• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا ------

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
تھوڑی سی اور وضاحت کر دیں که بریلوی کهتے ھیں که عربی میں اباء چاچا کو بھی کها جاتا ھے
جی کبھی چچا کو بھی کہا جاتا ہے ، لیکن سیاق و سباق اور قرینہ وغیرہ دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ فلاں جگہ والد مراد ہے یا کوئی اور ،
ویسے دادا ، اور مالک وغیرہ کو بھی کہہ دیتے ہیں ،
(الْأَب) الْوَالِد وَالْجد وَيُطلق على الْعم وعَلى صَاحب الشَّيْء وعَلى من كَانَ سَببا فِي إِيجَاد شَيْء أَو ظُهُوره أَو إِصْلَاحه (المعجم الوسیط )
ویسے گھاس اور سبزے کو بھی ( الاب ) کہاجاتا ہے ،القاموس المحیط میں ( الأبُّ: الكَلأَ، أو المَرْعَى، )
لیکن قرآن و حدیث میں اس تعلق کو جس اہتمام اور تخصیص کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس سے واضح ہے کہ (ابیہ ) سے مراد ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والد ہی ہیں ، جیسا کہ مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ور دلیل یه دیتے ھیں که آدم علیه السلام سے لے کر نبی علیه السلام تک جتنے بھی انبیاء اکرام گزرے ھیں ان سب کے والدین مسلمان مومن تھے اور دلیل یه دیتے ھیں
:
جب خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا‘ پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)‘ تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں رکھا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں پیدا کیا،
اگر اس حدیث سے انکے والدین کا مسلمان ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تمام عرب اور قریش کا بھی مسلمان ہونا ثابت ہے ؛
جو یقیناً غلط ہے ؛ ؛؛؛ فتدبر
 
Last edited:
شمولیت
اگست 05، 2016
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
16
بهت شکریه بھائی @اسحاق سلفی الله تعالی أپ کے علم و عمل میں اضافه کرے اور آپ کو صحت تندرستی و ایمان والی لمبی ذندگی عطاء کرے اور دشمن کے شر سے محفوظ فرماے آمین ثماآمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بهت شکریه بھائی @اسحاق سلفی الله تعالی أپ کے علم و عمل میں اضافه کرے اور آپ کو صحت تندرستی و ایمان والی لمبی ذندگی عطاء کرے اور دشمن کے شر سے محفوظ فرماے آمین ثماآمین
آمین یا رب العلمین
اور اس دعاء کیلئے آپ کا بہت شکریہ ؛
جزاکم اللہ تعالے خیراً
 
شمولیت
اگست 05، 2016
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
16
محترم بھائی @اسحاق سلفی

بریلوی اس آیت پر یه استدلال کرتے ھیں که الله تعالی نے نبی علیه السلام کو ھادی یعنی ھدائت دینے والا بنا کر بھیجا اور ھدائت کا اختیار بھی عطاء کر دیا اس لیے لفظ ھادی نبی علیه السلام کے لیے استعمال کیا
جبکه اس عقیده کے رد میں بهت سی آیتیں پیش کی ھیں مگر وه کهتے ھیں که ھمیں صرف یه بتا دیں که ھادی لفظ کیوں استعمال کیا ھے

اس بارے میں اپنی قیمتی راے سے آگاه کریں شکریه

آیت یه ھے


وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ‌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ﴿٧﴾
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں اتاری گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں (١) اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے (٢)۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بریلوی اس آیت پر یه استدلال کرتے ھیں که الله تعالی نے نبی علیه السلام کو ھادی یعنی ھدائت دینے والا بنا کر بھیجا اور ھدائت کا اختیار بھی عطاء کر دیا اس لیے لفظ ھادی نبی علیه السلام کے لیے استعمال کیا
جبکه اس عقیده کے رد میں بهت سی آیتیں پیش کی ھیں مگر وه کهتے ھیں که ھمیں صرف یه بتا دیں که ھادی لفظ کیوں استعمال کیا ھے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلے یہ جان لیں کہ :
ھدایت کی کئی قسمیں ہیں ؛
علامہ راغب اصفہانیؒ نے ’’ المفردات فی غریب القرآن ‘‘ میں ھدایت کی چار اقسام بتائی ہیں ،
وهداية الله تعالى للإنسان على أربعة أوجه:
الأوّل: الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال: رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى
[طه/ 50] .
الثاني: الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم على ألسنة الأنبياء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالى: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا
[الأنبياء/ 73] .
الثالث: التّوفيق الذي يختصّ به من اهتدى، وهو المعنيّ بقوله تعالى: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [محمد/ 17] ، وقوله: وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [التغابن/ 11] ، وقوله: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] ، وقوله: وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [العنكبوت/ 69] ، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [مريم/ 76] ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [البقرة/ 213] ، وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [البقرة/ 213] .
الرّابع: الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله: سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [الأعراف/ 43] إلى قوله: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذا «1» .

یعنی : اللہ تعالی نے انسان کو چار طرح سے ھدایت سے نوازا ہے ؛؛
(۱) ایک تو وہ عام ھدایت جو عقل و فطانت اور ضروری معرفت کی صورت میں انسان بلکہ تمام جانداروں کو حسب ضرورت اس سے حصہ ملا ہے ،
(۲) دوسری ھدایت وہ ہے جو اللہ نے پیغامبر اور کتابیں بھیج کر انسانوں کو راہ نجات کی طرف دعوت دی ہے ، (جو انبیاء و علماء کے ذریعے دوسروں تک پہنچتی ہے جو حق کا راستہ دکھاتے ہیں)
(۳ )تیسری وہ ھدایت جوخاص ہے ، جو صرف ان لوگوں کو ملتی ہے ،جنہیں اللہ دیتا ہے ، جسے توفیق بھی کہا جاتا ہے ،
(یہ قبول حق اور اطاعت حق سے تعبیر ہے ، جو صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے
جیسا کہ خود قرآن مجید میں ہے ’’ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ [القصص/ 56]
یعنی اے محبوب آپ جسے چاہیں اسے ھدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے اسے ھدایت دیتا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو انبیاء علیہم السلام اس معنی میں ھادی ہیں کہ وہ انسانوں کو راہ حق دکھاتے ہیں ، اس راہ پر چلانا ان کے اختیار میں نہیں
بلکہ عملاً ھدایت پر گامزن کرنا یعنی توفیق دینا تو وہ صرف اللہ کے اختیار و ارادہ سے ملتی ہے
وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [البقرة/ 213]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تمام انواع ھدایت انبیاء کے اختیار میں ہوتی تو جناب نوح علیہ السلام کا بیٹا اور پیارے نبی ﷺ کا چچا کبھی ھدایت سے محروم نہ رہتے ۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلے یہ جان لیں کہ :
ھدایت کی کئی قسمیں ہیں ؛
علامہ راغب اصفہانیؒ نے ’’ المفردات فی غریب القرآن ‘‘ میں ھدایت کی چار اقسام بتائی ہیں ،
وهداية الله تعالى للإنسان على أربعة أوجه:
الأوّل: الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال: رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى
[طه/ 50] .
الثاني: الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم على ألسنة الأنبياء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالى: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا
[الأنبياء/ 73] .
الثالث: التّوفيق الذي يختصّ به من اهتدى، وهو المعنيّ بقوله تعالى: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [محمد/ 17] ، وقوله: وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [التغابن/ 11] ، وقوله: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] ، وقوله: وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [العنكبوت/ 69] ، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [مريم/ 76] ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [البقرة/ 213] ، وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [البقرة/ 213] .
الرّابع: الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله: سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [الأعراف/ 43] إلى قوله: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذا «1» .

یعنی : اللہ تعالی نے انسان کو چار طرح سے ھدایت سے نوازا ہے ؛؛
(۱) ایک تو وہ عام ھدایت جو عقل و فطانت اور ضروری معرفت کی صورت میں انسان بلکہ تمام جانداروں کو حسب ضرورت اس سے حصہ ملا ہے ،
(۲) دوسری ھدایت وہ ہے جو اللہ نے پیغامبر اور کتابیں بھیج کر انسانوں کو راہ نجات کی طرف دعوت دی ہے ، (جو انبیاء و علماء کے ذریعے دوسروں تک پہنچتی ہے جو حق کا راستہ دکھاتے ہیں)
(۳ )تیسری وہ ھدایت جوخاص ہے ، جو صرف ان لوگوں کو ملتی ہے ،جنہیں اللہ دیتا ہے ، جسے توفیق بھی کہا جاتا ہے ،
(یہ قبول حق اور اطاعت حق سے تعبیر ہے ، جو صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے
جیسا کہ خود قرآن مجید میں ہے ’’ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [القصص/ 56]
یعنی اے محبوب آپ جسے چاہیں اسے ھدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے اسے ھدایت دیتا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو انبیاء علیہم السلام اس معنی میں ھادی ہیں کہ وہ انسانوں کو راہ حق دکھاتے ہیں ، اس راہ پر چلانا ان کے اختیار میں نہیں
بلکہ عملاً ھدایت پر گامزن کرنا یعنی توفیق دینا تو وہ صرف اللہ کے اختیار و ارادہ سے ملتی ہے
وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [البقرة/ 213]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تمام انواع ھدایت انبیاء کے اختیار میں ہوتی تو جناب نوح علیہ السلام کا بیٹا اور پیارے نبی ﷺ کا چچا کبھی ھدایت سے محروم نہ رہتے ۔
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ.
اللہ آپکو اپنی رحمت کے ساۓ میں رکھے. آمین
 
Top