- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 58
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیوں کی جاتی ہیں؟
اور ہماری ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں؟
آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیوں کی جاتی ہیں؟
اور ہماری ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں؟
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،اما بعد:
برادرانِ اسلام!!
آج کل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کافروں اور مشرکوں کے دلوں میں بغض وحسد،عداوت ودشمنی اس قدر رچ اور بس گیا ہے کہ وہ وقتا فوقتا اس طرح کی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں،کبھی آپﷺ کی توہین کرتے ہیں،کبھی قرآن کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں،کبھی سرعام قرآن کی بے حرمتی کرتے ہیں،کبھی اسلام اور مسلمانوں کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں، کبھی اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں الغرض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟آخر کیاوجہ ہے کہ ہندجہاں مسلم اقلیت میں ہیں یہاں پر بھی اور بیرون ہند ہرجگہ پر اہل کفروشرک اسلام اور مسلمانوں کو مشق ستم بناتے ہیں؟میری نظر میں اس کے تین اہم اسباب ووجوہات ہیں:
(1) پہلی وجہ:یہ ہے کہ کفارومشرکین ان حرکتوں سے مسلمانوں کو جذبات میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ کچھ ایسی حرکتیں کریں (فرانس کے اندر بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ایک ٹیچر نے جب گستاخی کی تو ایک چودہ سالہ بچے نے اسی وقت اسے جہنم رسید کردیا جس کے بعد ہی ملعون کیمرون نے ایسا بیان دیا کہ خاکے اب پورے فرانس میں پھیلایا جائے گا،پارلیمینٹ میں چسپاں کیا جائے گا) کہ ان کفار ومشرکین کو اسی بہانے مسلمانوں کو قتل کرنے یا پھر سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا موقع مل جائے ،میری اس بات میں کتنی سچائی ہے آپ اس بات کا اندازہ پچھلے ہفتے میں ہونے والے واقعات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ جب ملعون نوین کمار جندال اور ملعونہ نوپورشرما نے نبیﷺ کی شان میں گستاخیاں کی تو مسلمان اپنے نبیﷺ کی دفاع میں کھڑے ہوئے تو رانچی کے اندر ایک چودہ سالہ معصوم بچے کو پولیس نے گولی مار دی اور یوپی کے اندر پولیس نے قید خانےمیں مسلم نوجوانوں پر بے تحاشا ظلم ڈھائے ،احتجاجی جلوس کے اندر لاٹھیاں برسائیں، ہنسا پھیلانے کے بہانے مسلم گھروں کے اوپر بلڈوزر چلا ئے گئے،ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا،یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ جس نے ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی وہ آزاد ہیں اور الٹے مسلم قوم کو ہی مشق ستم بنایا جارہاہے،مزید ان گستاخیوں کے پیچھے دشمنانان اسلام کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسلم حکومتیں اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو اسی بہانےاسلامی ممالک پر بھی حملہ کرنے کا ایک بہانہ مل جائےاور جہاں کہیں بھی مسلم حکومتیں ہیں انہیں نیست ونابود کردیا جائے،پچھلے کچھ سالوں میں آپ نے یہ دیکھا ہوگا کہ ان کافروں اور مشرکوں نے کس طرح سے حیلے اور بہانے تراش کرکے اسلامی ممالک پر حملہ کرکے ان کو نیست ونابود کردیا،اسی لئے تمام مسلمانوں کو اور بالخصوص اسلامی ممالک کے سربراہان کو ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
(2) دوسری وجہ: وہ یہ ہے کہ جب اہل کفار ومشرکین جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہر آئے دن کوئی نہ کوئی اسلام کی تعلیمات اوراس کی سچائی سے متاثر ہوکراسلام قبول کرلیتاہے اور قبول کرنے والے افراد پوری دنیا کے سامنے یہ اعلان واقرار کردیتے ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جس کے اندر اتنی سچائی ہو جتنا اسلام میں ہے(ابھی پچھلے دنوں میں اپریل ماہ 2022 میں کیرلا کی ایک موٹیویشنل ٹیچر سابری مالاجیہ کنتھن نے علی الاعلان اسلام کو قبول کیا اور اس کو دنیا کو سب سے سچا مذہب قرار دیتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کو اپنانے کی تلقین کی )جب وہ اہل کفار ایسا سنتے ہیں اور ایسا دیکھتے ہیں تو وہ اس طرح کی حرکتیں اس ڈروخوف کی وجہ سے کرتے ہیں کہ کہیں اسلام کو غلبہ نہ حاصل ہوجائے،کہیں ان کے مذہب کا ہر شخص اسلام کو صحیح اور سچا مذہب نہ جاننے اور ماننے لگے اور اس طرح سےمسلمان پوری دنیا میں نہ پھیل جائے،یہی وہ ڈر وخوف ہے جس کی وجہ سے وہ باربار ایسی حرکتیں کرتے ہیں،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی ایک موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،مگر یاد رکھ لیں رب کا یہ اعلان صادر ہوچکا ہے کہ اہل کفار اس مقصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے گرچہ ساری دنیا ایک ہوجائیں’’ يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ ‘‘وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گرچہ کافروں کو یہ بات بری لگے۔(الصف:8)
اسلام کی فطرت میں قدرت نے یہ لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
(3)تیسری وجہ: جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ اسلام ومسلمانوں کا نام لے کرلوگ شائن ہوناچاہتے ہیں ،میڈیا واخبار کی سرخیوں میں آنا چاہتے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کرنا چاہتے ہیں یاپھر اپنی سیاسی زندگی کی ڈوبتی نیا کو پاراتارناچاہتے ہیں ،یا پھر اپنی بدعنوانیوں اورکرپشنوں کو چھپاکر جیل کی سلاخون سے بچناچاہتے ہیں اور پھر برسراقتدار حکومت کی نظر میں محبوب بنناچاہتے ہیں۔
آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ 2014 کے بعد جب سے سیاست کی گدی بدلی ہے تبھی سے ہی ہمارے ملک کے اندر اسلام اور مسلمانوں کو باربار مشق ستم بنایا جاتارہاہے،کبھی گائے کے نام پر موب لنچینگ کی گئی،تو کبھی چوری کے نام پر کسی کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،توکبھی کسی اور بہانے سے مسلم شخص کو زدوکوب کیاگیا، توکبھی کورونا کے نام پر مسلم امت کو بدنام کی گئی،تو کبھی لوجہاد کے نام پر مسلمانوں کو جیل کے کال کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا، تو کبھی این آرسی اور این پی آر کے نام پر مسلمانوں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا،الغرض پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل کئی طرح کے حیلوں اور بہانوں سے مسلمانوں کو پریشان کیاجاتارہاہے،جگہ جگہ پر ان کے دوکان ومکان کو لوٹاگیا ہے اور اس دوران جو چیز دیکھنے میں اور سننے میں آئی ہے وہ یہ ہے جو بھی شخص اسلام ومسلمان کی دشمنی میں پیش پیش رہتاہے اس کو پروموشن دیا جاتاہے،پھولوں کا ہار پہناکر ایسے شخص کو ہیرو بناکر ہندوقوم کے سامنے میں پیش کیا جاتاہے، ایسے لوگوں کو الیکشن میں ٹکٹ بھی جلدی دی جاتی ہے، اور ایسے لوگوں کو حکومت اور پولیس کی حمایت بھی حاصل ہوتی رہی ہے اور ایسے لوگ سیاسی لیڈروں کے محبوب وچہیتے بھی بن جاتے ہیں تو جب ایسا ہوتا آرہاہے تو اب ہرکوئی اسلام اور مسلمانوں کا نام لے کرکے شائن ہونا چاہتاہے،میڈیا اور اخبار کی ہیڈ لائین (سرخیوں ) میں آناچاہتا ہے،اسلام ومسلم دشمنی رکھنے والے آقاؤں کی پشت پناہی حاصل کر کے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کرنا چاہتاہے،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کا نام لے کر برسراقتدارحکومت کے راجاؤں کو خوش کرکےاپنی بدعنوانیوں اور کرپشنوں کو چھپانا چاہتے ہیں تاکہ وہ جیل جانے سے بچ جائیں ، پچھلے آٹھ سالوں میں کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ جس جس نے بھی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا ہے،اسلام اور مسلم دشمنی میں پیش پیش رہے ہیں ان کی حکومتی سطح پر پشت پناہی حاصل رہی ہے،بلکہ ایسے لوگوں کو مخصوص حفاظتی دستہ بھی دیا جاتارہا ہے،اور ایسے لوگوں کے ساتھ خصوصی رعایتیں بھی کی جاتی رہی ہیں، اور ایسے کئی کرپٹ وقاتل لوگوں اور بلتکاریوں کو تمام ثبوتوں اور تمام گواہوں کی موجودگی میں بھی کلین چٹ دیاگیا ہے،یہی سب دیکھ کرکے اب ہرکوئی اسلام ومسلمانوں کے نام پر سستی شہرت حاصل کرکے اپنا دنیوی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
جب صورت حال ایسی ہے کہ اہل کفارومشرکین ایک سوچی سمجھی پلاننگ اور منصوبے کے تحت اس طرح کی حرکتیں ہرآئے دن کرتے ہی رہتے ہیں توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں؟ہم اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے کیاکریں؟
(1) سب سے پہلی ذمہ داری بطورمسلمان ہمارے اوپر یہ عائد ہوتی ہے کہ جس اسلام کے خلاف کفارومشرکین اتنے پروپیگنڈے کررہے ہیں ہم اسی اسلام کو اور مضبوطی سے تھام لیں،اپنے دین پر اور مضبوطی سے جم جائیں،اپنے دین کے ہوجائیں،اپنے دین کو اورپھیلانا شروع کردیں،اسلام کی تبلیغ زوروشورسے شروع کردیں اگر ہم ایسا کریں گے تو پھروعدۂ الہی ہے کہ ان کفارومشرکین کے خلاف اللہ ہماری خود مدد کرے گا ،ہم دین اسلام کی حفاظت کریں اللہ ہماری حفاظت کرے گا ’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ‘‘ اے ایمان والو!اگرتم اللہ کے دین کی مدد کروگے تواللہ تمہاری مددکرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔(محمد:7)
آج ہمیں اپنے وجود کی فکرہے،ہم اپنی حفاظت کے لئے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر سراپا احتجاج بن کر کھڑے ہونے تیار ہیں مگر اپنے دین کے لئے ہم خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اسی وجہ سے تو آج ہم مسلمانوں پر یہ ذلت ونکبت چھائی ہوئی ہے،یاد کیجئے صحابۂ کرام اور خیرالقرون کے ادوار کو کہ جب انہوں نے اللہ کے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انہیں دنیا میں غالب کردیا،اسی لئے آج اگر ہم اپنی بقاوسلامتی چاہتے ہیں تو اللہ کے دین کی نشرواشاعت شروع کردیں،نصرت الہی ہماری منتظر ہے’’وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ‘‘ اللہ کی جومدد کرتاہے اللہ اس کی ضروربالضرورمدد کرتاہے۔(الحج:40)اگر ہم نے ایسا نہ کیا صرف دنیا ہی میں مست ومگن رہیں تو پھر ہم بارگاہ احدیت کے سب سے بڑے مجرم ہیں،یاد رکھ لیں:
بے خبر تو جوہر آئینۂ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
برادران اسلام!!
یہ بات فرمان مصطفیﷺ کی روشنی میں یادرکھ لیں کہ جب تک ہم اپنے دین کی نشرواشاعت میں مگن نہیں ہوں گے ،رب کے پیغام کو عام نہیں کریں گےتب تک نہ تو ہماری مدد کی جائے گی اور نہ ہی ظلم وستم کے یہ بادل ہم سے ہٹائے جائیں گے اور نہ ہی ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازاجائے گا جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہےکہ:’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ ‘‘ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکا کرو ،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم سب پر عمومی عذاب کو نازل کردے پھر تم سب دعائیں مانگوگے مگر تمہاری دعاؤں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔(رواہ الترمذی:2169 وحسنہ الالبانیؒ)
(2) دوسری ذمہ داری بطورمسلمان ہمارے اوپر یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم حتی المقدور اپنے نبی کا حکمت عملی کے ساتھ دفاع کریں،گستاخوں کے خلاف شوشل میڈیا،الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا اوراخبارورسائل کا استعمال کریں،اپنے ملک ہندوستان میں جگہ جگہ پر گستاخوں کے خلاف عہدداروں کو میمورنڈم پیش کریں،جگہ جگہ پر گستاخوں کے خلاف مقدمہ درج کرائیں،گستاخوں کے خلاف پرامن احتجاج بھی کریں مگر ایک بات یاد رکھیں پرامن احتجاج ضروری ہے مگر اس مسئلے کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے،اس کا مستقل حل یہ ہے کہ ہم غیرمسلم بھائیوں تک آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو پہنچائیں،ان کو آپﷺ کے اخلاق بتائیں،آپﷺ کی تعلیمات کو عام کریں،آپﷺ کی سیرت پر مشتمل کتابوں،پمفلیٹوں اور کتابچوں کو سرعام چوک چوراہوں،دوکانوں اوربازاروں،ریلوے اسٹیشنوں،بس اڈوں اور ہوائی اڈوں پر تقسیم کرنا شروع کردیں،اگر ہم ایسا کرنا شروع کردیں تو عین ممکن ہے کہ کافروں اور مشرکوں کے دلوں پر جو اسلام کے خلاف جو گردوغبارکے بادل پڑے ہوئے ہیں وہ دھیرے دھیرے چھٹے اور پھروہ لوگ اس طرح کی حرکتوں سے بازآجائیں،فرمان باری تعالی ہے’’ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‘‘ جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نورکا اتباع کرتے ہیں جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(الاعراف:157)اگر ہم اپنے نبی ﷺ کی حمایت ومدد کرنا چاہتے ہیں تو مذکورہ بالا میں تحریر کی گئی میری رائے پر اپنی استطاعت بھر ضروربالضرور عمل کریں۔
(3) تیسری ذمہ داری ہمارے اوپر یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم کوئی ایسا کام یا پھر کوئی ایسی حرکت نہ کریں، کوئی ایسا جذباتی قدم نہ اٹھائیں کہ جس سے سب سے پہلے ہم کو خود نقصان اٹھانا پڑے اور پھر ان دشمنان اسلام کو اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ آجائے یہ کفارومشرکین تو یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان جذبات میں آکر کوئی ایسا قدم اٹھائیں کہ ہمیں موقع ملیں انہیں نیست ونابود کرنے کا،جگہ جگہ پرپچھلے دنوں میں ہونے والے واقعات میری اس بات پر گواہ ہیں کہ کس طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا،گولیاں چلائی گئیں،لاٹھیاں چارج کی گئیں ،مسلم گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے،مسلم نوجوانوں کو لاک اپ میں زدوکوب کیا گیا،بے تحاشا مارا اور پیٹا گیا، اسی لئے ہروقت کفار ومشرکین کے چالوں سے ہوشیاررہیں،اپنے نبی اور اپنے دین کا دفاع ضروربالضرور کریں مگر حکمت عملی کے ساتھ،ہم جس جگہ رہتے ہیں اس جگہ کے قوانین کا سہارا بھی لیں مگر اپنے ملک کے قانون کی خلاف ورزی نہ کریں، جذبات میں نہ بہکے،بھڑکاؤ بھاسن دینے والوں کےبہکاوے میں نہ آئیں ،قانون جاننے والوں سے مدد لیں اور کسی بھی حال میں اپنے ملک کے قانون کے خلاف نہ جائیں ،وقت کا انتظار کریں یقینا اس ظلم کا خاتمہ ہوگااور ضرور ہوگا،تاریخ ابن خلدون کے اندر یہ بات منقول ہے کہ جس طرح سے انسانوں کی ایک عمر ہوتی ہے جس میں وہ زندگی گذارتا ہے اور پھر مرجاتا ہے اسی طرح سے حکومتوں کی بھی عمریں ہوتی ہیں ،آج نہیں تو کل اس ظلم وستم کا خاتمہ ضرور ہوگا ۔
(4) چوتھی ذمہ داری ہمارے اوپر یہ عائد ہوتی ہے کہ جس ملک کا سربراہ یا پھر جس کمپنی کا مالک ہمارے نبی ﷺ کے شان میں گستاخی کرے ہم سب انفرادی واجتماعی طور پران کی معیشت کو کمزور کریں،جس ملک اور جس کمپنی کا فرد بھی گستاخی کرے ہم اس ملک اور اس کمپنی کے پروڈکٹ کی خرید وفروخت چھوڑ دیں،آج کل معیشت ہی وہ طاقت ہے جس کی بنیاد پر دشمنان اسلام اتنا ناچ رہے ہیں، اسلام ومسلمانوں کے خلاف بے دریغ اپنا مال خرچ کرتے ہیں،اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ٹی وی اینکرس کو خریدتے ہیں،فلمیں بناتے ہیں،کہیں نہ کہیں اس کو دیکھ کر ان کی معیشت کو ہم بھی مضبوط کرتے ہیں،اسی لئے ہم اگر کچھ کرسکتے ہیں تو ان کی معیشت ومعاشیت کو کمزور کریں کیونکہ یہ ایک ایسی کمزوری ہے جس سے ہرکوئی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
معاشی بائیکاٹ کی کتنی اہمیت ہے اور یہ ایک انسان اور ایک حکومت کی کیسی کمر توڑتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی وجہ سے ایران وترکی ،کویت ودبئی اور مصروغیرہ نے جب ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو آناً فاناً میں زعفرانی پارٹی نے ملعونہ نوپور شرما اورملعون نوین کمار کو اپنی پارٹی سے معطل کردیا،آپ کیا سمجھتے ہیں کہ زعفرانی پارٹی نے آپﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی وجہ سے ان کو پارٹی سے نکالا جی نہیں ،بالکل نہیں بلکہ معاشی بائیکاٹ کی وجہ سے جو پیٹ پر لات پڑی ہے اور جوکڑوڑوں کا نقصان ہواہے اور جو ملک کی ساری دنیا میں فضیحت وذلت ورسوائی ہوئی اسی وجہ سے انہوں نے اپنے حلیفوں اور دوسرے ملکوں کے سربراہوں کو خوش کرنے اور اپنے تجارتی سازوسامان کی خرید وفروخت کی بحالی کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔یہ ہوتی ہے معاشی بائیکاٹ کی طاقت۔ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوا تھا جب 2020 میں ملعون میکرون کی طرف سے جو گستاخی ہوئی تھی اس پر قطر،کویت اور ترکی نے ان کے پروڈکٹ اور ان کے شاپنگ مال کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہی تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن ہی ملعون نے الجزیرہ چینل کو انٹرویو دیتے اپنے بیان سے مکر گیا اور اسے دوسرا رخ دینے کی ناپاک کوشش کی،یقین جانئے کہ یہ صرف اور صرف معاشی نقصان کا اثرہے۔
برادران وطن!!یہ دور سائنس وٹکنالوجی کا دور ہے ،الیکڑانک وپرنٹ میڈیا کا دور ہے، عقل وفہم کو استعمال کرنے کا دور ہے،زبان وقلم کی طاقت کا دور ہےاسی لئے اس دور میں دشمن کو زیر کرنے کے لیے جسمانی طاقت وقوت سے کہیں زیادہ عقل وفہم کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے،اسلام کو بدنام کرنے کے لیے دشمنان اسلام تواسی کا استعمال کررہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو وقت وحالات سے بالک ہی نابلد ہیں بس خواب غفلت میں امیدوں کے سہارے اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہیں کہ اللہ دیکھ لے گا،جوہوگا دیکھا جائے گا،ہماری اسی غفلت ولاپرواہی سے آج دشمنان اسلام اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں اور ہم ان کے لیے مہرے بنتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مسلسل ان کو فائدہ پہنچ جارہاہے اور ہم امت مسلمہ کو جانی ومالی نقصان سے دوچارہونا پڑرہاہے۔
(5) پانچویں اور سب سے اہم ذمہ داری ہمارے اوپر یہ عائد ہوتی ہیں کہ سب سے پہلے ہم سب اپنی اپنی اصلاح کرلیں،اپنے رب اور اپنے دین سے رشتہ جوڑ لیں، اپنے عقائد واعمال،اپنے احوال واخلاق، اپنے عبادتوں و ریاضتوں،اپنے حقوق ومعاملات،اپنی دنیا داری و دینداری اوراپنے لین دین کی اصلاح انفرادی واجتماعی طور پرکریں،جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کرلیتے تب تک ہماری یہ حالت بدلنے والی نہیں ہےاورنہ ہی ذلت ورسوائی کے بادل بھی ہم سے چھٹنے والے ہیں فرمان باری تعالی ہے:’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ‘‘ کسی قوم کی حالت اللہ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے۔(الرعد:11)
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(6) صبر سے کام لیں: رسولوں کا مذاق اڑانا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے قرآن کے مطالعے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام سے ہی یہ سلسلہ شروع ہے اور تا قیامت جاری رہے گا جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ‘‘اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مزاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں ہی کو اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے۔(الانبیاء:41) یعنی وقتی طور پر تو وہ رسولوں کا مذاق اڑا کر بہت خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو رسولوں کو بدنام کردیا مگران کافروں کو ڈھیل دی جاتی ہے جن کی انہیں خبر ہی نہیں ہے،فرمان باری تعالی ہے:’’ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ‘‘یقینا آپ سے پہلے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی ان کافروں کو ڈھیل دی تھی،پھر انہیں پکڑ لیا تھا،پس میرا عذاب کیسا رہا؟(الرعد:32)رسولوں کی استہزا کرنا اور ان کی مذاق اڑانا جب ہر دور کے کافروں اور مشرکوں کا طور وطریقہ اور عمل رہا ہے اسی لئےتو رب العالمین نے سب سے پہلے آپﷺ کو اور پھر آپ ﷺ کے ذریعے آپ کے امتیوں کو یہ حکم دیا کہ وہ صبر سے کام لیں یہ کفارومشرکین اپنے انجام کو ضروربالضرور پہنچیں گے،فرمایا:’’ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ‘‘اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا،ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی۔(الانعام:34) اسی لئے برادران اسلام صبروتحمل سے کام لیں اور حکمت کے ساتھ آپﷺ کا دفاع کریں کیونکہ کہ صبر ہی وہ طاقت جس کے ذریعے ہم اپنے رب کی مدد حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے كه: ’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ‘‘ اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد چاہو بیشک کہ اللہ تعالی صبروالوں کا ساتھ دیتاہے۔(البقرۃ:153)افسوص صد افسوس!آج امت مسلمہ کے پاس نہ تو صبر کا مادہ ہے اور نہ ہی نماز کی پابندی ہے،یہی وجہ ہے کہ رب کی نصرت وحمایت سے محروم ہیں۔
(7) ساتویں سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری ہم تمام مسلمانوں پر یہ عائد ہوتی ہے کہ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مسلکی اختلاف کو اب بالائے طاق رکھ کر ایک ہوجائیں،اپنے دین کی تحفظ اور ہندوستان کی سرزمین پر اپنی اور اپنی نسل کی بقا وتحفظ کی سلامتی کے لیے متحد ہوجائیں،ہماری اسی مسلکی اختلاف وانتشار نے ہی آج ہمیں بزدل اور ہمارے دشمنوں کو دلیر کردیا ہے ،ہماری اسی مسلکی اختلاف وانتشار کی وجہ سے ہی آج دشمنان اسلام اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں اور ہم ذلیل سے ذلیل تر ہوتے جارہے ہیں،قرآن نے ایسے ہی حالات کی پیشین گوئی کرتے ہوئے اعلان کردیا تھا كه اے مسلمانو!’’وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ‘‘ اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے رہو،آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی اور صبر وسہار رکھو،یقینا اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔(الانفال:46)یقینا قرآن کی جیتی جاگتی عملی تصویر آج کل کے ہم مسلمان ہیں کہ سب سے بڑا بزدل اور ہم سے بڑا ڈرپوک کوئی نہیں ہے اس جہاں میں اور یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہرآئے دن کوئی نہ کوئی کبھی ہمارے دین کے ساتھ مذاق کرتاہے تو کبھی کوئی ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کبھی کوئی ہماری عزتوں کے ساتھ کھیلتا ہے،سچ کہا ہے کسی شاعر نے کہ
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
اوراگر ہم اب بھی مسلکی اختلاف وانتشار میں پڑے رہ کرآپس میں دست وگریباں رہیں تو پھر یاد رکھ لیجئے:
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(8) وقت وحالات کی مناسبت سے ہمارے ملک کے اندر ہم سب مسلمانوں پر سب سے اہم ذمے داری یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم سب متحد ہوکر اپنی سیاسی طاقت وقوت کو مضبوط کریں،خود غرضی ومفاد پرستی کے اس دور میں یہ آسان کام تو نہیں ہے مگر ممکن بھی نہیں ہے ،کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ سینکڑوں خداؤں کو ماننے والی قوم، چھوت چھات اور اونچ نیچ کو ماننے والے ہزاروں ذات وپات کے تحت زندگی گذارنے والے لوگ اپنے دھرم کے نام پر کس طرح سے ایک ہوگئے ہیں،مذہب کے نام پر کس طرح سے انہوں نے اپنے تمام دنیوی مفاد کو بالائے طاق رکھ دیا ہے،آج ہماری سیاسی کمزوری ہی کا نتیجہ ہے کوئی ہمارے حق میں منہہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے،ہم مسلمانو ں کی ووٹ کی سب کو ضرورت ہے مگر ہمارے حق کی کوئی بات نہیں کررہاہے،اس کی منہ بولتی تصویر پچھلے ہفتے میں ہونے والے واقعات ہے کہ ہمارے نبیﷺ کی شان میں علی الاعلان گستاخیاں کی گئیں ،ہمارے نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر ان پربے تحاشا ظلم ستم ڈھایا گیا،ہمارے بچوں پر گولیاں چلائی گئیں مگر جس جس پارٹی کے لیے ہم ووٹ بینک ہیں اور جس جس کو مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا کسی نے بھی اپنی زبان تک نہیں ہلائی سب کو سانپ سونگھ گیا ،اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں بھی اپنی دم دباکر بلوں میں گھس کر تماشا دیکھتی رہی،ان سب حالات سے اگر ہم نے اب بھی سبق نہیں سیکھا تو پھر انتظار کیجئے اس وقت کا جب ہم سب کو ہندوستان کا سیکنڈ شہری قرار دے کر تمام حقوق سے دستبردار کردیا جائے گا، کفار ومشرکین کی کوشش تویہی ہے اللہ کرے کہ ایسا دن کبھی بھی ہمارے اوپر نہ آئے۔الامان والحفیظ
آخر میں رب العالمین سےدعا گو ہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم مسلمانوں کے اوپر رحم وکرم فرما ،اے اللہ تو ہماری طرف سے ہمارے دشمنوں کے لئے کافی ہوجا’’ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ ‘‘ آمین یا رب العالمین۔
مرتب
ابومعاویہ شارب بن شاکر السلفی
ابومعاویہ شارب بن شاکر السلفی