میں ان دونوں جوابات پر آپ کا شکرگزار ہوں۔
آپ نے پہلی بات تشریعی و غیر تشریعی نبی کی حیثیت کے بارے میں فرمائی۔ اور اس پر جو اعتراض ہے، مجھے امید واثق ہے کہ آپ کو اس کا بھی اندازہ ہوگا۔ آپ کی تشریح یہ ہے:
اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے عیسیؑ کو غیر تشریعی نبی قرار دیا ہے:
جب کہ حضرت عیسیؑ نے خود فرمایا ہے:
ولأحل لكم بعض الذي حرم عليكم وجئتكم بآية من ربكم (آل عمران۔50)
"اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نشانی لے کر آیا ہوں۔"
حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا "نسخ" ہے۔
اس کی تاویل بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ چیزیں یہود کے علماء نے حرام کر دی تھیں۔ قرآن کریم میں اس کے خلاف موجود ہے:
فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبات أحلت لهم وبصدهم عن سبيل الله كثيرا (160) وأخذهم الربا وقد نهوا عنه وأكلهم أموال الناس بالباطل وأعتدنا للكافرين منهم عذابا أليما (161) (النساء)
"یہود کی طرف سے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے اور ان کے سود کھانے کی وجہ سے جب کہ انہیں اس سے روکا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کی وجہ سے، اور ان میں کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
معلوم ہوا کہ حرام کردہ چیزیں اللہ پاک کی طرف سے تھیں۔
بعض علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حرام کردہ چیزیں "ظلم" کی وجہ سے تھیں تو عیسیؑ نے انہیں ان کی اصل یعنی حلت پر واپس کر دیا۔ یہ تاویل تو واضح طور پر غلط ہے کہ یہود کے جو افعال اس آیت میں بیان ہوئے ہیں وہ تو آج تک ان میں موجود ہیں، عیسیؑ کے وقت تو بہت شدت سے تھے۔ جب تحریم کی علت موجود تھی تو وہ احکام حلت پر واپس کیسے کردیے گئے؟
معلوم یہ ہوا کہ عیسیؑ نے ان احکام کی حرمت کو باقاعدہ نئے احکام خداوندی سے منسوخ کر دیا تھا۔
آپ نے صاحب تشریع نبی کی تعریف یہ کی کہ جو پرانی شریعت کے تابع تھے اور انہوں نے کوئی حکم منسوخ نہیں کیا، مثال میں عیسیؑ کو ذکر کیا حالانکہ انہوں نے احکام کو منسوخ کیا ہے۔ اب یا تو آپ کی تعریف غلط ہے اور یا مثال۔ تعیین آپ خود فرما دیں۔
دوسرا مسئلہ اس میں ہے مرزا قادیانی کی نبوت کا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ قادیانی ہیں یا مسلمان لیکن چونکہ یہ ابحاث آج کل عموماً قادیانی چھیڑتے ہیں تو میں اس پر بات کرتا ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو جہاد کو منسوخ کرنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ و قتال
ایک چیز جس کے وجوب و عدم وجوب کی بحث کی جا سکتی تھی اسے مرزا قادیانی نے "حرام" کر دیا۔
دونوں میں فرق سمجھیے! حرمت کے لیے دلیل قطعی چاہیے ہوتی ہے:
الخامس: التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا، أو هو طلب الترك مع المنع عن الفعل، لترتب العقاب على الفاعل، وأثره الحرمة، والمطلوب تركه والكف عن فعله هو الحرام۔۔۔
التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا بدليل قطعي الثبوت قطعي الدلالة، مثل قتل النفس والزنا.
(الوجيز في اصول الفقه)
تحریم کی بھی دو قسمیں ہیں: تحریم لعینہ (جو خود کسی دلیل قطعی کی وجہ سے حرام ہو) اور تحریم لغیرہ (جو خود تو مباح ہو لیکن کسی اور چیز کی وجہ سے اس میں حرمت آ جائے)
جو چیز قرآن کریم کی دلیل قطی سے ثابت ہو اسے کسی وجہ سے وقتی طور پر منع تو کیا جا سکتا ہے لیکن مطلقاً حرام تب ہی کیا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف کوئی دلیل قطعی (یعنی قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ) موجود ہو۔ ایسی کوئی دلیل قطعی جہاد کی حرمت پر تو مرزا قادیانی اور قادیانی مذہب کے پیروکار کہیں سے بھی پیش نہیں کر سکتے تو پھر اسے مرزا نے "حرام" کیسے کر دیا؟ وہ یہ بحث کرتا کہ اس کے اسباب آج کل موجود نہیں ہیں، اس میں مسلمانوں کا نقصان ہو رہا ہے، مسائل بہت ہیں وغیرہ اور ان وجوہات کی بنا پر اس قرآنی حکم پر اس زمانے میں عمل مشکل ہے یا نامناسب ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے کہ چلو یہ بشری کمزوری ہے یا کم از کم اجتہادی مسئلہ ہے۔
لیکن ایک جانب دعوائے نبوت اور دوسری جانب فعل تحریم! حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا نسخ ہوتا ہے تو یہ نسخ کا فعل مرزا نے بھی کیا۔ اب اگر وہ صاحب تشریع نبی تھا تو قادیانی حضرات کی تاویلات کے خلاف ہے اور اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے اللہ پاک پر جھوٹ بول دیا کہ "دین کے لیے حرام ہے۔" نیز اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے قرآن کریم کے واضح حکم کی بھی مخالفت کر لی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (المائدہ۔ 87)
مرزا قادیانی نے اس کام کے لیے حدیث میں واقع "یضع الحرب" کے الفاظ سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ تو ہے کہ مسیح جنگ کو ختم کردے گا (یعنی دشمنوں کو ختم کر کے جنگ کے مواقع ختم کر دے گا) لیکن اس کا مطلب یہ کیسے بن گیا کہ مسیح جہاد کو "حرام" کر دے گا؟ حضرت مسیحؑ (اوریجنل والے، قادیان مارکہ نہیں) شریعت مصطفوی کو منسوخ نہیں کریں گے۔
دوسرے سوال کے جواب سے متعلق بات ان شاء اللہ رات کو کرتا ہوں۔
محترم اشماریہ صاحب
مفصل جواب کے لئے جزاکم اللہ ۔
خاکسار اپنے کالج کی تدریسی سر گرمیوں میں کچھ مصروف ہے۔ انٹر ول امتحان نیز مقالہ وغیرہ چھوڑیے کیا بتاؤں ۔کچھ وقت عنایت فرمائیں آپکی اس کامنٹ کا مفصل با حوالہ جواب لکھ کر بھجواتا ہوں۔
لیکن سرِ دست کچھ وضاحتیں آپ فرما دیں تو جواب دینے میں آسانی ہو گی ۔ کیوں مسئلہ تعریف تشریعی و غیر تشریعی فروعی ہے وہ جو بھی ہو، بات آنحضرتﷺ کی خاتمیت کی چل رہی تھی۔
1) آپکو امام راغبؒ کی بیان کر دہ لفظ خاتم کی تشریح پر تو اعتراض نہیں ؟
2) جو حوالا جات خاکسار نے علمائے سلف کے بھجوائے ہیں جن میں انہوں نے خاتمیت سے مراد تشریعی نبوت لی ہے نہ کہ مقام نبوت ۔ان پر آپکو اعتراض تو نہیں ؟۔ ان کے بارہ میں آپکا کیا خیال ہے ؟۔
3) علماء نے (ابن عربی ؒ، نواب حسن خان صاحب وغیرہ ) نے جو معانی لا نبی بعدی کے کئے ہیں ۔ان پر آپکو اعتراض تو نہیں ؟۔ ان کے بارہ میں آپکا کیا خیال ہے ؟
باقی رہا بار جو میرے کندھوں پر ہے ۔ حضرت عیسی ٰ ؑ شرعی نبی ہیں یا نہیں ۔ آپؑ نے شیعت موسوی کو نسخ کیا یا نہیں ۔ قرآن کریم سے خاکسار مدلل جواب آپکو بھجوا دے گا۔