آپ کا اس سلسلے میں مطالعہ بہت کمزور ہے ، خود مجھے بھی یہ مباحث بڑی مشکل لگتی ہیں ، ورنہ شاید میں ڈھنگ سے یہ بات آپ کوسمجھا پاتا ۔
دلیل ملاحظہ فرمالیں :
الكلام في سميع بصير وفي قديم
قال أبو محمد وأجمع المسلمون على القول بما جاء به نص القرآن من أن الله تعالى سميع بصير ثم اختلفوا فقالت طائفة من أهل السنة والأشعرية وجعفر بن حرب من المعتزلة وهشام بن الحكم وجميع المجسمة نقطع أن الله سميع بسمع بصير ببصر وذهبت طوائف من أهل السنة منهم الشافعي وداود ابن علي وعبد العزيز بن مسلم الناني رضي الله عنه م وغيرهم إلى أن الله تعالى سميع بصير ولا نقول بسمع ولا ببصر لأن الله تعالى لم يقله ولكن سميع بذاته وبصير بذاته قال أبو محمد وبهذا نقول ولا يجوز إطلاق سمع ولا بصر حيث لم يأت به نص لما ذكرنا آنفاً من أنه لا يجوز أن يخبر عنه تعالى ما لم يخبر عن نفسه
( الفصل فی الملل و الاہواء والنحل لابن حزم ج 1 ص 213۔214 من الشاملۃ ۔)
میں نے کوئی خلط مبحث نہیں کیا ، اور نہ مجھے آپ کے اس عود روح والے معاملے سے کوئی دلچسپی ہے ، آپ نے جگہ جگہ اس سے ملتے جلتے مراسلے لکھے ہیں ، جن کو باوجود کوشش کے ، دل پڑھنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی اہل علم اس معاملےمیں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ ان سے یہ معاملہ سمجھ لیں یا بحث کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں ۔
میں نے تو بس ابن حزم کے جائز دفاع کے لیے اس موضوع میں شرکت کی تھی ، جسے آپ نے دیگر علماء کی پگڑی اچھال کر ابن حزم کا ’’ رد ‘‘ بنادیا ہے ۔
زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ کیا ابن حزم جھمی ہیں؟ کیا ان کو جھمی کہنا درست ہے؟ اس پر بعض لوگوں کی رائے میں وہ جھمی ہیں ہماری رائے میں وہ نہیں ہیں- بحث کا نقطہ یہ بنا کہ دیگر اہل سنت کے نزدیک الله کو شی کہا جا سکتا ہے (مثلا
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه ) اور اس اختلاف میں ابن حزم کی الگ رائے ہے ان کے نزدیک الله شی نہیں وہ تو لیس کمثلہ شی ہے لہذا اس کو شی نہیں کہا جا سکتا اس کے بعد بحث دوسری طرف جاتی ہے کہ جب الله شی نہیں تو اس کی صفات کیا ہیں ؟
کہا جاتا ہے کہ ابن حزم کے نزدیک اسماء کا کوئی مفھوم نہیں لیکن دلیل میں جو اقتباس دیا گیا ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ الله سمیع بذات ہے لہذا اس کے لئے سمع کا لفظ نہیں بولنا چاہیے- لیکن انہوں نے الله کو سننے والا ہی کہا ہے جو الله کا نام ہے اور ان کے نزدیک یہ الله کی صفت نہیں (ہاں اشیاء کے لئے اس کو صفت کہنا چاہیے) – ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
فَلَا يجوز القَوْل بِلَفْظ الصِّفَات وَلَا اعْتِقَاده بل هِيَ بِدعَة مُنكرَة
پس یہ صفات کا لفظ بولنا اور اس پر اعتقاد جائز نہیں بلکہ یہ بدعت منکر ہے
محدثین یونانی فلسفہ سے متاثر نہیں تھے لیکن معتزلہ کے رد میں وہ ان اصطلا حات کو استمعال کرتے رہے ہیں اور ایک روایت سے ان کو دلیل بھی ملی مثلا امام بخاری ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں صفة الرحمن کا لفظ ہے ابن حزم اس روایت میں راوی پر تنقید کرتے ہیں
إِن هَذِه اللَّفْظَة انْفَرد بهَا سعيد بن أبي هِلَال وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ قد ذكره بالتخطيط يحيى وَأحمد بن حَنْبَل
اور یہ لفظ بیان کرنے میں سعيد بن أبي هِلَال ( المتوفی ١٤٩ ھ ) کا تفرد ہے جو قوی نہیں اور اس کے اختلاط کا ذکر یحیی اور احمد نے کیا ہے
محدث الساجي نے بھی اس راوی کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے امام احمد کے الفاظ
کتاب سؤالات أبي بكر أحمد بن محمد بن هانئ الأثرم میں موجود ہیں
البانی اس صفت والی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن کتاب
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها
میں ایک دوسری روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
وفوق هذا كله؛ فإن أصل الإسناد- عند سائر المخرجين فيه سعيد بن أبي هلال، وهو مختلط
اور ان سب میں بڑھ کر اس کی اسناد میں سارے طرق میں سعيد بن أبي هلال جو مختلط ہے
کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں ایک دوسری روایت پر کہتے ہیں
الثانية: سعيد بن أبي هلال؛ فإنه كان اختلط؛ كما قال الإمام أحمد
دوسری علت سعيد بن أبي هلال بے شک مختلط ہے جیسا کہ امام احمد نے کہا
ایک اور روایت پر
کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة لکھتے ہیں
وفي إسناده سعيد بن أبي هلال؛ وهو وإن كان ثقة؛ فقد كان اختلط
اور اس کی اسناد میں سعيد بن أبي هلال ہے اگر وہ ثقہ بھی ہو تو ان کو اختلاط تھا
صفة الرحمن کے الفاظ کو بولنے میں سعيد بن أبي هلال راوی کا تفرد ہے لہذا ابن حزم کی رائے اس روایت پر درست معلوم ہوتی ہے ویسے بھی تاریخ کے مطابق یہ فلسفیانہ اصطلا حات بنو امیہ کے آخری دور میں اسلامی لیٹرچر اور بحثوں میں داخل ہوئیں-
ابن حزم کے نزدیک الله کے ناموں کا مفھوم ہے جو اس کے نام ہیں صفات نہیں ان کو صفت کہنا بدعت ہے لہذا ان کے نزدیک انسانوں کا دیکھنا بصر ہے انسان البصیر نہیں جبکہ الله البصیر ہے یعنی الله کی صفات ( نام) کسی انسانی صفت سے تقابل کر کے نہیں سمجھی جا سکتیں
ابن حزم کی اس رائے پر بعض لوگوں نے متشدد رویہ اختیار کیا اور ان کو جھمی کہا حالانکہ وہ جھم کے خلاف ہیں- اسماء و صفات متشابہات میں سے ہیں ابن حزم مطلق انکار نہیں کر رہے لہذا ان کو جھمی کہنا صحیح نہیں
واللہ اعلم