• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

أثنائے گفتگو میں ۔ ۔ ۔

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
میرے پیارے بھائیو
دو لفظ حوصلہ افزئی کے بھی لکھ دیا کرو ایسی بھی کیا کنجوسی بٹن دبانا تو بہت آسان ہے ہم کتنی محنت سے لکھتے ہیں اور نتیجہ بس بٹن، میری کھینچائی تو بہت جلدی ہوتی ہے (ابتسامہ) یہ بھی چلے گا کم از کم آپ نے پسند تو کیا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
أیہا الشیخ عابد الرحمن شکر سعیک و أعلی ہمتک

بہرحال میں کا استعمال ایک ماہر فن اپنے موقع محل کے اعتبار سے استعمال کرتا ہےاس بارے میں ان کے طریقہ کو اپنایا جا سکتا ہے یا دسرے لفظوں میں ان کی تقلید کی جاسکتی ہے یہاں تقلید سے مراد مذہبی یا مسلکی تقلید نہیں ہے۔
آپ نے ’’ میں ‘‘ کے ’’استعمال‘‘ کے مسئلہ میں کافی محنت کی ہے ماشاء اللہ لیکن جاتے جاتے ’’ استعمال ‘‘ کے ’’ استعمال ‘‘ ’’ میں ‘‘ مسئلہ کھڑا ہوجاتا اگر ہم ذہن کو فورا ’’ استعمال ‘‘ ’’ میں ‘‘ لا کر سبق قلم کا عذر ’’ استعمال ‘‘ نہ کر تے ۔ ( ابتسامہ )
اور اللہ خوش رکھے کہ آپ نے تقلید کو دوسرے الفاظ میں کہا ۔ کیونکہ پہلے الفاظ والی تقلید کو آپ جانتے ہیں ہم دوسرے الفاظ میں لیتے ہیں ۔ ( مسکراہٹ )

آخر کلام ’’ میں ‘‘ شکریہ کا ’’ استعمال ‘‘ مکرر قبولیے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
أیہا الشیخ عابد الرحمن شکر سعیک و أعلی ہمتک
آپ نے ’’ میں ‘‘ کے ’’استعمال‘‘ کے مسئلہ میں کافی محنت کی ہے ماشاء اللہ لیکن جاتے جاتے ’’ استعمال ‘‘ کے ’’ استعمال ‘‘ ’’ میں ‘‘ مسئلہ کھڑا ہوجاتا اگر ہم ذہن کو فورا ’’ استعمال ‘‘ ’’ میں ‘‘ لا کر سبق قلم کا عذر ’’ استعمال ‘‘ نہ کر تے ۔ ( ابتسامہ )
اور اللہ خوش رکھے کہ آپ نے تقلید کو دوسرے الفاظ میں کہا ۔ کیونکہ پہلے الفاظ والی تقلید کو آپ جانتے ہیں ہم دوسرے الفاظ میں لیتے ہیں ۔ ( مسکراہٹ )
آخر کلام ’’ میں ‘‘ شکریہ کا ’’ استعمال ‘‘ مکرر قبولیے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جزاکم اللہ خیرا وشکرالکم وبارک اللہ فی عمرکم

خضر بھائی
خضر کا کام ہی رہنمائی کرنا ہے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے ’’میں‘‘ پر(مجھ پر)قلم کا استعمال فرمایا زبان کا نہیں، حضرت دوسرا ’’استعمال‘‘ تاکیدی ہے(ابتسامہ) (زائد ہے) اتنی بھول نبھائی جا سکتی ہے۔
میرے ساتھ ایک پریشانی ہے کہ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو’’ سَر‘‘ میں خفیف سا بھاری پن محسوس کرتا ہوں ہمارے یہاں اس کو ’’ گھمیر‘‘ بمعنیٰ ’’چکر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔شاید آپ کو معلوم ہو میرے سر میں’’ ٹیومر‘‘ تھا اللہ کے فضل سے کا فی آرام ہے اس لیے میں زیادہ الجھن میں پڑنا پسند نہیں کرتا ،اور آپ حضرات کی محبت کی وجہ سے خاموش رہنا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ کبھی میں بہت ’’سیریس ‘‘ ہوا کرتا تھا ،اور زیادہ ’’سیریس‘‘ ہونے کا مطلب ہے خودکوٹینشن میں ڈالنا جس کی وجہ سے بہت ساری پریشانیاں create (پیدا ) ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے خود کو تھوڑا آزاد کرلیا ہے۔اس مختصر تمہید کے بعد کیوں کہ ذکر چل رہا ہے خضر صاحب کا اور خضرؐ اور موسیٰؐ کا واقعہ مشہور ہے۔جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کلام کو طویل فرمادیا تھا۔ (اس وجہ سے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے شرف کلامی حاصل ہوا تھا) اس لیے میں نے بھی بات کو طول دیدیا ۔کیو ں کہ یہاں مجھ احقر کو آپ سے شرف کلامی حاصل ہے ۔ اس لیے میں اس سنہرے موقعہ کو گنواؤں ۔

چلئے غالب نے چند اشعار لکھے ہیں جو مناسب حال ہیں:

حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

اور شاید یہ شعر میری تائید میں ہی کہا ہو

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

اقبال کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب!
خضر شاعر کو بتاتا ہے کہ اگر چشم و دل وا ہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے، دل کی آنکھ کھل جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
مزید کہا:
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم نائو نوش
یہاں اقبال کی نظر انتہائی وسیع ہو جاتی ہے ۔ وہ دنیائے اسلام کو عالم مشرق کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ مشرق کی نمائندگی کرتی ہوئی ایک خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے۔ بادشاہت و ملوکیت سے اقبال کو نفرت ہے ۔ اقبال کے خیال میں اگرچہ سکندر مر گیا ہے۔ اُس کو دوام نہیں ملا مگر فطرت اسکندری ابھی قائم ہے ۔ حکمرا ن طبقہ ابھی تک دادِ عیش دے رہا ہے
خضر صاحب اور ملاحظہ فرمائیں:

اُٹھ کہ اَب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

بس خضر صاحب یہ شعر اور ملاحظہ فرمائیں:

بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ، ہے یہ پیام کائنات

خضر صاحب چلتے چلتے ایک شعر اور یاد آگیا اس کو بھی برداشت فرمالیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لےکر تابخاک کاشغر

خضر بھائی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں آپ نے مجھے اپنا قیمتی وقت دیا اس کا تہ دل سے مشکور ہوں ۔ ابھی میری دماغ کی کھڑکیاں کھلنی شروع ہوئی تھیں (آمد) مگر کیوں کہ سرد موسم ہے اس لیے اس کو بند کرتا ہوں کبھی کسی کو ٹھنڈ لگ جائے اور کسی کا نزلہ کسی پر گرجائے ۔ اللہ حافظ فقظ والسلام
احقر عابدالرحمٰن بجنوری
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
۔شاید آپ کو معلوم ہو میرے سر میں’’ ٹیومر‘‘ تھا اللہ کے فضل سے کا فی آرام ہے اس لیے میں زیادہ الجھن میں پڑنا پسند نہیں کرتا ،اور آپ حضرات کی محبت کی وجہ سے خاموش رہنا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ کبھی میں بہت ’’سیریس ‘‘ ہوا کرتا تھا ،اور زیادہ ’’سیریس‘‘ ہونے کا مطلب ہے خودکوٹینشن میں ڈالنا جس کی وجہ سے بہت ساری پریشانیاں create (پیدا ) ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے خود کو تھوڑا آزاد کرلیا ہے۔
اللہ آپ پر رحم کرے۔ آپ نے اچھا کیا کہ اب زیادہ "سیریس" نہیں ہوتے۔ ایک مشہور ڈائیلاگ جو ہم نے اپنے آفس کے ساتھیوں سے اکثر سنا ہے ۔۔ کچھ یوں ہے کہ "ماموں ٹینشن لینے کا نہیں بلکہ دینے کا" ۔۔۔
ویسے اس ڈائیلاگ کی عملی تعبیر دیکھنا ہو تو حرب بن شداد بھائی کے مراسلات پڑھ لیں :)
 

فارقلیط

مبتدی
شمولیت
دسمبر 08، 2012
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
0
اللہ آپ پر رحم کرے۔(آمین) آپ نے اچھا کیا کہ اب زیادہ "سیریس" نہیں ہوتے۔ ایک مشہور ڈائیلاگ جو ہم نے اپنے آفس کے ساتھیوں سے اکثر سنا ہے ۔۔ کچھ یوں ہے کہ "ماموں ٹینشن لینے کا نہیں بلکہ دینے کا" ۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! اموں ٹینشن لینے۔۔۔بے تکلطانہ بولے جانے والے اس طرح کے الفاظ فقرے وغیرہ کا شمار عامیانہ بولی’’سلینگ‘‘میں ہوتا ہے۔ عامیانہ بولی میں جیسے ’’اُستاد‘‘ کے معنیٰ کسی ’’ماہر ٹھگ‘‘ یا ’’غنڈے‘‘ کے ہوتے ہیں، ’’خلیفہ‘‘ کے معنیٰ ’’حجام‘‘ یعنی ’’نائی‘‘ کے ہوتے ہیں،’’واٹ لگانا‘‘ کے معنیٰ ’’برباد کرنا‘‘کے ہوتے ہیں۔ بعینہٍ عامیانہ زبان میں ’’ماموں‘‘ کے معنیٰ ’’بے وقوف‘‘ کے ہوتے ہیں۔ ممبئی کے سڑک چھاپ لوگوں میں ایک محاورہ اکثر بولا جاتا ہے:’’ماموں بنایا‘‘ اس کے معنیٰ ہیں ’’بے وقوف بنایا۔‘‘ گویاآپ نے اپنے آفس کے ساتھیوں سے سُن کر بے سوچے سمجھے جو جملہ یہاں نقل کیا ہے یا یوں کہیے کہ کوٹ کیا ہے عامیانہ زبان میں اُص کے معنیٰ ہوتے ہیں : بے وقوف! ٹینشن لینے کا نہیں بلکہ دینے کا۔لہٰذا اس فورم پر گفتگو کرنے والے سبھی بھائیوں سے مودبانہ گذارش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عامیانہ زبان سے پرہیز کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جزاکم اللہ خیرا وشکرالکم وبارک اللہ فی عمرکم

خضر بھائی
خضر کا کام ہی رہنمائی کرنا ہے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے ’’میں‘‘ پر(مجھ پر)قلم کا استعمال فرمایا زبان کا نہیں، حضرت دوسرا ’’استعمال‘‘ تاکیدی ہے(ابتسامہ) (زائد ہے) اتنی بھول نبھائی جا سکتی ہے۔
میرے ساتھ ایک پریشانی ہے کہ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو’’ سَر‘‘ میں خفیف سا بھاری پن محسوس کرتا ہوں ہمارے یہاں اس کو ’’ گھمیر‘‘ بمعنیٰ ’’چکر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔شاید آپ کو معلوم ہو میرے سر میں’’ ٹیومر‘‘ تھا اللہ کے فضل سے کا فی آرام ہے اس لیے میں زیادہ الجھن میں پڑنا پسند نہیں کرتا ،اور آپ حضرات کی محبت کی وجہ سے خاموش رہنا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ کبھی میں بہت ’’سیریس ‘‘ ہوا کرتا تھا ،اور زیادہ ’’سیریس‘‘ ہونے کا مطلب ہے خودکوٹینشن میں ڈالنا جس کی وجہ سے بہت ساری پریشانیاں create (پیدا ) ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے خود کو تھوڑا آزاد کرلیا ہے۔اس مختصر تمہید کے بعد کیوں کہ ذکر چل رہا ہے خضر صاحب کا اور خضرؐ اور موسیٰؐ کا واقعہ مشہور ہے۔جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کلام کو طویل فرمادیا تھا۔ (اس وجہ سے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے شرف کلامی حاصل ہوا تھا) اس لیے میں نے بھی بات کو طول دیدیا ۔کیو ں کہ یہاں مجھ احقر کو آپ سے شرف کلامی حاصل ہے ۔ اس لیے میں اس سنہرے موقعہ کو گنواؤں ۔

چلئے غالب نے چند اشعار لکھے ہیں جو مناسب حال ہیں:

حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

اور شاید یہ شعر میری تائید میں ہی کہا ہو

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

اقبال کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب!

مزید کہا:
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم نائو نوش

خضر صاحب اور ملاحظہ فرمائیں:

اُٹھ کہ اَب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

بس خضر صاحب یہ شعر اور ملاحظہ فرمائیں:

بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ، ہے یہ پیام کائنات

خضر صاحب چلتے چلتے ایک شعر اور یاد آگیا اس کو بھی برداشت فرمالیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لےکر تابخاک کاشغر

خضر بھائی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں آپ نے مجھے اپنا قیمتی وقت دیا اس کا تہ دل سے مشکور ہوں ۔ ابھی میری دماغ کی کھڑکیاں کھلنی شروع ہوئی تھیں (آمد) مگر کیوں کہ سرد موسم ہے اس لیے اس کو بند کرتا ہوں کبھی کسی کو ٹھنڈ لگ جائے اور کسی کا نزلہ کسی پر گرجائے ۔ اللہ حافظ فقظ والسلام
احقر عابدالرحمٰن بجنوری
شیخ صاحب آپ کی محبت کا بہت بہت شکریہ
اللہ آپ کو صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے اور اس کو دین کی خدمت میں قبول کر لے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ربی زدنی علما
رب اشرح لی صدری ویسر لی امری

بھائی بڑوں کی مجلس میں چھوٹوں کا مخل ہونا ایسا ہی ہے جیسا اونٹ کے منہ میں زیرہ۔




فقط والسلام احقر عابدالرحمٰن بجنوری
ویسے تو آپ نے اپنی تحریر میں بہت خوب لکھا مگر اثنائے گفتگو یہ محاورہ کچھ بے محل ارشاد فرمادیا
 
Top