محمد المالكي
رکن
- شمولیت
- جولائی 01، 2017
- پیغامات
- 401
- ری ایکشن اسکور
- 155
- پوائنٹ
- 47
[استاد محترم کی اجازت کے ساتھ شیئر کی گئی تحاریر کا خصوصی سلسلہ ، طالب دعاء محمد المالكي]
ائمہ تاریخ نے ضعیف راویات کیوں درج کیں ؟
.ابوبکر قدوسی
...
ہمارے قدیم آئمہ نے تاریخ لکھنے اور تاریخی روایات بیان کرنے میں عموما وہی اسلوب اختیار کیا کہ جو حدیث میں تھا - یعنی کسی بھی تاریخی واقعے کو بذریعہ سند بیان کیا جاتا ہے - پھر ان اسناد کو جرح و تعدیل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے -
دوسری طرف ایک ایک راوی کے حالات آئمہ رجال نے اپنی کتب میں درج کر دئیے ہیں - کون سچا ہے کون جھوٹا ، کون روایات گھڑنے والا ہے ، کون جھوٹ کو سچ سے ملانے والا ، کون ہر حال میں سچ بولتا ہے ، کون سچا ہے مگر کبھی کبھی بھول جاتا ہے - سب کچھ لکھ کر کے ان کی درجہ بندی کر دی - اور جب تاریخی روایات بیان کیں تو ساتھ میں اسناد بھی درج کر دیں -
اب آپ کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ بھلا اتنا کشٹ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟- آسان سی بات تھی کہ سیدھا سیدھا خود سے فیصلہ کرتے ، درست راویات کو نقل کرتے اور جھوٹ کو نکال باہر کرتے -
لیکن آئمہ کرام نے مشکل راستہ اختیار کیا ، کہ جو بھی روایات ملیں اور جیسے بھی ملیں ان کو کسی نہ کسی صورت درج کر دیا اور ساتھ اسناد دے دیں - اور آپ کو ساتھ میں ہی ایک ترازو دے دیا کہ
"لو خود فیصلہ کرو کیا سچ ہے ، کیا جھوٹ ؟"
اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بحث اور درست نا درست کی تلاش کا عمل رکا نہیں اور تحقیق جاری و ساری رہی -
اگر وہ اپنی دانست میں صرف صحیح روایات درج کرتے تو ممکن تھا بہت سی تاریخی روایات جو کہ درست ہوتیں معدوم ہو کے رہ جاتیں کہ امام کی نظر میں درست نہیں تھیں -
اور ایسا بھی تھا کہ بہت سی کمزور روایات کہ جن کو امام صاحب تحقیق کی غلطی سے درست جان چکے ہوتے ہمارے پلے پڑ جاتیں -
اور آج جو ہم تحقیق کر کے ان کی تنقیح کر سکتے ہیں اس سے محروم ہو جاتے - اور جھوٹ ہمارا مقدر ہو جاتا -
ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے اس زمانے کے بہت سے کذاب بھی کھل کے سامنے آنے کا امکان ہر وقت تازہ رہتا ہے - کیونکہ اگر کوئی اپنے خبث باطن کے سبب مرضی کی روایت کو لے کر مطلب براری کے لیے استعمال کرتا ہے تو ان علوم کے سبب اس کو پکڑا جا سکتا ہے -
امام طبری رحمہ اللہ اپنی کتاب تاریخ طبری کے مقدمے میں بیان کرتے ہیں کہ:
" ہم کو جو پہنچا ہم نے آگے بیان کر دیا ، اب یہ قاری پر ہے کہ وہ درست کو اختیار کرے "
یعنی تحقیق کے دروازے قاری پر کھول دیے کیونکہ ساتھ ساتھ اسناد بھی بیان کر دی گئیں -
اب خود سوچئے کہ اگر یہ روایات بنا اسناد کے ہوتیں اور امام کو کسی روایت میں غلطی لگ جاتی یا بھول جاتے یا محبت اور نفرت جیسی انسانی کمزوری کا شکار ہو کر کے تعصب کے تحت غلط بات لکھ جاتے تو ہمارے لیے کیا صورت تھی اس کو پرکھنے کی ؟؟
ائمہ تاریخ نے ضعیف راویات کیوں درج کیں ؟
.ابوبکر قدوسی
...
ہمارے قدیم آئمہ نے تاریخ لکھنے اور تاریخی روایات بیان کرنے میں عموما وہی اسلوب اختیار کیا کہ جو حدیث میں تھا - یعنی کسی بھی تاریخی واقعے کو بذریعہ سند بیان کیا جاتا ہے - پھر ان اسناد کو جرح و تعدیل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے -
دوسری طرف ایک ایک راوی کے حالات آئمہ رجال نے اپنی کتب میں درج کر دئیے ہیں - کون سچا ہے کون جھوٹا ، کون روایات گھڑنے والا ہے ، کون جھوٹ کو سچ سے ملانے والا ، کون ہر حال میں سچ بولتا ہے ، کون سچا ہے مگر کبھی کبھی بھول جاتا ہے - سب کچھ لکھ کر کے ان کی درجہ بندی کر دی - اور جب تاریخی روایات بیان کیں تو ساتھ میں اسناد بھی درج کر دیں -
اب آپ کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ بھلا اتنا کشٹ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟- آسان سی بات تھی کہ سیدھا سیدھا خود سے فیصلہ کرتے ، درست راویات کو نقل کرتے اور جھوٹ کو نکال باہر کرتے -
لیکن آئمہ کرام نے مشکل راستہ اختیار کیا ، کہ جو بھی روایات ملیں اور جیسے بھی ملیں ان کو کسی نہ کسی صورت درج کر دیا اور ساتھ اسناد دے دیں - اور آپ کو ساتھ میں ہی ایک ترازو دے دیا کہ
"لو خود فیصلہ کرو کیا سچ ہے ، کیا جھوٹ ؟"
اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بحث اور درست نا درست کی تلاش کا عمل رکا نہیں اور تحقیق جاری و ساری رہی -
اگر وہ اپنی دانست میں صرف صحیح روایات درج کرتے تو ممکن تھا بہت سی تاریخی روایات جو کہ درست ہوتیں معدوم ہو کے رہ جاتیں کہ امام کی نظر میں درست نہیں تھیں -
اور ایسا بھی تھا کہ بہت سی کمزور روایات کہ جن کو امام صاحب تحقیق کی غلطی سے درست جان چکے ہوتے ہمارے پلے پڑ جاتیں -
اور آج جو ہم تحقیق کر کے ان کی تنقیح کر سکتے ہیں اس سے محروم ہو جاتے - اور جھوٹ ہمارا مقدر ہو جاتا -
ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے اس زمانے کے بہت سے کذاب بھی کھل کے سامنے آنے کا امکان ہر وقت تازہ رہتا ہے - کیونکہ اگر کوئی اپنے خبث باطن کے سبب مرضی کی روایت کو لے کر مطلب براری کے لیے استعمال کرتا ہے تو ان علوم کے سبب اس کو پکڑا جا سکتا ہے -
امام طبری رحمہ اللہ اپنی کتاب تاریخ طبری کے مقدمے میں بیان کرتے ہیں کہ:
" ہم کو جو پہنچا ہم نے آگے بیان کر دیا ، اب یہ قاری پر ہے کہ وہ درست کو اختیار کرے "
یعنی تحقیق کے دروازے قاری پر کھول دیے کیونکہ ساتھ ساتھ اسناد بھی بیان کر دی گئیں -
اب خود سوچئے کہ اگر یہ روایات بنا اسناد کے ہوتیں اور امام کو کسی روایت میں غلطی لگ جاتی یا بھول جاتے یا محبت اور نفرت جیسی انسانی کمزوری کا شکار ہو کر کے تعصب کے تحت غلط بات لکھ جاتے تو ہمارے لیے کیا صورت تھی اس کو پرکھنے کی ؟؟