• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن حزم کا عقیدہ ؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یہ آپ کتاب پڑھ کر فیصلہ کریں کہ اس کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں ۔
شاہد آپ میرا سوال سمجھے نہیں - آپ نے خود کہا تھا کہ

اسی لئے تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ عقائد کا باب کیوں چھوڑ دینا چائیے - کیا ان کا عقیدہ غلط تھا - اگر ایک بندے کا عقیدہ ہے غلط ہے تو اس کے باقی مسائل کیسے ہوں گے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میں آپ کا سوال یا جواب جو بھی تھا ، سمجھ چکا ہوں ۔
اور اسی کے مطابق میں نے گزارش کی تھی ، دوبارہ پھر بصارت فرمالیں : کہ ’’ محلی ‘‘ 11 جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے ، جس کے ابتداء میں ساٹھ ستر صفحات کے سوا ساری کی ساری احکام یعنی عبادات و معاملات پر مشتمل ہے ، اس میں عقیدے کے مسائل زیر بحث نہیں لائے گئے ، لہذا کتاب پڑھیں اور دیکھیں اگر مسائل قرآن وسنت کی بنیاد پر بیان کیے گئے ہیں تو پھر کتاب کی اہمیت کیوں نہیں ہے ۔؟
اسی لئے تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ عقائد کا باب کیوں چھوڑ دینا چائیے - کیا ان کا عقیدہ غلط تھا - اگر ایک بندے کا عقیدہ ہے غلط ہے تو اس کے باقی مسائل کیسے ہوں گے
کسی ایک مسئلے یا فن میں غلطی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آدمی ہے ہی مجموعہ اغلاط ۔
کئی علماء ہیں جن کی فقہ میں بہت زیادہ خدمات ہیں ، لیکن عقیدے کے مسائل میں ان پر کلام ہے ، اور اسی طرح اس کے برعکس ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
میں آپ کا سوال یا جواب جو بھی تھا ، سمجھ چکا ہوں ۔
اور اسی کے مطابق میں نے گزارش کی تھی ، دوبارہ پھر بصارت فرمالیں : کہ ’’ محلی ‘‘ 11 جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے ، جس کے ابتداء میں ساٹھ ستر صفحات کے سوا ساری کی ساری احکام یعنی عبادات و معاملات پر مشتمل ہے ، اس میں عقیدے کے مسائل زیر بحث نہیں لائے گئے ، لہذا کتاب پڑھیں اور دیکھیں اگر مسائل قرآن وسنت کی بنیاد پر بیان کیے گئے ہیں تو پھر کتاب کی اہمیت کیوں نہیں ہے ۔؟

کسی ایک مسئلے یا فن میں غلطی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آدمی ہے ہی مجموعہ اغلاط ۔
کئی علماء ہیں جن کی فقہ میں بہت زیادہ خدمات ہیں ، لیکن عقیدے کے مسائل میں ان پر کلام ہے ، اور اسی طرح اس کے برعکس ۔


امام ابن حزم ایک مشھور محقق ہیں بعض مسائل میں ان کی رائے سب سے الگ ہے جس کی وہ اپنے حساب سے دلیل دیتے ہیں لیکن ان کے عقائد صحیح ہیں ان پر جھمیہ کا الزام ان پر ظلم ہے جو شخص اپنی کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں جھم بن صفوان پر جرح کرے اس ہی کو جھمی کہنا آج کل کے علماء کا فن ہے جو آنکھ میں دھول جھونک کر اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں- ابن حزم کو جھمی قرار اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ وہ عقیدہ عود روح کے مخالف ہیں اور ابن تیمیہ رحم الله اور ان کے حمایتی اس کے حق میں ہیں لہذا جب کچھ نہ ملا تو جھمی ہونے کا شوشہ چھوڑا گیا

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل کہتے ہیں

وَمن تدبر هَذَا القَوْل علم أَنه أقبح من قَول جهم وَجَمِيع الْمُجبرَة لأَنهم جعلُوا أَفعَال الْعباد طبيعة اضطرارية كَفعل النَّار للإحراق


اور جو اس قول پر غور کرے گا اس کو جھم اور …. کے قول کی برائی کو جان لے گا کیونکہ انہوں نے بندوں کے اضطراري افعال کو اگ جیسا کر دیا …


ایک اور جگہ کہتے ہیں

وَلَا من قَول أحد من السّلف قبل اللعين جهم بن صَفْوَان

اور ایسا سلف میں سے کسی نے نہیں کہا لعين جهم بن صَفْوَان سے پہلے


ایک جگہ لکھتے ہیں

هَذَا التَّأْوِيل الْفَاسِد لِأَنَّهُ تَعَالَى أخبر أَن كل من آمن فَإِنَّمَا آمن بِإِذن الله عز وَجل وَإِن من لم يُؤمن فَإِن الله تَعَالَى لم يَشَاء أَن يُؤمن فيلزمهم على هَذَا أَن كل مُؤمن فِي الْعَالم فمكره على الْإِيمَان وَهَذَا شَرّ من قَول الْجَهْمِية


یہ تاویل فاسد ہے …. اور یہ الْجَهْمِية کے برے اقوال میں سے ہے


جو شخص ابن حزم کو جھمی کہے اس کی جہالت میں شک نہیں اور یہ ان مفرط علماء کا کام ہے جن کے ذہن مسلک کا دفاع کرنے میں لگے رہتے ہیں

ابن تیمیہ رحم الله کے نزدیک امام ترمذی بھی جھمی ہیں

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِمیں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.


ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.


ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

شیخ ابن تیمیہ نے کہا

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ


اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی
تاویلات کی جنس میں سے ہے


امام بخاری کو بھی جھمی کہا گیا ہے

امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق


میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور ہمارے الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں


یہاں شخص سے مراد امام بخاری رحم الله ہیں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کہ الفاظ قرآن مخلوق ہیں تلاوت مخلوق ہے لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

امام ابو حنیفہ رحم الله کو بھی کہا گیا ہے

جھمی کہنا پرانا فیشن ہے @خضر حیات بھائی کچھ دلیل پیش کریں-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس ہی کو جھمی کہنا آج کل کے علماء کا فن ہے جو آنکھ میں دھول جھونک کر اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں
ابن عبد الہادی ، ذہبی ، ابن کثیر یہ آجکل کے علماء ہیں ۔؟ ان سب نے ابن حزم کے عقیدہ پر تنقید کی ہے ۔
بن حزم کو جھمی قرار اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ وہ عقیدہ عود روح کے مخالف ہیں اور ابن تیمیہ رحم الله اور ان کے حمایتی اس کے حق میں ہیں لہذا جب کچھ نہ ملا تو جھمی ہونے کا شوشہ چھوڑا گیا
انتہائی ناقص معلومات کی بنیاد پر آپ نے ایک وجہ تراشی ہے ، پھر اس کو ’’ شوشہ ‘‘ کہنے کا شوق پورا کیا ہے ۔ حالانکہ جنہوں نے ابن حزم رحمہ اللہ پر تنقید کی ہے ، انہوں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور مسائل میں ان کی اہل سنت والجماعت سے اختلاف کو واضح کیا ہے ۔ جس میں اسماء و صفات جسے امہات الابواب ہیں ۔
اگر مطالعہ کے لیے وقت ہے تو ذرا ملاحظہ فرمائیں :
ابن حزم و موقفه من الإلهيات
ابن تیمیہ رحم الله کے نزدیک امام ترمذی بھی جھمی ہیں
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام ترمذی کو ’’ جہمی ‘‘ کہا ہو ، یہ آپ کی خواہش ہے ، جو حسرت ہی رہے گی ۔ کبھی کوئی حوالہ نہیں دکھا سکیں گے ۔
فی الوقت جو دلائل آپ پیش کررہے ہیں اس سے آپ جیسے ’’ اہل خرد ‘‘ ہی محظوظ ہوں گے ، علمی میدان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ کیونکہ کسی قول پر نقد کرنا الگ بات ہے ، جب کہ شخصیت پر حکم الگ معاملہ ہے ۔
امام بخاری کو بھی جھمی کہا گیا ہے
کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ۔
کسی قول پر نقد کرنا الگ بات ہے ، جب کہ شخصیت پر حکم الگ معاملہ ہے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابن عبد الہادی ، ذہبی ، ابن کثیر یہ آجکل کے علماء ہیں ۔؟ ان سب نے ابن حزم کے عقیدہ پر تنقید کی ہے ۔

انتہائی ناقص معلومات کی بنیاد پر آپ نے ایک وجہ تراشی ہے ، پھر اس کو ’’ شوشہ ‘‘ کہنے کا شوق پورا کیا ہے ۔ حالانکہ جنہوں نے ابن حزم رحمہ اللہ پر تنقید کی ہے ، انہوں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور مسائل میں ان کی اہل سنت والجماعت سے اختلاف کو واضح کیا ہے ۔ جس میں اسماء و صفات جسے امہات الابواب ہیں ۔
اگر مطالعہ کے لیے وقت ہے تو ذرا ملاحظہ فرمائیں :
ابن حزم و موقفه من الإلهيات

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام ترمذی کو ’’ جہمی ‘‘ کہا ہو ، یہ آپ کی خواہش ہے ، جو حسرت ہی رہے گی ۔ کبھی کوئی حوالہ نہیں دکھا سکیں گے ۔
فی الوقت جو دلائل آپ پیش کررہے ہیں اس سے آپ جیسے ’’ اہل خرد ‘‘ ہی محظوظ ہوں گے ، علمی میدان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ کیونکہ کسی قول پر نقد کرنا الگ بات ہے ، جب کہ شخصیت پر حکم الگ معاملہ ہے ۔

کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ۔
کسی قول پر نقد کرنا الگ بات ہے ، جب کہ شخصیت پر حکم الگ معاملہ ہے ۔

ہم نے دلائل دیے ہیں اپ دیکھ سکتے ہیں ابن حزم خود جھم کے خلاف ہیں اور صفات کے مسئلہ میں ہی اس سے اختلاف شدید کیا جاتا ہے

دوم ترمذی کو جھمیہ ابن تیمیہ رحم الله اشارتا کہہ چکے ہیں اس کی بھی دلیل دی گئی ہے کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کریں

اور امام احمد کا قول پورا امام بخاری پر ثبت ہوتا ہے ان کی کتاب خلق الافعال پر اس سب کو رد نہیں کیا
جا سکتا

لوگوں کے اقوال کی بینیاد پر ہی شخصیت پر حکم لگتا ہے امام بخاری یا امام ترمذی کا قول جہمیوں جیسا ہے تو یہ بات کہنے کا امام احمد یا ابن تیمیہ کا کیا مقصد ہے؟
لوگوں نے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھمی کہا ہے اس کو آپ چھپائیں تو اور بات ہے البتہ یہ سب انہی لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے کم از کم کتم حق نہ کیا کریں

ابن تیمیہ رحم الله عجیب و غریب اور متضاد باتوں کا مرکب انسان تھے فتاوی میں انہوں نے ابن حزم کو فلسفی کہا ہے حالانکہ فلسفہ اور ایمانیات الگ چیزیں ہیں اور یہ ابن تیمیہ رحم الله کی رائے ہے جس کوان کے ہم نوا گروپ نے ہی پھیلایا ہے مثلا ابن کثیر و امثالہ اور ان لوگوں کی کوشش رہی کہ ابن حزم کو اہل سنت سے الگ قرار دے کر میدان صاف کریں لہذا المنجد صاحب اپنے فتوی میں انہی اقوال کو پیش کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے ایسا کہا اور ایسا کہا یہاں تک کہ ابن حزم نے امام الاشعری کو بھی نہیں چھوڑا تو میرے بھائی امام الاشعری پر صفات کے مسئلہ پر ابن تیمیہ خود بعض اوقات جرح کرتے ہیں ایک کام خود کریں تو صحیح دوسرا کرے تو غلط کہاں کا انصاف ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہم نے دلائل دیے ہیں اپ دیکھ سکتے ہیں ابن حزم خود جھم کے خلاف ہیں اور صفات کے مسئلہ میں ہی اس سے اختلاف شدید کیا جاتا ہے
ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اللہ کی ’’ صفات ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، گویا وہ صفات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ سمیع ، بصیر ‘‘ وغیرہ صفات نہیں بلکہ خالی اللہ کے نام ہیں اور اس سے یہ مراد لینا جائز نہیں کہ اللہ ’’ سمع ، بصر ‘‘ رکھتے ہیں۔
جبکہ جہم بن صفوان اللہ کے اسماء و صفات سب کا منکر تھا ، لیکن بعض دفعہ علماء نے ’’ تجہم ‘‘ کا اطلاق ان لوگوں پر بھی کیا ہے ، جو صرف صفات کا انکار یا بعض صفات کا انکار کرتے تھے ۔
مزید تفصیل
دوم ترمذی کو جھمیہ ابن تیمیہ رحم الله اشارتا کہہ چکے ہیں اس کی بھی دلیل دی گئی ہے کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کریں
جی آنکھیں کھلی ہیں ، علماء کی عبارات دیکھنے کے لیے ، سمجھنے کے لیے ، آپ کے اشارے بھی سمجھ آئیں ضروری نہیں ۔
لوگوں کے اقوال کی بینیاد پر ہی شخصیت پر حکم لگتا ہے امام بخاری یا امام ترمذی کا قول جہمیوں جیسا ہے تو یہ بات کہنے کا امام احمد یا ابن تیمیہ کا کیا مقصد ہے؟
گویا میرے قول کی بنیاد پر آپ کی ’’ شخصیت ‘‘ پر حکم لگے تو آپ کو قبول ہے ۔؟
اور پھر عبارت نقل کرتے ہوئے آپ اتنا دھیان نہیں دے رہے کہ ابن تیمیہ نے جس قول کو جہمیہ کے اقوال کی مانند قرار دیا ہے وہ امام ترمذی کا نہیں ،بلکہ ترمذی نے اسے حکایت کیا ہے ۔
اور احمد کے قول میں بخاری کو مراد لینا ، پھر اس سے نتیجہ نکال کا بخاری کو احمد کے نزدیک جہمی بنادینا ، یہ آپ جیسے محققین کا ہی کام ہے ،ورنہ امام احمد بخاری کے استاد تھے ، چاہتے تو علی رؤس الاشہاد سب کے سامنے انہیں جہمی کا ٹھپہ لگادیتے ، اور جس بات کی تلقین اپنے بیٹے کو کر رہے ہیں ، خود اس پر عمل کرتے ہوئے بخاری کو اپنی مجالس کے قریب نہ آنے دیتے ۔
لوگوں نے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھمی کہا ہے اس کو آپ چھپائیں تو اور بات ہے البتہ یہ سب انہی لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے کم از کم کتم حق نہ کیا کریں
کہا ہوگا ، اللہ نے عقل دی ہے ، کھرے کھوٹے میں پہچان کے لیے ۔
جہاں میرے سےکتمان حق ہورہا ہو رہا ہو ، آپ وہاں بیان حق کا فریضہ سرانجاد دےدیا کریں ۔
بن تیمیہ رحم الله عجیب و غریب اور متضاد باتوں کا مرکب انسان تھے فتاوی میں انہوں نے ابن حزم کو فلسفی کہا ہے حالانکہ فلسفہ اور ایمانیات الگ چیزیں ہیں اور یہ ابن تیمیہ رحم الله کی رائے ہے جس کوان کے ہم نوا گروپ نے ہی پھیلایا ہے مثلا ابن کثیر و امثالہ اور ان لوگوں کی کوشش رہی کہ ابن حزم کو اہل سنت سے الگ قرار دے کر میدان صاف کریں لہذا المنجد صاحب اپنے فتوی میں انہی اقوال کو پیش کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے ایسا کہا اور ایسا کہا یہاں تک کہ ابن حزم نے امام الاشعری کو بھی نہیں چھوڑا تو میرے بھائی امام الاشعری پر صفات کے مسئلہ پر ابن تیمیہ خود بعض اوقات جرح کرتے ہیں ایک کام خود کریں تو صحیح دوسرا کرے تو غلط کہاں کا انصاف ہے
جو تعریف ابن حزم کی ابن تیمیہ اور ان کےتلامذہ نے کی ہے ، شاید ہی کسی نے کی ہوگی ، لیکن جو بات غلط ہے سو غلط ہے ، شاید آپ نے ذہبی کی عبارت کو پڑھنے کی زحمت نہیں فرمائی ۔ ذہبی نے ابن حزم کی تعریف و توصیف اور کھلے دل کے ساتھ ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب مجھے ابن حزم کے بعض عقائد کے بارے میں علم ہوا تو بہت تکلیف محسوس ہوئی ۔
خیر میرے خیال میں بات کو مختصر کرنا چاہیے ، سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ :
آپ کے نزدیک ابن حزم کا عقیدہ کیسا تھا ۔؟
اگر ان کا عقیدہ درست تھا تو آپ کا عقیدہ بھی وہی ہے ۔؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابن عبد الہادی ، ذہبی ، ابن کثیر یہ آجکل کے علماء ہیں ۔؟ ان سب نے ابن حزم کے عقیدہ پر تنقید کی ہے ۔

انتہائی ناقص معلومات کی بنیاد پر آپ نے ایک وجہ تراشی ہے ، پھر اس کو ’’ شوشہ ‘‘ کہنے کا شوق پورا کیا ہے ۔ حالانکہ جنہوں نے ابن حزم رحمہ اللہ پر تنقید کی ہے ، انہوں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور مسائل میں ان کی اہل سنت والجماعت سے اختلاف کو واضح کیا ہے ۔ جس میں اسماء و صفات جسے امہات الابواب ہیں ۔
اگر مطالعہ کے لیے وقت ہے تو ذرا ملاحظہ فرمائیں :
ابن حزم و موقفه من الإلهيات

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام ترمذی کو ’’ جہمی ‘‘ کہا ہو ، یہ آپ کی خواہش ہے ، جو حسرت ہی رہے گی ۔ کبھی کوئی حوالہ نہیں دکھا سکیں گے ۔
فی الوقت جو دلائل آپ پیش کررہے ہیں اس سے آپ جیسے ’’ اہل خرد ‘‘ ہی محظوظ ہوں گے ، علمی میدان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ کیونکہ کسی قول پر نقد کرنا الگ بات ہے ، جب کہ شخصیت پر حکم الگ معاملہ ہے ۔

کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ۔
کسی قول پر نقد کرنا الگ بات ہے ، جب کہ شخصیت پر حکم الگ معاملہ ہے ۔

ابن حزم خود جھم کے خلاف ہیں اور صفات کے مسئلہ میں ہی اس سے اختلاف شدید کیا جاتا ہے

افسوس البانی کتاب لآيات البينات في عدم سماع الأموات على مذهب الحنفية السادات

میں تعلیق میں لکھتے ہیں

علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي من كبار حفاظ الحديث وأئمة الظاهرية ولكنه في الأسماء والصفات جهمي جلد


ابن حزم مطلق جھمی ہیں


اسی بات کو الصحیحہ میں بھی لکھتے ہیں

یہ کیا کفر کا فتوی ہے؟

ان مفرط علماء نے ہی ابن حزم کو جھمی کہا ہے صفات کا مطلق انکار الگ چیز ہے (جو جھم کرتا تھا ) اور ان کی تاویل الگ (جو ابن حزم نے کیا) چونکہ یہ متشابہات میں سے ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابن حزم خود جھم کے خلاف ہیں اور صفات کے مسئلہ میں ہی اس سے اختلاف شدید کیا جاتا ہے

افسوس البانی کتاب لآيات البينات في عدم سماع الأموات على مذهب الحنفية السادات

میں تعلیق میں لکھتے ہیں

علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي من كبار حفاظ الحديث وأئمة الظاهرية ولكنه في الأسماء والصفات جهمي جلد


ابن حزم مطلق جھمی ہیں


اسی بات کو الصحیحہ میں بھی لکھتے ہیں

یہ کیا کفر کا فتوی ہے؟

ان مفرط علماء نے ہی ابن حزم کو جھمی کہا ہے صفات کا مطلق انکار الگ چیز ہے (جو جھم کرتا تھا ) اور ان کی تاویل الگ (جو ابن حزم نے کیا) چونکہ یہ متشابہات میں سے ہیں
آپ کے نزدیک ابن حزم کا عقیدہ کیسا تھا ۔؟
اگر ان کا عقیدہ درست تھا تو آپ کا عقیدہ بھی وہی ہے ۔؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اللہ کی ’’ صفات ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، گویا وہ صفات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ سمیع ، بصیر ‘‘ وغیرہ صفات نہیں بلکہ خالی اللہ کے نام ہیں اور اس سے یہ مراد لینا جائز نہیں کہ اللہ ’’ سمع ، بصر ‘‘ رکھتے ہیں۔
جبکہ جہم بن صفوان اللہ کے اسماء و صفات سب کا منکر تھا ، لیکن بعض دفعہ علماء نے ’’ تجہم ‘‘ کا اطلاق ان لوگوں پر بھی کیا ہے ، جو صرف صفات کا انکار یا بعض صفات کا انکار کرتے تھے ۔
مزید تفصیل

جی آنکھیں کھلی ہیں ، علماء کی عبارات دیکھنے کے لیے ، سمجھنے کے لیے ، آپ کے اشارے بھی سمجھ آئیں ضروری نہیں ۔

گویا میرے قول کی بنیاد پر آپ کی ’’ شخصیت ‘‘ پر حکم لگے تو آپ کو قبول ہے ۔؟
اور پھر عبارت نقل کرتے ہوئے آپ اتنا دھیان نہیں دے رہے کہ ابن تیمیہ نے جس قول کو جہمیہ کے اقوال کی مانند قرار دیا ہے وہ امام ترمذی کا نہیں ،بلکہ ترمذی نے اسے حکایت کیا ہے ۔
اور احمد کے قول میں بخاری کو مراد لینا ، پھر اس سے نتیجہ نکال کا بخاری کو احمد کے نزدیک جہمی بنادینا ، یہ آپ جیسے محققین کا ہی کام ہے ،ورنہ امام احمد بخاری کے استاد تھے ، چاہتے تو علی رؤس الاشہاد سب کے سامنے انہیں جہمی کا ٹھپہ لگادیتے ، اور جس بات کی تلقین اپنے بیٹے کو کر رہے ہیں ، خود اس پر عمل کرتے ہوئے بخاری کو اپنی مجالس کے قریب نہ آنے دیتے ۔

کہا ہوگا ، اللہ نے عقل دی ہے ، کھرے کھوٹے میں پہچان کے لیے ۔
جہاں میرے سےکتمان حق ہورہا ہو رہا ہو ، آپ وہاں بیان حق کا فریضہ سرانجاد دےدیا کریں ۔

جو تعریف ابن حزم کی ابن تیمیہ اور ان کےتلامذہ نے کی ہے ، شاید ہی کسی نے کی ہوگی ، لیکن جو بات غلط ہے سو غلط ہے ، شاید آپ نے ذہبی کی عبارت کو پڑھنے کی زحمت نہیں فرمائی ۔ ذہبی نے ابن حزم کی تعریف و توصیف اور کھلے دل کے ساتھ ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب مجھے ابن حزم کے بعض عقائد کے بارے میں علم ہوا تو بہت تکلیف محسوس ہوئی ۔
خیر میرے خیال میں بات کو مختصر کرنا چاہیے ، سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ :
آپ کے نزدیک ابن حزم کا عقیدہ کیسا تھا ۔؟
اگر ان کا عقیدہ درست تھا تو آپ کا عقیدہ بھی وہی ہے ۔؟


ابن حزم خود جھم کے خلاف ہیں اس پر مسئلہ صفات میں اعتراض کرتے ہیں

بخاری امام احمد کو استاد نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے کہ صحیح میں ان سے صرف ایک روایت لکھی اور تین مقام پر صرف ان کی بات نقل کی ہے

قال ابو نصر الکلاباذی و لم یحدث عنہ البخاری نفسہ فی الجامع بشیء و لا اورد من حدیث فیہ شیئا غیر ھذا الواحد الا ما لعلہ استشھد بہ فی بعض المواضع

ابو نصر الکلاباذی کہتے ہیں احمد سے بخاری نے فی نفسہ کچھ بھی الجامع صحیح میں روایت نہیں کیا سوائے اس (ایک روایت) کے اور بعض جگہ استشہاد کیا ہے


آپ بتا سکتے ہیں امام بخاری کا استاد امام احمد سے یہ بے رخی والا وریہ کیوں ہے؟

ہو سکتا ہے امام بخاری ہی امام احمد کی مجلس میں نہ جاتے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ صحیح میں ایک روایت لکھی اور اس میں بھی اپنے اور امام احمد کے درمیان ایک راوی رکھا

امام بخاری کا مسئلہ لفظ پر جو عقیدہ تھا اسی پر امام احمد کی رائے آپ کو دکھائی گئی ہے جو آپ ان کی کتاب خلق الافعال میں بھی دیکھ سکتے ہیں

دونوں کی رائے ہمارے سامنے ہیں آپ تقابل کر سکتے ہیں

اور جہاں تک ابن تیمیہ کی ترمذی کے بارے میں رائے ہے تو شیخ کہتے تھے کہ

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ


اس کو ابن تیمیہ ترمذی کی تاویل کہتے ہیں نہ کہ ان کی حکایت – ابن تیمیہ آپ کی رائے سے متفق نہیں اور وہ اس کو ترمزی کی ہی رائے سمجھتے ہیں اور اسی پر ان کو جھمی کہتے ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابن حزم خود جھم کے خلاف ہیں اس پر مسئلہ صفات میں اعتراض کرتے ہیں

بخاری امام احمد کو استاد نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے کہ صحیح میں ان سے صرف ایک روایت لکھی اور تین مقام پر صرف ان کی بات نقل کی ہے

قال ابو نصر الکلاباذی و لم یحدث عنہ البخاری نفسہ فی الجامع بشیء و لا اورد من حدیث فیہ شیئا غیر ھذا الواحد الا ما لعلہ استشھد بہ فی بعض المواضع

ابو نصر الکلاباذی کہتے ہیں احمد سے بخاری نے فی نفسہ کچھ بھی الجامع صحیح میں روایت نہیں کیا سوائے اس (ایک روایت) کے اور بعض جگہ استشہاد کیا ہے


آپ بتا سکتے ہیں امام بخاری کا استاد امام احمد سے یہ بے رخی والا وریہ کیوں ہے؟

ہو سکتا ہے امام بخاری ہی امام احمد کی مجلس میں نہ جاتے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ صحیح میں ایک روایت لکھی اور اس میں بھی اپنے اور امام احمد کے درمیان ایک راوی رکھا

امام بخاری کا مسئلہ لفظ پر جو عقیدہ تھا اسی پر امام احمد کی رائے آپ کو دکھائی گئی ہے جو آپ ان کی کتاب خلق الافعال میں بھی دیکھ سکتے ہیں

دونوں کی رائے ہمارے سامنے ہیں آپ تقابل کر سکتے ہیں

اور جہاں تک ابن تیمیہ کی ترمذی کے بارے میں رائے ہے تو شیخ کہتے تھے کہ

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ


اس کو ابن تیمیہ ترمذی کی تاویل کہتے ہیں نہ کہ ان کی حکایت – ابن تیمیہ آپ کی رائے سے متفق نہیں اور وہ اس کو ترمزی کی ہی رائے سمجھتے ہیں اور اسی پر ان کو جھمی کہتے ہیں
میرے خیال میں بات کو مختصر کرنا چاہیے ، سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ :
آپ کے نزدیک ابن حزم کا عقیدہ کیسا تھا ۔؟
اگر ان کا عقیدہ درست تھا تو آپ کا عقیدہ بھی وہی ہے ۔؟
 
Top