاد بناکر ہم کوئی کیلکیولیشن نہیں کر سکتے جس سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ مباہلہ کے موقع پر صرف سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لیکر گئے رسول الله ﷺ لہذا وہی اکلوتی بیٹی ہیں۔ مگر مباہلہ کا واقعہ دس ہجری میں ہوا جبکہ باقی بیٹیاں تب تک وفات پا چکی تھیں۔ تو یہ اعتراض درست نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے متعلق احادیث میں بہت کچھ روایت کیا گیا ہے مگر باقی تین بیٹیوں کے متعلق کچھ خاص نہیں ملتا تو وہ کیوں، تو اسکی بھی وجہ یہ ہے کہ وہ کم سنی میں وفات پا گئیں مگر اس وجہ سے وجود کا انکار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس ہی طرح رسول الله ﷺ کی بیٹے تھے جنکے نام قاسم، طیب، طاہر اور ابراہیم تھے انکے متعلق بھی ہمیں کچھ خاص نہیں ملتا روایات میں، مگر کیا ہم اس وجہ سے وجود کا انکار کر دیتے ہیں، نہیں بلکہ انکے وجود کو ہم پھر بھی قبول کرتے ہیں۔ ہم تو صرف معتبر احادیث و روایات کے مطابق چل سکتے ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔
( منقول)
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کی تعداد کتنی؟


نہج البلاغہ:
وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ(صلى الله عليه وآله) وَشِيجَةَ رَحِم مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.
امام علی علیہ اللسام نے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے کہا: ابو قحافہ کا بیٹا اور خطاب کا بیٹا زیادہ افضل نہیں تھے نیک عمل کے لحاظ سے تم سے، اور تم ان دونوں سے زیادہ قریب تھے رسول الله ﷺ کے بطور نسبت، اور تم شادی کی وجہ سے بھی ان سے تعلق رکھتے ہو جو کہ وہ دونوں نہیں رکھتے تھے۔
نهج البلاغة، رقم الخطبة: 164
یہ خطبہ نمبر 162 ہے۔ اس پر ترجمہ و حواشی والےکی تشریح کے متعلق آپ کا کیا مؤقف ہے ؟ خاص طور پر ہائی لائیٹ کئیے گئے الفاظ پر

Screenshot_1.png
Screenshot_2.png
Screenshot_3.png
Screenshot_4.png
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں، اس تعلق سے تفصیلی حوالے اوپر گزر چکے ہیں، آپ کے پیش کردہ اسکین میں سیرت ابن ہشام کا جو حوالہ پیش کیا گیاہے، حقیقت یہ ہے کہ سیرت ابن ہشام سے مرضی کی عبارت نقل کر لی گئی ہے، حالانکہ سیرت ابن ہشام میں بھی صراحت کے ذکر کیا گیاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار صاحبزادیاں تھیں، ذرا دیکھیے:
فَوَلَدَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَدَهُ كُلَّهُمْ إلَّا إبْرَاهِيمَ، وَكَانَتْ قَبْلَهُ عِنْدَ أَبِي هَالَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَحَدِ بَنِي أُسَيِّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ تَمِيمٍ، حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَوَلَدَتْ لَهُ هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ، وَزَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي هَالَةَ ۔۔۔
یہاں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ سے تھی، سوائے ابراہیم کے۔
اور اس سے پہلے صراحت کے ساتھ زینب، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ (رضی اللہ عنہن) چار نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کے ذکر کیے گئے ہیں:
(سيرة ابن هشام ت السقا (2/ 643)
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَوَلَدَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَدَهُ كُلَّهُمْ إلَّا إبْرَاهِيمَ الْقَاسِمَ، وَبَهْ كَانَ يُكَنَّى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالطَّاهِرَ [3] ، وَالطَّيِّبَ، وَزَيْنَبَ، وَرُقَيَّةَ، وَأُمَّ كُلْثُومٍ، وَفَاطِمَةَ، عَلَيْهِمْ السِّلَامُ.
قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: أَكْبَرُ بَنِيهِ الْقَاسِمُ، ثُمَّ الطَّيِّبُ، ثُمَّ الطَّاهِرُ، وَأَكْبَرُ بَنَاتِهِ رُقَيَّةُ، ثُمَّ زَيْنَبُ، ثُمَّ أُمُّ كُلْثُومٍ، ثُمَّ فَاطِمَةُ.

(سيرة ابن هشام ت السقا (1/ 190)
رہی یہ بات کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی حضور سے نکاح سے پہلے بیٹیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہی کہلائیں گی، تو یہ درست نہیں، قرآن میں واضح حکم ہے کہ ہر کسی کو اس کے باپ کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ جب بیٹیاں کسی اور کی تھیں تو حضور کی طرف ان کی نسبت کیوں کی گئی ؟ اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش بھی رہے، حالانکہ زید بن حارثہ کو جب لوگوں نے زید بن محمد کہا تو اس پر ٹوک دیا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ بیٹیاں آپ کی ہی تھیں، اسی لیے آپ کی طرف نسبت سے مشہور ہوئیں۔
دوسری بات: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر جو اعتراض کیا گیاہے، چونکہ پہلی بات پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے، اس لیے جب بنیاد ہی ثابت نہیں، تو اس سے اگلی کہانی خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں، اس تعلق سے تفصیلی حوالے اوپر گزر چکے ہیں، آپ کے پیش کردہ اسکین میں سیرت ابن ہشام کا جو حوالہ پیش کیا گیاہے، حقیقت یہ ہے کہ سیرت ابن ہشام سے مرضی کی عبارت نقل کر لی گئی ہے، حالانکہ سیرت ابن ہشام میں بھی صراحت کے ذکر کیا گیاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار صاحبزادیاں تھیں، ذرا دیکھیے:
فَوَلَدَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَدَهُ كُلَّهُمْ إلَّا إبْرَاهِيمَ، وَكَانَتْ قَبْلَهُ عِنْدَ أَبِي هَالَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَحَدِ بَنِي أُسَيِّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ تَمِيمٍ، حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَوَلَدَتْ لَهُ هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ، وَزَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي هَالَةَ ۔۔۔
یہاں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ سے تھی، سوائے ابراہیم کے۔
اور اس سے پہلے صراحت کے ساتھ زینب، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ (رضی اللہ عنہن) چار نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کے ذکر کیے گئے ہیں:
(سيرة ابن هشام ت السقا (2/ 643)
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَوَلَدَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَدَهُ كُلَّهُمْ إلَّا إبْرَاهِيمَ الْقَاسِمَ، وَبَهْ كَانَ يُكَنَّى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالطَّاهِرَ [3] ، وَالطَّيِّبَ، وَزَيْنَبَ، وَرُقَيَّةَ، وَأُمَّ كُلْثُومٍ، وَفَاطِمَةَ، عَلَيْهِمْ السِّلَامُ.
قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: أَكْبَرُ بَنِيهِ الْقَاسِمُ، ثُمَّ الطَّيِّبُ، ثُمَّ الطَّاهِرُ، وَأَكْبَرُ بَنَاتِهِ رُقَيَّةُ، ثُمَّ زَيْنَبُ، ثُمَّ أُمُّ كُلْثُومٍ، ثُمَّ فَاطِمَةُ.

(سيرة ابن هشام ت السقا (1/ 190)
رہی یہ بات کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی حضور سے نکاح سے پہلے بیٹیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہی کہلائیں گی، تو یہ درست نہیں، قرآن میں واضح حکم ہے کہ ہر کسی کو اس کے باپ کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ جب بیٹیاں کسی اور کی تھیں تو حضور کی طرف ان کی نسبت کیوں کی گئی ؟ اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش بھی رہے، حالانکہ زید بن حارثہ کو جب لوگوں نے زید بن محمد کہا تو اس پر ٹوک دیا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ بیٹیاں آپ کی ہی تھیں، اسی لیے آپ کی طرف نسبت سے مشہور ہوئیں۔
دوسری بات: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر جو اعتراض کیا گیاہے، چونکہ پہلی بات پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے، اس لیے جب بنیاد ہی ثابت نہیں، تو اس سے اگلی کہانی خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
جزاک اللہ!
اور کیا نہج البلاغہ واقعی حضرت علی کی کتاب ہے یا پھر ان کی طرف صرف منسوب کی گئی ہے؟
 
Top