• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابلیس کا پڑپوتا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عمر بھائی ۔ میں نے بھی اتنے جزم سے صحیح نہیں کہا ۔
بلکہ میں تو یہ کہا۔۔۔
امام بیہقیؒ نے ایک طریق ذکر کیا ہے جیسا کہ حافظؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ۔۔۔۔وہ باقیوں کی نسبت اچھا ہے ۔اور اس میں ایسا راوی نہیں ہے جس سے روایت موضوع ہو ۔
میں نے بھی یہی ذکر کیا تھا کہ اصلح کہنے سے سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا. اور حافظ رحمہ اللہ کے اس قول سے مزید اسکا درست ہونا ثابت ہوتا ہے:
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا
اگر حافظ رحمہ اللہ کے نزدیک اسکی سند درست ہوتی تو وہ ملون الفاظ استعمال نہ کرتے.
لہذا اس بات کو تو چھوڑ ہی دیں.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ أَقْوَى مِنْهُ وَاللهُ اعلم
حیرت ہے آپ اس طرح کے الفاظ سے حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں. حالانکہ میں نے اس سلسلے میں وضاحت کر دی تھی کہ اصلح یا اقوی من کہنے سے حدیث کی سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا. بلکہ اس کی سند دیکھی جاۓ گی.
کسی بھی حدیث کی تخریج اور طرق جب اسلاف کے کلام میں آ جائے
میرے علم کے مطابق تو اس حدیث کی تحسین کسی نے نہیں کی ہے. جتنے بھی اقوال میں نے دیکھے سب میں اس حدیث پر کلام کیا گیا ہے. بلکہ بعض تو موضوع ومنکر کی بات کرتے ہیں.
اگر آپ کے علم میں ہو تو مجھے بھی بتائیں.
پہلے مجھے لگا کہ یہ عام الفاظ ہیں ۔ لیکن میرا خیال ہے یہ ’’عزیز‘‘ اصول حدیث کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں ۔
ایسا خیال کیونکر پیدا ہوا جناب عالی؟؟؟
میں نے تو کسی سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہاں عزیز نادر کے معنی میں ہے. مصطلح الحدیث والا عزیز مراد نہیں.
ویسے بھی حدیث عزیز صحیح بھی ہوتی ہے او ضعیف بھی.
باقی باتیں حدیث کے متعلق نہیں معلوم ہوتی ہیں. اگر ہیں تو آگاہ کریں.
بارک اللہ فی علمک
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
آپ یہ جو ذکر کر رہے ہیں کہ یہ سیر کے باب میں ہے وغیرہ تو اسکا مطلب سمجھا دیں. کیا سیر کے باب میں ضعیف یا موضوع روایات بھی قابل حجت ہوتی ہیں؟؟؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
میں نے بھی یہی ذکر کیا تھا کہ اصلح کہنے سے سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا. اور حافظ رحمہ اللہ کے اس قول سے مزید اسکا درست ہونا ثابت ہوتا ہے:
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا
اگر حافظ رحمہ اللہ کے نزدیک اسکی سند درست ہوتی تو وہ ملون الفاظ استعمال نہ کرتے.
لہذا اس بات کو تو چھوڑ ہی دیں.
یہ حافظ ابن کثیرؒ کے الفاظ ہیں ۔میں نے نہیں کہا کہ ان کے نزدیک سند درست ہے ۔
حیرت ہے آپ اس طرح کے الفاظ سے حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں. حالانکہ میں نے اس سلسلے میں وضاحت کر دی تھی کہ اصلح یا اقوی من کہنے سے حدیث کی سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا. بلکہ اس کی سند دیکھی جاۓ گی.
بھائی ۔اوپر اتنا لمبا کلام کیا ہے پھر بھی آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں اقوی کا مطلب صحیح کررہا ہوں ۔ دوبارہ عرض ہے کہ امام بیہقیؒ کے طرز سے یہ ظاہر ہے کہ سند کا دارومدار ایک ایسے راوی یعنی ابی معشر پر ہے جن سے ائمہ روایت کرتے ہیں (یہ توثیق کا صیغہ ہے ) لیکن محدثین ان کی تضعیف کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ سند ضعیف ہے ۔لیکن نہ تو موضوع ہے ۔نہ ہی ضعیف جدا۔۔۔ ۔لیکن اس کا ایک طریق ہے جو اس سے زیادہ قوی ہے ۔ اگرچہ میرے سامنے نہیں ۔امام بیہقیؒ کے سامنے ہے ۔وہ ضعیف ہوگا بھی تو اِس ضعیف سے اقوی ہے ۔
اور یہ ضعیف اس ضعیف کو تقویت دیتا ہے ۔ اور یشد بعضہ بعضا۔۔۔
اور حافظ ابن حجرؒ اور حافظ سیوطیؒ نے اس سے متعلق ہر طرح کی جرح نقل کی ہے ۔۔لیکن حدیث عمرؓ کے اسحاق کے علاوہ طرق پر کوئی جرح نہیں کی ۔۔بلکہ اس کو متابعت کے طور پہ پیش کیا ہے ۔
بھئی جب دو ٹوک صحت اور ضعف کا حکم نہیں ہے ۔۔۔تو پھر کلام سے اخذ ہی کرنا ہوگا۔
ایسی روایت تو احکام میں حسن ہو جاتی ہے ۔۔چہ جائیکہ سیر میں ۔
میرے علم کے مطابق تو اس حدیث کی تحسین کسی نے نہیں کی ہے. جتنے بھی اقوال میں نے دیکھے سب میں اس حدیث پر کلام کیا گیا ہے. بلکہ بعض تو موضوع ومنکر کی بات کرتے ہیں.
اگر آپ کے علم میں ہو تو مجھے بھی بتائیں.
عمر بھائی ۔ ان ائمہ کے کلام کے بارے میں ہی تو اتنی لمبی گفتگو ہو رہی ہے ۔کیا جن کے سامنے بیہقیؒ کا طریق نہیں ہے ۔ان کو بحث سے خارج نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ ان کا عزر ہے ۔پھر ان کے کلام کا فائدہ؟
بس ابن کثیرؒ ہیں ۔۔۔لیکن ان کا کلام مبہم ہے ۔۔انہوں نے کہاں سند پر کلام کیا ہے ؟ ان کو تو تردد ہے جس پر میں لمبی گفتگو کرچکا ہوں ۔
متقدمین ائمہ سے دو ٹوک تصحیح یا تضعیف ہر روایت میں موجود نہیں ۔۔امام بیہقیؒ کے بھی طرز سے بھی اخذ کرنا ہوگا ۔ وہ جو روایت موضوع ، یا منکر ہو اس کو واضح موضوع یا منکر کہہ دیتے ہیں ۔

ایسا خیال کیونکر پیدا ہوا جناب عالی؟؟؟
میں نے تو کسی سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہاں عزیز نادر کے معنی میں ہے. مصطلح الحدیث والا عزیز مراد نہیں.
ویسے بھی حدیث عزیز صحیح بھی ہوتی ہے او ضعیف بھی.
باقی باتیں حدیث کے متعلق نہیں معلوم ہوتی ہیں. اگر ہیں تو آگاہ کریں.
بارک اللہ فی علمک
ایسا خیال اس لئے پیدا ہوا کہ پہلے اصطلاح عزیز کی طرف دیہان نہیں گیا تھا۔۔اور جو آپ نقل کر رہے ہیں یہ نادر کے معنوں میں ہے پہلے میرا یہی خیال تھا۔
بہرحال ابن کثیرؒ کے کلام کے بارے میں جو میں کہہ سکتا تھا ۔ وہ کہہ چکا ہوں۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
آپ یہ جو ذکر کر رہے ہیں کہ یہ سیر کے باب میں ہے وغیرہ تو اسکا مطلب سمجھا دیں. کیا سیر کے باب میں ضعیف یا موضوع روایات بھی قابل حجت ہوتی ہیں؟؟؟
موضوع تو بالکل نہیں ۔اور ضعیف بھی وہ جو کسی اصول سے نہ ٹکرائیں ۔
اس بارے میں بہت سے ائمہ کا کلام ہے ۔لیکن ابھی امام بیہقیؒ کی بات چل رہی ہے تو انہی کی اِسی کتاب دلائل النبوۃ سے اقتباس پیش کرتا ہوں ۔
وأما النوع الثاني من الأخبار، فهي أحاديث اتفق أهل العلم بالحديث على ضعف مخرجها.
وهذا النوع على ضربين:
(ضرب) رواه من كان معروفا بوضع الحديث والكذب فيه.
فهذا الضرب لا يكون مستعملا في شيء من أمور الدين إلا على وجه التّليين.
……….
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وسلم: «من روى عنّي حديثا وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين» [ (82) ] ……..
وضرب لا يكون روايه متهما بالوضع، غير أنه عرف بسوء الحفظ وكثرة الغلط، في رواياته، أو يكون مجهولا لم يثبت من عدالته وشرائط قبول خبره ما يوجب القبول.
فهذا الضرب من الأحاديث
لا يكون مستعملا في الأحكام، كما لا تكون شهادة من هذه صفته مقبولة عند الحكّام. وقد يستعمل في الدعوات والترغيب والترهيب، والتفسير والمغازي فيما لا يتعلق به حكم.
۔۔۔۔۔عَنْ «عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مهدي» أنه قال:
إذا روينا في الثواب والعقاب وفضائل الأعمال، تساهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال، وإذا روينا في الحلال والحرام والأحكام، تشدّدنا في الأسانيد وانتقدنا الرجال.

۔۔۔۔۔ قال (يحي بن سعيد- يعني القطّان) :
تساهلوا في التفسير عن قوم لا يوثّقونهم في الحديث.
ثم ذكر لَيْثِ
۔۔۔وجويبر ۔۔۔والضحّاك۔۔۔الكلبي، وقال: هؤلاء يحمد حديثهم ويكتب۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔«أحمد ابن حنبل» ۔۔۔۔۔، فقيل لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ، ما تقول في «موسى بن عبيدة» وفي «محمد بن إسحاق» ؟
قال: «أما موسى بن عبيدة» [ (87) ] فلم يكن به بأس، ولكنه حدّث أحاديث مناكير عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلّم.
وأما «محمد بن إسحاق» [ (88) ] فهو رجل تكتب عنه هذه الأحاديث- كأنه
يعني
المغازي ونحوها- فأما إذا جاءك الحلال والحرام أردنا قوما هكذا، وقبض أبو الفضل- يعني العباس- أصابع يده الأربع من كل يد ولم يضم الإبهام.
وأما النوع الثالث، من الأحاديث فهو حديث قد اختلف أهل العلم بالحديث في ثبوته: فمنهم من يضعفه بجرح ظهر له من بعض رواته خفى ذلك عن غيره، أو لم يقف من حاله على ما يوجب قبول خبره، وقد وقف عليه غيره، أو المعنى الذي يجرحه به لا يراه غيره جرحا، أو وقف على انقطاعه أو انقطاع بعض ألفاظه، أو إدراج بعض رواته قول رواته في متنه. أو دخول إسناد حديث في حديث خفى ذلك على غيره.
فهذا الذي يجب على أهل العلم بالحديث بعدهم أن ينظروا في اختلافهم، ويجتهدوا في معرفة [ (89) ] معانيهم في القبول والردّ، ثم يختاروا من أقاويلهم أصحّها. وبالله التوفيق.
النوع الثالث کا اس لئے ذکر کر دیا کہ میری ذاتی رائے میں مذکورہ روایت اسی قسم کی ہے ۔۔جس میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔۔بعض پر وہ چیز ظاہر ہوئی جو دوسرے سے خفی رہی ۔۔۔ واللہ اعلم
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
متن اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سند کےبارے میں وہ بھی یہی فرماتے ہیں اس کا مخرج عزیز ہے
یہ حافظ ابن کثیرؒ کے الفاظ ہیں ۔میں نے نہیں کہا کہ ان کے نزدیک سند درست ہے ۔
بھائی ۔اوپر اتنا لمبا کلام کیا ہے پھر بھی آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں اقوی کا مطلب صحیح کررہا ہوں ۔ دوبارہ عرض ہے کہ امام بیہقیؒ کے طرز سے یہ ظاہر ہے کہ سند کا دارومدار ایک ایسے راوی یعنی ابی معشر پر ہے جن سے ائمہ روایت کرتے ہیں (یہ توثیق کا صیغہ ہے ) لیکن محدثین ان کی تضعیف کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ سند ضعیف ہے ۔لیکن نہ تو موضوع ہے ۔نہ ہی ضعیف جدا۔۔۔ ۔لیکن اس کا ایک طریق ہے جو اس سے زیادہ قوی ہے ۔ اگرچہ میرے سامنے نہیں ۔امام بیہقیؒ کے سامنے ہے ۔وہ ضعیف ہوگا بھی تو اِس ضعیف سے اقوی ہے ۔
تب تو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسکو حسن لغیرہ کہا ہوگا؟؟؟؟
بھئی جب دو ٹوک صحت اور ضعف کا حکم نہیں ہے ۔۔۔تو پھر کلام سے اخذ ہی کرنا ہوگا۔
محترم بھائ!
شاید میں آپکو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا ہوں.
یا شاید آپ سمجھنا نہیں چاہتے. میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حافظ رحمہ اللہ نے جب اسکو ذکر کیا تب انھوں نے اسکو موضوع تک کہ دیا. لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وہ آپکو جرح ہی نہیں لگتی. مزید برآں یہ کہ اسکو آپ حسن لغیرہ کے تحت حسن قرار دے رہے ہیں. افسوس کہ حافظ رحمہ اللہ یا امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک شاید یہ اصول نہیں تھا.
خیر.
ان کو بحث سے خارج نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ ان کا عزر ہے ۔پھر ان کے کلام کا فائدہ؟
حافظ رحمہ اللہ کے سامنے بھی نہیں تھا؟؟؟؟
بس ابن کثیرؒ ہیں ۔۔۔لیکن ان کا کلام مبہم ہے ۔۔انہوں نے کہاں سند پر کلام کیا ہے ؟ ان کو تو تردد ہے جس پر میں لمبی گفتگو کرچکا ہوں ۔
اب اس پر کیا کہوں.
شاید کم علمی ہے کہ جس کی بنا پر میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا.
امام بیہقیؒ کے بھی طرز سے بھی اخذ کرنا ہوگا ۔ وہ جو روایت موضوع ، یا منکر ہو اس کو واضح موضوع یا منکر کہہ دیتے ہیں ۔
واقعی اخذ کرنا ہوگا. ان شاء اللہ آئندہ اخذ کرنے کی کوشش کروں گا. اور آپ کو بھی آگاہ کروں گا. اگر کامیابی ہوئ تو.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
لیکن ابھی امام بیہقیؒ کی بات چل رہی ہے تو انہی کی اِسی کتاب دلائل النبوۃ سے اقتباس پیش کرتا ہوں ۔
ترجمہ بھی کر دیں جناب عالی. تاکہ بات کو اچھی طرح سمجھ سکوں. ویسے بھی میری عربی کچھ خاص نہیں ہے.


باقی باتیں ان شاء اللہ بعد میں عرض کرتا ہوں. ابھی اس ہفتہ مقالہ وغیرہ لکھنا ہے. اور بخار ہے کہ بار بار آجا رہا ہے. (دعاؤں کی درخواست ہے).
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
محترم بھائ!
شاید میں آپکو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا ہوں.
یا شاید آپ سمجھنا نہیں چاہتے. میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حافظ رحمہ اللہ نے جب اسکو ذکر کیا تب انھوں نے اسکو موضوع تک کہ دیا. لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وہ آپکو جرح ہی نہیں لگتی. مزید برآں یہ کہ اسکو آپ حسن لغیرہ کے تحت حسن قرار دے رہے ہیں. افسوس کہ حافظ رحمہ اللہ یا امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک شاید یہ اصول نہیں تھا.
خیر.
ارے بھائی مجھے جرح کیوں نہیں لگتی ۔ ابن کثیرؒ اور ابن قیمؒ کے نزدیک یہ موضوع ہی ہوگی۔۔ان کے کلام سے یہی نکلتا ہے ۔ لیکن ان کا کلام الگ ہے ۔۔
اورامام بیہقیؒ ، اور ابن حجرؒ ۔۔۔کا الگ۔۔
ابن کثیرؒ اور بیہقیؒ کو ایک ساتھ ذکر نہ کیجئے ۔ابن کثیرؒ کے کلام کا بیہقیؒ پر کوئی اثر نہیں ۔۔۔اگر آپ کو دونوں کے کلام میں فرق نظر نہیں آرہا تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں ۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مجھ سے سوال پوچھے کہ
ابن الجوزیؒ ، اور شوکانیؒ نے جو اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے ،یا عقیلیؒ نے باطل الاسناد کہا ہے ۔
تو انہوں نےایسا کیوں کہا ہے ۔۔
تو ۔۔میں کہوں گا کہ ۔۔اس کا جواب ان کے کلام میں موجود ہے ۔فلاں اور فلاں راوی کی وجہ سے ۔۔۔۔

اگر کوئی سوال پوچھے کے بھئی ابن کثیرؒ نے اس کو موضوع تک کہا ۔تو انہوں نے کیوں کہا۔۔؟
اس کا ۔۔۔۔عمربھائی ۔۔میں کیا جواب دوں ۔۔کیونکہ انہوں نے خود نہیں دیا ؟
حدیث پر حکم کے سلسلہ میں ائمہ پر اعتماد کا تو میں بہت بڑا حمایتی ہوں ۔۔ ۔لیکن اگر ائمہ میں اختلاف ہو تو پھر تو سوال کیا جاسکتا ہے ۔مثلاََ

حضرت عمرؓ سے مروی روایت کا دارومدار۔۔۔بقول بیہقیؒ ، اور ابن حجرؒ ۔۔۔ابو معشرؒ پر ہے ۔۔۔
اب ابو مشعرؒ ۔۔۔سے مغازی وغیرہ میں ۔۔۔ابن کثیرؒ ۔۔۔تفسیر ، اورالبدایہ میں کثرت سے نقل کرتے ہیں۔۔
میں مختلف مقامات سے دوسری قسم کی ابو معشرؒ کی مرویات سے متعلق ۔۔۔ابن کثیرؒ کا طرز عمل نقل کرتا ہوں۔

ایک جگہہ ایک روایت بیان کر کے ان کے بارے میں ۔۔تفسیر میں۔۔۔فرماتے ہیں۔۔

أَبُو مَعْشَرٍ هُوَ نَجِيحُ بْنُ عَبْدِ الرحمن المدني إمام الْمَغَازِي وَالسِّيَرِ، وَلَكِنْ فِيهِ ضَعْفٌ،

اور ایک جگہہ۔۔۔

حَدَّثَنَا
أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، قَالَ: كَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلّم
وَهَذَا مُرْسَلٌ، وَلَهُ شَوَاهِدُ مِنْ وُجُوهٍ أُخَرَ

ایک اور جگہہ ایک روایت کے سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں۔۔۔۔

طَرِيقٌ أُخْرَى مُرْسَلَةٌ أَيْضًا قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حَدَّثَنَا
أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَّ الْأَجَلَيْنِ قَضَى مُوسَى؟ قَالَ:
«أَوْفَاهُمَا وَأَتَمَّهُمَا»
فَهَذِهِ طُرُقٌ مُتَعَاضِدَةٌ،

یہ بعد کی روایات مرسل ہیں ۔اب ایک تو مرسل اوپر سے راوی ابو معشر۔۔۔
لیکن پھر بھی وہ پہلی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے دوسرے شواہد بھی ہیں ۔۔۔یہ جملہ حدیث کی تقویت کے لئے ہی بولا جاتا ہے ۔ اور موضوع کو شواہد سے کوئی تقویت نہیں ملتی نہ موضوع خود شاہد بن سکتی ہے ۔
اور دوسری جگہہ کی مرسل روایت میں انکی روایت کو ۔۔طرق متعاضدہ۔۔۔وہ جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں ۔۔۔میں سے بتاتے ہیں ۔۔
یہ بعینہ وہی بات ہے ۔۔یشد بعضہ بعضا۔۔۔والی۔۔
یہ اگرچہ اور جگہہ کی روایات ہیں ۔۔۔۔لیکن کہنا یہ ہے کہ ان کو دیکھ کر کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابو معشرؒ کی روایت موضوع ہوسکتی ہے ؟
اسی لئے اگر مجھے ابن کثیرؒ کا کلام مبہم نظر آ رہا ہے ۔۔یا اس کی یہ توجیہہ کر رہا ہوں کہ ان کو اس کا متن اوپرا لگ رہا ہے ۔ توپھر میں کہاں پہ کمی یا زیادتی کر رہا ہوں۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
مترجم سے صفحات لگانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔اگر نہ ظاہر ہوں تو لنک یہ ہے ۔
https://archive.org/stream/DALAILUNNUBOWAHVOL1/DALAIL_UN_NUBOWAH_VOL_1#page/n136/mode/1up
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔آپ کو صحت و تندرستی بھی عطا فرمائے ۔
اور آپ جو علم حاصل کر رہے ہیں ۔اس میں سینہ کھول دے اور آسانیاں عطاء فرمائے ۔ اور نفع بخش علم عطاء فرمائے ۔
آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اللہ تعالیٰ ۔آپ کو صحت و تندرستی بھی عطا فرمائے ۔
اور آپ جو علم حاصل کر رہے ہیں ۔اس میں سینہ کھول دے اور آسانیاں عطاء فرمائے ۔ اور نفع بخش علم عطاء فرمائے ۔
آمین۔
آمین. تقبل یا رب العالمین.
اللہ آپکی دعاؤں کو قبول فرمائے.
بارک اللہ فی علمک.
جزاک اللہ خیرا.
آپ نے اب جو سیکنڈ لاسٹ والے مراسلے میں وضاحت کی ہے ماشاء اللہ اچھی وضاحت کی ہے. ان شاء اللہ موقع ملنے پر میں بھی کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا.
حیاک اللہ
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
یہ بحث کیوں؟؟؟؟
حدیث صحیح نہیں ھے. مزید شیطان اور اسکی ذریت کبھی دوست نہیں ھو سکتی:
أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاء مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا {الكهف:50}.

اس آیت میں اسکی ذریت کو بھی عدو کہا گیا ھے. لہذا یہ بحث ختم کرو. بلاوجہ صفحات کو برباد کر رھے ھیں.
 
Top