• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حنیفہ امام اہل سنت یا امام الجہمیہ و المرجئہ !

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
48
jazak Allah
 
Last edited by a moderator:

عمر منہاس

مبتدی
شمولیت
ستمبر 12، 2019
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرِّمِيُّ ، نا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَلامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ ، يَقُولُ : "كُنْتُ مَعَ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَرَآهُ أَبُو حَنِيفَةَ فَأَقْبَلَ نَحْوَهُ ، فَلَمَّا رَآهُ أَيُّوبُ قَالَ لأَصْحَابِهِ : قُومُوا لا يُعْدِنَا بِجَرَبِهِ ، قُومُوا لا يُعْدِنَا بِجَرَبِهِ "۔
السنة لعبد الله بن أحمد، ص ۱۸۸،۱۸۹
سلام بن ابی مطیع سے روایت ہے کہ ایوب سختیانی مسجد حرام میں بیٹھے تھے ۔ تو ابو حنیفہ کو اپنے طرف آتے دیکھا امام ایوب رحمہ اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہاں سے چل دو یہ شخص اپنی خارش سے ہمیں بھی خارش زدہ کردے گا۔
کتاب سنت، عبداللہ بن احمد بن حنبل، صفحہ ۱۸۸،۱۸۹

امام حمیدی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ دین اسلام سیدھا اور صحیح چلتا رہا یہاں تک کہ ابو حنیفہ کوفہ میں، ربیعہ مدینہ میں، اور البتی بصرہ میں پیدا ہوئے۔ (تاریخ بغداد جلد 13 ص 414)
میں کہتا ہوں کہ دین کا معاملہ پہلے ہی خراب چل رہا تھا کہ البانی، ابن باز، اور عثیمین پیدا ہوئے جو خود بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کہ بھی گمراہ کیا اس کے نتیجے میں دین کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔



"

ابو اسحاق الفزاری نے کہا کہ ابو حنیفہ کہتا تھا ابلیس کا ایمان اور ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا ایمان ایک برابر ہے (نعوذباللہ) ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) یا رب کہتا ہے اور ابلیس بھی یا رب کہتا ہے۔

"

(کتاب السنت عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمھما اللہ ص: ۲۱۹)

اسود بن سالم نے کہا میں ابوبکر بن عیاش کے ساتھ بنی اسید کی مسجد میں تھا پس ایک آدمی نے مسئلے کے بارے میں ان سے (ابو بکر بن عیاش سے ) پوچھا پس اس آدمی نے کہا کہ ابو حنیفہ ایسے ایسے کہتا ہے (اس مسئلے میں) تو ابوبکر بن عیاش نے کہا اللہ ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ کرے۔ اور اس شخص کا چہرہ جو اس کے ساتھ کہتا ہے (یعنی ابو حنیفہ کے اس مسئلے کے مطابق)
کتاب السنہ عبداللہ بن احمد بن حنبل صفحہ ۲۲۲

حدثني أبو معمر عن إسحاق بن عيسى قال سألت حماد بن سلمة عن أبي حنيفة قال ذاك أبو جيفة سد الله عز وجل به الأرض
السنة لعبد الله بن أحمد بن حنبل
اسحاق بن عیسی نے کہا میں نے حماد بن سلمہ سے ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ابو جیفہ (مردار کاباپ) ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس کے ساتھ پر کردیا۔
کتاب السنہ از عبداللہ بن احمد بن حنبل

أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطيّ، حدّثنا عبد الله ابن محمّد بن عثمان المزنيّ- بواسط- حدّثنا طريف بن عبد الله قال: سمعت ابن أبي شيبة- وذكر أبا حنيفة- فقال: أراد كان يهوديا۔
طریف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ کے ذکر پر کہا: "وہ ایک یہودی تھا۔"
تاريخ بغداد

عن القاسم بن حبيب قال وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه ؟ فقال: مؤمن!
قاسم بن حبیب نے کہا:
میں نے اپنا جوتا پتھروں میں گاڑکر ابو حنیفہ سے پوچھا :بتایئے ۔۔ایک آدمی ساری زندگی اس جوتے کی نماز پڑھتا رہے ،حتی اسی عقیدہ پر اسے موت آئے ،اور ساتھ ہی وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی رکھتا ہو ۔(اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟) ۔۔۔فرمایا :وہ مومن ہے ۔)
(
تاريخ بغداد،13/377)
جناب دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اپنے آپکو اور اپنے مسلک وہابیت کو دیکھ لیتے۔ یا کم از کم اتنی عقل تو ہونی چاہیے تھی جناب میں کہ جس کہ نام پر آپ کو کہ مسلک کا ظہور ہوا ہے عبدالوہاب نجدی وہ کیا تھا، اس کی اوقات، حثییت، اس کی عقل اور اس کہ عقائد کیا تھے۔ اس کہ باپ اور بھائی نے امام نجدی کہ بارے کیا کہا ہے ۔ یہ تو پتا ہونا چاہیے نہ آپکو۔
چلو ہم اپنی بات نہیں کرتے کم از کم آپ جناب امام نجدی کہ والد اور اس کہ بھائی باتیں ہی پڑھ لیتے وہ کیا کہہ رہے ہیں اس امام نجدی کہ بارے۔ جو آپ نے منہ اٹھا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان اقدس پر بکواس کی ہے۔
اس لیے میرا مشورہ ہے پہلے آپ اپنے امام شیخ نجدی کی حیات باطلہ کا مطالبہ کر لیں۔
شکریہ
 
شمولیت
اکتوبر 07، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
سوال
کیا کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں گفتگو کی ہے؟ میں نے چند لوگوں کو آپکے عقیدہ پر نکتہ چینی کرتے سنا ہے، برائی مہربانی وضاحت کردیں۔
جواب کا متن
متعلقہ
الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔
علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا"
ابن مبارک کہتے ہیں: "ابو حنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے"
شافعی کہتے ہیں: "تمام لوگ فقہ کیلئے ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"
خریبی کہتے ہیں: "ابو حنیفہ کے بارے میں حاسد یا جاہل ہی زبان درازی کرتا ہے"
ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "فقہ اور دقیق فقہی مسائل میں امامت کا درجہ آپکے پاس ہے،اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں، اگرکسی کے نزدیک دوپہر ثابت کرنے میں بھی دلیل کی ضرورت ہوتو کوئی چیز بھی اسکے ہاں درست نہیں ہوسکتی، آپکی سیرت کو جمع کیا جائے تو دو جلدوں کی ضخیم کتاب بن سکتی ہے، اللہ ان سے راضی ہو، اور ان پر رحم فرمائے، آپ 150 ہجری میں پیٹ کی بیماری سے شہید ہوئے" انتہی، مزید کیلئے "سیر اعلام النبلاء"(6/390-403) دیکھیں
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ، توحید، اثباتِ صفات ، تردیدِ جہمیہ ، تقدیر، مقامِ صحابہ ، اور اسکے علاوہ دیگر بڑے بڑے ایمانی مسائل میں منہج السلف کے بالکل موافق اور ائمہ مذاہب کے طریقہ پر تھا،چند ایک مسائل میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منہج السلف کی مخالفت نقل کی گئی ہے، مثلا: انہوں نے کہا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی،اور انکے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے ، اور یہ کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل نہیں ۔
ابن عبد البر اور ابن ابو العز کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے ان نظریات سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں: "التمہید"(9/247)، "شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (395)
ایسےہی ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس کی کتاب "اعتقاد الائمہ الاربعہ" صفحہ (3-8)کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "تمام مشہور ائمہ کرام اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کرتے ہیں، اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں، اور یہ کہ اللہ تعالی کو قیامت کے دن دیکھا جاسکے گا، یہی تمام صحابہ کرام، اہل بیت ، اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے، یہی ان ائمہ کا مذہب ہے جن کے پیروکار موجود ہیں، مثلا: مالک بن انس، ثوری، لیث بن سعد، الاوزاعی، ابو حنیفہ ، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق۔۔۔"انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (2/54)
ایسے ہی عقیدہ طحاویہ جسکے مؤلف ابو جعفر الطحاوی حنفی ہیں کو چند مسائل کے علاوہ منہج اہل سنت و الجماعت کے مطابق سمجھا جاتا ہے، اسی لئے علمائے اسلام کے ہاں یہ کتاب بہت نشر ہوئی، حتی کہ بہت سی مساجد، اداروں اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ پڑھائی جانے لگی۔
امام طحاوی کتاب کے مقدمہ صفحہ (1)میں کہتے ہیں:
"اس کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کا تذکرہ فقہائے کرام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری ، اور ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی، -اللہ ان سے راضی ہو-کے نظریہ اور اصولِ دین کے بارے میں انکے اعتقادکے مطابق ہے جس کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین کو مانا کرتے تھے" انتہی
ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بہت سے پیروکار عقائد میں اشعری اور ماتریدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، جسکی وجہ سے حنفی مذہب میں سلف صالحین کے عقیدہ کی مخالفت آگئی ، بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ انکے مخالف ہے، اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب منسوب بہت سی باتیں ثابت نہیں ہوتیں، بلکہ یہ انکے ماننے والوں کی بات ہوتی ہے جو اپنے تیئں انکے مذہب کی جانب نسبت رکھتے ہیں۔
ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"واضح ہے کہ یہ مخالفات ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ انکے شاگردوں کی جانب سے ہے، کیونکہ ان میں اکثر قابل اعتبار درجہ سے گری ہوئی ہیں جنہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہیں پسند کرتے" شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (226)
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام (الفقہ الاکبر)ہے اس رسالے میں سےکچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل ، تحریف ِ صفات وغیرہ کے قائل تھے" انتہی "فتاوی الشیخ ابن جبرین"(63/14)
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو حنیفہ اور ائمہ اربعہ تمام سلفی منہج پر تھے، ہاں کسی نہ کسی سے غلطی ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انکے ماننے والے ایک طرف ہیں جبکہ انکے ائمہ کرام دوسری جانب ہیں"انتہی
اس لئے متفقہ ائمہ کرام جنکی جلالت قدر، عدل پسندی، اور امامت پر سب لوگوں کا اتفاق ہوچکا ہےانکے بارے میں زبان درازی سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ علمائے کرام کی ہونیوالی چغلیاں رائیگاں نہیں جاتیں، اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے مسلمان کیلئے کسی کو اپنا راہنما بنانے کیلئے اسکا درست عقیدہ کافی ہے ، پھر اسکی جو بات صحیح عقیدہ کے مخالف ہو اسے ترک کردے، اور علماء، صلحاء، و فضلائے امت کی عزت آبرو میں نکتہ چینی کرنےکی کوشش مت کرے۔
یہی وجہ ہے کہ ذہبی اور ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ دیگر مؤرخینِ اسلام نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سوانح بیان کرتے ہوئےکوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جس سے آپ کی شان میں کوئی کمی آئے، حقیقت میں یہی علم و تقوی ہے، اور علمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی و احترام کرنے کیلئے کم از کم یہی انکے بارے میں ہم پر واجب ہے۔
کچھ تاریخی کتابوں میں مذکورہ بالا حقوق کے منافی چیزیں بھی ذکر کی گئی ہیں، مثلا خلقِ قرآن کا مسئلہ، تو انکے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ سے خلقِ قرآن کے بارے میں کوئی بات پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، اسکے بعد یہ اس مسئلہ کو بالکل بند کردیا گیا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عزت و احترام کیا جانے لگا اور دین میں امامت کے درجہ پر فائز رکھا گیا۔
شیخ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ اس قسم کے مسائل اچھالنے والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "حکمت کا تقاضا ہے کہ تقریباً سات سو سال پہلے گزر جانے والے علماء کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے اور انکے بارے میں اچھے کلمات کہیں جائیں" انتہی "التنکیل" (1/101)
چنانچہ اس بنا پر: کسی کو صاحب علم و فضل ائمہ کرام جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں انکے عقیدہ کے بارے میں زبان درازی کی اجازت نہیں ، اور جو کوئی اس جرم کا مرتکب ہو گا وہ سزا کا مستحق ہے تاکہ اسے اس قسم کے قبیح فعل سے روکا جائے۔
مزید تفصیلی گفتگو کیلئے ڈاکٹر الخمیس حفظہ اللہ کی کتاب "أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة" کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالی اعلم .
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا عقیدہ - اسلام سوال و جواب (islamqa.info)
 
شمولیت
اکتوبر 07، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
سوال
برائے مہربانى گزارش ہے كہ امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اور ان كے مذہب كے متعلق ہميں معلومات فراہم كريں، كيونكہ ميں نے بعض افراد كو ان كى تنقيص اور تنقيد كرتے ہوئے سنا ہے، كيونكہ اكثر طور پر وہ قياس اور رائے پر اعتماد كرتے ہيں.
جواب کا متن
الحمد للہ.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ فقيہ ملت اور عراق كے عالم دين تھے، ان كا نام نعمان بن ثابت التيمى الكوفى اور كنيت ابو حنيفہ تھى، صغار صحابہ كى زندگى ( 80 ) ہجرى ميں پيدا ہوئے اور انہوں نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جب كوفہ آئے تو انہيں ديكھا تھا، اور انہوں نے عطاء بن ابى رباح سے روايت كى ہے اور يہ ان كے سب سے بڑے شيخ اوراستاد تھے، اور شعبى وغيرہ بہت ساروں سے روايت كرتے ہيں.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے طلب آثار كا بہت اہتمام كيا اور اس كے ليے سفر بھى كيے، رہا فقہ اور رائے كى تدقيق اور اس كى گہرائى كا مسئلہ تو اس ميں ان كا كوئى ثانى نہيں جيسا كہ امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان كى سيرت كے ليے دو جلديں دركار ہيں "
ابو حنيفہ فصيح اللسان تھے اور بڑى ميٹھى زبان ركھتے تھے، حتى كہ ان كے شاگرد ابو يوسف رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب لوگوں سے زيادہ بہتر بات كرنے والے اور سب سے ميٹھى زبان كے مالك تھے "
ورع و تقوى كےمالك، اور اللہ تعالى كى محرمات كا سب سے زيادہ خيال ركھنے والے تھے، ان كے سامنے دنيا كا مال و متاع پيش كيا گيا تو انہوں نے اس كىطرف توجہ ہى نہ دى، حتى كہ قضاء كا منصب قبول كرنے كے ليے انہيں كوڑے بھى مارے گئے يا بيت المال كا منصب لينے كے ليے ليكن انہوں نے انكار كر ديا "
بہت سارے لوگوں نے آپ سے بيان كيا ہے، آپ كى وفات ايك سو پچاس ہجرى ميں ہوئى اس وقت آپ كى عمر ستر برس تھى.
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 16 / 390 - 403 ) اور اصول الدين عند ابى حنيفۃ ( 63 ).
رہا حنفى مسلك تو يہ مشہور مذاہب اربعہ ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ سب سے پہلا فقہى مذہب ہے، حتى كہ يہ كہا جاتا ہے: " فقہ ميں لوگ ابو حنيفہ كے محتاج ہيں "
حنفى اور باقى مسلك كے يہ امام ـ ميرى مراد ابو حنيفہ مالك، شافعى اور احمد رحمہم اللہ ـ يہ سب قرآن و سنت كے دلائل سمجھنے كے ليے جتھاد كرتے، اور لوگوں كو اس دليل كے مطابق فتوى ديتے جو ان تك پہنچى تھى، پھر ان كے پيروكاروں نے اماموں كے فتاوى جات لے كر پھيلا ديے اور ان پر قياس كيا، اور ان كے ليے اصول و قواعد اور ضوابط وضع كيے، حتى كہ مذہب فقھى كى تكوين ہوئى، تو اس طرح حنفى، شافعى، مالكى اور حنبلى اور دوسرے مسلك بن گئے مثلا مذہب اوزاعى اور سفيان ليكن ان كا مسلك تواتر كےساتھ لكھا نہ گيا.
جيسا كہ آپ ديكھتے ہيں كہ ان فقھى مذاہب كى اساس كتاب و سنت كى اتباع پر مبنى تھى.
رہا رائے اور قياس كا مسئلہ جس سے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اخذ كرتے ہيں تو اس سے خواہشات و ھوى مراد نہيں، بلكہ يہ وہ رائے ہے جو دليل يا قرائن يا عام شريعت كے اصولوں كى متابعت پر مبنى ہے، سلف رحمہ اللہ مشكل مسائل ميں اجتھاد پر " رائے " كا اطلاق كرتے تھے، جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے اس سے مراد خواہش نہيں.
امام ابو حنيفہ نے حدود اور كفارات اور تقديرات شرعيۃ كے علاوہ ميں رائے اور قياس سے اخذ كرنے ميں وسعت اختيار كى اس كا سبب يہ تھا كہ امام ابو حنيفہ حديث كى روايت ميں دوسرے آئمہ كرام سے بہت كم ہيں ان سے احاديث مروى نہيں كيونكہ ان كا دور باقى آئمہ كے ادوار سے بہت پہلے كا ہے، ابو حنيفہ كے دور ميں عراق ميں فتنہ اور جھوٹ بكثرت تھا اس كے ساتھ روايت حديث ميں تشدد كى بنا پر احاديث كى روايت بہت كم كى.
يہاں ايك چيز كى طرف متنبہ رہنا چاہيے كہ جو حنفى مذہب امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى طرف منسوب ہے وہ سارے اقوال اور آراء نہيں ہيں جو ابو حنيفہ كے كلام ميں سے ہيں، يا پھر ان كا امام ابو حنيفہ كى طرف منسوب كرنا صحيح ہے.
ان اقوال ميں سے بہت سارے ايسے ہيں جو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى نص كے خلاف ہيں، انہيں اس ليے ان كا مذہب بنا ديا گيا ہے كہ امام كى دوسرى نصوص سے استنباط كيا گيا ہے، اسى طرح حنفى مسلك بعض اوقات ان كے شاگردوں مثلا ابو يوسف اور محمد كى رائے پر اعتماد كرتا ہے، اس كے ساتھ شاگردوں كے بعض اجتھادات پر بھى، جو بعد ميں مسلك اور مذہب بن گيا، اور يہ صرف امام ابو حنيفہ كے مسلك كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ آپ سارے مشہور مسلكوں ميں يہى بات كہہ سكتے ہيں.
اگر كوئى يہ كہے:
اگر مذاہب اربعہ كا مرجع اصل ميں كتاب و سنت ہے، تو پھر فقھى آراء ميں ان كا ايك دوسرے سے اختلاف كيوں پاتے ہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے:
ہر امام اس كے مطابق فتوى ديتا تھا جو اس كے پاس دليل پہنچى ہوتى، ہو سكتا ہے امام مالك رحمہ اللہ كے پاس ايك حديث پہنچى ہو وہ اس كے مطابق فتوى ديں، اور وہ حديث امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس نہ پہنچى تو وہ اس كے خلاف فتوى ديں، اور اس كے برعكس بھى صحيح ہے.
اسى طرح ہو سكتا ہے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس كوئى صحيح سند سے حديث پہنچے تو وہ اس كے مطابق فتوى دے ديں، ليكن وہى حديث امام شافعى رحمہ اللہ كے پاس كسى دوسرى سند سے پہنچے جو ضعيف ہو تو اس كا فتوى نہ ديں، بلكہ وہ حديث كے مخالف اپنے اجتھاد كى بنا پر دوسرا فتوى ديں، اس وجہ سے آئمہ كرام كے مابين اختلاف ہوا ہے ـ يہ اختصار كے ساتھ بيان كيا گيا ہے ـ ليكن ان سب كے ليے آخرى مرجع و ماخذ كتاب و سنت ہے.
پھر امام ابو حنيفہ اور دوسرے اماموں نے حقيقت ميں كتاب و سنت كى نصوص سے اخذ كيا ہے، اگرچہ انہوں نے اس كا فتوى نہيں ديا، اس كى وضاحت اور بيان اس طرح ہے كہ چاروں اماموں نے يہ بات واضح طور پر بيان كى ہے كہ اگر كوئى بھى حديث صحيح ہو تو ان كا مذہب وہى ہے، اور وہ اسى صحيح حديث كو لينگے، اور اس كا فتوى دينگے، اور وہ اس پر عمل كرينگے.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے: " جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "
اور ايك روايت ميں ان كا قول ہے:
" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "
ايك دوسرى روايت ميں اضافہ ہے:
" يقينا ہم بشر ہيں "
اور ايك روايت ميں ہے:
" آج ہم ايك قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "
اور رحمہ اللہ كا قول ہے:
" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں تو ايك انسان اور بشر ہوں، غلطى بھى كر سكتا ہوں اور نہيں بھى، ميرى رائے كو ديكھو جو بھى كتاب و سنت كے موافق ہو اسے لے لو، اور جو كتاب و سنت كے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دو "
اور ان كا يہ بھى قول ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہر ايك شخص كا قول رد بھى كيا جا سكتا ہے، اور قبول بھى كيا جا سكتا ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول رد نہيں ہو سكتا صرف قبول ہو گا "
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں نے جو كوئى بھى قول كہا ہے، يا كوئى اصول بنايا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرے قول كے خلاف حديث ہو تو جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول ہے وہى ميرا قول ہے "
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك اور شافعى اور اوزاعى اور ثورى كى، تم وہاں سے لے جہاں سے انہوں نے ليا ہے "
اور ان كا يہ بھى قول ہے:
" امام مالك، اور امام اوزاعى اور ابو حنيفہ كى رائے يہ سب رائے ہى ہے، اور يہ ميرے نزديك برابر ہے، صرف حجت اور دليل آثار ـ يعنى شرعى دلائل ـ ہيں "
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى سيرت اور ان كے مسلك كے متعلق يہ مختصر سا نوٹ تھا، آخر ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:
ہر مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ ان اماموں كى فضيلت اور مقام و مرتبہ كو پہچانے، كہ ان لوگوں نے اس كى دعوت نہيں دى كہ ان كے قول كو كتاب اور صحيح حديث سے بھى مقدم ركھا جائے، كيونكہ اصل ميں تو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى اتباع ہے نہ كہ لوگوں كے اقوال.
اس ليے كہ ہر ايك شخص كا قول ليا بھى جا سكتا ہے، اور اسے رد بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول صلى اللہ عليہ وسلم اكيلے ايسے ہيں جن كا قول رد نہيں كيا جا سكتا، ان كے قول كو قبول كيے بغير كوئى چارہ نہيں، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے.
مزيد استفادہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 5523 ) اور ( 13189 ) اور ( 23280 ) اور ( 21420 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور عمر الاشقر كى كتاب: المدخل الى دراسۃ المدارس و المذھب الفقھيۃ كا مطالعہ بھى كريں.
واللہ اعلم .
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے متعلق معلومات - اسلام سوال و جواب (islamqa.info)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ دو مراسلات پسند آئے، جو آمیزش ھو گئی یا دانستہ کر دی گئی ، جب ھوئی تب ھوئی اس قدیم زمانے سے فی زمانہ تک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصل کلام سے علیحدہ کیوں نہیں کیا جا سکا؟ میں نے ہمیشہ اس فورم پر حنفی احباب سے ہمیشہ ہی یہ پوچھا ھے ، اس معاملے کا سنجیدہ حل ہی یہی ھے کہ ھر "قال اصحاب ابو حنیفہ" قال ابو حنیفہ ھو نہیں سکتا تو اسکو فلٹر کرنے کام کیوں نہیں ھو رھا؟ ھر غیر مستند کتاب کے نئے اڈیشن بصد اھتمام شائع ھوتے رھتے ہیں لیکن غیر مستند کتب کو ہٹانے کا کام کیا ہی نہیں جاتا۔
 
Top