بریلوی اس آیت پر یه استدلال کرتے ھیں که الله تعالی نے نبی علیه السلام کو ھادی یعنی ھدائت دینے والا بنا کر بھیجا اور ھدائت کا اختیار بھی عطاء کر دیا اس لیے لفظ ھادی نبی علیه السلام کے لیے استعمال کیا
جبکه اس عقیده کے رد میں بهت سی آیتیں پیش کی ھیں مگر وه کهتے ھیں که ھمیں صرف یه بتا دیں که ھادی لفظ کیوں استعمال کیا ھے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلے یہ جان لیں کہ :
ھدایت کی کئی قسمیں ہیں ؛
علامہ راغب اصفہانیؒ نے ’’ المفردات فی غریب القرآن ‘‘ میں ھدایت کی چار اقسام بتائی ہیں ،
وهداية الله تعالى للإنسان على أربعة أوجه:
الأوّل: الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال: رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى
[طه/ 50] .
الثاني: الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم على ألسنة الأنبياء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالى: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا
[الأنبياء/ 73] .
الثالث: التّوفيق الذي يختصّ به من اهتدى، وهو المعنيّ بقوله تعالى: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [محمد/ 17] ، وقوله: وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [التغابن/ 11] ، وقوله: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] ، وقوله: وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [العنكبوت/ 69] ، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [مريم/ 76] ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [البقرة/ 213] ، وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [البقرة/ 213] .
الرّابع: الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله: سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [الأعراف/ 43] إلى قوله: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذا «1» .
یعنی : اللہ تعالی نے انسان کو چار طرح سے ھدایت سے نوازا ہے ؛؛
(۱)
ایک تو وہ عام ھدایت جو عقل و فطانت اور ضروری معرفت کی صورت میں انسان بلکہ تمام جانداروں کو حسب ضرورت اس سے حصہ ملا ہے ،
(۲)
دوسری ھدایت وہ ہے جو اللہ نے پیغامبر اور کتابیں بھیج کر انسانوں کو راہ نجات کی طرف دعوت دی ہے ، (جو انبیاء و علماء کے ذریعے دوسروں تک پہنچتی ہے جو حق کا راستہ دکھاتے ہیں)
(۳ )
تیسری وہ ھدایت جوخاص ہے ، جو صرف ان لوگوں کو ملتی ہے ،جنہیں اللہ دیتا ہے ، جسے توفیق بھی کہا جاتا ہے ،
(یہ قبول حق اور اطاعت حق سے تعبیر ہے ، جو صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے
جیسا کہ خود قرآن مجید میں ہے
’’ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ [القصص/ 56]
یعنی اے محبوب آپ جسے چاہیں اسے ھدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے اسے ھدایت دیتا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو انبیاء علیہم السلام اس معنی میں ھادی ہیں کہ وہ انسانوں کو راہ حق دکھاتے ہیں ، اس راہ پر چلانا ان کے اختیار میں نہیں
بلکہ عملاً ھدایت پر گامزن کرنا یعنی توفیق دینا تو وہ صرف اللہ کے اختیار و ارادہ سے ملتی ہے
وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [البقرة/ 213]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تمام انواع ھدایت انبیاء کے اختیار میں ہوتی تو جناب نوح علیہ السلام کا بیٹا اور پیارے نبی ﷺ کا چچا کبھی ھدایت سے محروم نہ رہتے ۔