- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
محترم بھائی @nasim
نے سوال کیا ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴿67﴾
يا ايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس إن الله لا يهدي القوم الكافرين
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(سورۃ المائدہ (67)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
پہلے اس کا مرادی معنی :
اس آیت کریمہ میں تبلیغ وحی کا سخت تاکیدی حکم ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا۔ رسول، اللہ کا پیغمبر ہوتا ہے اس لئے اس کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو بےکم وکاست اور کسی بھی اندیشہ کو خاطر میں لائے بغیر لوگوں تک پہنچا دئے۔ اس میں کوتاہی کا مطلب فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فریضہ کو کما حقہ ادا کیا اور پورا قرآن جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیا۔ حجۃ الوداع (آخری حج) کے موقع جو آپ نے اپنی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل کیا تھا مجمعِ عام سے مخاطب ہو کر پوچھا۔( واَنْتُمْ تُسْالُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ : تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے۔ قَالُوْانَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَادَّیْتَ وَنَصَحْتَ
حاضرین نے کہا ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم تک (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا، اپنا فرض ادا کیا اور ہماری خیر خواہی کی۔
آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا( اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ " خدا یا تو گواہ رہ (مسلم کتاب الحج)
آج قرآن جیسا کہ وہ نازل ہوا تھا ہمارے ہاتھ میں موجود ہے اس لئے کل عدالتِ خداوندی میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کرسکے گا کہ اللہ کا پیغام پہنچا نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عماد الدین ابن کثیرؒ اس آیہ کے ذیل میں لکھتے ہیں :
قَالَ الْبُخَارِيُّ عِنْدَ تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَنْ حَدّثَك أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (1) كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُنزل عَلَيْهِ فَقَدْ كَذَبَ، اللَّهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ} الْآيَةَ.
صحیح بخاری میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے (۱) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے، اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ رضی اللہ عنہا نے کی ۔ یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے۔ (صحیح بخاری:4612)
اور مزید لکھتے ہیں :
وقال ابن أبي حاتم: حدثنا أحمد بن منصور الرمادي، حدثنا سعيد بن سليمان، حدثنا عباد، عن هارون بن عنترة، عن أبيه قال: كنت عند ابن عباس فجاء رجل فقال له: إن ناسا يأتونا فيخبرونا أن عندكم شيئا لم يبده رسول الله صلى الله عليه وسلم للناس. فقال: ألم تعلم أن الله تعالى قال: {يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك} والله ما ورثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم سوداء في بيضاء.
وهذا إسناد جيد،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ» (5-المائدہ:67) پڑھی اور فرمایا ”قسم اللہ کی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا“۔ (ابن ابی حاتم) اس کی سند عمدہ ہے ؛
اور
وهكذا في صحيح البخاري من رواية أبي جحيفة وهب بن عبد الله السوائي قال: قلت لعلي بن أبي طالب، رضي الله عنه: هل عندكم شيء من الوحي مما ليس في القرآن؟ فقال: لا والذي فلق الحبة وبرأ النسمة، إلا فهما يعطيه الله رجلا في القرآن، وما في هذه الصحيفة. قلت: وما في هذه الصحيفة؟ قال: العقل، وفكاك الأسير، وألا يقتل مسلم بكافر
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے؟( جو خاص طور پر نبی مکرم ﷺ نے آپ کو بتائی ہو ) آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جو تخم کو اگاتا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے ؛
کہ کچھ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے ۔
(صحیح بخاری:3047)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس آیت کے شان نزول کے متعلق :
امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
’’ وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم قبل نزول هذه الآية يحرس (1) كما قال الإمام أحمد:
حدثنا يزيد، حدثنا يحيى، قال سمعت عبد الله بن عامر بن ربيعة يحدث: أن عائشة كانت تحدث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سهر ذات ليلة، وهي إلى جنبه، قالت: فقلت: ما شأنك يا رسول الله؟ قال: "ليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة؟ " قالت: فبينا أنا على ذلك إذ سمعت صوت السلاح فقال: "من هذا؟ " فقال: أنا سعد بن مالك. فقال: "ما جاء بك؟ " قال: جئت لأحرسك يا رسول الله. قالت: فسمعت غطيط رسول الله صلى الله عليه وسلم في نومه.
أخرجاه في الصحيحين من طريق يحيى بن سعيد الأنصاري، به. ‘‘
وفي لفظ: سهر رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة مقدمه المدينة. يعني: على أثر هجرته [إليها] (3) بعد دخوله بعائشة، رضي الله عنها، وكان ذلك في سنة ثنتين منها.
ترجمہ :
اس آیت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوکنے رہتے تھے، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے۔
چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار تھے انہیں نیند نہیں آ رہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کیا بات ہے؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی رضی اللہ عنہ آج پہرہ دیتا ، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا: کیسے آئے؟ جواب دیا اس لیے کہ رات بھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کروں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باآرام سوگئے، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ۔ (صحیح بخاری:2885)
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ (سنہ2 ھجری ) کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا: جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔
(سنن ترمذي:3046، قال الشيخ الألباني:صحیح)
نے سوال کیا ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴿67﴾
يا ايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس إن الله لا يهدي القوم الكافرين
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(سورۃ المائدہ (67)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
پہلے اس کا مرادی معنی :
اس آیت کریمہ میں تبلیغ وحی کا سخت تاکیدی حکم ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا۔ رسول، اللہ کا پیغمبر ہوتا ہے اس لئے اس کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو بےکم وکاست اور کسی بھی اندیشہ کو خاطر میں لائے بغیر لوگوں تک پہنچا دئے۔ اس میں کوتاہی کا مطلب فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فریضہ کو کما حقہ ادا کیا اور پورا قرآن جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیا۔ حجۃ الوداع (آخری حج) کے موقع جو آپ نے اپنی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل کیا تھا مجمعِ عام سے مخاطب ہو کر پوچھا۔( واَنْتُمْ تُسْالُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ : تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے۔ قَالُوْانَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَادَّیْتَ وَنَصَحْتَ
حاضرین نے کہا ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم تک (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا، اپنا فرض ادا کیا اور ہماری خیر خواہی کی۔
آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا( اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ " خدا یا تو گواہ رہ (مسلم کتاب الحج)
آج قرآن جیسا کہ وہ نازل ہوا تھا ہمارے ہاتھ میں موجود ہے اس لئے کل عدالتِ خداوندی میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کرسکے گا کہ اللہ کا پیغام پہنچا نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عماد الدین ابن کثیرؒ اس آیہ کے ذیل میں لکھتے ہیں :
قَالَ الْبُخَارِيُّ عِنْدَ تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَنْ حَدّثَك أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (1) كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُنزل عَلَيْهِ فَقَدْ كَذَبَ، اللَّهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ} الْآيَةَ.
صحیح بخاری میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے (۱) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے، اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ رضی اللہ عنہا نے کی ۔ یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے۔ (صحیح بخاری:4612)
اور مزید لکھتے ہیں :
وقال ابن أبي حاتم: حدثنا أحمد بن منصور الرمادي، حدثنا سعيد بن سليمان، حدثنا عباد، عن هارون بن عنترة، عن أبيه قال: كنت عند ابن عباس فجاء رجل فقال له: إن ناسا يأتونا فيخبرونا أن عندكم شيئا لم يبده رسول الله صلى الله عليه وسلم للناس. فقال: ألم تعلم أن الله تعالى قال: {يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك} والله ما ورثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم سوداء في بيضاء.
وهذا إسناد جيد،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ» (5-المائدہ:67) پڑھی اور فرمایا ”قسم اللہ کی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا“۔ (ابن ابی حاتم) اس کی سند عمدہ ہے ؛
اور
وهكذا في صحيح البخاري من رواية أبي جحيفة وهب بن عبد الله السوائي قال: قلت لعلي بن أبي طالب، رضي الله عنه: هل عندكم شيء من الوحي مما ليس في القرآن؟ فقال: لا والذي فلق الحبة وبرأ النسمة، إلا فهما يعطيه الله رجلا في القرآن، وما في هذه الصحيفة. قلت: وما في هذه الصحيفة؟ قال: العقل، وفكاك الأسير، وألا يقتل مسلم بكافر
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے؟( جو خاص طور پر نبی مکرم ﷺ نے آپ کو بتائی ہو ) آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جو تخم کو اگاتا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے ؛
کہ کچھ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے ۔
(صحیح بخاری:3047)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس آیت کے شان نزول کے متعلق :
امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
’’ وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم قبل نزول هذه الآية يحرس (1) كما قال الإمام أحمد:
حدثنا يزيد، حدثنا يحيى، قال سمعت عبد الله بن عامر بن ربيعة يحدث: أن عائشة كانت تحدث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سهر ذات ليلة، وهي إلى جنبه، قالت: فقلت: ما شأنك يا رسول الله؟ قال: "ليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة؟ " قالت: فبينا أنا على ذلك إذ سمعت صوت السلاح فقال: "من هذا؟ " فقال: أنا سعد بن مالك. فقال: "ما جاء بك؟ " قال: جئت لأحرسك يا رسول الله. قالت: فسمعت غطيط رسول الله صلى الله عليه وسلم في نومه.
أخرجاه في الصحيحين من طريق يحيى بن سعيد الأنصاري، به. ‘‘
وفي لفظ: سهر رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة مقدمه المدينة. يعني: على أثر هجرته [إليها] (3) بعد دخوله بعائشة، رضي الله عنها، وكان ذلك في سنة ثنتين منها.
ترجمہ :
اس آیت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوکنے رہتے تھے، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے۔
چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار تھے انہیں نیند نہیں آ رہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کیا بات ہے؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی رضی اللہ عنہ آج پہرہ دیتا ، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا: کیسے آئے؟ جواب دیا اس لیے کہ رات بھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کروں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باآرام سوگئے، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ۔ (صحیح بخاری:2885)
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ (سنہ2 ھجری ) کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا: جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔
(سنن ترمذي:3046، قال الشيخ الألباني:صحیح)