ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اللہ کی ’’ صفات ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، گویا وہ صفات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ سمیع ، بصیر ‘‘ وغیرہ صفات نہیں بلکہ خالی اللہ کے نام ہیں اور اس سے یہ مراد لینا جائز نہیں کہ اللہ ’’ سمع ، بصر ‘‘ رکھتے ہیں۔
جبکہ جہم بن صفوان اللہ کے اسماء و صفات سب کا منکر تھا ، لیکن بعض دفعہ علماء نے ’’ تجہم ‘‘ کا اطلاق ان لوگوں پر بھی کیا ہے ، جو صرف صفات کا انکار یا بعض صفات کا انکار کرتے تھے ۔
مزید تفصیل
جی آنکھیں کھلی ہیں ، علماء کی عبارات دیکھنے کے لیے ، سمجھنے کے لیے ، آپ کے اشارے بھی سمجھ آئیں ضروری نہیں ۔
گویا میرے قول کی بنیاد پر آپ کی ’’ شخصیت ‘‘ پر حکم لگے تو آپ کو قبول ہے ۔؟
اور پھر عبارت نقل کرتے ہوئے آپ اتنا دھیان نہیں دے رہے کہ ابن تیمیہ نے جس قول کو جہمیہ کے اقوال کی مانند قرار دیا ہے وہ امام ترمذی کا نہیں ،بلکہ ترمذی نے اسے حکایت کیا ہے ۔
اور احمد کے قول میں بخاری کو مراد لینا ، پھر اس سے نتیجہ نکال کا بخاری کو احمد کے نزدیک جہمی بنادینا ، یہ آپ جیسے محققین کا ہی کام ہے ،ورنہ امام احمد بخاری کے استاد تھے ، چاہتے تو علی رؤس الاشہاد سب کے سامنے انہیں جہمی کا ٹھپہ لگادیتے ، اور جس بات کی تلقین اپنے بیٹے کو کر رہے ہیں ، خود اس پر عمل کرتے ہوئے بخاری کو اپنی مجالس کے قریب نہ آنے دیتے ۔
کہا ہوگا ، اللہ نے عقل دی ہے ، کھرے کھوٹے میں پہچان کے لیے ۔
جہاں میرے سےکتمان حق ہورہا ہو رہا ہو ، آپ وہاں بیان حق کا فریضہ سرانجاد دےدیا کریں ۔
جو تعریف ابن حزم کی ابن تیمیہ اور ان کےتلامذہ نے کی ہے ، شاید ہی کسی نے کی ہوگی ، لیکن جو بات غلط ہے سو غلط ہے ، شاید آپ نے ذہبی کی عبارت کو پڑھنے کی زحمت نہیں فرمائی ۔ ذہبی نے ابن حزم کی تعریف و توصیف اور کھلے دل کے ساتھ ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب مجھے ابن حزم کے بعض عقائد کے بارے میں علم ہوا تو بہت تکلیف محسوس ہوئی ۔
خیر میرے خیال میں بات کو مختصر کرنا چاہیے ، سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ :
آپ کے نزدیک ابن حزم کا عقیدہ کیسا تھا ۔؟
اگر ان کا عقیدہ درست تھا تو آپ کا عقیدہ بھی وہی ہے ۔؟