جھمی کون ہوتے ہیں - میں نے شاہد اسی فورم پر جب ایک حنفی نے جواب دیا تھا کہ ہم عقائد میں امام ابو حنیفہ رحم الله کی تقلید نہیں کرتے - پوچھا تھا کہ آپ لوگ امام صاحب کو عقائد میں تقلید کے قابل نہیں سمجھتے تو کیا ان کا عقیدہ غلط تھا - اگر عقیدہ غلط تھا تو اس کی مسائل میں تقلید کی کیا اہمیت ہے -
یہی سوال اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اگر ابن حزم عقیدے میں غلط تھے - تو ان کی باقی کتاب کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے -
’’ جہمیہ ‘‘
اس فرقے کا بانی’’ جہم بن صفوان‘‘ تھا اس کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے، نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا ۔یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے ۔ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :’’جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ہے ، یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا ،یا یہ کہے کہ قرآن اللہ کی طرف نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں ، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے ۔‘‘ (مجموع الفتاوی:۳/۹۹)
’’جہمیہ ‘‘کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں،وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے ۔صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شيء(چیز )ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جہم کا کہنا تھا :اللہ تعالیٰ کوشيء کہنا جائز نہیں ،کیونکہ شيء اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو ۔جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے ۔‘‘(مقالات الاسلامیین ۱/۲۵۹)
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً قُلِ اللہُ شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ﴾ (الانعام :۱۹)
’’پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے ؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے ۔‘‘
حقیقت میں ’’جہمیہ ‘‘کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تعطیل‘‘ کرنے والے ’’جہمیہ ‘‘کاعقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا ۔وہ خالق، اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے :
﴿ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ﴾ (القصص: ۳۸)
’’میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔‘‘
﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى﴾ (النٰزعٰت: ۲۴)
’’پس اس نے کہا میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں۔‘‘
’’فرعون‘‘’’ جہمیہ ‘‘کی طرح موسی علیہ السلام کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا ، اسی طرح وہ اس بات کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسیٰ علیہ السلام کا کوئی معبود ہے ۔‘‘
(مجموع الفتاوی۱۳/۱۸۵)
اسی لیے’’ جہمیہ ‘‘کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں ۔ہر معطل (صفات کا انکار کرنے والا )مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا ضروری نہیں ہے ،جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے ۔‘‘(درء التعارض ۱۰/۲۸۸،۲۸۹ )
سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ کہتے ہیں: جہمیہ کفار ہیں۔یزید بن ہارون رحمہ اللہ کہتے ہیں: جہمیہ کفار ہیں۔ (الرد علی الجہمیۃ :111)
البتہ وہ لوگ جو’’ جہمی‘‘ عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں‘ ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار ۷۲ گروہوں میں ہوتا ہے ۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ امام احمدرحمہ اللہ نے جہمیہ کے ہر فرد کو کافر نہیں کہا ،نہ ہر اس شخص کو کافر کہا کہ جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے۔نہ اسے کہ جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی ، بلکہ آپ نے (قرآن کو مخلوق کہنے والے )اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے ،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے ۔آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور انکے لیے دعا کرتے تھے۔‘‘( مجموع الفتاویٰ: 507,508/7)
’’معتزلہ‘‘ نے ان کی ہم نوائی کرتے ہوئے صرف صفت کلام کی نفی کی اور قرآن مجید کو مخلوق کہا ۔
حق بات تو شیطان سے بھی لی جاسکتی ہے
یدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ (صدقہ فطر) کی حفاظت کےلیے مقررفرمایا تو ایک رات کو ایک آنے والا آیا اور اس نے (اپنے کپڑے میں )کھانے والی چیزیں بھڑنا شروع کردیں ،میں نے اسے پکڑلیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کروں گا ۔اس نے کہا کہ مجھے چھوڑدو،میں محتاج،عیال دار اور سخت حاجت مند ہوں۔میں نے اسے چھوڑدیا ۔صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ابوہریرہ!اپنے رات کے قیدی کا حال تو سناؤ؟‘‘ میں نےعرض کی ،اے اللہ کے رسولﷺ ! جب اس نے کہا کہ وہ سخت حاجت منداور عیال دار ہے تو میں نے رحم کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ۔آپﷺ نے فرمایا’’اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے اور پھرآئے گا۔‘‘اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ واقعی دوبارہ آئے گا،کیونکہ رسول اللہ ﷺنے یہ خبردے دی تھی کہ وہ دوبارہ آئے گل ،سومیں چوکنا رہا ،چنانچہ وہ آیا اور اس نے (اپنے کپڑے میں )خوراک ڈالنا شروع کردی ۔میں نے اسے پکڑلیا اور کہا کہ تجھے ضرور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کروں گا۔کہنے لگأ مجھے چھوڑدو میں بہت محتاج ہوں اور مجھ پر اہل وعیال کی ذمہ داری کا بوجھ ہے ،اب میں آئندہ نہیں آؤں گا۔میں نے رحم کھاتے ہوئے اسے پھر چھوڑدیا ۔صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ابوہریرہ! اپنے قیدی کا حال سناؤ؟‘‘ میں نےعرض کی ،اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے سخت حاجت اور اہل وعیال کی ذمہ داری کے بوجھ کا ذکر کیا تو میں نے ترس کھاتے ہوئے اسے پھرچھوڑ دیا۔آپ ﷺ نے فرمایا:’’اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے،وہ پھر آئے گا۔‘‘میں نےتیسری بار اس کی گھات لگائی تو وہ پھرآیا اور اس نے (اپنے کپڑے میں )کھانے کی اشیاءا ڈالنا شروع کردیں ۔میں نے اسے پکڑلیا اور کہا ،اب میں تجھے ضروررسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کروں گا۔بس یہ تیسری اور آخری دفعہ ہے ،تو روز کہتا ہے کہ اب نہیں آئے گا لیکن وعدہ کرنے کے باوجود پھر آجاتا ہے ۔
اس نے کہا مجھے چھوڑ دو ،میں تمھیں کچھ ایسے کلمات سکھادیتا ہوں جن سے اللہ تعالی تمہیں نفع دے گا۔میں نے کہا وہ کیا کلمات ہیں ؟ کہنے لگا جب بستر پر آؤ تو آیت الکرسی (الله لا اله الا هوالحي القيوم)سے لے کرآخر تک پڑھ لیا کرو ساری رات اللہ کی طرف سے ایک محافظ تمہاری حفاظت کرتا رہے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریت نہ آسکے گا۔میں نے اسے چھوڑ دیا ۔گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریت نہ آسکے گا۔میں نے اسے چھوڑ دیا ۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اپنے رات کی قیدی کا حال سناؤ؟‘‘میں نےعرض کی ،اے اللہ کی رسول ﷺ !اس نےکہا تھا کہ وہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھائے گا جن سےاللہ تعالی مجھے نفع دے گاتو (یہ سن کر ) میں نے اسے پھرچھوڑ دیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کلمات کیا ہیں ؟‘‘میں نےعرض کی،اس نے مجھ سے کہا کہ جب بستر پر آؤ تو اول سے آخر تک مکمل آیت الکرسی پڑھ لیا کرو تو اس سے ساری رات اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ تمہاری حفاظت کرے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آ سکے گا۔اب صحابہ کرام خیروبھلائی کے سیکھنے کے حددرجہ شائق تھے۔یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اس نے تم سے بات تو سچی کی ہے حالانکہ وہ خود تو جھوٹا ہے،اے ابوہریرہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم تین راتیں کس سے باتیں کرتے رہے ہو؟‘‘میں نے عرض کی ،نہیں ،تو رسو ل اللہ ﷺ نے مجھے بتایا’’وہ شیطان تھا۔‘‘(بخاری ،کتاب الوکالۃ)