• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حنیفہ رح کے نزدیک بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی احادیث قابل قبول نہیں؟غالباً ایک شیعہ کی تحریر؟

شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
میں اعلان کرتا ہوں کہ اربوں ابوحنیفہؒ بھی اکٹھے ہو جائیں۔حضرت ابو ہریرہؓ یا حضرتانسؓ کے پاؤں کی خاک کے برابر نہیں۔۔۔
اور صحاح ستہ کے راوی اور تابعی کبیر امام ابراہیم نخئیؒ اور۔۔۔۔فقہ حنفیہ کے بعض علما کا ذکر کردہ یہ اصول بالکل صحیح نہیں ہے ۔۔
اب اس عبارت کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ اس میں جو بے ادب اور گستاخانہ لہجہ ہے اس کے بارے میں بھی ابن داود بھائی نہیں بولے ۔۔۔
۱۔أبوهريرة رضي الله عنه جسكي أحاديث كے لينے پر تمام امت كا اتفاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابوهريرة رضي الله عنه هر حديث روايت كرتا تها بغير اسكے كه وه اس پر غور كرتا اور اسكے معاني سمجهتا اور وه ناسخ اور منسوخ نهيں جانتا
۲۔
حضرت أنس بن مالك آخر عمر ميں اختلاط كے شكار هوئے تهے اور انهيں جب كوئي سؤال پوچها جاتا تو وه تو اپني عقل سے جواب ديا كرتے تهے اور ميں اسكي عقل كي تقليد نهيں كرتا
اور ابن داود بھائی کی عبارت۔قدرے تغیر کے ساتھ انہی کے لئے۔۔
اب آپ ابو هریرة رضی اللہ عنہ اور انس ؓ اور۔۔۔۔۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع میں اس شیعہ بے ادب عبارت کا رد کریں، اور اعلان کریں
تا کہ معلوم ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت سبقت لیتی ہے یا فقہ حنفیہ اور فقہاء احناف کی نفرت آڑے آجاتی ہے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مذکورہ اصول سے ابوحنیفہ رحمہ اللہ بری ہیں؟
یہ اصول احناف نے بنایا ہے؟ اور احناف اس اصول کو ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب کرتے ہیں؟
یہ مؤقف اہل الحدیث تو اختیار کرسکتے ہیں، حنفی مقلدین فقہ حنفی کے اس اصول کو رد کئے بغیر یہ چارہ نہیں!
باقی تفصیل سے بعد میں عرض کرتا ہوں، ان شاء اللہ!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرا یہ تجربہ ہے کہ ابن داؤد بھائی کو ان ابحاث کو چھیڑنے میں مزا آتا ہے جن میں وہ کسی طرح بھی احناف پر طعن کر سکیں۔
محترم ابن عثمان بھائی! آپ کا جواب مکمل ہے۔ لیکن اگر آپ نے جن علماء کا نام لیا ہے ان کی تحاریر بھی لگا دیں گے تب بھی ابن داؤد بھائی اپنی ضد پر قائم رہیں گے۔ یہ تجربہ ہے میرا۔
اس لیے اکثر میں ابن داؤد بھائی کی تحاریر پڑھ کر اس کے جواب میں کچھ نہیں لکھتا۔ جب کسی نے ماننا ہی نہ ہو تو انسان لکھنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کرے۔
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں اور مسلکی تعصب سے دور کریں۔ آمین
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلے میں مسئلہ بیان کروں گا، اس کے بعد کچھ باتوں کے جواب خود پر لازم سمجھتا ہوں ان کا جواب دوں گا، ان شاء اللہ!

جمشید بھائی کہ جنہیں ہم طحاوی دوراں کہا کرتے تھے کہ ان کا صارف نام طحاوی ہو گیا تھا، انہوں نے اس مسئلہ پر اس فورم پر کیا بات کی ہے، وہ میں نے نہیں دیکھی، لیکن جمشید بھائی کا مضمون دوسرے فورم (اہل حق) پر تھا، وہ میں نے پڑھا ہے۔ میرے پاس محفوظ ہے اسی سے ان کے اقتباس پیش کروں گا۔

جمشید صاحب:
وَلَمْ يُنْقَلْ هَذَا الْقَوْلُ عَنْ أَصْحَابِنَا أَيْضًا بَلْ الْمَنْقُولُ عَنْهُمْ أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ مُقَدَّمٌ عَلَى الْقِيَاسِ وَلَمْ يُنْقَلْ التَّفْضِيلُ(کشف الاسرار2/383)
(ابوالحسن الکرخی کہتے ہیں)یہ قول(کہ خلاف قیاس کی صورت مین غیرفقیہہ راوی کی روایت پر قیاس مقدم کیاجائے گا)ہمارے اصحاب سے منقول نہیں ہے بلکہ ان سے تویہ منقول ہے کہ خبرواحد قیاس پر مقدم ہوگی اوراس سلسلے یں کوئی تفصیل منقول نہیں ہے۔


یہاں أبو الحسن الکرخی کا مؤقف بیان کیا گیا ہے کہ ان کا مؤقف ہے ''غیر فقیہ صحابہ '' کی روایت کردہ حدیث کو خلاف قیاس ہونے کی صورت میں،ردنہیں کیا جائے گا، اور أبو الحسن الکرخی کے بقول ایسی کوئی قول امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ یا ان کے شاگردوں سے منقول نہیں کہ ''غیر فقیہ صحابہ'' کی احادیث کو قیاس کے خلاف ہونے کی صورت میں رد کیا جائے۔
بالکل جناب ! یہاں أبو الحسن الکرخی اور ان سے موافقت رکھنے والوں کا مؤقف آگیا، اس بات پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں! اس سے متصل ایک دوسری بات پر اعتراض وارد ہوگا، وہ بعد میں عرض کریں گے!

جمشید صاحب:
فقیہہ راوی کی روایت کو غیرفقیہہ پر ترجیح :
ہاں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کایہ طریق کار ضرور تھاکہ وہ دوراویوں کی روایت میں اس کو اختیار کرتے تھے جس کا راوی فقیہہ ہو غیرفقیہہ پر اس کو ترجیح دیتے۔لیکن یہ امام ابوحنیفہ کااختراع نہیں تھابلکہ محدثین کرام بھی اسی روش اورطرز کے قائل تھے۔جیساکہ حازمی نے بھی کتاب الاعتبار می وجوہ ترجیحات میں سے اس کو ذکر کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
الْوَجْهُ الثَّالِثُ وَالْعِشْرُونَ: أَنْ يَكُونَ رُوَاةُ أَحَدِ الْحَدِيثَيْنِ مَعَ تَسَاوِيهِمْ فِي الْحِفْظِ وَالْإِتْقَانِ فُقَهَاءَ عَارِفِينَ بِاجْتِنَاءِ الْأَحْكَامِ مِنْ مُثَمِّرَاتِ الْأَلْفَاظِ، فَالِاسْتِرْوَاحُ إِلَى حَدِيثِ الْفُقَهَاءِ أَوْلَى. وَحَكَى عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ: قَالَ لَنَا وَكِيعٌ: أَيُّ الْإِسْنَادَيْنِ أَحَبُّ إِلَيْكُمْ؛ الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَوْ سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ فَقُلْنَا: الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: يَا سُبْحَانَ اللَّهِ، الْأَعْمَشُ شَيْخٌ وَأَبُو وَائِلٍ شَيْخٌ،وَسُفْيَانُ فَقِيهٌ، وَمَنْصُورٌ فَقِيهٌ، وَإِبْرَاهِيمُ فَقِيهٌ، وَعَلْقَمَةُ فَقِيهٌ، وَحَدِيثٌ يَتَدَاوَلُهُ الْفُقَهَاءُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَدَاوَلَهُ الشُّيُوخُ. (الاعتبارفی الناسخ والمنسوخ من الآثارللحازمی(15)
23ویں وجہ روایت کی ترجیح کی یہ ہے کہ حفظ اورضبط میں راوی برابر ہوں لیکن ایک روایت کا راوی فقیہہ ہو الفاظ سے احکام کے استنباط کا طریقہ جانتاہو توفقیہہ راوی کی روایت کواختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ علی بن خشرم کہتے ہیں ہم سے وکیع نے کہا تمہیں کون سے سند زیادہ محبوب ہے؟اعمش عن ابی وائل عن عبداللہ (اس میں حضرت عبداللہ تک صرف دوراوی ہیں)یاپھر سفیان عن منصور عن علقمہ عن عبداللہ ،اس پر ہم نے کہاکہ اعمش والی سند توفرمایا سبحان اللہ اعمش شیخ ہیں،ابووائل شیخ ہیں جب کہ اس کے بالمقابل سفیان فقیہہ ہیں، منصور فقیہہ ہیں ابراہیم فقیہہ ہیں علقمہ فقیہہ ہیں اورفقہاء کی سند والی حدیث شیوخ کی سند والی حدیث سے بہتر ہے۔

یہاں دو احادیث کے درمیان ترجیح کی بات ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ جب ان میں تطبیق کی توقیق نہ ہو!
قیاس کو حدیث کے مقابلہ میں کھڑا کرنے کی بات نہیں!
یہ صرف خلط مبحث کرکے اپنا الو سیدھا کرنے والی بات ہے، اور دھوکہ و فریب کاری کے مترادف ہے!


جمشید صاحب:
امام ابوحنیفہ کے اجتہادات سے یہ قول نکالاگیاہے:
ہاں یہ ضرور ہے کہ امام ابوحنیفہ نے احادیث کے ردوقبول میں بعض اصول کو اختیار کیاہے ان اصول کو دیکھ کر بعد کے اہل علم نے ان کے اجتہادات سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ جس راوی کی روایت قبول کی جائے اس کیلئے فقیہہ ہونا ضروری ہے یانہیں، اوراگرغیرفقیہہ کی روایت قیاس کے خلاف ہو توقیاس کو ترک کرکے حدیث پر عمل کیاجائے یاغیرفقیہہ راوی کی روایت کو ترک کرکے قیاس پر عمل کیاجائے۔
امام ابوحنیفہ کے بعد کے عہد میں اصول فقہ پر لکھنے والی دوشخصیتں ایک ہی زمانہ کی ہیں۔ ایک ابوالحسن الکرخی اوردوسرے امام عیسی بن ابان۔عیسی بن ابان کے بارے میں یہ کہاگیاہے کہ وہ معتزلہ کے خیالات رکھتے تھے لیکن ایساکہنے والے نے کوئی ثبوت اوردلیل پیش نہیں کی۔ لہذا کسی کامحض کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم ایک جلیل القدر عالم پر یہ تہمت گواراکرلیں۔


یہاں جمشید صاحب اس أصول کو کہ ''غیر فقیہ صحابی'' کی روایت کردہ روایت کو بعد کے حنفی علماء کی اختراع قرار نہیں دے رہے ، بلکہ أبو الحسن الکرخی کے برخلاف اسے امام أبو حنیفہ کے اقوال و فتاوی سے ہی ماخوذ قرار دے رہے ہیں۔ اور آگے اسی با ت کا ثبوت الجصاص حنفی کی تحریر سے پیش کریں گے۔
ان دونوں مؤقف کو اختیار کرنے والوں کا مدعا یہ ہے کہ ان کا اختیار کردہ مؤقف ہی امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کا مؤقف ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں، ایسا اختلاف ہونا بلکل ممکن ہے، بہر حال دونوں حنفی ہیں۔
لیکن یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے؛
حنفی مقلدیں یہ باور کرواتے ہیں کہ قاضی أبو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ بھی أصول میں امام أبو حنیفہ کے مقلد تھے۔ لیکن یہاں تو امام أبو حنیفہ کے أصول کا ہی تعین نہیں ہو پا رہا!
آخر یہ معاملہ کیا ہے!
معاملہ یہی ہے کہ امام صاحب سے ایسے کوئی أصول منقول نہيں، امام صاحب کے اقوال اور فتاوی منقول ہيں۔ اب بعد میں آنے والوں نے ایسے أصول مرتب کئے ہیں کہ قرآن و حدیث کی حجیت کا دائرہ کس طرح تنگ کیا جائے کہ ان اصولوں کی روشنی میں امام صاحب اور ان کے أصحاب کے اقوال و فتاوی، قرآن و حدیث کے موافق قرار دیئے جا سکیں!
عیسی بن ابان نے اگر ''غیر فقیہ صحابی'' کی احادیث کو قیاس کے مقابلے میں رد کرنے کا مؤقف اختیار کیا ہے ۔ تو أبو الحسن الکرخی نے اس کا دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے۔ أبو الحسن الکرخی کا احادیث کو رد کرنے کا طریقہ بعد میں ذکر کریں گے۔ پہلے ذرا یہاں عیسی بن ابان کے أصول کی بنیادی بات سمجھ لیں:

الحسامي - حسام الدين محمد بن عمر الحسامي لأخسيكثي (المتوفى: 644هـ)
﴿خبر الراوي المعروف﴾
وإذا ثبت أن خبر الواحد حجة قلنا: إن كان معروفاً بالفقه والتقدّم في الاجتهاد، كالخلفاء الراشدين والعبادلة الثلاثة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبي موسی الأشعري وعائشة رضوان الله عليهم أجمين وغيرهم ممن اشتهر بالفقه والنظر، كان حديثهم حجة، يترك به القياس، وإن كان الراوي معروفاً بالعدالة والحفظ دون الفقه، مثل أبي هريرة وأنس بن مالك رضي الله عنهما فإن وافق حديثه القياس عمل به، وإن خالفه لم يترك إلا للضرورة وانسداد باب الرأي، وذلك مثل حديث أبي هريرة في المصرّة
.

ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 74 – 75 الحسامي في اصول الفقه - طبعه المطبع الحنفي سنه 1851
صفحه 140 – 141 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مكتبة البشری كراتشي
صفحه 148 – 149 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مير محمد كتب خانه كراتشي


اور جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ خبر واحد حجت ہے تو ہم کہیں گے کہ اگر راوی معروف ہو فقہ اور اجتہاد میں تقدم کے ساتھ جیسے خلفاء راشدین اور تینوں عبد اللہ اور زید بن ثابت اور معاذ بن جبل ابو موسیٰ اشعری اور عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے علاوہ ان لوگوں میں سے جو فقہ ونظر کے ساتھ مشہور ہیں تو ان کی حدیث حجت ہوگی جس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر راوی عدالت اور حفظ کے ساتھ معروف ہو نہ کہ فقہ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس ابن مالک پس اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو تو چھوڑا نہ جائیگا مگر ضرورت کی وجہ سے اور وہ ضرورت اجتہاد (قیاس ، رائے)کے دروازہ کا بند ہونا ہے، اور اس کی مثال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مصراۃ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 126 درس حسامی شرح اردو منتخب الحسامی – محمد يوسف تاؤلی – ایچ ایم سعید کمپنی کراچی

ان ملون الفاظ کو سمجھیں ؛ ''غیر فقہ صحابی'' کی حدیث اگر قیاس کے خلاف ہو تو نہیں چھوڑا جائے، لیکن ضرورت کے تحت اسے چھوڑ دیا جائے!
آخر وہ ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب بھی اسی ملون عبارت میں موجود ہے

وانسداد باب الرائی: قوله: ''وانسداد عطف تفسيريّ لقوله: ''للضرورة''، والمعنی إنما يترك حديث غير الفقيه إذا خالف القياس للضرورة، وهي أنه لو عمل بالحديث وقت المخالفة أيضاً لانسدّ باب القياس من كل وجه،
ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 141 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مكتبة البشری كراتشي

صفحه 149 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مير محمد كتب خانه كراتشي

وہ ضرورت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے قیاس ورائے کا دروازہ بند نہ ہوجائے۔ اب کوئی پوچھے کہ جب حدیث میں مسئلہ موجود ہے تو وہاں آپ کو قیاس کرنے کا کہا کس حکیم نے ہے۔ قیاس کی گنجائش تو ہے ہی اس وقت کہ جب کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کا حکم نہ ملے!
اور ان احادیث کو تسلیم کرنے میں آخر ایسی کون سی قیامت آنے والی تھی کہ ان احادیث کے منصوص حکم پر عمل کرنے سے آئیندہ کبھی کسی مسئلہ میں قیاس پر پابندی عائد ہو جانی تھی کہ قیاس کا دروازہ بند ہو جاتا۔
ایسا تو ہونا نہیں تھا، کہ ہر درپیش مسئلہ میں قرآن و حدیث سے کوئی منصوص حکم مل جاتا۔ یعنی کہ یہ بات تو عیاں ہے کہ ان احادیث کے منصوص حکم پر عمل کرنے سے آئندہ سے قیاس پر پابندی تو نہیں لگ جانی تھی، اور نہ قیاس کا دروازہ بند ہونا تھا۔
لیکن ہاں ! ان احادیث میں وارد منصوص حکم پر عمل کرنے سے امام صاحب اور ان کے شاگردوں کے قیاس کو ترک کرنا پڑتا!
اور یہ کام ان حنفی مقلدین کے لئے مشکل تھا۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ حنفی مقلدین کے لئے قیاس امام أبو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے ہی قیاس معتبر ہیں، اگر یہ حنفی مقلدین اپنے امام اعظم اور ان کے شاگردوں کے علاوہ دیگر فقہاء کے قیاس کو بھی تسلیم کرتے تو بھلا یہ حنفی مقلد کیونکر کہلاتے!
یہ ضرورت جو ہم نے بیان کی ہے اس کا ثبوت اس مذکورہ عبارت میں آگے پیش کی گئی مثال میں موجود ہے۔


حدیث مصراة:

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ الْأَعْرَجِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ فَمَنْ ابْتَاعَهَا بَعْدُ فَإِنَّهُ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَإِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَصَاعَ تَمْرٍ وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَمُجَاهِدٍ وَالْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ وَمُوسَى بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعَ تَمْرٍ وَقَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ وَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثًا وَقَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ وَلَمْ يَذْكُرْ ثَلَاثًا وَالتَّمْرُ أَكْثَرُ

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے، ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بیچنے کے لیے ) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو۔ اگر کسی نے ( دھوکہ میں آکر ) کوئی ایسا جانور خریدلیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے، اور چاہے تو واپس کردے۔ اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدل دے دے۔ ابوصالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار سے بواسطہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ایک صاع کھجور ہی کی ہے۔ بعض راویوں نے ابن سیرین سے ایک صاع کھجور کی روایت کی ہے اور یہ کہ خریدار کو ( صورت مذکورہ میں ) تین دن کا اختیار ہوگا۔ اگرچہ بعض دوسرے راویوں نے ابن سیرین ہی سے ایک صاع کھجور کی بھی روایت کی ہے، لیکن تین دن کے اختیار کا ذکر نہیں کیا اور ( تاوان میں ) کھجور دینے کی روایات ہی زیادہ ہیں۔
صحيح البخاري «» كِتَابُ البُيُوع «» بَابُ النَّهْيِ لِلْبَائِعِ أَنْ لاَ يُحَفِّلَ الإِبِلَ، وَالبَقَرَ وَالغَنَمَ

اب امام صاحب کے قول کے مطابق یہ جائز نہیں، حنفی مقلدین کے لئے یہاں مسئلہ پیدا ہو گیا، کہ وہ اس حدیث کو قبول کریں یا امام صاحب کے قول کو، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ، جو کہ أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ہے اسے خلاف عقل و قیاس قرار دینے لگے۔ اس بارے میں اختصار کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے استاد مفتی محمد یوسف تاؤلی صاحب کا کلام دیکھیں:

''تو یہاں ایک صاع کھجور کا کوئی تُک نہیں بلکہ دودھ کا مثل یا اس کی قیمت ہونی چاہئے تھی۔ بہر حال قیمت بھی أبو یوسف ؒ کے قول کے مطابق ہے ورنہ امام صاحبؒ کے نزدیک مشتری کے لئے جائز نہیں کہ اس جانور کو واپس کرے بلکہ وہ بائع سے اس کا تاوان لے لے اور جانور اپنے پاس رکھ لے۔ اس مقام پر مزید تفصیلات ہیں جن کے بیان کا یہ محل نہیں ہے۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 126 درس حسامی شرح اردو منتخب الحسامی – محمد يوسف تاؤلی – ایچ ایم سعید کمپنی کراچی


اب یہ فقہائے احناف جس بات کو ہر لحاظ سے خلاف قیاس و عقل قرار دے رہے ہیں، اس حدیث کو بقول مقلدین احناف کے بقول فقہ حنفیہ کی تخم ریزی کرنے والے عبد اللہ بن مسعود ، احناف کے ہاں بھی قفہ و فتاوی میں عظیم مرتبہ رکھتے ہیں، انہیں عبد اللہ بن مسعود کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَنْ اشْتَرَى شَاةً مُحَفَّلَةً فَرَدَّهَا فَلْيَرُدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُلَقَّى الْبُيُوعُ

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمتر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی ا للہ عنہ نے کہا کہ جو شخص ” مصراۃ “ بکری خریدے اور اسے واپس کرنا چاہے تو ( اصل مالک کو ) اس کے ساتھ ایک صاع بھی دے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے ( جو مال بیچنے لائیں ) آگے بڑھ کر خریدنے سے منع فرمایا ہے۔
صحيح البخاري «» كِتَابُ البُيُوع «» بَابُ النَّهْيِ لِلْبَائِعِ أَنْ لاَ يُحَفِّلَ الإِبِلَ، وَالبَقَرَ وَالغَنَمَ

یہاں سے کچھ باتیں ثابت ہوتی ہیں؛
عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا فتوی بھی أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کے موافق ہے، اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تو یہ حدیث قطعی تور پر خلاف قیاس و خلاف عقل معلوم نہیں ہوئی، اور اگر مقلدین احناف پھر بھی اس بات پر مُصر ہیں کہ یہ خلاف قیاس و خلاف عقل اور بے تکی بات ہے، تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ أصول نہیں کہ کسی حدیث کو قیاس و عقل کے مقابلہ میں لا کر حدیث کو رد کر دیا جائے!
اب کوئی یہ کہے کہ عبداللہ بن مسعود نے یہ فتوی اپنے قیاس سے دیا ہے نہ کہ أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کے تحت، ایسی صورت میں تو حدیث مصراة کا حکم عین قیاس کے مطابق قرار پاتا ہے۔
یا کوئی یہ کہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہے أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ خود اس حدیث سے واقف تھے، تو اس صورت میں بھی کہ ایک فقہ صحابی کا اس حدیث کے مطابق فتوی ہے، احناف کو حدیث مصراۃ کے حکم کو قبول کرنا چاہئے!
اب یہاں امام ابوحنیفہ کا فتوی نہ صرف''غیر فقیہ صحابی'' کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے، بلکہ ایک عظیم فقیہ صحابی کے فتوی کے خلاف بھی۔
اور پھر ایک قول جو بیان کیا جاتا ہے کہ امام أبو حنیفہ نے فرمایا:
اتركوا قولي لقول الصحابة.
صحابہ رضی اللہ عنہ کے قول کے سامنے میرے قول کو چھوڑ دو
حنفی مقلدین کا اس پر بھی عمل نہیں۔ حنفی مقلدین خواہ مخواہ یہ ڈھندورا پیٹتے ہیں کہ وہ صحابہ کو حجت مانتے ہیں۔ اور طرفہ تماشہ یہ کہ اہل الحدیث پر طعن کرتے ہیں کہ اہل الحدیث صحابہ کو نہیں مانتے!
اور یہ معاملہ صرف عیسی بن ابان اور ان کی موافقت کرنے والے حنفیوں کے ساتھ نہیں، بلکہ أبو الحسن الکرخی اور ان سے موافقت رکرنے والے حنفیوں نے بھی حدیث مصراۃ کے حکم کو قبول نہیں کیا! اس کی تفصیل بعد میں آئے گی ، ان شاء اللہ!
ہماری اس بات کو ابی الحسن سندھی الحنفی رحمہ اللہ نے اس طرح بیان کیا ہے:

حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري (المتوفى: 1138هـ)
﴿ قوله: عن عبد الله بن مسعود رضي الله تعالی عنه قال من اشتری شاة الخ﴾ هذا الحديث علی اصول علمائنا الحنفية يجب ان يكون له حكم الرافع فانهم صرحو بان الحديث مخالف للقياس ومن اصولهم ان الموقوف اذا خالف القياس فهو في حكم المرفوع فبطل اعتذار من قال ان الحديث قد رواه ابو هريرة وهو غير فقيه ورواية غير الفقيه اذا خالف جميع الأقسية ترد لانه اذا ثبت ابن مسعود موقوفا والموقوف في حكم المرفوع ثبت من رواية ابن مسعود ايضاً وهو من اجلاء الفقهاء بالتفاق علی ان الحديث قد جاء برواية ابن عمر اخرجه ابو دواد بوجه و الطبراني بوجه آخر وبرواية انس اخرجه ابو يعلی وبرواية عمرو ابن عوف اخرجه البيهقي في الخلافيات كذا ذكره المحقق ابن حجر.

یہ حدیث ہمارے علماء کے اصول کے مطابق حکما مرفوع ہونا لازم ہے، کیونکہ انہوں نے صراحت کی ہے کہ جو حدیث قیاس کے مخالف ہو ، اور ان کے اصول میں قیاس کے مخالف موقوف حدیث حکماً مرفوع ہے، لہٰذا یہ عذر باطل ہو گیا کہ جس نے کہا کہ یہ حدیث ابو هریرہ نے روایت کی ہے اور وہ غیر فقیہ ہیں، اور غیر فقیہ کی روایت اگر قیاس کی تمام اقسام کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے، اور جب ابن مسعود سے موقوفاً ثابت ہے، اور ابن مسعود کی موقوف روایت ہے حکماً مرفوع کے ہے، جو بالاتفاق اجلاء الفقہاء میں سے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 570 – 571 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 383 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - مكتبه رحمانيه


(جاری ہے)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مکمل تفصیل سے پڑھا لیکن اس میں احناف کے اصول اور مسئلہ مصراة پر بحث تو ملی لیکن ابو حنیفہ رح کی جانب منسوب قول کا کوئی حوالہ نہیں ملا جس کے لیے یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے.
محترم بھائی کیا آپ خلط مبحث کے بجائے الگ تھریڈ شروع نہیں فرما سکتے؟
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
مکمل تفصیل سے پڑھا لیکن اس میں احناف کے اصول اور مسئلہ مصراة پر بحث تو ملی لیکن ابو حنیفہ رح کی جانب منسوب قول کا کوئی حوالہ نہیں ملا جس کے لیے یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے.
محترم بھائی کیا آپ خلط مبحث کے بجائے الگ تھریڈ شروع نہیں فرما سکتے؟
یہ خلط مبحث تو نہیں لگتی......
آپ انکو اپنی بات تو مکمل کر لینے دیں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ خلط مبحث تو نہیں لگتی......
آپ انکو اپنی بات تو مکمل کر لینے دیں.
اصل پوسٹ کی بات یہ تھی:
امام ابوحنيفة رحمه الله كے نزديک بعض صحابه كرام كي احاديث قابل قبول نهيں، اور انكي تعداد تقريباً تين هے:
[1) أبوهريرة رضي الله عنه جسكي أحاديث كے لينے پر تمام امت كا اتفاق هے ابوحنيفة سے جب پوچها گيا كه ابو هريرة رض كي احاديث كو كيون قبول نه كيا جائے ؟ تو جواب ديا: كه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه هر حديث روايت كرتا تها بغير اسكے كه وه اس پر غور كرتا اور اسكے معاني سمجهتا اور وه ناسخ اور منسوخ نهيں جانتا تهے اسلئے انكي احاديث معتبر نهيں.
[2] حضرت أنس بن مالك آخر عمر ميں اختلاط كے شكار هوئے تهے اور انهيں جب كوئي سؤال پوچها جاتا تو وه تو اپني عقل سے جواب ديا كرتے تهے اور ميں اسكي عقل كي تقليد نهيں كرتا.
[3] حضرت سمرة بن جندب رضي الله عنه كي احاديث بهي معتبر نهيں.
امام ابو يوسف رحمه الله سے مروي هے جو ابو حنيفه كے شاگرد تهے كهتے هيں كه ميں نے ابو حنيفة سے پوچها كه اگر همارے پاس كوئي حديث همارے قياس كے خلاف هو تو هم كيا كريں تو ابوحنيفة نے جواب ديا كه اسي پر عمل كيا جائے اور قياس ترک كيا جائے تو ميں نے عرض كيا كه اگر ابوبكر و عمر عثمان و علي كي روايت آئے تو آپ نے فرمايا انكي بهي حديث معتبر هے اور اسي پر عمل هوگا اور فرمايا كه تمام صحابه عدول هيں سوائے چند صحابہ مثلا: أبوهريرة أنس بن مالك رضوان الله عليهم اجمعين.
اور اسي طرح أحمد أمين المصراة نقل كرتے هيں امام ابوحنيفة سے كه وه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه كي احاديث كو رد كرتے تهے جب انكي احاديث انكے قياس كے مخالف هوتي اور كها كرتهے كه ابوهريرة رضي الله عنه غير فقيه هيں ، اسلئے انكي احاديث رد كي جائے جو همارۓ قياس كے مخالف هو.
ملا علي القاري الحنفي جو حنفي مسلک كے بهت بڑے عالم گذرے هيں فرماتے هيں كه امام ابوحنيفة رحمه الله كے اصول ميں سے هے كه راوي انکي راي كے خلاف عمل نه كرے اسلئے انهوں نے حضرت ابوهرة كي وه حديث غسل رد كي كيوں كه وه انكے فتوى كے خلاف تهي.
اوپر محترم ابن داؤد بھائی کی پوسٹ میں مجھے ابو حنیفہؒ کے تعلق سے کچھ بھی نہیں ملا۔
چلیں آگے دیکھتے ہیں۔ (ویسے مشکل ہے کہ ابو حنیفہؒ کا کوئی قول اس بارے میں یہ پیش فرمائیں۔۔۔۔۔ بہر حال۔۔۔۔)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جمشید صاحب:
امام عیسی بن ابان کا موقف:
ہاں امام عیسی بن ابان سے اوران سے متاثردیگر کچھ فقہائے احناف نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہوگاتو راوی کی فقاہت کو دیکھاجائے گا۔بعض لوگ توکہتے ہیں کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کایہ قول ایجادبندہ ہے۔لیکن یہ کہنادرحقیقت لاعلمی اورجہالت ہے۔ماقبل مین یہ بات کہی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ اوردیگر کبارائمہ احناف سے اس بارے مین کچھ بھی منقول نہیں ہے۔نہ نفی میں اورنہ اثبات میں۔

عیسی بن ابان نے یہ نظریہ تخریج کیاہے:
امام عیسی بن ابان علیہ الرحمہ نے جب امام ابوحنیفہ کے اجتہادات میں غورکیاتوبعض نظائر سے ان کو یہ لگاکہ امام ابوحنیفہ فقہ راوی کوشرط مانتے ہیں جب کہ خبرواحد قیاس کے خلاف ہو۔توعیسی بن ابان کایہ کہنادرحقیقت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات میں غوروفکر کے بعد ممکن ہوسکاہے۔یہ ان کی اپنی گڑھی ہوئی بات نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے غوروفکر کے بعد جونتیجہ نکالا وہ درست ہے یانہیں ہے۔لیکن اس کو عیسی بن ابان کا اختراع کہناظلم ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو بَكْرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: قَدْ حَكَيْت جُمْلَةَ مَا ذَكَرَهُ عِيسَى فِي هَذَا الْمَعْنَى، وَهُوَ عِنْدِي مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا، وَعَلَيْهِ تَدُلُّ أُصُولُهُمْ،(الفصول فی الاصول3/122)
امام جصاص رازی کہتے ہیں اس مفہوم کی بات کا کچھ حصہ جوعیسی بن ابان نے ذکر کیاہے اس کو میں نے نقل کیاہے اوروہ میرے نزدیک ائمہ احناف کا موقف ہے اوراسی پران کے اصول دلالت کرتے ہیں۔

یہاں امام جصاص رازی نے دوباتیں کہی ہیں۔اولاتویہ کہ میرے نزدیک ،میری رائے میں،اوریہ اس وقت بولاجاتاہے جب بات پوری طرح واضح اورغیرمبہم نہ ہو۔ بات جب کسی حد تک مبہم اورغیرواضح ہوتی ہےتوانسان کہتاہے کہ یہ معاملہ میری رائے میں ایساہے۔دوسرے امام جصاص رازی یہ بھی مان رہے ہیں کہ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ سے کوئی واضح بات منقول نہیں ہے بلکہ ان کے اجتہادات کو دیکھ کر غوروفکر کرکے یہ اصول اخذ کیاہے ۔
یعنی حنفی مقلدین کا ایک گروہ ، یعنی عیسی بن ابان اور ان کے مؤقف سے اتفاق رکھنے والا س أصول کی نسبت بذریعہ تخریج و دلالت امام صاحب اور ان کے شاگردوں سے ہی کرتا ہے، جیسا کہ الجصاص حنفی کے قول ہے ، ا ور اسے عیسی بن ابان کی ایجاد قرار دینے کو طحاوی دوراں یعنی کہ جمشید صاحب لا علمی اور جہالت قرار دیتے ہیں۔

جمشيد صاحب :
عیسی بن ابان کافقہ راوی میں کیاموقف ہے:
باوجود اس قیل وقال کے عیسی بن ابان سے بھی یہ بات مطلقا مروی نہیں ہے کہ اگرراوی غیرفقیہہ ہے تواس کی روایت ہرحال میں رد کردی جائے گی اوراس کی روایت کو کسی حال میں قبول نہیں کیاجائے۔ بلکہ اس کیلئے انہوں نے جو شروط اورقیود لگائے ہیں۔اس کو دیکھنے کے بعد میراتوخیال یہی ہے کہ یہ صرف لفظی بحث رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ان شروط وضوابط کے بعد کسی روایت کو محض اس لئے رد کردیناکہ اس کا راوی غیرفقیہہ ہے ناممکن سے رہ جاتاہے اورذخیرہ حدیث میں ایسی روایت باوجود تلاش کے نہیں ملتی میرے علم کی حد تک اوراگرہوگی بھی تومجھے امید ہے کہ محدثین کرام نے پہلے ہی اس پر سندی اعتبار سے جرح کررکھی ہوگی۔ ھذاماعندی واللہ اعلم بالصواب

اب یہاں جمشید صاحب نے اس أصول کو کہ '' غیر فقیہ صحابی کی روایت کردہ حدیث خلاف قیاس ہونے کی صورت میں رد کر دی جائے گی'' یا حدیث سے کے حکم کو تسلیم کیا جائے، اسے ''صرف لفظی بحث'' قرار دے دیا۔
اس بات کو ذہن میں رکھیں! جمشید صاحب عیسی بن ابان کے بیان کردہ حنفی أصول اور أبو الحسن الکرخی کے بیان کو صرف لفظی مخالفت قرار دے رہے ہیں۔ اور ان کی یہ بات درست ہے، کہ خواہ وہ عیسی بن ابان کے تخریج کردہ أصول کے مطابق اقوال و فتاوی امام أبو حنیفہ و شاگرد امام أبو حنیفہ کے مخالف حدیث کو رد کریں یہ أبو الحسن الکرخی کے اختیار کردہ طریقہ سے ان احادیث کا رد کریں، کرنا تو حدیث کا رد ہی ہے، جیسے کہ حدیث مصراة کا کیا ہے۔ ( أبو الحسن الکرخی کاطریقہ بعد میں بیان کیا جائے گا،ان شاء اللہ!)

جمشید صاحب:
امام سرخسی کی وضاحت:
امام سرخسی کے نزدیک روات کی اقسام:
چونکہ امام سرخسی بھی اس مسئلہ پر امام عیسی بن ابان کے ہم خیال ہیں۔ لہذا بہتر ہے کہ اولاامام سرخسی کی رائے نقل کی جائے۔امام سرخسی اصول السرخسی(1/339) لکھتے ہیں۔

اعْلَم بِأَن الروَاة قِسْمَانِ مَعْرُوف ومجهول،فالمعروف نَوْعَانِ من كَانَ مَعْرُوفا ،الفقه والرأي فِي الِاجْتِهَاد وَمن كَانَ مَعْرُوفا بِالْعَدَالَةِ وَحسن الضَّبْط وَالْحِفْظ وَلكنه قَلِيل الْفِقْه
جان لو کہ راویوں کی دوقسمیں ہیں۔ معروف اورمجہول،پھر معروف کی دوقسمیں ایک تویہ کہ راوی فقہ اوراجتہاد میں مشہور ہودوسری قسم یہ ہے کہ عدالت اورضبط وحفظ میں تومشہور ہو لیکن فقہ مین اس کا حصہ تھوڑاہو۔
امام سرخسی معروف کی پہلی قسم پر کلام کرنے کے بعد اوراس میں خلفاء اربعہ اوردیگر ممتاز فقہائے صحابہ کرام کو گنوانے کے بعد لکھتے ہیں۔

فَأَما الْمَعْرُوف بِالْعَدَالَةِ والضبط وَالْحِفْظ كَأبي هُرَيْرَة وَأنس بن مَالك رَضِي الله عَنْهُمَا وَغَيرهمَا مِمَّن اشْتهر بالصحبة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَالسَّمَاع مِنْهُ مُدَّة طَوِيلَة فِي الْحَضَر وَالسّفر فَإِن أَبَا هُرَيْرَة مِمَّن لَا يشك أحد فِي عَدَالَته وَطول صحبته مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى قَالَ لَهُ (زر غبا تَزْدَدْ حبا) وَكَذَلِكَ فِي حسن حفظه وَضَبطه
ایسے راوی جو عدالت اورضبط وحفظ میں مشہور ہیں جیسے کہ حضرت ابوہریرہ وانس بن مالک رضی اللہ عنہما جن کا رسول پاک کاصحابی ہونامشہور ہے اورانہوں نے رسول پاک سے ایک مدت تک ان کے اقوال وفرامین سنے سفر وحضر میں سنے بھی ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اوررسول پاک کے ساتھ طویل وقت گزارنے میں کسی کو شک نہیں ہے یہاں تک کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہاایک دن ناغہ کرکے ملاکر تاکہ محبت زیادہ ہو،اسی طرح ان کے حافظہ اورباتوں کو یاد رکھنے کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے۔

مزید
جمشید صاحب:
عدل وضبط کے بعد فقہ کی شرط کیوں:
ایک سوال پھر پیداہوتاہے کہ جب وہ عادل ہیں اورجوسنتے ہیں وہ یاد رکھتے ہیں توپھر آپ ان کی روایت کومطلقاقبول کیوں نہیں کرتے۔خلاف قیاس اورموافق قیاس کے پھیر میں کیوں پڑتے ہیں۔کیوں اس کے لئے کچھ الگ شرائط اورضوابط بناتے ہیں۔اس کا جواب دیتے ہوئے امام سرخسی علیہ الرحمہ کہتے ہیں۔

وَلَكِن نقل الْخَبَر بِالْمَعْنَى كَانَ مستفيضا فيهم وَالْوُقُوف على كل معنى أَرَادَهُ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِكَلَامِهِ أَمر عَظِيم فقد أُوتِيَ جَوَامِع الْكَلم على مَا قَالَ أُوتيت جَوَامِع الْكَلم وَاخْتصرَ لي اختصارا وَمَعْلُوم أَن النَّاقِل بِالْمَعْنَى لَا ينْقل إِلَّا بِقدر مَا فهمه من الْعبارَة وَعند قُصُور فهم السَّامع رُبمَا يذهب عَلَيْهِ بعض المُرَاد وَهَذَا الْقُصُور لَا يشكل عِنْد الْمُقَابلَة بِمَا هُوَ فقه (لفظ) رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فلتوهم هَذَا الْقُصُور قُلْنَا إِذا انسد بَاب الرَّأْي فِيمَا رُوِيَ وتحققت الضَّرُورَة بِكَوْنِهِ مُخَالفا للْقِيَاس الصَّحِيح فَلَا بُد من تَركه لِأَن كَون الْقيَاس الصَّحِيح حجَّة ثَابت بِالْكتاب وَالسّنة وَالْإِجْمَاع فَمَا خَالف الْقيَاس الصَّحِيح من كل وَجه فَهُوَ فِي الْمَعْنى مُخَالف للْكتاب وَالسّنة الْمَشْهُورَة وَالْإِجْمَاع
بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظ کے بجائے معنی کےساتھ روایت کرناحضرات صحابہ کرام میں جاری وساری تھا۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں کیاکیامراد لیاہے اس کااحاطہ کرنا مشکل اوربڑاکام ہے کیونکہ ان کو جوامع الکلم (بات مختصر لیکن مختصر بات میں معنی کی ایک دنیا فروزاں ہو)دیاگیاتھااوریہ سب کو معلوم ہے کہ جب بات کو معنی کے ساتھ نقل کیاجائے توآدمی اپنے عقل اورفہم کے اعتبار سے ہی نقل کرتاہے اورکبھی کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ سننے والے کو سمجھنے میں غلطی ہوتی اورمطلب کا بعض پہلو اس سے اوجھل ہوتاہے ۔اوریہ بات تب ظاہرہوتی ہے جب روایات کا مقابلہ کیاجائے اس کی روایت سے جس نے اس کو بہتر طورپر سمجھاہے ۔اسی بناء پر کہ بعض دفعہ مطلب اورمراد کے کچھ پہلو وہم کی بنیاد پر یاکسی اوروجہ سے چھوٹ جاتے ہیں جب کوئی ایسی روایت سامنے آئے جس سے قیاس ورائے کا ہرپہلوختم ہوجائےاوریہ بات بالبداہت ثابت ہوجائے کہ مذکورہ روایت خلاف قیاس ہے۔توایسی صورت میں روایت کو ترک کردیاجائے گا۔ کیونکہ قیاس صحیح کا حجت اوردلیل ہوناکتاب اللہ،سنت رسول اللہ ،اوراجماع سے ثابت ہے۔توجب کوئی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو توگویا وہ کتاب اللہ، سنت مشہور اورجماع کے خلاف ہے۔

لو جناب! کیا زبردست دلیل آئی ہے!
ان سے کوئی پوچھے کہ اگر کسی حدیث کا ہر لحاظ سے خلاف قیاس ہونا ، کتاب اللہ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف ہونا ہے تو،ایسی حدیث کو رد کرنا کتاب اللہ ، سنت مشہور اور اجماع کا حکم ہوا!
پھر اس میں ''فقیہ صحابی اور غیر فقیہ صحابی'' کی کیا قید!
یعنی کہ ''غیر فقیہ صحابی '' کی روایت خلاف قیاس ہونے کی صورت ميں کتاب اللہ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے لہٰذا اس کو رد کر دیا جائے، مگر '' فقیہ صحابی '' کی روایت خلاف قیاس ہونے کی صورت میں کتاب اللہ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پانے کی صورت میں بھی اس پر عمل کیا جائے!
اہل الرائے رائی زنی میں غوطہ لگا لگا کر ایسی کی عجیب باتیں کیا کرتے ہیں، لیکن ان کو اس کی خبر نہیں ہوتی!

(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں پوسٹ نمبر ۱۱ کی آخری ۴ سطروں پر ۔۔ابن داود بھائی سے معافی مانگتا ہوں۔۔
اور میری خیال میں یہ سطریں اور انداز مناسب نہیں۔۔۔
انتظامیہ کا کوئی بھائی اس کو اگر پڑھ لے تو ان کو ریموو کر دے ۔۔
باقی بات کو علمی انداز سے بے شک جاری رکھیں۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم @ابن داود بھائی۔ یہ مضمون مکمل ہونے کے بعد از راہ مہربانی جمشید بھائی کا اصل مضمون بھی لگا دیجیے گا یا ورڈ کی حالت میں دے دیجیے گا۔ جزاک اللہ خیرا
 
Top