امام خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن مخلد الوراق لفظا، قال: في كتابي عن أبي بكر مُحَمَّد بن عبد الله بن صالح الأبهري الفقيه المالكي، قال: سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني، يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه، وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر، لا تكون مسألة أصح من هذه، فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة. [تاريخ بغداد ت بشار 15/ 527 واسنادہ صحیح]۔
ابو بکر بن أبی داود السجستانی رحمہ اللہ نے ايک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارہ ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور اسکے اصحاب شافعی اوراسکے اصحاب اوزاعی اور ا سکے اصحاب حسن بن صالح اور اسکے اصحاب سفيان ثوری اور اسکے اصحاب احمد بن حنبل اور اسکے اصحاب سب متفق ہوں ؟؟ تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئی نہيں ہو سکتا ،تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنيفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے ۔
اس روایت کے راویوں کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
1:
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے مجلہ الحدیث رقم ٨٤ میں صفحہ ٢٦ تا ٣٩ پر بہت ہی تفصیل کے ساتھ
امام أبا بكر بن أبي داود السجستاني رحمہ اللہ کا تعارف پیش کیا ہے
قارئین یہ تحقیق ضرور پڑھیں۔
2:
ان سے نیچے کے راوی
’’ أبوبكر محمد بن عبد الله بن صالح الأسدي الفقيه المالكي‘‘ ہیں ۔
ان کے بارے میں امام خطیب اپنے استاذ أبو الفتح بن أبي الفوارس سے نقل کرتے ہیں کہتے ہیں:
وذكره محمد بن أبي الفوارس، فقال: كان ثقة أمينا مستورا، وانتهت إليه الرياسة في مذهب مالك. [تاريخ بغداد:3/ 492]
ان کے بارے میں ہمیں جرح کا کوئی قول نہیں ملا۔
3:
ان کے نیچے کے راوی
محمد بن علي بن مخلد الوراق ہیں ۔
ان کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں:
(محمد بن عليّ بن مخلد الوراق ) أبو الحسين. بغدادي صدوق. روى قليلاً عن: أبي بكر القطيعي، وغيره. وعنه: الخطيب. [تاريخ الإسلام للذهبي 29/ 91]
ان کے بارے میں بھی ہمیں جرح کا کوئی قول نہیں ملا۔