أیہا الشیخ عابد الرحمن شکر سعیک و أعلی ہمتک
آپ نے ’’ میں ‘‘ کے ’’استعمال‘‘ کے مسئلہ میں کافی محنت کی ہے ماشاء اللہ لیکن جاتے جاتے ’’ استعمال ‘‘ کے ’’ استعمال ‘‘ ’’ میں ‘‘ مسئلہ کھڑا ہوجاتا اگر ہم ذہن کو فورا ’’ استعمال ‘‘ ’’ میں ‘‘ لا کر سبق قلم کا عذر ’’ استعمال ‘‘ نہ کر تے ۔ ( ابتسامہ )
اور اللہ خوش رکھے کہ آپ نے تقلید کو دوسرے الفاظ میں کہا ۔ کیونکہ پہلے الفاظ والی تقلید کو آپ جانتے ہیں ہم دوسرے الفاظ میں لیتے ہیں ۔ ( مسکراہٹ )
آخر کلام ’’ میں ‘‘ شکریہ کا ’’ استعمال ‘‘ مکرر قبولیے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جزاکم اللہ خیرا وشکرالکم وبارک اللہ فی عمرکم
خضر بھائی
خضر کا کام ہی رہنمائی کرنا ہے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے ’’میں‘‘ پر(مجھ پر)قلم کا استعمال فرمایا زبان کا نہیں، حضرت دوسرا ’’استعمال‘‘ تاکیدی ہے(ابتسامہ) (زائد ہے) اتنی بھول نبھائی جا سکتی ہے۔
میرے ساتھ ایک پریشانی ہے کہ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو’’ سَر‘‘ میں خفیف سا بھاری پن محسوس کرتا ہوں ہمارے یہاں اس کو ’’ گھمیر‘‘ بمعنیٰ ’’چکر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔شاید آپ کو معلوم ہو میرے سر میں’’ ٹیومر‘‘ تھا اللہ کے فضل سے کا فی آرام ہے اس لیے میں زیادہ الجھن میں پڑنا پسند نہیں کرتا ،اور آپ حضرات کی محبت کی وجہ سے خاموش رہنا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ کبھی میں بہت ’’سیریس ‘‘ ہوا کرتا تھا ،اور زیادہ ’’سیریس‘‘ ہونے کا مطلب ہے خودکوٹینشن میں ڈالنا جس کی وجہ سے بہت ساری پریشانیاں create (پیدا ) ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے خود کو تھوڑا آزاد کرلیا ہے۔اس مختصر تمہید کے بعد کیوں کہ ذکر چل رہا ہے خضر صاحب کا اور خضرؐ اور موسیٰؐ کا واقعہ مشہور ہے۔جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کلام کو طویل فرمادیا تھا۔ (اس وجہ سے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے شرف کلامی حاصل ہوا تھا) اس لیے میں نے بھی بات کو طول دیدیا ۔کیو ں کہ یہاں مجھ احقر کو آپ سے شرف کلامی حاصل ہے ۔ اس لیے میں اس سنہرے موقعہ کو گنواؤں ۔
چلئے غالب نے چند اشعار لکھے ہیں جو مناسب حال ہیں:
حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز
اور شاید یہ شعر میری تائید میں ہی کہا ہو
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
اقبال کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب!
خضر شاعر کو بتاتا ہے کہ اگر چشم و دل وا ہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے، دل کی آنکھ کھل جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
مزید کہا:
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم نائو نوش
یہاں اقبال کی نظر انتہائی وسیع ہو جاتی ہے ۔ وہ دنیائے اسلام کو عالم مشرق کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ مشرق کی نمائندگی کرتی ہوئی ایک خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے۔ بادشاہت و ملوکیت سے اقبال کو نفرت ہے ۔ اقبال کے خیال میں اگرچہ سکندر مر گیا ہے۔ اُس کو دوام نہیں ملا مگر فطرت اسکندری ابھی قائم ہے ۔ حکمرا ن طبقہ ابھی تک دادِ عیش دے رہا ہے
خضر صاحب اور ملاحظہ فرمائیں:
اُٹھ کہ اَب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
بس خضر صاحب یہ شعر اور ملاحظہ فرمائیں:
بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ، ہے یہ پیام کائنات
خضر صاحب چلتے چلتے ایک شعر اور یاد آگیا اس کو بھی برداشت فرمالیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لےکر تابخاک کاشغر
خضر بھائی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں آپ نے مجھے اپنا قیمتی وقت دیا اس کا تہ دل سے مشکور ہوں ۔ ابھی میری دماغ کی کھڑکیاں کھلنی شروع ہوئی تھیں (آمد) مگر کیوں کہ سرد موسم ہے اس لیے اس کو بند کرتا ہوں کبھی کسی کو ٹھنڈ لگ جائے اور کسی کا نزلہ کسی پر گرجائے ۔ اللہ حافظ فقظ والسلام
احقر عابدالرحمٰن بجنوری