• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آیت خاتم النبیینْ کا لغوی پہلو۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اب اس دوسرے مسئلہ کو لیتا ہوں۔
تحریم کی جو قِسمیں آپ نے گنوائی ہیں کے مطابق حضرت مرزا صاحب ؑ نے تحریم لغیرہ ہی فرمائی ہے نہ کہ تحریم لعینہ ۔ پھر جیسا کہ آپ نے فرمایا :


حضرت مرزا صاحب ؑ نے بعینہ یہی بحث فرمائی ۔ لگتا ہے آپ نے مطالعہ نہیں کیا اور صرف ایک شعر کو ہی لے کر بھاگ پڑے۔ اور جیسا آپ نے فرمایا حضرت مرزا صاحب ؑ نے جہاد کے وجوب و عدم وجوب پر ہی بحث فرمائی تھی ۔ملاحظہ ہو:
جہاد کے لغوی معنی:
جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔ (تاج العروس)
مولاناسید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں‘‘ (سیرۃ النبی جلد۵ صفحہ ۲۱۰ طبع اول۔ دارالاشاعت کراچی نمبر۱)​
جہاد کی اقسام

قرآن اور حدیث سے جہاد کی چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ نفس اور شیطان کے خلاف جہاد ۲۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ ۳۔جہاد بالمال ۴۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ)
نفس اور شیطان کے خلاف جہاد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
ترجمہ:۔ اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر فرمایا۔
’’تم جہاد اصغر یعنی چھوٹے جہاد سے لوٹ کر جہاد اکبر یعنی بڑے جہاد کی طرف آئے ہو (اور جہاد اکبر) بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ہے‘‘۔(کنز العمال۔ کتاب الجہاد فی الجہاد الاکبر من الاعمال جلد۴حدیث۱۱۲۶۰۔ مطبوعہ مکتبہ التراث الاسلامي حلب)​
جماعت احمدیہ کے افراد اس جہادمیں بھر پور حصہ لے رہے ہیں اور دوسرے مسلمانوں سے آگے ہیں۔ جس کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔
۱۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:۔
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا‘‘ (زندہ رود۔ صفحہ۵۷۶از ڈاکٹر جاوید اقبال)​
۲۔ مقبول الرحیم مفتی روزنامہ مشرق میں لکھتے ہیں:۔
’’جماعت احمدیہ کے اندر اہل، باصلاحیت اور محنتی افراد ہونے کا ایک سبب بلکہ اہم ترین سبب یہ ہے کہ انہوں نے پچھلی ایک صدی کے دوران ہر سطح پر ہر قسم کے جھگڑوں اور اختلافات سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کر کے اپنی جماعت اور جماعت کے افراد کی اصلاح و فلاح کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش و محنت کی ہے‘‘۔(روزنامہ مشرق۔ احمدی مسلم کشمکش کا حل مخاصمت یا مکالمہ از مقبول الرحیم مفتی ۲۴ فروری۱۹۹۴ء)​
۳۔ شیخ محمد اکرم صاحب ایم اے لکھتے ہیں:۔
’’ان (مسلمانوں۔۔۔ ناقل) کے مقابلے میں احمدیہ جماعت میں غیرمعمولی مستعدی، جوش، خود اعتمادی اور باقاعدگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے روحانی امراض کاعلاج ان کے پاس ہے‘‘۔ (موج کوثر۔ صفحہ۱۹۲)​
جہاد بالقرآن

اس جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کی جائے نیز توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کی جائے اور قرآنی تعلیم کی نشر و اشاعت کی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا کَبِيْرًا‏ (الفرقان:۵۳)
ترجمہ:۔ پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (یعنی قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔
جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
۱۔ مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے لکھا:۔
’’گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں‘‘ (اخبار زمیندار لاہور دسمبر ۱۹۲۶ء)​
۲۔ حکیم عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر رسالہ المنیر لائلپور لکھتے ہیں:۔
’’قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر لائل پور۔ صفحہ۱۰۔ ۲ مارچ۱۹۵۶ء)​
۳۔ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فیروز پوری بعنوان ’’دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ‘‘ لکھتے ہیں:
’’قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں ان کے مبلغین دور دراز ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ بیوی ، بچوں اور گھر بار سے دور قوت لایموت پر قانع ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤوں میں یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ اہلحدیث لاہور ۱۱ ستمبر ۱۹۹۲ء۔ صفحہ ۱۱۔۱۲)​
۴۔ جناب عبد الحق صاحب بھریا روڈ سندھ اپنے مضمون ’’علمائے اسلام سے گذارش‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’قادیانی ٹیلیویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر، درس احادیث، حمد و نعت اور تمام قوموں کے قادیانیوں خصوصا عربوں کو بار بار پیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں‘‘۔ (ہفت روزہ الاعتصام ۲۴جنوری۱۹۹۷ء۔ جلد۴۹۔ شمارہ نمبر۴۔ صفحہ۱۷)​
۵۔ مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’روسی زبان میں قادیانی جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ کروا کر پورے روس میں تقسیم کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو زبانوں میں قادیانیوں نے تراجم شائع کروائے ہیں جو پوری دنیا میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔‘‘ (ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد نمبر ۲۔ شمارہ ۴۷۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر؁ ۲۰۰۰ء ۔ صفحہ ۳۱)​
جہاد بالمال

اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی اشاعت کے لئے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس جہاد کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے
وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ‌ؕ (التوبہ:۴۱)
ترجمہ:۔ اور اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی ایک بے مثال اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔
۱۔ عبد الرحیم اشرف صاحب مدیر المنیر فیصل آباد نے لکھا:۔
’’ان (جماعت احمدیہ) کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر۲مارچ۱۹۵۶ء۔ صفحہ۱۰)​
۲۔ مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’ہر قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے قادیانی جماعت کو دیتا ہے، ہزاروں افراد اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کے لئے وصیت کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ۵لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے قادیانی جماعت نے T.V لیا ہوا ہے۔ ۲۴گھنٹے T.V چینل چلتا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں‘‘۔( ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد۲۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر۲۰۰۰ء۔ شمارہ ۴۷۔ صفحہ۳۱)​
۳۔ مسلک اہل حدیث کا ترجمان ہفت روزہ الاعتصام لکھتا ہے:۔
’’ایک تجزےے کے مطابق دنیا میں موجود ہر قادیانی اپنی ماہوار آمدنی کا دس فیصد رضاکارانہ طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ پر صرف کرتا ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت پر خرچ کرنا اس کے علاوہ ہے انہی ماہانہ فنڈز کی بدولت اس وقت ایک مستقل T.V اور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جاچکا ہے جس سے چوبیس گھنٹے قادیانیت کا تبلیغی مشن جاری رہتا ہے‘‘۔(اداریہ از حافظ عبد الوحید۔ الاعتصام ۱۱ فروری ۲۰۰۰ء۔ جلد۵۲۔ شمارہ ۵۔ صفحہ۴)​
جہاد بالسیف یا دفاعی جنگ

جہاد کی چوتھی قسم دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف ہے یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ‏ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ؕ (الحج:۴۰۔۴۱)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔ چنانچہ سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا‘‘(فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۲۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)​
مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے:۔
’’۱۔ امارت ۲۔ اسلامی نظام حکومت ۳۔ دشمنوں کی پیش قدمی و ابتدا‘‘ (اخبار زمیندار ۱۴جون ۱۹۳۴ء)​
خواجہ حسن نظامی نے جہاد کے لئے ۱۔ کفار کی مذہب میں مداخلت ۲۔امام عادل ۳۔ حرب و ضرب کے سامان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (رسالہ شیخ سنوسی)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ :۔
۱۔مسلمانوں میں امام و خلیفہ وقت موجود ہو ۲۔ مسلمانوں میں ایسی جمیعت حاصل جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسر شوکت اسلام کا خوف نہ ہو۔ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۵۱۔۵۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)​
خلاصہ یہ کہ علماء کے نزدیک جہاد بالسیف کے لئے پانچ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ ۱۔امام وقت کا ہونا ۲۔اسلامی نظام حکومت ۳۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو ۴۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو ۵۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتدائ۔
ہندوستان میں جہاد بالسیف اور علماء زمانہ

۱۔ اہل حدیث کے مشہور عالم و راہنما سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت و معصیت ہوگا‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۵۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)​
۲۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:۔
’’اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرایط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت و جمیعت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں‘‘ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۷۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)​
۳۔ حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہیدسے ایک شخص نے انگریزوں سے جہاد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:۔
’’ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے‘‘ (سوانح احمدی۔ صفحہ۵۷۔ مرتبہ محمد جعفر تھانیسری صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)​
۴۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں۔ نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہر گز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے،، (رسالہ شیخ سنوسی۔ صفحہ۱۷)​
۵۔ مفتیان مکہ کے فتاویٰ کے بارہ میں شورش کاشمیری مدیر چٹان لکھتے ہیں:۔
’’جمال دین ابن عبد اللہ، شیخ عمر، حنفی مفتی مکہ معظمہ، احمد بن ذنبی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ سے اس مطلب کے فتوے حاصل کئے گئے کہ ہندوستان دارالسلام ہے‘‘ (کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفہ شورش کاشمیری۔ صفحہ۱۴۱۔ مطبع چٹان پرنٹنگ پریس۔ ۱۹۷۳ء)​
۶۔ سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:۔
’’مسلمان ہمارے گورنمنٹ کے مست امن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے‘‘ (اسباب بغاوت ہند مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ۳۱۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)​
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو کیوں ملتوی کیا؟

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد کے التوا کا اعلان اپنی طرف سے ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آنحضرت ؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا التوا ہو جائے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
’’یَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ (وہ جنگ کو موقوف کر دے گا) (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)​
اسی طرح فرمایا
اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)
ان پیشگوئیوں میں یہ اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس جہاد کی شرائط موجود نہیں ہوں گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جو مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی تھے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق قتال کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ آپ نے لکھا:۔
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۷۷۔۷۸)​
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں جہاد کی شرائط مفقود ہیں ۔۔۔ امن اور عافیت کے دور میں جہاد نہیں ہوسکتا‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۸۲)​
پس حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق اس کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی بیان فرمایاکہ اگر جہاد بالسیف کی شرائط موجود ہوں تو پھر یہ جہاد بھی ضروری ہے۔ آپ نے واضح فرمایا
’’ہم (اہل اسلام کو) یہ بھی حکم ہے کہ دشمن جس طرح ہمارے خلاف تیاری کرتا ہے ہم بھی اس کے خلاف اسی طرح تیاری کریں‘‘ (حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد۱۴۔ صفحہ۴۵۴)​
نیز یہ قرآنی اصول بیان فرمایا کہ
’’اگر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں‘‘ (نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸۔ صفحہ۶۲)​
جہاد بالسیف اور جماعت احمدیہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جہاد بالسیف کے التوا کا اعلان فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ جب اس جہاد کی شرائط موجود ہوں گی تو یہ جہاد بھی ہوگا۔ چنانچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب حالات تبدیل ہوئے تو جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے فرمایا:۔
۱۔’’ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی۔ اور وہ غیر قوم امن پسند تھی۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں‘‘
۲۔’’اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ (تائید میں) ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی‘‘
۳۔’’جیسے نماز پڑھنافرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے‘‘
۴۔’’جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے‘‘
۵ ’’جب کبھی جہاد کا موقع آئے تو ۔۔۔ اس میدان میں بھی ہم سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء۔ صفحہ۹۔۱۲۔۱۴)
پاکستان کے ہر مشکل وقت میں احمدی مجاہدین نے شاندار کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ نمونۃً ملاحظہ ہوں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور صدر کشمیر کمیٹی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا سید حبیب صاحب مدیر ’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا :۔
’’میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی محنت، ہمت ،جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا ہے اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں انکی عزت کرتا ہوں‘‘ (تحریک قادیان۔ صفحہ۴۲۔ مطبع مقبول عام پریس لاہور)​
۲۔قیام پاکستان کے معاً بعد کشمیر میں ہونے والی لڑائی میں احمدی مجاہدین نے ’’فرقان بٹالین‘‘ کی صورت میں بھر پور حصہ لیا۔
چنانچہ گلزار احمد صاحب فدا ؔ ایڈیٹر اخبار جہاد سیالکوٹ نے۱۶جون ۱۹۵۰ء میں لکھا :۔
’’فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ مؤقف کو مضبوط بنایا‘‘ (اخبار جہاد سیالکوٹ۔ ۱۶ جون ۱۹۵۰ء)​
۳۔ میجر جنرل اختر حسین ملک صاحب:۔ ان کے متعلق ۱۹۶۵ء کی جنگ میں شاندار خدمات پر ہفت روزہ الفتح کراچی اپنے کالم مااحوال واقعی میں لکھتا ہے:۔
’’۱۹۶۵ء کی جنگ میں انہوں نے انتہائی دانشمندی، اعلیٰ ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری سے کام لیتے ہوئے دشمن کے چھکے چھوڑا دئے ۔۔۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے اگر کمان اختر ملک کے پاس رہتی تو کشمیر فتح ہوگیا تھا‘‘( ہفت روزہ الفتح کراچی۔ ۱۳تا ۲۰ فروری ۱۹۷۶ء۔ صفحہ۸)​
۴۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید:۔ آپ نے۱۹۶۵ء میں رن کچھ میں اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں چھمب کے محاذ پر زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ چھمب افتخار آباد کے نام سے موسوم ہوکر آج بھی آپ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
۵۔ برگیڈئیرعبد العلی ملک ہلال جرأت: ؁۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے۔ (امروز لاہور۔ ۲۳ اگست ۦ؁۱۹۶۹ء)
پس جماعت احمدیہ کسی بھی جہاد کے میدان میں نہ صرف پیچھے نہیں بلکہ اتنی آگے ہے کہ کوئی دوسرا اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ خواہ وہ اصلاح نفس کا جہاد ہو یا دعوت قرآن کا۔ وہ مالی جہاد ہو یا جہاد بالسیف۔ ہر میدان میں اس جماعت نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے نصب کئے ہیں کہ دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔ والفضل ما شہدت بہ الاعداء
جہاد کے متعلق ارشادات:
’’ اس نکتہ چین نے جو جہاد اسلام کا ذکر کیا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن بغیر لحاظ کسی شرط کے جہاد پر برانگیختہ کرتا ہے سو ا س سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ اور افتراء نہیں ۔اگر کوئی سوچنے والا ہو ۔ سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف یوں ہی لڑانے کے لئے حکم نہیں فرماتا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو اس پر ایمان لانے سے روکیں اور اس کے دین میں د اخل ہونے سےروکتے ہیں اور اس بات سے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کار بند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور وہ ان لوگوں سے لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنون کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنون پر واجب ہے کہ ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں۔ ‘‘(نور الحق حصہ اول ۔ترجمہ از عربی عبارت ۔روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۶۲ )

یعنی بنفسہ جہاد نہیں،جہاد کے غلط تصوّرات اسلام کے لئے خطرناک تھے۔
یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ’’ تنسیخ جہاد ‘‘ اب اور سنئے ! کس چیز کو حرام قرار دیا ، کس چیز کے خلاف آپ نے جہاد کا علم بلند کیا ۔ سو واضح ہو کہ بعض جاہل علماء اور پادریوں کے غلط تصورات تھے جن کے خلاف آپ ؑ نے آواز بلند کی ہے ۔ ان علماء کے غلط تصوّرات کے نتیجہ میں اسلام کو تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچنا تھا کیونکہ ان میں لڑنے کی کوئی طاقت ہی نہیں تھی ہاں نقصان کے بہت سے اندیشے اور خطرات تھے جو اُن کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’ سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راست باز اور نبیوں کی روح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں ان کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ۔ پس وہ اس حکم کو پا کر شِیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ ان کے ہاتھوں میں زور ہے نہ ان کے بازوؤں میں طاقت۔ بعض ان میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے ان کی ٹانگیں مضبوط طور پر ان اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا ۔ پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہی۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا ان کا شکار ہے اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پا کر بندوق کا فائر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں ۔ انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ ان کے نزدیک خواہ مخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں۔ کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ مخواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں ۔ کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ ، بے جرم ، بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ ، اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے ۔ افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا ۔یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے ؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے ؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے۔ ‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۲ ، ۱۳)
’’ فرفعت ھٰذہ السنّۃ برفع اسبابھا فی ھٰذہ الا یّام ‘‘
کہ تلوار کے ساتھ جہاد کے شرائط پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں رہا۔پھر فرمایا :۔
’’ واُمرنا ان نعدّ للکافرین کما یعدّون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام ‘‘
اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اس قسم کی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ ہم سے کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں اس وقت تک ہم بھی ان پر تلوار نہ اٹھائیں۔ ‘‘ (حقیقۃ المہدی ۔روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۵۴)
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں ۔‘‘ (مکتوب بنام حضرت میر ناصر نوابؓ ۔مندرجہ پیش لفظ صفحہ ۱۷۔روحانی خزائن جلد ۱۷)

وہی بحث ہے جو آپ فرما رہے تھے ہونی چاہیے ۔
میں نے اس میں "حرام" والے جملے کو ہائی لائٹ کر دیا ہے۔ آپ ذرا حرمت لغیرہ کے لیے وہ تمام چیزیں ہائیلائٹ کردیں جو خود حرام ہیں اور جہاد کے ساتھ شامل ہیں اور ان کی وجہ سے جہاد کو پورے عالم میں مطلقاً ہر طریقے سے حرام قرار دیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ ہائی لائٹ شدہ چیزوں کی
حرمت آپ فقہ کی کتب سے دکھائیں گے۔ آپ کے مرزا صاحب نے فقہ حنفی کا التزام کیا تھا تو فقہ حنفی کے مفتی بہ اقوال سے ہی دکھائیے گا۔
جامعہ میں آپ کو امید ہے فقہ حنفی کی کتب سے آشنائی تو دلائی گئی ہوگی۔
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
میں نے اس میں "حرام" والے جملے کو ہائی لائٹ کر دیا ہے۔ آپ ذرا حرمت لغیرہ کے لیے وہ تمام چیزیں ہائیلائٹ کردیں جو خود حرام ہیں اور جہاد کے ساتھ شامل ہیں اور ان کی وجہ سے جہاد کو پورے عالم میں مطلقاً ہر طریقے سے حرام قرار دیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ ہائی لائٹ شدہ چیزوں کی
حرمت آپ فقہ کی کتب سے دکھائیں گے۔ آپ کے مرزا صاحب نے فقہ حنفی کا التزام کیا تھا تو فقہ حنفی کے مفتی بہ اقوال سے ہی دکھائیے گا۔
جامعہ میں آپ کو امید ہے فقہ حنفی کی کتب سے آشنائی تو دلائی گئی ہوگی۔
اشماریہ صاحب
اب یہ بحث فقط وقت کا ضیاع ہے ۔ اس لئے اسے یہاں ختم کرتے ہیں ۔ پڑھنے والے خود ہی سمجھ لیں گے کہ کہاں نور ہے اور کہاں تاریکی۔
خاتمہ
اب میں اس بات چیت کی کاروائی کواوّل سے آخر تک مختصراً بیان کر کے اجازت چاہوں گا ۔ باقی سمجھنے والے سمجھ جائیں گے ۔
خاکسار:- آیت خاتم النبیین ؐ کا لغوی پہلو مفردات القرآن کی روشنی میں۔ لفظ ختم کے 2 اصلی معانی اور 2 مجازی معانی ۔ ختم نبوت سے مراد مرتبی ہے نہ کہ زمانی ۔ حوالہ مولانا قاسم نانوتوی ۔نیز اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت مستقلاً بند ہے ۔نیز لا نبی بعدی پر علامائے سلف (مولانا قاسم نانوتوی،تفسیر عمدۃ البیان ، ابن عربی ؒ، عبد الوہاب شعرانی ؒ، شاہ ولی اللہ محڈّث دہلوی ؒ، حضرت ملاّ علی قاری ؒ، حضرت عائشہؓ ، نواب صدیق حسن خان صاحب ) نے کیا ارشادات فرمائے ہیں وہ بھی پیش کئے ہیں جن کا تا حال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ۔

اشماریہ صاحب بجائے اسکے کہ ختم کی لغوی بحث کو حل کرتے یا اقوال ائمہ سلف ؒ کا ردّ فرماتے ۔ تشریعی اور غیر تشریعی کی بحث میں پڑ گئے اور اسود عنسی اور مسیلمہ کی کیا حیثیت ہے جیسے مسائل میں چلے گئے ۔

اوّلاً تشریعی و غیر تشریعی کی جو بھی تعریف کر لی جائے ۔ ان علماء کے نزدیک جن کا نام لیا ہے غیر تشریعی کی اجازت موجود ہے جو امت میں بطور نبی آ سکتا ہے ۔

لیکن پھر تعریف بیان کی تو وہ عیسیٰؑ کے صاحب ِ شریعت ہونے پر دلائل دینے لگے ۔ حالانکہ وہ خود جانتے ہیں کہ ایک طبقہ ایسا علماء میں موجود ہے جو انہیں شرعی تسلیم نہیں کرتا ۔ بہر حال انکے دلائل کا جواب دیا گیا اور دلائل بھی دئیے گئے ۔ لیکن اگر مان بھی لیں کہ عیسیٰ ؑ شرعی نبی تھے ( جو کہ قرآن سے ثابت نہیں ہوتا) تب بھی سوال خاتم کی لغوی بحث اور اس پر علماء سلف کے ارشادات کا قائم تھا جس پر حضرت عیسیٰ کی شریعت کے ثابت ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم ابھی تک نہ لغوی پہلو ردّ کیا گیا ہے نہ علمائے سلف کے اقوال ۔

دوسرا مسئلہ جس کا اس خاتم النبیین ؐ کی لغوی بحث کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ نے جہاد کو کس صورت میں حرام کیا تھا کا ہے ۔ یہ بحث میں لے آئے ۔ جس کا شافی جواب بھجوا چکا ہوں ملاحظہ فرما لیں ۔
پھر یہ لفظ بعد کے معانی جو مدّ مقابل اور مخالف کہ جو میں نے کئے تھے کے پیچھے پڑ گئے ۔ جنکو قرآن کریم سے اورلغت کی کتب سے ثابت کر چکا ہوں ۔ ( بعد کے معانی غیر کے آئے ہیں جن میں مخالفت کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اور دون کے بھی آئے ہیں جن میں مقابل ، غیر کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اشماریہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ لکھ دیں کہ مطلقاً ان دونوں الفاظ میں(غیر اور دون) میں مقابل ، یا مخالف کا مفہوم نہیں پایا جاتا ۔جو کہ وہ تاحال نہیں لکھ رہے ۔ مجھے یقین ہے وہ آگے بھی ایسا نہ کریں گے ۔ فما علینا الا البلاغ ) بہرحال یہ بھی ایک فروعی مسئلہ ہے ۔ میں بحث کی خاطر مان بھی لوں کہ انکے معانوں میں یہ بات شامل نہیں تب بھی بتائیں کہ ختم کی بحث اور علمائے سلف کے اقوال کا کیا ردّ فرمائیں گے ؟؟

اشماریہ صاحب پھر بھی مسئلہ خاتم کی لغوی بحث اور علمائے سلف کی اس پر تشریح کو ردّ کرنے کی طرف نہیں آئے نہ آ رہے ہیں جو کہ مرجع بحث تھا۔۔

اور اب تک موصوف حضرت عیسٰی ؑ کی شریعت کو ثابت کرنے میں لگے ہیں ۔ جس کا خاکسار ردّ کر چکا ہے ۔ اب اس مسئلہ کو اور کھینچنا وقت کا ضیاع ہے ۔ لیکن میں انکی شریعت کو مان بھی لوں ( جو کہ قرآن سے کبھی ثابت نہ ہوگی ) تو پھر بھی بتائیں کہ خاتمیت کے مسئلہ کا کیا توڑ دیں گے ؟؟۔

خاکسار طالب علم ہے اور اتنا وقت اس غیر متعلقہ بحث کو نہیں دے سکتا ۔ اب موصوف سے میری یہی درخواست ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمیشہ کی طرح اشماریہ صاحب نہ خاتم کی لغوی بحث پر کلام فرمائیں گے نہ علمائے سلف ؒ کے اقوال پر روشنی ڈالیں گے ۔ کیونکہ انہوں نے طریق یہ اختیار کیا ہے کہ فروعی مسئلہ کو اتنا کھینچو کہ اصل کی طرف نظر نہ جائے۔ اسلئے خاکسار کی طرف سے بس آخری سوال یہ ہے کہ :-
خاتم کی لغوی بحث(مفردات ) پر جرح فرمائیں اورایک ایک کر کے علمائے سلف ؒ کے اقوال کا ردّ فر ما دیں۔

باقی سارے فروعی مسائل ہیں نہ انکو میری توجیہہ پسند آئے گی نہ مجھے انکی۔

والسلام
خاکسار
نجیب اللہ خاں ایاؔز
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ صاحب
اب یہ بحث فقط وقت کا ضیاع ہے ۔ اس لئے اسے یہاں ختم کرتے ہیں ۔ پڑھنے والے خود ہی سمجھ لیں گے کہ کہاں نور ہے اور کہاں تاریکی۔
خاتمہ
اب میں اس بات چیت کی کاروائی کواوّل سے آخر تک مختصراً بیان کر کے اجازت چاہوں گا ۔ باقی سمجھنے والے سمجھ جائیں گے ۔
خاکسار:- آیت خاتم النبیین ؐ کا لغوی پہلو مفردات القرآن کی روشنی میں۔ لفظ ختم کے 2 اصلی معانی اور 2 مجازی معانی ۔ ختم نبوت سے مراد مرتبی ہے نہ کہ زمانی ۔ حوالہ مولانا قاسم نانوتوی ۔نیز اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت مستقلاً بند ہے ۔نیز لا نبی بعدی پر علامائے سلف (مولانا قاسم نانوتوی،تفسیر عمدۃ البیان ، ابن عربی ؒ، عبد الوہاب شعرانی ؒ، شاہ ولی اللہ محڈّث دہلوی ؒ، حضرت ملاّ علی قاری ؒ، حضرت عائشہؓ ، نواب صدیق حسن خان صاحب ) نے کیا ارشادات فرمائے ہیں وہ بھی پیش کئے ہیں جن کا تا حال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ۔

اشماریہ صاحب بجائے اسکے کہ ختم کی لغوی بحث کو حل کرتے یا اقوال ائمہ سلف ؒ کا ردّ فرماتے ۔ تشریعی اور غیر تشریعی کی بحث میں پڑ گئے اور اسود عنسی اور مسیلمہ کی کیا حیثیت ہے جیسے مسائل میں چلے گئے ۔

اوّلاً تشریعی و غیر تشریعی کی جو بھی تعریف کر لی جائے ۔ ان علماء کے نزدیک جن کا نام لیا ہے غیر تشریعی کی اجازت موجود ہے جو امت میں بطور نبی آ سکتا ہے ۔

لیکن پھر تعریف بیان کی تو وہ عیسیٰؑ کے صاحب ِ شریعت ہونے پر دلائل دینے لگے ۔ حالانکہ وہ خود جانتے ہیں کہ ایک طبقہ ایسا علماء میں موجود ہے جو انہیں شرعی تسلیم نہیں کرتا ۔ بہر حال انکے دلائل کا جواب دیا گیا اور دلائل بھی دئیے گئے ۔ لیکن اگر مان بھی لیں کہ عیسیٰ ؑ شرعی نبی تھے ( جو کہ قرآن سے ثابت نہیں ہوتا) تب بھی سوال خاتم کی لغوی بحث اور اس پر علماء سلف کے ارشادات کا قائم تھا جس پر حضرت عیسیٰ کی شریعت کے ثابت ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم ابھی تک نہ لغوی پہلو ردّ کیا گیا ہے نہ علمائے سلف کے اقوال ۔

دوسرا مسئلہ جس کا اس خاتم النبیین ؐ کی لغوی بحث کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ نے جہاد کو کس صورت میں حرام کیا تھا کا ہے ۔ یہ بحث میں لے آئے ۔ جس کا شافی جواب بھجوا چکا ہوں ملاحظہ فرما لیں ۔
پھر یہ لفظ بعد کے معانی جو مدّ مقابل اور مخالف کہ جو میں نے کئے تھے کے پیچھے پڑ گئے ۔ جنکو قرآن کریم سے اورلغت کی کتب سے ثابت کر چکا ہوں ۔ ( بعد کے معانی غیر کے آئے ہیں جن میں مخالفت کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اور دون کے بھی آئے ہیں جن میں مقابل ، غیر کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اشماریہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ لکھ دیں کہ مطلقاً ان دونوں الفاظ میں(غیر اور دون) میں مقابل ، یا مخالف کا مفہوم نہیں پایا جاتا ۔جو کہ وہ تاحال نہیں لکھ رہے ۔ مجھے یقین ہے وہ آگے بھی ایسا نہ کریں گے ۔ فما علینا الا البلاغ ) بہرحال یہ بھی ایک فروعی مسئلہ ہے ۔ میں بحث کی خاطر مان بھی لوں کہ انکے معانوں میں یہ بات شامل نہیں تب بھی بتائیں کہ ختم کی بحث اور علمائے سلف کے اقوال کا کیا ردّ فرمائیں گے ؟؟

اشماریہ صاحب پھر بھی مسئلہ خاتم کی لغوی بحث اور علمائے سلف کی اس پر تشریح کو ردّ کرنے کی طرف نہیں آئے نہ آ رہے ہیں جو کہ مرجع بحث تھا۔۔

اور اب تک موصوف حضرت عیسٰی ؑ کی شریعت کو ثابت کرنے میں لگے ہیں ۔ جس کا خاکسار ردّ کر چکا ہے ۔ اب اس مسئلہ کو اور کھینچنا وقت کا ضیاع ہے ۔ لیکن میں انکی شریعت کو مان بھی لوں ( جو کہ قرآن سے کبھی ثابت نہ ہوگی ) تو پھر بھی بتائیں کہ خاتمیت کے مسئلہ کا کیا توڑ دیں گے ؟؟۔

خاکسار طالب علم ہے اور اتنا وقت اس غیر متعلقہ بحث کو نہیں دے سکتا ۔ اب موصوف سے میری یہی درخواست ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمیشہ کی طرح اشماریہ صاحب نہ خاتم کی لغوی بحث پر کلام فرمائیں گے نہ علمائے سلف ؒ کے اقوال پر روشنی ڈالیں گے ۔ کیونکہ انہوں نے طریق یہ اختیار کیا ہے کہ فروعی مسئلہ کو اتنا کھینچو کہ اصل کی طرف نظر نہ جائے۔ اسلئے خاکسار کی طرف سے بس آخری سوال یہ ہے کہ :-
خاتم کی لغوی بحث(مفردات ) پر جرح فرمائیں اورایک ایک کر کے علمائے سلف ؒ کے اقوال کا ردّ فر ما دیں۔

باقی سارے فروعی مسائل ہیں نہ انکو میری توجیہہ پسند آئے گی نہ مجھے انکی۔

والسلام
خاکسار
نجیب اللہ خاں ایاؔز
بہت جلدی راہ فرار اختیار کر لی جناب والا!

کہانی کے آخر میں آپ "ختم شد" لگانا بھول گئے تھے اس لیے کہانی کا دوسرا حصہ میں مکمل کر دوں (مسکراہٹ)۔

آپ نے "ختم" کی لغوی بحث فرمائی۔ اپنی بحث کے درمیان میں یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آ سکتا، غیر تشریعی آ سکتا ہے۔ یہی بات آپ نے اسلاف کے بعض حوالہ جات سے ثابت فرمائی۔
اس پر میں نے دو اصولی سوالات کیے:

  1. تشریعی اور غیر تشریعی نبی میں کیا فرق ہے؟ (ظاہر ہے ان میں فرق معلوم ہوگا تو ہم کہیں گے کہ کون آ سکتا ہے اور کون نہیں)
  2. اسود عنسی اور مسیلمہ (یعنی نبی کریم ﷺ کے بعد جو بھی نبی آئے) وہ تشریعی تھے یا غیر تشریعی؟ (آپ نے مرزا قادیانی کی نبوت کا تو کہا نہیں تھا اس لیے ہمیں سب مدعیوں کے بارے میں جاننا تھا کہ ان میں سے کون کون سا نبی ہے)
پہلے سوال کا آپ نے جو جواب دیا وہ ناقص تھا، نہ تو وہ اپنی مثالوں کو جامع تھا جیسا کہ عیسیؑ کو اور نہ ہی وہ آپ کے مرزا صاحب کی نبوت کو درست قرار دیتا تھا کیوں کہ مرزا صاحب نہ صرف جہاد کو حرام کر گئے ہیں بلکہ اپنے خلاف خود گواہی دے کر یہ فرما گئے ہیں کہ صاحب شریعت نبی کی وحی میں امر و نہی ہوتے ہیں اور میری وحی میں بھی امر و نہی موجود ہیں۔
دوسرے سوال کا جواب آپ نے تاحال نہیں دیا۔ آپ نے اسود عنسی اور مسیلمہ پر بحث چھیڑ دی کہ انہوں نے نبی ﷺ کے مد مقابل دعوی کیا تھا اور اس پر بات آگے چل پڑی، لیکن آپ نے تاحال قارئین کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اور ان کے بعد آنے والے نبیوں میں سے کون تشریعی تھے جنہیں ہم نہ مانیں اور کون غیر تشریعی تھے۔

ان دو سوالوں کے جوابات کے بعد قارئین کے لیے یہ واضح ہو جاتا کہ غیر تشریعی نبی ہوتا کیا ہے اور امت میں غیر تشریعی نبی کون کون سے آ چکے ہیں۔ پھر ہم آپ کے حوالہ جات اور تشریحات کو دیکھتے۔
ابھی تو ہم بڑے پیار سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب والا! ہر وہ نبی جس کی وحی میں کسی بھی قسم کا امر یا کسی بھی قسم کی نہی موجود ہو، چاہے وہ امر اور نہی پچھلے نبی کی وحی سے ماخوذ ہو یا نئے ہوں، وہ تشریعی یا صاحب شریعت نبی ہو گا۔ یہ تعریف آپ کے مرزا صاحب کی کی ہوئی ہے جس میں "چاہے" سے شروع ہونے والا جملہ ہمارا اپنا ہے کیوں کہ مرزا صاحب نے خود کہا ہے: "اگر کہو کہ شریعت سے مراد وہ شریعت ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔" (روحانی خزائن، 17۔436)
جب مرزا صاحب خود مانتے ہیں کہ وہ صاحب شریعت ہیں تو پھر ہم کیوں انہیں غیر تشریعی قرار دیں، اور جب امت میں کسی کے نزدیک صاحب شریعت یا تشریعی پیغمبر نہیں آ سکتا تو مرزا صاحب پھر کیا ہوئے؟ یہ آپ جانیں یا قارئین۔

اس لیے میں نے آپ کو موقع دیا تھا کہ آپ تشریعی و غیر تشریعی کی اپنی پسند کی تعریف کر لیں جو جامع بھی ہو اور مانع بھی۔

اب اگر آپ نہیں کرنا چاہتے تو پھر ہم آپ کے مرزا صاحب کی تعریف کو ہی لے لیتے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں! میں اس تعریف کو لے کر ہی سہی لیکن آپ کے حوالہ جات پر گفتگو ان شاء اللہ ضرور کروں گا۔
فی الحال دو تین دن کی مصروفیت ہے۔۔۔ اس کے بعد میں آپ کے حوالہ جات پر بات شروع کرتا ہوں۔
لیکن پہلے ایک کام کر دیجیے۔۔۔۔ آپ نے جن کتب سے حوالے دیے ہیں ان میں اکثر کتب نیٹ پر نہیں ملتیں اور بعض تو نایاب ہیں۔ اس لیے اپنے حوالہ جات کے اسکین بھی لگا دیجیے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ایسے ممبران رٹا والے ہوتے ہیں جنہیں چند ایک لفظوں کو دکھا کر رٹا لگوایا جاتا ہے اور یہ جہاں بھی ملیں گے اپنی بات لکھ کر اسی کے گرد گھومتے رہیں گے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے علمی کنورسیشن ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کے لئے بہت سے علوم پر قابض ہونا ضروری ہے، میرا ایسے ممبران پر جہاں بھی واسطہ پڑا سب اس جیسے ہی نکلے۔ ایک خان صاحب ہوتے تھے امریکہ سے، پرویزی سوچ کے، خود ہی قرآن کا ترجمہ لکھنا شروع کیا، اسی ہی آیت پر بڑا عجیب سا ترجمہ کر دیا انہوں نے، انہیں کان کی ساعت پر مکمل پارٹس معہ تصاویر سے پریکٹیکلی انہیں جواب دیا تھا، فورم بند ہونے سے میٹریل حاصل نہیں ہو سکا۔ ایک رانا صاحب تھے بوھیو کی کتابوں سے لکھا کرتا تھا، اسی طرح کنورسیشن پر کبھی نہیں ٹھہرتا تھا، ایسے اور بھی بہت سے رفو چکر دیکھنے کو ملے۔

وقت ملنے پر مہر پر الگ سے ایک دھاگہ بنانے کی کوشش کروں گا جو معلوماتی ہو گی۔

والسلام
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
عقیدۂ ختم ِ نبوت ﷺ

ایک گروہ ، جس نے اِس دور میں نئی نبوّت کا فتنۂ عظیم کھڑا کیا ہے ، لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کرتا ہے اور اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپؐ کی مُہر لگنے سے نبی بنیں گے ، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپؐ کی مُہر نہ لگے وہ نبی نہ ہو سکے گا۔
لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندر رکھ کر اسے دیکھا جائے تو اِس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ، بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ نے محل ہی نہیں ، مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتا ہے۔ آخر اس بات کا کیا تُک ہے کہ اوپر سے تو نکاح زینبؓ پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات کا جواب دیا جا رہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمدﷺ نبیوں کی مُہر ہیں ، آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مُہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ بالکل بے تُکی ہے ، بلکہ اس سے وہ استدلال اُلٹا کمزور ہو جاتا ہے جو اوپر سے معترضین کے جواب میں چلا آ رہا ہے۔ اِ س صورت میں تو معترضین کے لیے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اِس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اِس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مُہر لگ لگ کر جو انبیاء آتے رہیں گے اُن میں سے کوئی اسے مٹا دے گا۔
ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ’’ خاتم النبیین‘‘ کے معنی افضل النبیین کے ہیں ، یعنی نبوت کا دروازہ تو کھُلا ہوا ہے ، البتہ کمالاتِ نبوّت حضورﷺپر ختم ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق سے یہ مفہوم بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا ، بلکہ اُلٹا اس کے خلاف پڑتا ہے۔ کفّار و منافقین کہہ سکتے تھے کہ حضرت، کم تر درجے کے ہی سہی۔ بہر حال آپ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے۔ پھر کیا ضرور تھا کہ اس رسم کو بھی آپ ہی مٹا کر تشریف لے جاتے۔
لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی
پس جہاں تک سیاق وسباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبییّن کے معنی سلسلۂ نبوّت کو ختم کر دینے والے ہی کے لیے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف سیاق ہی کا تقاضا نہیں ہے ، لغت بھی اِسی معنی کی مقتضی ہے۔ عرنی لغت اور محاورے کی رُو سے ’’ ختم‘‘ کے معنی مُہر لگانے ، بند کرنے ، آخر تک پہنچ جانے ، اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہو جانے کے ہیں۔
خَتَمَ الْعَمَل کے معنی ہیں فَرَغَ مِنَ الْعَمَلِ ، ’’کام سے فارغ ہو گیا۔‘‘
خَتَمَ الْاِنَا ءَ کے معنی ہیں ’’برتن کا منہ بند کر دیا اور اس پر مُہر لگا دی تاکہ نہ کوئی چیز اس میں سے نکلے اور نہ کچھ اس کے اندر داخل ہو‘‘
خَتَمَ الْکِتَابَ کے معنی ہیں ’’ خط بند کر کے اس پر مُہر لگا دی تاکہ خط محفوظ ہو جائے۔‘‘
خَتَمَ عَلَی الْقَلْبِ، ’’ دِل پر مُہر لگا دی کہ نہ کوئی بات اس کی سمجھ میں آئے ، نہ پہلے سے جمی ہوئی کوئی بات اس میں سے نِکل سکے۔‘‘
خِتَا مُ کُلِّ مَشْرُوبٍ، ’’ وہ مزا جو کسی چیز کو پینے کے بعد آخر میں محسوس ہوتا ہے۔‘‘
خَا تمۃُ کُلِّ شَیئئٍ عاقبتہ واٰخرتہ، ہر چیز کے خاتمہ سے مراد ہے اس کی عاقبت اور آخرت۔‘‘
خَتَمَ الشَّیْء ، بلغ اٰخرہ، ’’کسی چیز کو ختم کرنے کا مطلب ہے اس کے آخر تک پہنچ جانا۔ ‘‘ اسی معنی میں ختم قرآن بولتے ہیں اور اسی معنی میں سورتوں کی آخری آیات کو خواتیم کہا جاتا ہے۔
خَاتَمُ الْقَوْمِ، اٰخرھم، خاتم القوم سے مراد ہے قبیلے کا آخری آدمی‘‘۔
(ملاحظہ ہو لسان العرب، قاموس اور قرب الموارد)
اس بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق خاتم النبییّن کے معنی آخر النبییّن کے لیے ہیں۔ عربی لُغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنیٰ ڈاک خانے کی مُہر کے نہیں ہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ مُہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلنے نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

قرآن کے سیاق و سباق اور لغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اسی کی تائید بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں :

۱)۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانت بنو اسرائیل تسو سھم الانبیاء۔ ھلک نبی خلفہ نبی، و انہ لا نبی بعدی و سیکون خلفاء (بخاری ، کتاب المناقب، باب ما ذکر عن بنی اسرئیل)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا۔ مگر میری بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ بلکہ خلفاء ہوں گے۔‘‘

۲)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتاً فاحسنہ و اجملہ الّا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلّا وُضِعَتْ ھٰذہ اللبنۃ، فانا اللبنۃ۔ و انا خاتم النبیّین (بخاری ، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خونی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمر مکمل ہو چکی ہے ، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے )
اسی مضمون کی چار حدیثیں مسلم، کتاب الفضائل ، باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں :
فَجِعْتُ فَختمت الانبیاء، ’’پس میں آیا اور انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا۔‘‘
یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل النبی، اور کتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔
مُسند ابو داوٗد وطَیا لِسی میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں
:ختم بی الانبیاء، ’’ میرے ذریعہ سے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا۔‘‘
مُسند احمد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ اس مضمون کی احادیث حضرت اُبَیّ بن کعبؓ ، حضرت ابو سعد خُدرِی ؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کی گئی ہیں۔

۳)۔ ان رسول اللہ صلی اللہ وسلم قال فُضِّلْتُ علی الانبیَاء بستِّ، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب واُحلّت لی الغنائم، وجعلت لی الارض مسجداً و طھوراً ، واُرْسلتُ الی الخلق کانۃ، و ختم بی النبیّون۔ (مسلم ، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے
(۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی
(۲)مجھے رعب کے ذریعہ سے نُصرت بخشی گئی
(۳) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گیے
(۴)میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نما ز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے اور پانے نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کر کے وضو کے حاجت بھی پوری کی جا سکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی)
(۵)مجھے تمام دُنیا کے لیے رسول بنا یا گیا
(۶)اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ ‘‘

۴)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انّ الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (ترمذی ، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویّات انس بن مالکؓ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’رسالت اور نبوّت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ ‘‘

۵)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا محمد ، و انا احمد و انا الماحیٰ الذی یحشر الناس علی عقبی، و انا العاقب الذی لیس بعدہٗ نبی ( بخاری و مسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔ مُوطّا ، کتاب اسماء النبی۔ المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ ، باب اسماء النبی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں محمدﷺہوں۔ میں احمدﷺ ہوں۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب جس قیامت ہی آنی ہے )۔ اور میں عاقب ہوں۔ اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔‘‘

۶)۔ قال رسول اللہ علیہ وسلم ان اللہ لم یبعث نبیّاً الاحذر امتہ الدّجّال و انا اٰخر الانبیاء وانتم اٰخر الامم و ھو خارج فیکم لا محالۃ(ابن ماجہ ، کتاب الفتن، باب الدجّال)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی اُمّت کو دجّال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر اُن کے زمانے میں وہ نہ آیا ) اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امّت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمہارے اندر ہی نکلنا ہے۔‘‘

۷)۔ عن عبدالرحمٰن بن جبیر قال سمعت عبداللہ بن عمرو بن العاص یقول خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوماً کالمودّع فقال انا محمّد النبی الامی ثلاثاً ولا نبی بعدی۔ (مسند احمد،مرویات عبداللہ بن عمرو بن العاص)
عبدلرحمٰن بن جُبَیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عَمْرو بن عاص کو یہ کہتے سُنا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان سے نکل کر ہمارے درمیان تشریف لائے اس انداز سے کہ گویا آپؐ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا:
’’ میں محمدﷺ نبی امّی ہوں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

۸)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا نبوۃ بعدی الا المبشرات ۔ قیل وما المبشرات یارسول اللہَ؟ قال الرؤیا الحسنۃ۔ او قال الرؤیا الصالحۃ۔ (مُسند احمد، مرویات ابو الطفیل، نسائی، ابوداؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے ، صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں ‘‘
عرض کیا گیا ’’وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یا رسول اللہ ؟‘‘
فرمایا:’’اچھا خواب‘‘ یا فرمایا :’’صالح خواب۔ ‘‘(یعنی وحی کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اشارہ ملے گا بھی تو بس اچھے خواب کے ذریعہ سے مل جائے گا)۔

۹)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کان بعدی نبیّ لکان عمر بن الخطاب(ترمذی، کتاب المناقب)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔‘‘

۱۰)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلٍیّ انت منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ، الا انہ لانبی بعدی (بخاری و مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
’’میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰؑ کے ساتھ ہارونؑ کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
بخاری و مسلم نے یہ حدیث غَزوۂ تَبوک کے ذکر میں بھی نقل کی ہے۔ مُسند احمد میں اس مضمون کی دو حدیثیں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی گئی ہیں جب میں سے ایک کا آخری فقرہ یوں ہے : الا انہ لا نبوۃ بعدی، ’’مگر میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔‘‘ ابو داوٗد و طیالِسی، امام احمد اور محمد بن اسحاق نے اس سلسلے میں جو تفصیلی روایات نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے جاتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو مدینہ طیّبہ کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنے پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ منافقین نے اس پر طرح طرح کی با تین ان کے بارے میں کہنی شرع کر دیں انہوں نے جا کر حضورﷺ سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہﷺ، کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں ‘‘؟ اس موقع پر حضورﷺنے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ تم میرے ساتھ وہی نسب رکھتے ہو جو موسیٰ کے ساتھ ہارون رکھتے تھے ‘‘۔ یعنی جس طرح حضرت موسیٰؑ نے کوہِ طور پر جاتے ہوئے حضرت ہارونؐ کو بنی اسرائیل کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑا تھا اسی طرح میں تم کو مدینے کی حفاظت کے لیے چھوڑے جا رہا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حضورﷺکو اندیشہ ہوا کہ حضرت ہارون کے ساتھ یہ تشبیہ کہیں بعد میں کسی فتنے کی موجب نہ بن جائے ، اس لیے فورا آپﷺ نے یہ تصریح فرما دی کہ میرے بعد کوئی شخص نبی ہونے والا نہیں ہے۔

۱۱)۔ عن ثوبان قال رسول اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و انہ سیکون فی اُمّتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔ (ابوداود، کتاب الفتن)
ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اور یہ کہ میری امت میں تیس کذَّاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک بنی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘
اسی مضمون کی ایک اور حدیث ابو داوٗد نے کتاب الملاحم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے۔ ترمذی نے بھی حضرت ثوبان اور حضرت ابوہریرہؓ سے یہ دونوں روایتیں نقل کی ہیں اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں :’’
حتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلا ثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ،’’ یہاں تک کہ اُٹھیں گے تیس کے قریب جھوٹے فریبی جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘

۱۲)۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یُکلَّمون من غیران یکونو اانبیاء فان یکن من امتی احد نعمر (بخاری، کتاب المناقب)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ان میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن سے کلام کیا جاتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں۔ میری امت میں اگر کوئی ہوا تو وہ عمرؓ ہو گا۔‘‘
مسلم میں اس مضمون کی جو حدیث ہے اس میں یکلَّمون کے بجائے محدَّثون کا لفظ ہے۔ لیکن مکلَّم اور محدَّث ، دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ، یعنی ایسا شخص جو مکالمۂ الہٰی سے سرفراز ہونے والے بھی اس اُمّت میں اگر کوئی ہوتے تو وہ حضرت عمرؓ ہوتے۔

۱۳)۔ قال رسُول اللہ علیہ وسلم لا نبی بعدی و لا امۃ بعدی امتی۔ (بَکتاب الرؤیا۔ طَبرانی بہیقی،)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی اُمّت (یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی اُمّت ) نہیں۔‘‘

۱۴)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانی اٰخر الانبیاء و ان مسجدی اٰخر المساجد۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکہ والمدینۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد (یعنی مسجدِ نبویﷺ) ہے۔‘‘

یہ احادیث بکثرت صحابہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں سے ، مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپﷺ آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ، نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہو چکا ہے اور آپﷺ کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذّاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’ خاتم النبیین‘‘ کی اس کے زیادہ مستند و معتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہوسکتی ہے۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد تو بجائے خود سند و حجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کر رہا ہو تب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجّت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حق دار اور کون ہو سکتا ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا کوئی دوسرا مفہوم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا کیا معنی قابل التفات بھی سمجھیں ؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top