نعیم بن حماد سے متعلق یہ بات ثابت ہے ؟
أَخْبَرَنِي الأَزْهَرِيّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن إبراهيم، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن مُحَمَّد بن عرفة، قال: سنة تسع وعشرين ومائتين فيها مات نعيم بن حماد، وكان مقيدا محبوسا لامتناعه من القول بخلق القرآن، فجر بأقياده فألقي في حفرة، ولم يكفن، ولم يصل عليه، فعل ذلك به صاحب ابن أبي دؤاد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
امام اہل السنہ جناب نعیمؒ بن حماد کے متعلق آپ کی یہ پوسٹ دیکھ کر میری آنکھ بھر آئی ،اور اپنے آپ پر ضبط مشکل ہوگیا ،
دراصل یہ ایک بہت بڑے واقعہ کا اختصار ہے جسے آپ نے تاریخ بغداد سے نقل کیا ہے ، اور اس اختصار سے اصل واقعہ سمجھ نہیں آسکتا ،
اسلئے میں تھوڑی تفصیل سے
(جو امام الذھبیؒ نے تاریخ اسلام ،اور سیر اعلام النبلاء میں بیان فرمائی ہے ) بیان کرتا ہوں ،
ـــــــــــــــــــــــــ
جناب نُعَيْم بن حمادؒ جو اصل میں تو مرو شاہجہان خراسان کے رہنے والے تھے ، بعد میں مصر جاکر آباد ہوگئے ،
اور وہیں رہنے لگے ،تا آنکہ آٹھویں عباسی خلیفہ أبو إسحاق محمد المعتصم بالله بن هارون الرشيد کے دور میں جب فتنہ خلق قرآن اٹھا ،
ایک بدبخت اور گمراہ جج قاضی احمد بن ابوداود کی بات مان کر خلیفہ معتصم نے سن218 ہجری میں پورے عالمِ اسلام میں سرکاری حکم جاری کر دیا کہ ہر مقام کا امیر اور حاکم اپنے ہاں کے علماء سے اس کا اقرار لے۔ کوئی انکار کرے تو اسے گرفتار کر کے خلیفہ کے دربار میں بھیج دے۔
تو حکومت کے زور پر بڑے علماء کو اس عقیدہ کا قائل بنانے کیلئے مجبور کیا گیا ،
امام نعیم بن حمادؒ کو بھی اس عقیدہ پرقائل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن وہ نہ مانے ، تو نتیجۃً انہیں مصر سے نکال دیا گیا ، بلکہ عراق میں بغداد سے 125 کلومیٹر شمال میں واقع نئے شہر (سر من رایٰ ) سامراء میں
لا کر قید کردیا گیا ، اور مسلسل چار سال اسی قید میں رکھا گیا ، تاکہ وہ خلق قرآن کے قائل ہوجائیں ، لیکن یہ قید اور زنجیریں بھی انہیں اپنے موقف سے نہ ڈگمگا سکیں ، حتیٰ کہ اسی قید میں بروز ہفتہ بوقت صبح 13 جمادی الاول سنۃ 228 ھ جان راہ حق میں دے گئے ، موت کے وقت زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ،انہوں خواہش کی مجھے انہی زنجیروں میں دفنادیا جائے ، میں انہی زنجیروں میں اللہ کے دربار میں اپنا مقدمہ پیش کروں گا ،
اور انہی زنجیروں میں گھسیٹ کر بغیر کفن اوربغیرنماز جنازہ پڑھے انہیں دفنادیا گیا ،
اور یہ سب کچھ بدبخت جج قاضی احمد بن ابوداود کے حکم پر کیا گیا۔
(سیر اعلام النبلاء 10/612 ) (تاریخ الاسلام 5/710 )
آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں
ــــــــــــــــــــــــــــــ
قال محمد بن سَعْد: نزل نُعَيْم مصر، فلم يزل بها حتى أشخص منها في خلافه أبي إسحاق - يعني المعتصم - فسُئل عن القرآن، فأبى أن يجيب فيه بشيءٍ ممّا أرادوه عليه، فحبس بسامرّاء، فلم يزل محبوسًا حَتّى مات في السجن، في سنة ثمان وعشرين.
قال ابن يونس: مات في السجن ببغداد غداة يوم الأحد، لثلاث عشرة خَلَت من جُمادَى الأولى سنة ثمانٍ. وكان يفهم الحديث، وروى أحاديث مناكير عن الثّقات.
وورّخه فيها مُطَيَّن، وابن حِبّان.
وقال البَغَويّ، ونِفْطَوَيْه، وابن عَديّ: مات سنة تسعٍ. زاد نِفْطَوَيْه: كان مُقَيَّدًا محبوسًا لامتناعه من القول بخلّق القرآن، فَجُرَّ بأقياده، فأُلقي في حُفْرةٍ ولم يُكَفَّن، ولم يصل عليه. فعل ذلك به صاحب ابن أبي دؤاد.
وقال أبو بكر الطَّرَسُوسيّ: أُخِذَ سنة ثلاثٍ أو أربعٍ وعشرين، وألقوه في السّجن، ومات في سنة سبْعٍ وعشرين، وأوصى أن يُدفن في قيوده. وقال: إنّي مخاصم.
وكذا ورَّخه العبّاس بن مُصْعَب سنة سبْعٍ. والأوّل أصحّ.
(تاریخ الاسلام 5/710 )