• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن حزم کا عقیدہ ؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ ابن حزم جھمی نہیں جھم مخالف ہیں اس میں کوئی شک نہیں- وہ الله کی صفات کو نام کہتے
ہیں کیونکہ صفت کہنا فلسفہ ہے اور دین میں فلسفہ کے خلاف ہیں

ان کے مخالف فلسفہ سے ہی صفات کو بیان کر رہے ہیں

الله کے ننانوے نام ہیں ابن حزم کہتے ہیں ان کو صفت نہیں نام کہنا چاہیے
کیونکہ الله کے جیسا کوئی نہیں

آپ کہتے ہیں کہ ابن حزم الله کی صفات کے انکاری تھے- جبکہ یہ بھی غلط ہے انہوں نے ایسا نہیں کہا- ہم جس کو صفت کہتے ہیں وہ اس کو نام کہتے ہیں اور الله کو سننے والا دیکھنے والا ہی کہتے ہیں

آپ سے سوال ہے کہ کیا ان کے مخالفین کا عقیدہ صحیح ہے ؟ آپ کا خود ان سے مختلف عقیدہ ہے

ابن تیمیہ رحم الله جنہوں نے یہ سارا شوشہ چھوڑا ہے وہ خود مسلسل روح کے جسد میں انے جانے کے قائل اور میت کے لئے مسلسل سماع الموتی کا عقیدہ رکھتے تھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ ابن حزم جھمی نہیں جھم مخالف ہیں اس میں کوئی شک نہیں
اچھا ایک طرف صدیوں سے علماء اگر کہیں کہ ’’ فلاں جہمی ہے ‘‘ تو وہ قابل قبول نہیں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، حالانکہ انہوں نےجس اعتبار سے کہا اس کی وضاحت بھی ہوچکی ہے ، جبکہ دوسری طرف ایک نامعلوم و مجہول آئی ڈی والے صاحب کہیں کہ ’’ فلان جہمی نہیں ‘‘ ، اور کہہ بھی اپنی جہالت کی بنیاد رہے ہو تو وہ کس طرح قابل قبول ہوگا ؟
آپ علماء پر طعن اس وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ جس چیز کا ابن حزم انکار کر رہےہیں اور جہمیہ کے ساتھ مل رہے ہیں ، اس کا آپ کو شعور اور ادارک نہیں ہے ، اب آپ کو ابتدائی قاعدہ پڑھانے کی ذمہ داری عصر حاضر کے علماء کی تو ہو سکتی ہے ، لیکن صدیوں پہلے گزر جانے والوں کی بات پر اس لیے رد نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آپ کی سطح پر اتر کے بات نہیں کرسکے ۔
پیارے ! ابن حزم صفات کے منکر تھے (اس کی وضاحت بعد میں آتی ہے) ، اور جو صفات کا انکار کرے ، اس پر علماء نے ’’ تجہم ‘‘ کا اطلاق کیا ہے ، اور بعد والےعلماء نے اس کو قبول بھی کیا ہے ، اب اگر مجھے یا آپ کو قبول نہیں تو اس میں خرابی ہمارے اندر ہے یا علماء کے اندر ؟
وہ الله کی صفات کو نام کہتے
ہیں کیونکہ صفت کہنا فلسفہ ہے اور دین میں فلسفہ کے خلاف ہیں
ان کے مخالف فلسفہ سے ہی صفات کو بیان کر رہے ہیں
الله کے ننانوے نام ہیں ابن حزم کہتے ہیں ان کو صفت نہیں نام کہنا چاہیے
کیونکہ الله کے جیسا کوئی نہیں
آپ کہتے ہیں کہ ابن حزم الله کی صفات کے انکاری تھے- جبکہ یہ بھی غلط ہے انہوں نے ایسا نہیں کہا- ہم جس کو صفت کہتے ہیں وہ اس کو نام کہتے ہیں اور الله کو سننے والا دیکھنے والا ہی کہتے ہیں
آپ ابن حزم کا عقیدہ صحیح نہیں سمجھے ، ان کے نزدیک اللہ کے صرف مجرد نام ہیں ، وہ نام جن معانی پر دلالت کرتے ہیں ، ابن حزم کے نزدیک وہ معانی مراد نہیں لیے جاسکتے ، اللہ کے اسماء حسنی کے انہیں ’’ معانی ‘‘ کو ’’ صفات ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بات کیا ہے کہ ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ یہ تینوں اللہ کے نام ہیں ، اور اللہ کی الگ الگ صفات ’’ علم ،سمع ، بصر ‘‘ پر دلالت کرنے کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔ لیکن ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ صرف اللہ کے نام ہیں ، اس سے بڑھ کر یہ کوئی اور چیز نہیں ہیں ۔ لہذا ان کے نزدیک ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ ایسے ہی ہے جسے ’’ علیم ، علیم ، علیم ‘‘ یا ’’ سمیع ، سمیع ، سمیع ‘‘ کو تکرار کے ساتھ دہرا دیا جائے ۔
اسی کو صفات کا انکار کہا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے علماء نے ان کو جہمی قرار دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ان کے مخالف فلسفہ سے ہی صفات کو بیان کر رہے ہیں
فلسفے اور منطق کی وجہ سے تو ان کے عقیدے میں خرابیاں آئی ہیں ، ابن حزم کی سیرت ، ابتدائی تعلیم وغیرہ کےبارے میں اپنی کسی پسندیدہ کتاب سے پڑھیں ، آپ ہماری بات کی تصدیق کریں گے ۔
باقی اللہ کے اسماء حسنی جن معانی پر دلالت کریں ان کو اللہ کی صفت کہنا یہ فلسفہ ہے ، پتہ نہیں یہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔ ویسے آپ یہ بتائیں ’’ سمیع ‘‘ اللہ کا اسم مبارک ہے ، اس کا معنی ہے کہ ’’ اللہ تعالی سننے والا ہے ‘‘ اگر یہ اللہ کی صفت نہیں تو پھر کیا ہے ۔؟
آپ سے سوال ہے کہ کیا ان کے مخالفین کا عقیدہ صحیح ہے ؟ آپ کا خود ان سے مختلف عقیدہ ہے
ابن تیمیہ رحم الله جنہوں نے یہ سارا شوشہ چھوڑا ہے وہ خود مسلسل روح کے جسد میں انے جانے کے قائل اور میت کے لئے مسلسل سماع الموتی کا عقیدہ رکھتے تھے
ابن حزم کےمخالفین سے مراد اگر ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں ، تو میری معلومات کے مطابق ان کا عقیدہ بالکل درست تھا ، بعض چھوٹے چھوٹے مسائل میں ان کے اقوال محل نزاع ہیں ، جن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جہاں بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کا عقیدہ درست نہیں ، اہل سنت والجماعت سے ہٹ کر تھا ، ہم ہٹ دھرمی کی بجائے ، درست بات کا اعتراف کرتے ہیں ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اللہ کے اسماء حسنی کے انہیں ’’ معانی ‘‘ کو ’’ صفات ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بات کیا ہے کہ ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ یہ تینوں اللہ کے نام ہیں ، اور اللہ کی الگ الگ صفات ’’ علم ،سمع ، بصر ‘‘ پر دلالت کرنے کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔ لیکن ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ صرف اللہ کے نام ہیں ، اس سے بڑھ کر یہ کوئی اور چیز نہیں ہیں ۔ لہذا ان کے نزدیک ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ ایسے ہی ہے جسے ’’ علیم ، علیم ، علیم ‘‘ یا ’’ سمیع ، سمیع ، سمیع ‘‘ کو تکرار کے ساتھ دہرا دیا جائے ۔
اسی کو صفات کا انکار کہا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے علماء نے ان کو جہمی قرار دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
@خضر حیات
بھائی اس کی زرہ مزید وضاحت کردیں صحیع سمھج نہیں آئی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اچھا ایک طرف صدیوں سے علماء اگر کہیں کہ ’’ فلاں جہمی ہے ‘‘ تو وہ قابل قبول نہیں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، حالانکہ انہوں نےجس اعتبار سے کہا اس کی وضاحت بھی ہوچکی ہے ، جبکہ دوسری طرف ایک نامعلوم و مجہول آئی ڈی والے صاحب کہیں کہ ’’ فلان جہمی نہیں ‘‘ ، اور کہہ بھی اپنی جہالت کی بنیاد رہے ہو تو وہ کس طرح قابل قبول ہوگا ؟
آپ علماء پر طعن اس وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ جس چیز کا ابن حزم انکار کر رہےہیں اور جہمیہ کے ساتھ مل رہے ہیں ، اس کا آپ کو شعور اور ادارک نہیں ہے ، اب آپ کو ابتدائی قاعدہ پڑھانے کی ذمہ داری عصر حاضر کے علماء کی تو ہو سکتی ہے ، لیکن صدیوں پہلے گزر جانے والوں کی بات پر اس لیے رد نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آپ کی سطح پر اتر کے بات نہیں کرسکے ۔
پیارے ! ابن حزم صفات کے منکر تھے (اس کی وضاحت بعد میں آتی ہے) ، اور جو صفات کا انکار کرے ، اس پر علماء نے ’’ تجہم ‘‘ کا اطلاق کیا ہے ، اور بعد والےعلماء نے اس کو قبول بھی کیا ہے ، اب اگر مجھے یا آپ کو قبول نہیں تو اس میں خرابی ہمارے اندر ہے یا علماء کے اندر ؟

آپ ابن حزم کا عقیدہ صحیح نہیں سمجھے ، ان کے نزدیک اللہ کے صرف مجرد نام ہیں ، وہ نام جن معانی پر دلالت کرتے ہیں ، ابن حزم کے نزدیک وہ معانی مراد نہیں لیے جاسکتے ، اللہ کے اسماء حسنی کے انہیں ’’ معانی ‘‘ کو ’’ صفات ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بات کیا ہے کہ ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ یہ تینوں اللہ کے نام ہیں ، اور اللہ کی الگ الگ صفات ’’ علم ،سمع ، بصر ‘‘ پر دلالت کرنے کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔ لیکن ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ صرف اللہ کے نام ہیں ، اس سے بڑھ کر یہ کوئی اور چیز نہیں ہیں ۔ لہذا ان کے نزدیک ’’ علیم ، سمیع ، بصیر ‘‘ ایسے ہی ہے جسے ’’ علیم ، علیم ، علیم ‘‘ یا ’’ سمیع ، سمیع ، سمیع ‘‘ کو تکرار کے ساتھ دہرا دیا جائے ۔
اسی کو صفات کا انکار کہا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے علماء نے ان کو جہمی قرار دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

فلسفے اور منطق کی وجہ سے تو ان کے عقیدے میں خرابیاں آئی ہیں ، ابن حزم کی سیرت ، ابتدائی تعلیم وغیرہ کےبارے میں اپنی کسی پسندیدہ کتاب سے پڑھیں ، آپ ہماری بات کی تصدیق کریں گے ۔
باقی اللہ کے اسماء حسنی جن معانی پر دلالت کریں ان کو اللہ کی صفت کہنا یہ فلسفہ ہے ، پتہ نہیں یہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔ ویسے آپ یہ بتائیں ’’ سمیع ‘‘ اللہ کا اسم مبارک ہے ، اس کا معنی ہے کہ ’’ اللہ تعالی سننے والا ہے ‘‘ اگر یہ اللہ کی صفت نہیں تو پھر کیا ہے ۔؟

ابن حزم کےمخالفین سے مراد اگر ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں ، تو میری معلومات کے مطابق ان کا عقیدہ بالکل درست تھا ، بعض چھوٹے چھوٹے مسائل میں ان کے اقوال محل نزاع ہیں ، جن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جہاں بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کا عقیدہ درست نہیں ، اہل سنت والجماعت سے ہٹ کر تھا ، ہم ہٹ دھرمی کی بجائے ، درست بات کا اعتراف کرتے ہیں ۔

یونانی فلسفہ کے مطابق اشیاء اپنی صفت سے جانی جاتی ہیں ابن حزم کہتے ہیں الله شی نہیں لہذا اس کی صفت کو صفت نہیں نام کہنا چاہیے اگر ہم صفت کہیں تو یہ الحاد کے الله کے ناموں میں
ان کے مخالف الله کو چیز قرار دیتے ہیں اور پھر ان تمام ناموں کو صفت کہتے ہیں

ہمارے نزدیک ابن حزم خود جھم کی طرح صفات کے مطلق انکاری نہیں

اپ کے مطابق

ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کا کوئی فہم نہیں- اس پر آپ نے کوئی دلیل نہیں دی -ابن حزم کی کتاب سے دلیل بھی دیں جس میں وہ صریح کہیں کہ الله کے ناموں کا کوئی مطلب نہیں

بنیادی بحث یہ تھی کہ عود روح صحیح ہے یا نہیں اس پر کہا گیا کہ ابن حزم جھمی ہیں حالانکہ عود روح کے مسئلہ کا الله کے اسماو صفات سے کیا تعلق؟ پھر جن لوگوں نے ابن حزم کو جھمی کہا ہے خود ان کا عقیدہ مردوں کے حوالے سے اپ کے نزدیک درست نہیں ،کیونکہ وہ سماع الموتی کو مانتے ہیں تو یہ خلط مبحث کیوں کیا اپ نے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ابن حزم کہتے ہیں الله شی نہیں لہذا اس کی صفت کو صفت نہیں نام کہنا چاہیے اگر ہم صفت کہیں تو یہ الحاد کے الله کے ناموں میں
ان کے مخالف الله کو چیز قرار دیتے ہیں اور پھر ان تمام ناموں کو صفت کہتے ہیں
قال الله سبحانه : { أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ } .[الأنعام : 93] ، والقرآن كلام الله ، وهو صفةٌ من صفاته ، والقول في الصفة كالقول في الذات.
الدليل من السنة :
حديث سهل بن سعد رضي الله عنه ؛ قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم لرجل : ((أمعك من القرآن شيْءٌ ؟)).قال : نعم.سورة كذا وسورة كذا ؛ لسُوَرٍ سمَّاها. رواه البخاري (7417).

امام بخاری ؒ تو فلسفہ یونان سے متاثر نہ تھے ،تاہم :
قال البخاري في كتاب التوحيد من ((صحيحه)) : ((باب : { قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلْ اللهُ } ، فسمى الله تعالى نفسه شيئاً ، وسمى النبي صلى الله عليه وسلم القرآن شيئاً ، وهو صفةٌ من صفات الله ، وقال : { كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ } (ثم أورد حديثَ سهلٍ السابق)).
قال الشيخ عبد الله الغنيمان في ((شرحه لكتاب التوحيد من صحيح البخاري)) (1/343) : ((يريد بهذا أنه يطلق على الله تعالى أنه شيء ، وكذلك صفاته ، وليس معنى ذلك أن الشيء من أسماء الله الحسنى ، ولكن يخبر عنه تعالى بأنه شيء، وكذا يخبر عن صفاته بأنها شيء ؛ لأن كل موجود يصح أن يقال : إنه شيء)).اهـ.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یونانی فلسفہ کے مطابق اشیاء اپنی صفت سے جانی جاتی ہیں ابن حزم کہتے ہیں الله شی نہیں لہذا اس کی صفت کو صفت نہیں نام کہنا چاہیے اگر ہم صفت کہیں تو یہ الحاد کے الله کے ناموں میں
ان کے مخالف الله کو چیز قرار دیتے ہیں اور پھر ان تمام ناموں کو صفت کہتے ہیں
آپ کا اس سلسلے میں مطالعہ بہت کمزور ہے ، خود مجھے بھی یہ مباحث بڑی مشکل لگتی ہیں ، ورنہ شاید میں ڈھنگ سے یہ بات آپ کوسمجھا پاتا ۔
ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کا کوئی فہم نہیں- اس پر آپ نے کوئی دلیل نہیں دی -ابن حزم کی کتاب سے دلیل بھی دیں جس میں وہ صریح کہیں کہ الله کے ناموں کا کوئی مطلب نہیں
دلیل ملاحظہ فرمالیں :
الكلام في سميع بصير وفي قديم
قال أبو محمد وأجمع المسلمون على القول بما جاء به نص القرآن من أن الله تعالى سميع بصير ثم اختلفوا فقالت طائفة من أهل السنة والأشعرية وجعفر بن حرب من المعتزلة وهشام بن الحكم وجميع المجسمة نقطع أن الله سميع بسمع بصير ببصر وذهبت طوائف من أهل السنة منهم الشافعي وداود ابن علي وعبد العزيز بن مسلم الناني رضي الله عنه م وغيرهم إلى أن الله تعالى سميع بصير ولا نقول بسمع ولا ببصر لأن الله تعالى لم يقله ولكن سميع بذاته وبصير بذاته قال أبو محمد وبهذا نقول ولا يجوز إطلاق سمع ولا بصر حيث لم يأت به نص لما ذكرنا آنفاً من أنه لا يجوز أن يخبر عنه تعالى ما لم يخبر عن نفسه

( الفصل فی الملل و الاہواء والنحل لابن حزم ج 1 ص 213۔214 من الشاملۃ ۔)
بنیادی بحث یہ تھی کہ عود روح صحیح ہے یا نہیں اس پر کہا گیا کہ ابن حزم جھمی ہیں حالانکہ عود روح کے مسئلہ کا الله کے اسماو صفات سے کیا تعلق؟ پھر جن لوگوں نے ابن حزم کو جھمی کہا ہے خود ان کا عقیدہ مردوں کے حوالے سے اپ کے نزدیک درست نہیں ،کیونکہ وہ سماع الموتی کو مانتے ہیں تو یہ خلط مبحث کیوں کیا اپ نے؟
میں نے کوئی خلط مبحث نہیں کیا ، اور نہ مجھے آپ کے اس عود روح والے معاملے سے کوئی دلچسپی ہے ، آپ نے جگہ جگہ اس سے ملتے جلتے مراسلے لکھے ہیں ، جن کو باوجود کوشش کے ، دل پڑھنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی اہل علم اس معاملےمیں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ ان سے یہ معاملہ سمجھ لیں یا بحث کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں ۔
میں نے تو بس ابن حزم کے جائز دفاع کے لیے اس موضوع میں شرکت کی تھی ، جسے آپ نے دیگر علماء کی پگڑی اچھال کر ابن حزم کا ’’ رد ‘‘ بنادیا ہے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ کا اس سلسلے میں مطالعہ بہت کمزور ہے ، خود مجھے بھی یہ مباحث بڑی مشکل لگتی ہیں ، ورنہ شاید میں ڈھنگ سے یہ بات آپ کوسمجھا پاتا ۔

دلیل ملاحظہ فرمالیں :
الكلام في سميع بصير وفي قديم
قال أبو محمد وأجمع المسلمون على القول بما جاء به نص القرآن من أن الله تعالى سميع بصير ثم اختلفوا فقالت طائفة من أهل السنة والأشعرية وجعفر بن حرب من المعتزلة وهشام بن الحكم وجميع المجسمة نقطع أن الله سميع بسمع بصير ببصر وذهبت طوائف من أهل السنة منهم الشافعي وداود ابن علي وعبد العزيز بن مسلم الناني رضي الله عنه م وغيرهم إلى أن الله تعالى سميع بصير ولا نقول بسمع ولا ببصر لأن الله تعالى لم يقله ولكن سميع بذاته وبصير بذاته قال أبو محمد وبهذا نقول ولا يجوز إطلاق سمع ولا بصر حيث لم يأت به نص لما ذكرنا آنفاً من أنه لا يجوز أن يخبر عنه تعالى ما لم يخبر عن نفسه

( الفصل فی الملل و الاہواء والنحل لابن حزم ج 1 ص 213۔214 من الشاملۃ ۔)

میں نے کوئی خلط مبحث نہیں کیا ، اور نہ مجھے آپ کے اس عود روح والے معاملے سے کوئی دلچسپی ہے ، آپ نے جگہ جگہ اس سے ملتے جلتے مراسلے لکھے ہیں ، جن کو باوجود کوشش کے ، دل پڑھنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی اہل علم اس معاملےمیں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ ان سے یہ معاملہ سمجھ لیں یا بحث کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں ۔
میں نے تو بس ابن حزم کے جائز دفاع کے لیے اس موضوع میں شرکت کی تھی ، جسے آپ نے دیگر علماء کی پگڑی اچھال کر ابن حزم کا ’’ رد ‘‘ بنادیا ہے ۔

زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ کیا ابن حزم جھمی ہیں؟ کیا ان کو جھمی کہنا درست ہے؟ اس پر بعض لوگوں کی رائے میں وہ جھمی ہیں ہماری رائے میں وہ نہیں ہیں- بحث کا نقطہ یہ بنا کہ دیگر اہل سنت کے نزدیک الله کو شی کہا جا سکتا ہے (مثلا كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه ) اور اس اختلاف میں ابن حزم کی الگ رائے ہے ان کے نزدیک الله شی نہیں وہ تو لیس کمثلہ شی ہے لہذا اس کو شی نہیں کہا جا سکتا اس کے بعد بحث دوسری طرف جاتی ہے کہ جب الله شی نہیں تو اس کی صفات کیا ہیں ؟

کہا جاتا ہے کہ ابن حزم کے نزدیک اسماء کا کوئی مفھوم نہیں لیکن دلیل میں جو اقتباس دیا گیا ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ الله سمیع بذات ہے لہذا اس کے لئے سمع کا لفظ نہیں بولنا چاہیے- لیکن انہوں نے الله کو سننے والا ہی کہا ہے جو الله کا نام ہے اور ان کے نزدیک یہ الله کی صفت نہیں (ہاں اشیاء کے لئے اس کو صفت کہنا چاہیے) – ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں

فَلَا يجوز القَوْل بِلَفْظ الصِّفَات وَلَا اعْتِقَاده بل هِيَ بِدعَة مُنكرَة


پس یہ صفات کا لفظ بولنا اور اس پر اعتقاد جائز نہیں بلکہ یہ بدعت منکر ہے


محدثین یونانی فلسفہ سے متاثر نہیں تھے لیکن معتزلہ کے رد میں وہ ان اصطلا حات کو استمعال کرتے رہے ہیں اور ایک روایت سے ان کو دلیل بھی ملی مثلا امام بخاری ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں صفة الرحمن کا لفظ ہے ابن حزم اس روایت میں راوی پر تنقید کرتے ہیں

إِن هَذِه اللَّفْظَة انْفَرد بهَا سعيد بن أبي هِلَال وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ قد ذكره بالتخطيط يحيى وَأحمد بن حَنْبَل


اور یہ لفظ بیان کرنے میں سعيد بن أبي هِلَال ( المتوفی ١٤٩ ھ ) کا تفرد ہے جو قوی نہیں اور اس کے اختلاط کا ذکر یحیی اور احمد نے کیا ہے

محدث الساجي نے بھی اس راوی کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے امام احمد کے الفاظ کتاب سؤالات أبي بكر أحمد بن محمد بن هانئ الأثرم میں موجود ہیں

البانی اس صفت والی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها
میں ایک دوسری روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

وفوق هذا كله؛ فإن أصل الإسناد- عند سائر المخرجين فيه سعيد بن أبي هلال، وهو مختلط


اور ان سب میں بڑھ کر اس کی اسناد میں سارے طرق میں سعيد بن أبي هلال جو مختلط ہے


کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں ایک دوسری روایت پر کہتے ہیں

الثانية: سعيد بن أبي هلال؛ فإنه كان اختلط؛ كما قال الإمام أحمد


دوسری علت سعيد بن أبي هلال بے شک مختلط ہے جیسا کہ امام احمد نے کہا


ایک اور روایت پر کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة لکھتے ہیں

وفي إسناده سعيد بن أبي هلال؛ وهو وإن كان ثقة؛ فقد كان اختلط


اور اس کی اسناد میں سعيد بن أبي هلال ہے اگر وہ ثقہ بھی ہو تو ان کو اختلاط تھا


صفة الرحمن کے الفاظ کو بولنے میں سعيد بن أبي هلال راوی کا تفرد ہے لہذا ابن حزم کی رائے اس روایت پر درست معلوم ہوتی ہے ویسے بھی تاریخ کے مطابق یہ فلسفیانہ اصطلا حات بنو امیہ کے آخری دور میں اسلامی لیٹرچر اور بحثوں میں داخل ہوئیں-

ابن حزم کے نزدیک الله کے ناموں کا مفھوم ہے جو اس کے نام ہیں صفات نہیں ان کو صفت کہنا بدعت ہے لہذا ان کے نزدیک انسانوں کا دیکھنا بصر ہے انسان البصیر نہیں جبکہ الله البصیر ہے یعنی الله کی صفات ( نام) کسی انسانی صفت سے تقابل کر کے نہیں سمجھی جا سکتیں

ابن حزم کی اس رائے پر بعض لوگوں نے متشدد رویہ اختیار کیا اور ان کو جھمی کہا حالانکہ وہ جھم کے خلاف ہیں- اسماء و صفات متشابہات میں سے ہیں ابن حزم مطلق انکار نہیں کر رہے لہذا ان کو جھمی کہنا صحیح نہیں

واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ کیا ابن حزم جھمی ہیں؟ کیا ان کو جھمی کہنا درست ہے؟ اس پر بعض لوگوں کی رائے میں وہ جھمی ہیں ہماری رائے میں وہ نہیں ہیں- بحث کا نقطہ یہ بنا کہ دیگر اہل سنت کے نزدیک الله کو شی کہا جا سکتا ہے (مثلا كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه ) اور اس اختلاف میں ابن حزم کی الگ رائے ہے ان کے نزدیک الله شی نہیں وہ تو لیس کمثلہ شی ہے لہذا اس کو شی نہیں کہا جا سکتا اس کے بعد بحث دوسری طرف جاتی ہے کہ جب الله شی نہیں تو اس کی صفات کیا ہیں ؟
ابن حزم رحمہ اللہ کا طریقہ استدلال مختلف ہے ، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان کا موقف وہی ہے جو منکرین صفات جہمیہ ، معتزلہ وغیرہ کا ہے ، وہ بھی تو یہی کہتے ہیں سمیع بلا سمع بصیر بلا بصر ۔
البتہ ابن حزم اس مسلک تک اپنی ظاہریت کی بنا پر پہنچے ہیں ، جبکہ دوسرے لوگ اپنی عقل پرستی کی بنا پر ۔
اگر آپ کے نزدیک ابن حزم کا موقف درست ہے ، تو پھر جہمیہ و معتزلہ کا بھی درست ہونا چاہیے ۔
باقی رہی یہ بات کہ ’’ اللہ کے لیے لفظ ’’ شیء ‘‘ کا اطلاق درست ہے یا نہیں ؟ اور پھر اس پر صفات کے اطلاق کا جواز ، عدم جواز نکالنا ‘‘ یہ بھی تو فلسفہ ہے ، جو آپ فرمارے ہیں ۔
پھر دیکھیں ، جس چیز کے لیے ہم صفات کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ، آپ اس کو ’’ اسماء حسنی ‘‘ کا ’’ فہم ‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ اگر صفت کا لفظ وارد نہیں ہے تو کیا یہ ’’ مفہوم ‘‘ کا لفظ وارد ہے ۔؟
ابن حزم کی اس رائے پر بعض لوگوں نے متشدد رویہ اختیار کیا اور ان کو جھمی کہا حالانکہ وہ جھم کے خلاف ہیں- اسماء و صفات متشابہات میں سے ہیں ابن حزم مطلق انکار نہیں کر رہے لہذا ان کو جھمی کہنا صحیح نہیں
واللہ اعلم
آپ نے اللہ کی صفات کے ساتھ ’’ اسماء ‘‘ کو بھی متشابہات میں سے قرار دے دیا ہے ، اگر اللہ کے اسماء متشابہات میں سے ہے تو پھر اللہ کو پکارا کس طرح جائے گا ؟ کیونکہ متشابہات کی پیروی سے تو منع کیا گیا ہے ۔
اور اللہ کی صفات بھی متشابہات میں سے نہیں ہے ، کیونکہ ان کے معانی بالکل واضح ہیں ، ہاں ان صفات کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں گفتگو کرنا ہمارے لیے منع ہے ۔
جو صفات کا انکار کرتے ہیں یا انہیں متشابہات میں سے قرار دیتے ہیں ، ان کی عام طور مصیبت یہ ہوتی ہےکہ ’’ معانی ‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’ ماہیت و کیفیت ‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں ، اور پھر تشبیہ کے ڈر سے انکار کردیتے ہیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
پہلی پوسٹ میں آپ نے فرمایا ’‘ اللہ شیء نہیں ’‘ ابھی اس کے خلاف دلیل کا جواب نہیں دیا ،

یونانی فلسفہ کے مطابق اشیاء اپنی صفت سے جانی جاتی ہیں ابن حزم کہتے ہیں الله شی نہیں لہذا اس کی صفت کو صفت نہیں نام کہنا چاہیے
گل دیگر شگفت :
آپ نے یہ انکشاف فرما دیا کہ انسان ’‘ سمیع۔۔بصیر ’‘ نہیں ؛؛( معاذ اللہ )
برادر ۔۔۔انسان کو تو خود خالق کل نے ’‘ سمیع و بصیر ’‘ بنایا ہے ۔۔۔۔کبھی وقت نکال کر قرآن مجید بھی پڑھ لیا کریں ؛
فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ليتمكنَ من استماعِ الآياتِ التنزيليةِ ومشاهدةِ الآياتِ التكوينية
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
پہلی پوسٹ میں آپ نے فرمایا ’‘ اللہ شیء نہیں ’‘ ابھی اس کے خلاف دلیل کا جواب نہیں دیا ،



گل دیگر شگفت :
آپ نے یہ انکشاف فرما دیا کہ انسان ’‘ سمیع۔۔بصیر ’‘ نہیں ؛؛( معاذ اللہ )
برادر ۔۔۔انسان کو تو خود خالق کل نے ’‘ سمیع و بصیر ’‘ بنایا ہے ۔۔۔۔کبھی وقت نکال کر قرآن مجید بھی پڑھ لیا کریں ؛
فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ليتمكنَ من استماعِ الآياتِ التنزيليةِ ومشاهدةِ الآياتِ التكوينية
ابن حزم رحمہ اللہ کا طریقہ استدلال مختلف ہے ، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان کا موقف وہی ہے جو منکرین صفات جہمیہ ، معتزلہ وغیرہ کا ہے ، وہ بھی تو یہی کہتے ہیں سمیع بلا سمع بصیر بلا بصر ۔
البتہ ابن حزم اس مسلک تک اپنی ظاہریت کی بنا پر پہنچے ہیں ، جبکہ دوسرے لوگ اپنی عقل پرستی کی بنا پر ۔
اگر آپ کے نزدیک ابن حزم کا موقف درست ہے ، تو پھر جہمیہ و معتزلہ کا بھی درست ہونا چاہیے ۔
باقی رہی یہ بات کہ ’’ اللہ کے لیے لفظ ’’ شیء ‘‘ کا اطلاق درست ہے یا نہیں ؟ اور پھر اس پر صفات کے اطلاق کا جواز ، عدم جواز نکالنا ‘‘ یہ بھی تو فلسفہ ہے ، جو آپ فرمارے ہیں ۔
پھر دیکھیں ، جس چیز کے لیے ہم صفات کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ، آپ اس کو ’’ اسماء حسنی ‘‘ کا ’’ فہم ‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ اگر صفت کا لفظ وارد نہیں ہے تو کیا یہ ’’ مفہوم ‘‘ کا لفظ وارد ہے ۔؟

آپ نے اللہ کی صفات کے ساتھ ’’ اسماء ‘‘ کو بھی متشابہات میں سے قرار دے دیا ہے ، اگر اللہ کے اسماء متشابہات میں سے ہے تو پھر اللہ کو پکارا کس طرح جائے گا ؟ کیونکہ متشابہات کی پیروی سے تو منع کیا گیا ہے ۔
اور اللہ کی صفات بھی متشابہات میں سے نہیں ہے ، کیونکہ ان کے معانی بالکل واضح ہیں ، ہاں ان صفات کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں گفتگو کرنا ہمارے لیے منع ہے ۔
جو صفات کا انکار کرتے ہیں یا انہیں متشابہات میں سے قرار دیتے ہیں ، ان کی عام طور مصیبت یہ ہوتی ہےکہ ’’ معانی ‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’ ماہیت و کیفیت ‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں ، اور پھر تشبیہ کے ڈر سے انکار کردیتے ہیں ۔

انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً


ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا


لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے یہ ایسے ہی ہے کہ العلی الله کا نام ہے اور علی ایک صحابی کا

جب ابن حزم کہتے ہیں کہ الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر کا اطلاق درست نہیں تو ان کا مقصد یہی ہوتا ہے انسانی حواس خمسہ سے الله کو بلند رکھیں

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں

قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى


الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہتے کیونکہ یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے


ہم اپ کی رائے سے متفق ہیں کہ ہاں ان صفات کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں گفتگو کرنا ہمارے لیے منع ہے یہی بات اوپر ابن حزم کہہ رہے ہیں۔

کیوں منع ہے ؟ اسی لئے کہ ان کی کیفیت کا پتا نہیں ہے

ہم کو پورے قرآن پر ایمان لانا ہے مشابھات پر بھی لایا جاتا ہے لیکن ان کی تاویل منع ہے- ابن حزم کی رائے میں چونکہ اسماء کا مفھوم انسان کی عقل سے دور ہے لہذا ان کو صرف اسم ہی کہنا صحیح ہے ان کی تاویل منع ہے اور چونکہ الله نے کہا ہے مجھ کو میرے ناموں سے پکارو تو اس کو ان ہی ناموں سے پکارا جائے گا- ان کے نزدیک الله کے ناموں کا مفھوم بھی ہے لیکن ان کی صحیح کیفیت الله کو پتا ہے

الذھبی کتاب العَلو للعلي الغفار میں بتاتے ہیں کہ أبو معاذ خالد بن سلیمان کہتے ہیں
http://www.islamport.com/w/aqd/Web/2587/144.htm
كَانَ جهم على معبر ترمذ وَكَانَ فصيح اللِّسَان لم يكن لَهُ علم وَلَا مجالسة لأهل الْعلم فَكلم السمنية فَقَالُوا لَهُ صف لنا رَبك عزوجل الَّذِي تعبده
فَدخل الْبَيْت لَا يخرج مِنْهُ ثمَّ خرج إِلَيْهِم بعد أَيَّام
فَقَالَ هُوَ هَذَا الهوا مَعَ كل شَيْء وَفِي كل شَيْء وَلَا يَخْلُو مِنْهُ شَيْء فَقَالَ أَبُو معَاذ كذب عَدو الله بل الله جلّ جَلَاله على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه


جھم (بن صفوان) ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور فصیح تھا لیکن صاحبِ عِلم نہ تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا جِس الله کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو تو وہ (جھم بن صفوان) اپنے گھر میں داخل ہوا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں تو أبو معاذ نے کہا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے


ابن حزم کے موقف کو جھمیت کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہماری رائے میں نہیں، یہ ایک رائے ضرور ہے لیکن اس میں مطلق انکار نہیں جو جھمی کرتے تھے

اہل سنت کے باقی علماء الله کو شی کہتے ہیں پھر الله کے ناموں کو صفات کہتے ہیں- یہ طریقہ استدلال فلسفہ کی وجہ سے رائج ہوا کیونکہ معتزلہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے تھے – یہ طریقہ فلسفہ یونان کے امہات میں سے ہے کہ اشیاء اپنی صفت اور ضد سے پہچانی جاتی ہیں- ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کو صفت کہنا بدعت اور اس کے ناموں میں الحاد ہے- الله کو ضد اور صفت کی بجائے اس طرح سمجھا جائے گا جیسا اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے بس نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم

ہمارے نزدیک ابن حزم اور باقی اہل سنت کے موقف میں طریقہ استدلال کے فرق کی وجہ سے کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن وہ اتنا نہیں کہ اس پر ابن حزم کو اہل سنت سے ہی خارج کر دیا جائے واللہ اعلم
 
Top