• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن خطاب سا امیر کون ہو گا بھلا ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ابن خطاب سا امیر کون ہو گا بھلا ؟

ابوبکر قدوسی

کیسا منظر ہو گا جب زخمی زخمی عمر بن خطاب نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو کہا کہ:
ام المومنین ہاں جائیو ، اور جا کے سلام کہیو ...اور کہنا کہ :
سیدہ ! دم رخصت ہے اور عمر بن خطاب کا جی چاہتا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا بسرام کرے ، انہی کے قدموں سے قیامت کے روز اٹھے ........
علم کے امام ، تقوے کے پہاڑ ، لائق ترین باپ کے لائق ترین فرزند ،عبد اللہ بن عمر چہرے پر ہزار غم سجائے حکم کی تکمیل کو چل دیے -
"بات سنو ! ہاں بات سنو ... یہ نہ کہنا کہ امیر المومنین نے کہلا بھیجا ہے ، کہنا عمر نے ایسا کہا ہے ..ہاں کہنا آقا کے پہلو میں ، ایک کونے میں اس فقیر کو بھی جگہ مل جائے تو عمر پر عمر بھر کا احسان رہے گا "
عبد اللہ گئے ..... دیکھا کہ مومنوں کی ماں ، سیدہ کائنات ، نبی کی عزت اور ناموس ، آسمان دنیا میں سب سے زیادہ ذی علم خاتون، خاتون جنت ، سیدہ عائشہ رو رہی تھیں -
ہاں مدینے میں خبر عام ہو چلی تھی کہ کوئی دم جاتا ہے مسافر رخصت ہونے کو ہے ،
قافلہ شوق کی رخصت کا بگل بج چکا ..سو اسی غم میں آج مومنوں کی ماں بھی رو رہی تھیں -
عبد اللہ بن عمر نے جا کے عرض گذاری ...سیدہ نے روتے روتے بس اتنا کہا :
"آقا دنیا سے رخصت ہوئے ، میرے ہادی میری مہدی رخصت ہووے ، ان کے پیچھے میرے والد ابوبکر بھی رخصت ہوئے ... دوست تھے دوست رہے قیامت کو ساتھ اٹھیں گے ....دل تھا کہ میں بھی انہی کے پہلو میں جا کے سو رہوں گی یہ ایک بندے کی جگہ میں نے اپنے لیے رکهی ہوئی تهی ....ہاں میرے عظیم خاوند جب رخصت ہوے تو ان کا سر میرے سینے پر تھا اور وجود میری گود میں ..ہاں نا ، میرا جی تھا نا کہ اس محبت کے قرض کو وصول کیا جاتا کہ ...قیامت کا قیام ہوتا ، میرے حضور اپنی قبر اطہر سے اٹھتے ، اب کے ان کا پہلو ہوتا ان کا وجود ہوتا ، اور مجھے ان کا سہارا ہوتا ...لیکن کیسے روک سکتی ہوں عمر کو ..ہاں کیسے منع کر سکتی ہوں ....
ہاں ہاں آقا کہا کرتے ..... میں گیا میرے ساتھ ابو بکر گیا ، عمر گیا ..میں نکلا میرے ساتھ ابوبکر نکلا ، عمر نکلا ....اس ساتھ کو بھلا میں کیسے توڑوں .... جائیے جا کے اپنے والد کو ، ہمارے امیر کو کہیے کہ آقا کا پہلو آپ کا ہوا ... "
عبد اللہ واپس پلٹے ، دیکھا والد ایسے امید وا نظروں سے منتظر کہ جیسے زمانے میں ان سا فقیر کوئی نہ ہو ..ہاں آقا کا پہلو مل جائے تو زمانے بھر کی فقیری قبول ہے یہ دو گھڑی کی فقیری کی بھلا کیا بات ہے -
خبر نہیں خوش خبری تھی ..... ایک دنیا کی جان جس کے رعب کے سبب حلق میں اٹکی ہوتی تھی آج اس کی جان سیدہ عائشہ کے جواب کے انتظار میں حلق میں آ چکی تھی ..بیٹے نے ، فرمان بردار بیٹے نے آ کے خبر سنائی :
"اماں نے آپ کی بات کو قبولیت دے دی ہے "
فقیری رخصت ہوئی اور زمانے بھر کی تونگری ، امارت ، اور دولت مندی کا احساس چہرے پر نمایاں ہو گیا -- ہاں آج ان سے بڑھ کے کون امیر تھا ، دولت مند تھا ، تونگر تھا کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی کا ساتھ ، اور قیامت تک ساتھ نصیب ہوا -
ظالمو! آج ان کے ایمان بارے زبان بے لگام دراز کرتے ہو کہ جن کا دم رخصت ، دم آخر ، دم واپسیں بھی اس ایک ہاں کے تلے اٹکا ہوا تھا کہ اک بار اس سوہنے کے قدموں میں جگہ مل جائے -
صلی اللہ علیه وسلم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
گورنر جب چرواہا بن گیا :
.
...ازقلم ابوبکر قدوسی
.
گورنر صاحب گو دیہات کے تھے ، بدو کہلائے جاتے تھے ، لیکن اب گورنر تھے - گورنری کا رنگ جب چوکھا ہوا تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے - لیکن چلیے پہلے مدینے چلتے ہیں -
سیدنا عمر فاروق ، جی ہاں فاوق اعظم مسجد نبوی میں فروکش ہیں ، احباب جمع ہیں - ایک صاحب آتے ہیں کچھ ترش رو کر کے کہتے ہیں کہ :
" حضور ! آپ گورنر تو بنا چھوڑتے ہیں ، کبھی ان کی خبر بھی رکھا کیجئے کہ آپ کے کہے پر پورا بھی اترتے ہیں یا نہیں "
جس عمر کو دیکھ کر کے شیطان بھاگ اٹھتا تھا ، لوگوں کے چہرے جواب دہی کے ڈر سے بدل جاتے تھے آج اس عمر کا رنگ متغیر ہو گیا - اللہ کے حضور جواب دہی کا سوچا تو کانپ اٹھے -
"کس کی بات کر رہے ہو میاں ؟"
"جی آپ کے مصر کے گورنر عیاض بن غنم کی بات کر رہا ہوں ، کہ جو آپ کی عائد کردہ شرائط کی پابندی نہیں کرتے "
سیدنا عمر اسی وقت دو آدمیوں کو تحقیق احوال کو روانہ کرتے ہیں ، کہ صورت حال کا معلوم کریں اور اگر کچھ الزامات میں سچائی ہو تو انہیں ساتھ لے کر واپس آئیں - دونوں افراد مصر جا پہنچتے ہیں - ادھر ادھر پھرتے ہیں لوگوں سے گورنر کے حالات دریافت کرتے ہیں ، بات کچھ سچ سچ ہی لگ رہی ہے - گورنر صاحب بدل چکے ہیں - آخر میں دونوں صاحبین گورنر صاحب کے مکان کو جاتے ہیں - باہر ایک دربان بیٹھا ہے - اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ہیں تو جواب آتا ہے
" کل آنا "
"انہیں کہو کہ باہر نکلیں ، ورنہ ہم دروازے کو آگ لگا دیں گے ، ہمیں عمر بن خطاب نے بھیجا ہے "
ایک صاحب جاتے ہیں ، آگ لے آتے ہیں - اتنے میں دربان گورنر صاحب کو اطلاع دیتا ہے کہ حضرت باہر یہ ماجرا ہو گیا - عیاض رضی اللہ عنہ کو خبر ملتی ہے تو بھاگے ہووے باہر آتے ہیں -
"ہمیں امیر المومنین نے بھیجا ہے اور آپ کو ابھی ہمارے ساتھ چلنا ہے " پیغام دیتے ہیں -
"ذرا رکیے میں گھر سے کچھ زاد راہ لے لوں " گورنر صاحب کی آواز میں جہاں بھر کی کمزوری سمٹ آئی تھی -
" نہیں آپ گھر نہیں جا سکتے ، یہیں سے اور ابھی ، اسی وقت چلنا ہے "
منزلوں پر منزلیں مارتے تینوں مدینے آتے ہیں - دونوں تفتیش کار اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں -
سیدنا عمر کہ چہرے پر برہمی ، سیدنا عیاض کہ نظریں زمین پر گڑی -
" تو کون ہے ؟"
آواز نہ تھی ایک کوڑا تھا ، سماعت شکن کوڑا کہ جو گورنر صاحب کے اندر تک اترتا چلا گیا -
"جی میں عیاض بن غنم ، آپ کا گورنر مصر " جواب سے کسے مفر ؟
" میں نے تمہیں گورنر بناتے وقت کچھ شرائط عائد کی تھیں ، تم نے جنھیں توڑا ہے ، بخدا میں تمہیں سخت سزا دوں گا "
سیدنا عمر اپنے غلام کو حکم دیتے ہیں کہ جاؤ اور اون کا ایک چوغہ ، ایک لاٹھی اور بیت المال سے تین سو بکریاں لاؤ "
"عیاض ، یہ سامان لو اور باہر فلاں چراہ گاہ میں چلے جاؤ"
سر پر تپتی دوپہر اور مشقت بھری یہ سزا - کہاں مصر سی جنت ارضی کی بادشاہی ، لیکن جائے فرار کہاں ؟
کھڑے سوچ میں ہیں کہ سیدنا عمر کی آواز نے سناٹے کو توڑا :
" میں نے تمھارے باپ کو دیکھا ہے اس کا چوغہ اس چوغے سے برا تھا اور لاٹھی اس سے بدتر جو میں نے تمہیں دی ہے - جاؤ اور چراگاہ میں چلے جاؤ - اور ہاں سنو ! کسی سائل کو دودھ سے محروم نہ رکھنا "
عیاض غش کھا کر گر جاتے ہیں لیکن ہوش آنے پر بھی سزا میں کمی نہیں کی جاتی - بکریاں لیتے ہیں اور چراہ گاہ کو نکل جاتے ہیں - کچھ روز گزرتے ہیں امیر المومنین ان کو بلاتے ہیں :
" اگر میں تمہیں مصر کا گورنر بناؤں تو تم کیسے انسان ہو گے ؟"
"جیسا آپ چاہیں "
سیدنا عمر ان کو بحال کر کے مصر بھجوا دیتے ہیں ....مصر پہنچتے ہیں - لیکن اب عیاض اب ابو ذر غفاری کی مانند ہو گئے شائد .. ہاں بالکل ہی بدل گئے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عمر کاہے کا خلیفہ ، خلیفہ تو تمہیں ہونا چاہئیے تھا :
ابوبکر قدوسی
آج تو جی چاہ رہا ہے کہ ہم اسلم کے پاؤں کی جوتیاں ہی ہو جاتے کہ جو اس روز سیدنا عمر کے ساتھ قدم قدم چلی تھیں - جی یہ سیدنا اسلم تھے کہ جو ہمارے سید ، ہمارے سردار عمر بن خطاب کے ساتھ اس رات نکلے -
تاریک رات مگر اب کہاں تاریک رہی ، عمر بن خطاب اس رات نکلے تاریخ کی کتابوں میں یہ رات روشن تر ہو گئی -
تاریک رات کو سیدنا عمر اپنے غلام اور ساتھی اسلم کے ساتھ نکلے -
دور آگ جلی دکھائی تو ادھر کو چل دیے -
" اسلم ، میرا گمان ہے کہ تاریک رات اور سردی کے سبب کوئی قافلہ رکا پڑا ہے ، آو دیکھتے ہیں "
پاس پہنچے تو صرف ایک عورت اور دو بچے - فراست کے امام نے پکارا :
"السلام علیکم یا اصحاب الضوء "
روشنی والو سلامتی ہو ..... جی فراست کا امام میں نے اس لیے لکھا کہ یہ نہ کہا "اے آگ والو "
عورت نے سلام کا جواب دیا تو امیر المومنین نے فرمایا کہ :
"کیا میں قریب آ جاؤں "
بولی کہ ارادہ اچھا ہے تو آ جاؤ ورنہ چلے جاؤ - آپ نے ماجرا پوچھا تو خبر ہوئی کہ شدید سردی اور رات کی تاریکی نے ان کو سفر سے روک دیا اور کھانے کو کچھ پاس نہ تھا تو بھوک سے بلکتے بچوں کو امید دلانے کو خالی ہنڈیا چولہے پر چڑھا چھوڑی - ہمدردی کے بول سنے تو تلخ تر ہو کے بول اٹھی کہ :
"واللہ بیننا و بین عمر "
اللہ ہی ہمارے اور عمر کے بیچ میں ہے (کہ انصاف کرے )
رات کی تاریکی نے سیدنا عمر کے آنسو جانے کیسے چھپا لیے ہوں گے کہ یہ سن کے ان پر کیا گزری ہو گی - کس کس طرح نہ کانپ اٹھے ہوں گے - بس یہی کہہ پائے کہ:
' خاتون اللہ آپ پر رحم کرے ، عمر کو بھلا آپ لوگوں کی کیا خبر کہ آپ یہاں ہیں ؟"
عورت بھی کمال کی فراست رکھتی تھی بولی :
"یتولی عمر امرنا ، ثم یغفل عنا "
ہمارے حاکم ہیں کیونکر ہم سے غافل ہونا چاہیے ان کو ؟
اس وقت زمین بھر کے حاکم ، وقت کی سپر پاور کے سربراہ بیت المال کو بھاگے ، اسلم کہتے ہیں کہ ہم بھاگتے ہوے آئے - آ کے سامان لیا -
ساتھی نے بڑھ کے اٹھانا چاہا تو روک دیا :
"تم قیامت کے روز بھی میرا بوجھ اٹھا پاؤ گے کیا "
واپس پہنچے ، آگ جلائی ، کھانا پکایا ، آٹا خود گوندھا ...آگ میں پھونک مار رہے ہیں ... چہرہ تپش سے لال انار ہو رہا ہو گا ..جس عمر کے غصے سے شہروں کے شہر کانپتے تھے آج آخرت کے ڈر سے کانپ کانپ جا رہے ہیں -
برتن منگوایا ، بچوں کو کھانا دیا ، خود جگہ صاف کی .... جب وہ کھا کے سیر ہو گئے اور تو دھیرے سے اٹھے بچا کھانا بھی ان کے حوالے کیا اور رخصت چاہی -
شکر گذار ہو کے عورت بولی :
"عمر کو کیوں ، خلیفہ تو تمہیں ہونا چاہیے تھا "
' آپ وہاں آنا ، یہی بات وہاں بھی کہہ دینا "
یہ کہا اور پلٹ آئے -
واپس پلٹ آئے اور کچھ دور آ کے بیٹھ گئے ..ان کو دیکھتے رہے جب بچے سکون سے سو گئے اور زمانے کا یہ امام دھیرے دھیرے اٹھا اور مدینے کو چلا -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ رہی تمھاری تلاش

ابوبکر قدوسی
کم کم ہوں گے کہ جو رات کو نکلتے تھے ، دبے پاؤں چلتے تھے ، کبھی غصہ جو کھا جاتے تھے اور گاہے مسکرا کے بات کرتے تھے ....تاریخ نے ان کو سب سب لکھ لیا ، وہ بھی ایسے ہی تھے -
حکمران ایسے کہ آدھ دنیا کی حکومت پاؤں تلے دھری رہتی تھی اور خود کسی پتھر کو سرہانہ بنا سو رہتے تھے - اس دن بھی تو ایسا ہی ہوا تھا کہ دور سمندروں سے دورپار کا پردیسی آیا - پہلے تو مدینے کو دیکھ کے حیران تھا کہ یہ وہ کچی بستی ہے کہ جس کے مکین ہم پر راج کرتے ہیں ، جس کے ہم باج گزار ہیں - پھر پوچھتا پوچھتا مسجد نبی تک آن پہنچا - آدھی دنیا کے حاکم کا پوچھا کہ دربار کہاں ہے - اکھیاں پھٹ نہ جاتی تو کیا کرتیں ؟
اس کو عادت کہ قیصر کے دربار کو دیکھ دیکھ عمر گذری ، یہاں یہ جواب کہ کون سا دربار ، کہاں کا دربار ؟؟
کوئی دربار وربار نہیں بھائی ادھر ...جب نماز کو آتے ہیں تو ادھر ہی بیٹھ جاتے ہیں اور تم لوگوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں -
"اچھا ملیں گے کہاں ؟" حیرتوں کے بیچ اس نے پوچھا -
"مدینے کے جوار میں نکل جاؤ ، دوپہر ڈھل رہی ہے کسی دیوار کے سائے میں آرام کرتے مل جائیں گے "
پردیسی بستی کو دیکھنے اور خلیفہ کو کھوجنے نکلا - ایک دیوار تلے پتھر کو سرہانہ بنائے ایک طویل القامت ، بہت خوب صورت سا انسان آرام کر رہا تھا - ایک گذرنے والے نے ہولے سے اشارہ کیا کہ یہ رہی تمھاری تلاش -
.................
بڑھیا کی عمر بیت چلی تھی ، مسافر نے احوال پوچھے ، رو دی - بڑھاپے کا سیاپا کرنے لگی - کچھ حالات کی خرابی اور کچھ شکوے کرنے کی عمر - سب جگ سے ناراض بڑھیا داستان لے بیٹھی - مسافر نے تحمل سے داستان سنی ، واپس مدینے آیا اور مقدور بھر سامان خورد و نوش لیا - کندھے پر رکھا ، ساتھ غلام چلا ، اصرار کہ "سامان مجھے دے دیجئے ، اٹھائے لیتا ہوں "
ادھر اک جملہ اور خاموشی کہ :
"قیامت کے روز بھی میرا بوجھ اٹھا لو گے ؟"
سامان بڑھیا کے سامنے جا ڈھیر کیا - تشکر کے آنسو لفظ بن کے بڑھاپے کے منہ سے نکلے ، دامن پھیلا کے بول اٹھی کہ کاش تو عمر کی جگہ ہمارا خلیفہ ہوتا - مسافر کی آنکھیں چھلک اٹھیں ، بس یہی کہا اور چل دیئے کہ کل آپ خلیفہ کے پاس آنا ، مجھے ادھر ہی پائیں گی -
بڑھیا نے اگلے روز تجسس کے مارے تلاش کی تو مسافر کو عمر بنا دیکھا ، دل نے کہا کہ یہ رہی تمھاری تلاش -
............
دور دیا ٹمٹما رہا تھا ، شاید کسی کی آس کا دیا کہ گاہے جلے ، بجھے اور پھر روشن ہو جائے - خیمے کے باہر مسافر اداس اور تنہا بیٹھا - تنہائی سی تنہائ - سوچیں کہ کیوں سفر کو نکلا - اندر خاتون درد زہ میں مبتلاء - بچے کی ولادت کا وقت --- نہ کوئی ساتھی خاتون نہ مدد گار - اجنبی بستی کے جوار میں بیٹھا ، بستی کی دور ہوتی رشنیوں کو تکا کیے لیکن بے کار - سوچیں کہ عمر کی بستی ہے لیکن اس کو کیا خبر ہمارے حال کی -
اندھیرے میں ایک سایہ ابھرا ، قریب آیا - گو شفقت بھرا لہجہ تھا لیکن تنہائ نے مزاج کی شگفتگی بھی چھین لی - سوال کے جواب میں بھی الجھ بیٹھا کہ جاؤ بھائی اپنی راہ لو - ممکن ہے اجنبی کے ساتھ کوئی خاتون ہوتی تو وہ یوں نہ الجھتا ، لیکن ایک اکیلا خالی ہاتھ کا اجنبی مرد اس کی ایسے میں کیا مدد کر سکتا تھا ، سو الجھتا نہ تو کیا کرتا ؟
اجنبی بھی مگر تکرار پے مصر تھا - اسے بتاتے ہی بنی - اجنبی خاموشی سے واپس ہو لیا - اسے عجیب سا لگا ، کچھ تو کہا ہوتا -
امید تو بندھ جاتی ، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے ، وعدہ تو کیا ہوتا
مایوسی نے امید کے ساتھ مل کے عجیب رنگ کر دیا تھا -
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
کچھ ہی دیر میں دو سائے اندھیرے کی دیوار سے پھوٹے - قریب آئے تو اجنبی کے ساتھ خاتون بھی تھی - ساتھ میں سامان ضرورت - آنے والی خاتون نے آتے ہی چولہا چڑھا دیا ، ہوا میں پکتے روغن کی ہلکی ہلکی خوش بو اور ویرانے میں ملنے والے ساتھ نے اس کو پرسکون کر دیا - اس کے دماغ میں کچھ دیر پہلے خیال آیا تھا کہ کاش بستی کے حکمران ہمارے خلیفہ کو خبر ہوتی کہ کوئی اجنبی اس اجنبی دیار میں ، حد نگاہ تک کے غبار میں ، اس کو یاد کر رہا ہے -
اب مگر سب بھول گیا تھا ، بس ہلکا سا شکوہ کہ ان سے تو یہ اجنبی اچھا ، بس ہلکا سا خیال کہ جو نوک زبان تک نہ آیا ، دماغ میں آیا اور چلا گیا -
کچھ ہی دیر میں اندر سے خاتون کی آواز آئی :
"امیر المومنین ، ساتھی کو خوش خبری دیجئے کہ اللہ نے بیٹا دیا ہے "
امیر المومنین ؟
امیر المومنین ؟
بیٹا بھول گیا ، خوش خبری کی کچھ خبر نہ رہی ، گبھراہٹ نے آن لیا -
اجنبی مگر شفقت بھری مسکان سے کہہ رہا تھا
" ساتھی ، گھبرا کیوں رہے ہو ، عمر کو تم نے نوکر اسی لیے تو رکھا ہوا ہے کہ تمھاری خبر گیری کرے "
دور اندر سے آواز آ رہی تھی
......یہ رہی تمھاری تلاش
رضی اللہ عنہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ابو فیروز لولو پہلا دہشت گرد، جس نے28 ذی الحج کو مسجد میں سیدنا عمرفاروق ؓ کو خنجر مارا اس پر اللہ اور تمام مخلوق کی بے شمار لعنت
 
Top