• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حنیفہ رح کے نزدیک بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی احادیث قابل قبول نہیں؟غالباً ایک شیعہ کی تحریر؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جمشید صاحب نے ''غیر فقیہ صحابی'' کی روایت کو خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کو رد کرنے کے لئے کچھ شروط ذکر کئے ہیں!


جمشید صاحب:
شرائط کا ترتیب وارذکر
1: وہ روایت صرف اسی ایک غیرفقیہہ راوی کے واسطے سے منقول ہو،
مثلاایک روایت صرف حضرت ابوہریرہ ہی سےمروی ہے۔وہ حضرات جن کےنزدیک فقاہت راوی بھی ایک شرط ہے ۔اگرغیرفقیہہ راوی کی روایت کے ساتھ دوسرے صحابی کی روایت مل جائے تواس وقت یہ روایت خبرواحد نہ رہ کر مشہور ہوجائے گی اورایسی روایت کو قیاس پر مطلقا مقدم کردیاجائے گا

2: ثانیاامت نے اس پر عمل نہ کیاہو۔
اگرفقہاء اورمجتہدین نے اس سے استدلال کیاہے اوراس روایت پر عمل کیاہے توبھی روایت قیاس پر مقدم ہوگی ۔

3:صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اس پرنکیر کیاہو۔
اس کی ایک مثال لیجئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جن احادیث پر حضرت صحابہ کرام نے اعتراض کیاہے۔اس کی وجہ سے وہ حدیث اب اس لائق ہوگئی ہے کہ ایک مجتہد اس مین غوروفکر کرے اورغوروفکر کے بعداس کو قبول کرنے اورقبول نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔

4: اس مفہوم کی دوسری روایات اس کی تائید نہ کرتی ہوں
اس میں اورشرط نمبر1 میں باریک سافرق ہے کہ اگرکسی دوسری روایت کے عموم سےیامفہوم سےبھی غیرفقیہہ راوی کی روایت کی تائید ہوتی تو اس روایت کو قیاس پر مقدم کردیاجائے گا۔

5: کتاب وسنت کے دوسرے نظائر اس مروی حدیث کے خلاف ہوں۔
مثلاایک حدیث ہے۔ہم حدیث مصراۃ کو ہی لیتے ہیں۔اب دوسری مشہور اورمقبول احادیث کا جومفہوم اورعموم ہے۔وہ اس حدیث کے خلاف ہے۔ مثلاالخراج بالضمان یاپھر اس مفہوم کی احادیث کہ سامان اورقیمت میں توازن ہوناچاہئے۔

6: ہرپہلوسے خلاف قیاس ہو، قیاس اوررائے کی ا س میں کوئی گنجائش نہ ہو۔
فقہ میں ہی قیاس کی دوبنیادی قسمیں ہیں۔ قیاس جلی اورقیاس خفی۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ صرف ایک پہلو ہی اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ متعدد پہلواپنے اندر رکھتاہے۔خلاف قیاس ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ قیاس ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو۔کسی بھی پہلو سے اس حدیث کا موافق قیاس ہونا ثابت نہ ہو۔علامہ فناری لکھتے ہیں۔

والمعروف بالرواية فقط؛ كأبي هريرة، وأنس بن مالك يقبل إن وافق القياس مطلقًا أو خالف من وجه وإن خالف من كل وجه وهو المراد بانسداد باب الرأي يضطر إلى تركه.(فصول البدائع فی اصول الشرائع 2/251)
اورروایت میں معروف سے مراد جیسے حضرت ابوہریرہ اورانس بن مالک ہیں توان کی روایت قبول کی جائے اگرمطلقا قیاس کے موافق ہو یاایک پہلو سے خلاف قیاس اوربقیہ پہلو سے موافق قیاس ہو توان کی روایت قیاس پر مقدم ہوگی۔اوراگران کی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو اوروہی مراد ہے رای کے باب کے مطلقا بند ہوجانے سے تواس وقت ان کی روایت پر قیاس کو مقدم کرنا مجبوری ہوگی ۔

7: خلاف قیاس ہونابالبداہت ثابت ہوجائے۔
ایک چیز ہے کسی چیز کا نظریاتی طورپر ثابت ہونا۔دوسراہے اس چیز کا ظاہری طورپر ثابت ہونا۔مثلادنیا ایک دن فناہوجائے گی اس کیلئے ہمیں نظریاتی دوڑلگانی پڑے گی کہ دنیامتغیر ہے اورہرتغیر پذیرچیز کوفناہے ثابت ہواکہ دنیاایک دن فناہوجائے گی لیکن ہم شکر کو زبان پر رکھتے ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ شکر میٹھی ہوتی ہے،نیم کڑواہوتاہے۔ املی کٹھی ہوتی ہے۔اسی طرح جو چیز خلاف قیاس ثابت ہو اس کا خلاف قیاس ہونانہایت واضح ہو اوریہ کہ اس کا خلاف قیاس ہونا بالکل سامنے کی بات ہو۔ڈھیر سارے مقدمات ترتیب دے کر نتیجہ نکالنے کی ضرورت نہ پڑے۔

8: قیاس عقلی نہیں بلکہ قیاس شرعی کے خلاف ہو۔
قیاس کی دوقسمیں ہیں قیاس عقلی اورقیاس شرعی۔ قیاس عقلی تو عقل سے اندازہ لگاناہے یہ دنیاوی چیزوں کے بارے میں ہوتاہے۔فلاں چیز ایسی ہے اور وہی خصوصیات فلاں چیز میں ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی یاہونی چاہئے۔جب کہ قیاس شرعی کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ ایک مجتہد کے سامنے آتاہے تو وہ دیکھتاہے کہ آیا یہ حکم کتاب اللہ میں ہے۔ اگرہے توٹھیک ،نہیں ہے توسنت رسول مین دیکھتاہے۔ اگروہاں بھی نہیں ہے توحضرات صحابہ کرام اورماقبل کے مجتہدین کا متفقہ قول تلاش کرتاہے اگرنہیں ملتاتووہ دیکھتاہے کہ اس مسئلہ کی بنیادی علت کیاہے۔پھر اس علت کو دیکھناشروع کرتاہے کہ قرآن کریم کی آیتوں، فرامین رسول پاک اوراجماع صحابہ وتابعین میں میں سے کسی میں یہ علت پائی جارہی ہے یانہیں اگرپائی جارہی ہے تو وہ اس علت کو اس مسئلہ کی بنیاد بناکروہی حکم اس مسئلہ میں بھی جاری کرتاہے۔ اس کوقیاس شرعی کہتے ہیں کیونکہ یہ صرف کتاب اللہ ،سنت رسول اوراجماع پر ہی ہوتاہے۔

9: خبر سے حلال وحرام کی بات کا اثبات ہورہاہے۔ اگرصرف استحباب ،سنت یاافضل وغیرافضل کی بات ہو توبھی قیاس پر خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا خواہ راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ۔

مزید فرماتے ہیں:
جمشید صاحب:
خبر پر قیاس کے مقدم کرنے کیلئے کیساقیاس معتبر ہے۔

قارئین کو ہم بتاتے چلیں کہ بات صرف قیاس شرعی تک ہی محدود نہیں ہے کہ قیاس شرعی ہوگاتو خبر پر مقدم ہوگا ورنہ نہیں بلکہ قیاس شرعی میں بھی کچھ اقسام ہیں اوریہ اقسام علت کے اعتبار سے ہیں کہ قیاس کیلئے جس علت کو بنیاد بنایاگیاہےاس علت کی خود پوزیشن کیاہے۔ کبھی علت منصوص ہوتی اوردلیل پر قطعی ہوتی ہے ۔کبھی علت منصوص ہوتی ہے اوردلالت پر ظنی ہوتی ہے لیکن یہ علت جو منصوص اورظنی ہے یہ اس خبر پر جس کے خلاف ہے راجح ہوتی ہے۔ کبھی منصوص علت ظنی ہوتی ہے اورخبر کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے۔کبھی ایساہوتاہے کہ دلیل کی قوت کے لحاظ سے منصوص علت اورخبردونوں ہی برابرہوتے ہیں ۔

ان حالات میں کہ اگر قیاس کی علت منصوص ہواوردلالت پر قطعی ہوتو پھر وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہواورظنی ہو لیکن دوسری وجوہات سے وہ خبرواحد پر رجحان رکھتی ہوتواس وقت بھی وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص اورظنی ہےاورخبرواحد بھی ظنی ہے اوردلیل کی قوت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں توایسے وقت میں مجتہد اس میں اجتہاد کرے گااوراس کا جس جانب رجحان ہواس کو مقدم کرے گا۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہونے کے باوجود خبرواحد کے مقابلے میں مرجوح ہے توخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔

علامہ ابن ہمام تحریر میں اوران کےشارح لکھتے ہیں۔
إنْ كَانَ ثُبُوتُ الْعِلَّةِ بِقَاطِعٍ) لِأَنَّ النَّصَّ عَلَى الْعِلَّةِ كَالنَّصِّ عَلَى حُكْمِهَا فَحِينَئِذٍ الْقِيَاسُ قَطْعِيٌّ وَالْخَبَرُ ظَنِّيٌّ وَالْقَطْعِيُّ مُقَدَّمٌ قَطْعًا (فَإِنْ لَمْ يُقْطَعْ) بِشَيْءٍ (سِوَى بِالْأَصْلِ) أَيْ بِحُكْمِهِ (وَجَبَ الِاجْتِهَادُي التَّرْجِيحِ) فَيُقَدَّمُ مَا يَتَرَجَّحُ إذْ فِيهِ تَعَارُضُ ظَنَّيْنِ: النَّصُّ الدَّالُّ عَلَى الْعِلَّةِ، وَخَبَرُ الْوَاحِدِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا مَا إذَا كَانَتْ الْعِلَّةُ مَنْصُوصًا عَلَيْهَا بِظَنِّيٍّ وَمَا إذَا كَانَتْ مُسْتَنْبَطَةً (وَإِلَّا) إنْ انْتَفَى كِلَا هَذَيْنِ (فَالْخَبَرُ) مُقَدَّمٌ عَلَى الْقِيَاسِ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الظَّنِّ وَتَرَجَّحَ الْخَبَرُ عَلَى النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ بِأَنَّهُ يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِدُونِ وَاسِطَةٍ بِخِلَافِ النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ فَإِنَّهُ إنَّمَا يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِوَاسِطَةِ الْعِلَّةِ
(التقریروالتحبیر علی تحریر الکمال ابن ال
ھمام2/299)

اگرعلت کا ثبوت قطعی ہو کیونکہ علت کی نص ویسی ہی ہوتی ہے جیسے نص کسی حکم پر ہوتی ہے توایسی حالت میں علت کے قطعی ہونے کی صورت میں قیاس قطعی ہوگا اورخبرظنی ہوگی توقیاس کو خبرپرمقدم کیاجائے گا۔اوراگرقطعی نہ ہو اوراصل کے اعتبار سے دونوں برابر ہوںتواس وقت ترجیح کیلئے اجتہاد کیاجائے گا۔اوراس کو مقدم کیاجائے گا جو راجح ہو کیونکہ یہاں پر دوظن میں تعارض ہے۔ ایک خبرواحد اورایک قیاس کی منصوص علت ۔علت کے منصوص ہونے میں شامل ہے کہ وہ براہ راست نص سے ثابت ہو یانص سے مستنبط کیاگیاہو۔اگریہ دونوں صورتیں نہ ہوں یعنی نہ علت قطعی ہو اورنہ منصوص اورظنی ہوتو خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام اک سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ خبرواحد کو آپ ظنی مانتے ہیں اورقیاس بھی ظنی ہے تو پھر آپ قیاس اورخبرواحد کے تعارض کی صورت مین مذکورہ دوبالاشرط کیوں لگارہے ہیں کہ ایساایساہوگاتو قیاس مقدم ہوگا اورایسانہیں ہوگاتو خبرمقدم ہوگی۔ اصول کا تقاضہ تویہ ہوناچاہئے تھاکہ جب دونوں ظنی ہیں توچاہے قیاس کی علت منصوص ہویانہ ہو قطعی ہو یانہ ہو ہرحال میں وجہ ترجیح دیکھی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ قیاس میں کسی حکم کااثبات علت کے واسطے سے ہوتاہے اورخبرواحدمیں اسی حکم کااثبات بغیر علت کے اوربراہ راست ہوتاہے لہذا جب ایک جان صرف قیاس اورخبرواحد ہوتوخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔

(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا


بات یہ ہے کہ آپ کے مطابق ''غیر فقیہ صحابی '' کی ایسی حدیث جو مذکورہ بالا شروط پر پوری ہوتی ہو، تو اس حدیث کو رد کر دیا جائے گا، کیونکہ آپ کے بقول ایسی روایت کتاب اللہ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے أصول السرخسی کے حوالہ سے فرمایا ہے!
مگر ایسی حدیث ''فقیہ صحابی'' سے روایت کی گئی ہو، جو مذکورہ بالا شروط پر پوری ہوتی ہو تو اس حدیث کو کیونکر قبول جائے گا، جبکہ آپ کے بقول ایسی روایت کتاب اللہ ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے أصول السرخسی کے حوالہ سے فرمایا ہے!

یہاں ایک اور اہم نکتہ ہے:
علامہ ابن الهمام کا یہ کہنا کہ وغیرہ کا مؤقف عیسی بن ابان کے مؤقف کے بالکل خلاف نہیں ہے،بلکہ وہ بھی ایک قسم کے قیاس کے مقابلہ میں حدیث کو رد کرنے کے قائل ہیں: جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔

اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔
(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا۔

بلکہ ایک اہم نکتہ اور سامنے آتا ہے؛
کہ باوجود اس بات کہ کہ ابن الھمام امام صاحب کا أصول اسے کے برخلاف بتلاتے ہیں، اور پھر امام صاحب سے أصول میں اختلاف کرتے ہیں:

جمشید صاحب:
علامہ ابن ہمام کی رائے:
علامہ ابن ہمام اوران کے شارحین نے تو(التقریر والتحبیر علی تحریرالکمال ابن الھمام 2/298)میں صاف سیدھالکھاہے کہ امام ابوحنیفہ مطللقا قیاس پرخبرواحد کو مقدم کرتے ہیں۔چاہے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کا راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ،اوراس مسئلے میں ان کو امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کا ہم نواقراردیاہے۔

مسْأَلَةٌ إذَا تَعَارَضَ خَبَرُ الْوَاحِدِ وَالْقِيَاسُ بِحَيْثُ لَا جَمْعَ) بَيْنَهُمَا مُمْكِنٌ (قُدِّمَ الْخَبَرُ مُطْلَقًا عِنْدَ الْأَكْثَرِ) مِنْهُمْ أَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ
مسئلہ:جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہو کہ دونوں کے درمیان تطبیق کی کوئی صورت نہ نکل سکتی ہو تو اکثرائمہ کے نزدیک ہرحال میں خبر کو قیاس پر مقدم کیاجائے۔ ان ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ،امام شافعی اورامام احمد بھی ہیں۔



(جاری ہے)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم
ابن داؤد بھائی اس تحریر کی تکمیل کا منتظر ہوں.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
أبو الحسن الکرخی کا احادیث کو رد کرنے کا طریقہ:
أبو الحسن الکرخی اور ان کے مؤقف کو اختیار کرنے والوں کی جانب سے حدیث مصراة کو رد کرنے کے لئے درج وجوہات بیان کی جاتی ہیں:


(وَعِنْدَ الْكَرْخِيِّ وَالْأَكْثَرِ) مِنْ الْعُلَمَاءِ كَمَا قَالَ صَدْرُ الْإِسْلَامِ خَبَرُ الْعَدْلِ الضَّابِطِ (كَالْأَوَّلِ) أَيْ كَخَبَرِ الْمُجْتَهِدِينَ (وَيَأْتِي الْوَجْهُ) فِي كَوْنِهِ كَذَلِكَ (وَتَرْكُهُ) أَيْ حَدِيثِ الْمُصَرَّاةِ (لِمُخَالَفَةِ الْكِتَابِ) وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى} [البقرة: 194] وَ) مُخَالَفَةُ السُّنَّةِ (الْمَشْهُورَةِ) وَهِيَ مَا عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ «مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا أَيْ نَصِيبًا لَهُ مِنْ مَمْلُوكٍ قُوِّمَ عَلَيْهِ نَصِيبُ شَرِيكِهِ» إنْ كَانَ مُوسِرًا كَمَا رَوَى مَعْنَاهُ الْجَمَاعَةُ «وَالْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ» ) أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَأَصْحَابُ السُّنَنِ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَأَبُو عُبَيْدٍ وَقَالَ مَعْنَاهُ الرَّجُلُ يَشْتَرِي الْمَمْلُوكَ فَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا كَانَ عِنْدَ الْبَائِعِ فَقُضِيَ أَنَّهُ يَرُدُّ الْعَبْدَ عَلَى الْبَائِعِ بِالْعَيْبِ وَيَرْجِعُ بِالثَّمَنِ وَيَأْخُذُهُ وَيَكُونُ لَهُ الْغَلَّةُ طَيِّبَةً وَهُوَ الْخَرَاجُ وَإِنَّمَا طَابَتْ لَهُ لِأَنَّهُ كَانَ ضَامِنًا لِلْعَبْدِ وَلَوْ مَاتَ مَاتَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي لِأَنَّهُ فِي يَدِهِ وَهَذَا مِنْ جَوَامِعِ الْكَلِمِ.

(وَ) مُخَالَفَةُ (الْإِجْمَاعِ عَلَى التَّضْمِينِ بِالْمِثْلِ) فِي الْمِثْلِيِّ الَّذِي لَيْسَ بِمُنْقَطِعٍ (أَوْ الْقِيمَةِ) فِي الْقِيَمِيِّ الْفَائِتِ عَيْنُهُ أَوْ الْمِثْلِيِّ الْمُنْقَطِعِ لِأَنَّ اللَّبَنَ مِثْلِيٌّ فَضَمَانُهُ بِالْمِثْلِ وَالْقَوْلُ فِي مِقْدَارِهِ قَوْلُ الضَّامِنِ وَلَوْ فُرِضَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمِثْلِيٍّ فَالْوَاجِبُ الْقِيمَةُ فَكَانَ إيجَابُ التَّمْرِ مَكَانَ اللَّبَنِ مُطْلَقًا مُخَالِفًا لِهَذِهِ الْأُصُولِ الثَّلَاثَةِ وَلِلْقِيَاسِ أَيْضًا عَلَى سَائِرِ الْمُتْلَفَاتِ الْمِثْلِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ كُلِّ وَجْهٍ مَعَ أَنَّهُ مُضْطَرِبُ الْمَتْنِ فَمَرَّةً جَعَلَ الْوَاجِبَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ وَمَرَّةً صَاعًا مِنْ طَعَامٍ غَيْرِ بُرٍّ وَمَرَّةً مِثْلَ أَوْ مِثْلَيْ لَبَنِهَا قَمْحًا وَمَرَّةً ذَكَرَ الْخِيَارَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَمَرَّةً لَمْ يَذْكُرْهُ وَقِيلَ هُوَ مَنْسُوخٌ قَالَ الطَّحَاوِيُّ رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ مُجْمَلًا فَقَالَ ابْنُ شُجَاعٍ نَسَخَهُ قَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا إلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ» فَلَمَّا قَطَعَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِالْفُرْقَةِ الْخِيَارُ ثَبَتَ أَنَّهُ لَا خِيَارَ إلَّا مَا اسْتَثْنَاهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ الطَّحَاوِيُّ وَفِيهِ ضَعْفٌ لِأَنَّ الْخِيَارَ الْمَجْعُولَ فِي الْمُصَرَّاةِ خِيَارُ الْعَيْبِ وَهُوَ لَا يَقْطَعُهُ الْفُرْقَةُ اتِّفَاقًا وَتُعُقِّبَ بِأَنَّ فِي إشَارَاتِ الْأَسْرَارِ التَّصْرِيَةُ لَيْسَتْ بِعَيْبٍ عِنْدَنَا وَمَشَى عَلَيْهِ فِي الْمُخْتَلِفِ وَيُدْفَعُ بِأَنَّ الْأَصَحَّ أَنَّهَا عَيْبٌ كَمَا ذَكَرَ الْإِسْبِيجَابِيُّ وَنَقَلَهُ الطَّحَاوِيُّ فِي شَرْحِ الْآثَارِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ وَرَوَاهُ الْحَسَنُ فِي الْمُجَرَّدِ وَأَخَذَ بِهِ أَبُو اللَّيْثِ وَقَالَ عِيسَى بْنُ أَبَانَ كَانَ ذَلِكَ فِي وَقْتٍ مَا كَانَتْ الْعُقُوبَاتُ تُؤْخَذُ بِالْأَمْوَالِ ثُمَّ نَسَخَ اللَّهُ الرِّبَا فَرُدَّتْ الْأَشْيَاءُ الْمَأْخُوذَةُ إلَى أَمْثَالِهَا إنْ كَانَ لَهَا أَمْثَالٌ وَإِلَى قِيمَتِهَا إنْ كَانَتْ لَا أَمْثَالَ لَهَا (وَأَبُو هُرَيْرَةَ فَقِيهٌ) لَمْ يَعْدَمْ شَيْئًا مِنْ أَسْبَابِ الِاجْتِهَادِ وَقَدْ أَفْتَى فِي زَمَنِ الصَّحَابَةِ وَلَمْ يَكُنْ يُفْتِي فِي زَمَنِهِمْ إلَّا مُجْتَهِدٌ وَرَوَى عَنْهُ أَكْثَرُ مِنْ ثَمَانِمِائَةِ رَجُلٍ مَا بَيْنَ صَحَابِيٍّ وَتَابِعِيٍّ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَجَابِرٌ وَأَنَسٌ.
صفحه 323 – 324 جلد 02 التقرير والتحبير - أبو عبد الله، شمس الدين محمد بن محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج ويقال له ابن الموقت الحنفي (المتوفى: 879هـ) - دار الكتب العلمية


دارلعلوم دیوبند کے استاذ جمیل احمد سکرڈھوی یوں بیان کرتے ہیں:
حضرت امام صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کو دو جہتوں سے ترک کیا ہے ایک تو یہ کہ اس حدیث کے الفاظ میں اضطراب ہے کیونکہ بعض روایات میں صاع من تمر کا لفظ ہے اور بعض میں
صاعاً من طعام لأ سمراء کا لفظ ہے، یعنی گندم کے علاوہ اناج کا ایک صاع اور بعض میں مثل لبنها قمحاً ہے یعنی دودھ کے ایک مثل گندم اور بعض میں مثلی لبنها قمحاً ہے یعنی لبن کے دو مثل گندم اور بعض میں صاعاً من طعام او صاعا من تمر کا لفظ ہے اور بعض میں صاعاً من بر لا سمراء کا لفظ ہے۔ اور الفاظ حدیث میں اضطراب چونکہ حدیث کو ناقابل عمل بنا دیتا ہے اس لئے حضرت امام صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عمل نہیں کیاہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حدیث مصرات، قرآن، حدیث اور اجماع کے معارض ہے، قرآن کے معارض تو اس لئےہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے فمن اعتدي عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدي عليكم اور فرمایا ہے جزاء سيئة سيئة مثلها اور ارشاد ہے وان عوقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به، یہ تینوں آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ضمان تلف شدہ چیز کے مساوی ہونا چاہئے اور ایک صاع تمر اور تلف کردہ دودھ میں کسی طرح بھی مساوات ممکن نہیں ہے۔ اور حدیث کے معارض اس لئے ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الخراج بالضمان یعنی محصول ضمان کی وجہ سے ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے ضمان میں کوئی چیز ہوتی ہے اس کا نفع اور اس سے حاصل شدہ فائدہ بھی اسی کا ہوتا ہے۔ اور اگر نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔ دوسری حدیث ہے نهی عن بیع الكالی بالكالی، اللہ کے نبی صلی اللہ نے دین کی بیع دین کے عوض سے منع کیا ہے اور دین کہتے ہیں ما وجب في الذمه کو یعنی وہ چیز جو ذمہ میں واجب اور ثابت ہوتی ہے اس کو دین کہا جاتا ہے، اب ملاحظہ کیجئے وہ دودھ جس کو مشتری نے نکال کر تلف کیا ہے دو طرح کا ہے ایک وہ جو عقد بیع کے وقت جانور کے تھنوں میں تھا، دوم وہ جو عقد بیع کے مشتری کے ضمان اور ذمہ داری میں رہتے ہوئے اس کے تھنوں میں پیدا ہوا ہے۔ عقد بیع فسخ ہونے کی صورت میں اس دودھ کا مالک بائع ہوگا جو عقد بیع کے وقت تھنوں میں موجود تھا اور جو دودھ بعد میں پیدا ہوا ہے اس کا مالک مشتری ہو گا۔ اب آپ بتائیں کہ ایک صاع تمر دونوں طرح کے دودھ کا عوض ہے یا صرف اس کا عوض ہے جو عقد بیع کے وقت تھنوں میں تھا۔ اگر اول ہے تو الخراج بالضمان کے مخالف ہے اس لئے کہ جو دودھ عقد بیع کے بعد تھنوں میں پیدا ہوا ہے وہ مشتری کی ملک ہے اور مشتری کی ملک اس لئے ہے کہ بیع کے بعد جانور مشتری کے ضمان میں ہے لہذا اس کے ضمان میں جو دودھ حاصل ہوا ہے اس کا ملک بھی مشتری ہوگا اور جب ایسا ہے تو مشتری پر اس چیز کا ضمان واجب کیا گیا جس کا مشتری مالک ہے اور یہ بات قطعاً نامعقول ہے

الحاصل اگر ایک صاع تمر دونوں طرح کے دودھ کا عوض ہو تو حدیث
الخراج بالضمان کے مخالف ہو گا اور صرف اس دودھ کا عوض ہو جو عقد بیع کے وقت جانور کے تھنوں میں تھا، تو حدیث نهی عن بيع الكالی بالكالی کے مخالف ہوگا اس لئے کہ وہ دودھ جو عقد بیع کے وقت تھنوں میں تھا اور مشتری نے اس کو نکال کر پی لیا ہے اور اس کو تلف کردیا ہے فسخ بیع کی وجہ سے وہ دودھ مشتری کے ذمہ ميں دین ہوگیا اور وہ صاع جو اس کا عوض ہے وہ بھی اس پر دین ہے، پس مشتری پر دودھ کے عوض ایک صاع تمر کا واجب کرنا یعنی يبع اللبن بالصاع کرنا بيع الدين بالدين ہے حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور جب ایسا ہے تو حدیث مصرات نهی عن بيع الكالی بالكالی کے مخالف ہے۔ الحاصل حدیث مصرات، حدیث الخراج بالضمان کے مخالف ہے یا حدیث نهی عن بيع الكالی بالكالی کے مخالف ہے۔ اور حدیث مصرات اجماع کے معارض اور مخالف ہے کیونکہ اس بات پر اجماع ہے ضمان دو ہی قسم کا ہوتا ہے ایک مثلی، دوم معنوی (قیمت)۔ اور تمر کا صاع دونوں میں سے کوئی نہیں ہے۔ تمر کے صاع کا دودھ کا مثل نہ ہونا تو ظاہر ہے اور دودھ کی قیمت نہ ہونا اس لئے ہے کہ حدیث میں صاع تمر کو دودھ کا بدل قرار دیا گیا ہے خواہ دودھ زیادہ ہو حالانکہ قیمت کے یہ معنی نہیں ہیں، قیمت کے معنی تو یہ ہیں کہ وہ گھٹتی بڑھتی رہے یعنی دودھ کم ضائع ہوا ہو تو کم تمر واجب ہوں، زیادہ ضائع ہوا ہو تو زیادہ تمر واجب ہوں۔ الحاصل حدیث مصرات اجماع کے مخالف اور معارض ہے۔ اب آپ سوچ کر بتائیں کہ حدیث مصرات جو قرآن کے بھی خلاف ہے، حدیث کے بھی مخالف ہے اور اجماع کے بھی مخالف ہے اس پر عمل کرنا مناسب ہے یا نہیں؟
حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے اسی وجہ سے حدیث مصرات کو ترک کیا ہے اور اس پر عمل نہیں کیا ہے۔

صفحہ 305 – 307اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – دار الاشاعت کراچی


دارالعلوم دیوبند کے استاد محمد جمال بلند شہری یوں فرماتے ہیں:
اب رہی حدیث مصرات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سوا اس کی وجہ راوی کا غیر فقیہ ہونا نہیں ہے بلکہ حدیث مصرات کا کتاب وسنت اور اجماع کے خلاف ہونا ہے، قرآن یہ ہے،
فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدیٰ عليكم، اور سنت یہ ہے۔ من اعتق شقصا له في عبد قوم عليه نصيب شريكه ان کان موسرا، آیت سے معلوم ہوا کہ جس قسم کی کسی پر زیادتی ہوئی ہو وہ اسی قسم اور اسی نوعیت کا بدلہ لینے کا حق رکھتا ہے بشرطیکہ اسی نوعیت کا بدلہ ممکن ہو، آیت میں مثل صوری کی طرف اشارہ ہے اور حدیث شریف میں مثل معنوی کی طرف اشارہ ہے یعنی اگر مثل صوری متعذر ہو تو مثل معنوی (قیمت) لیا جائے مثلاً اگر غلام کے دو شریکوں میں سےایک شریک نے اپنا حصہ آزاد کردیا تو آزاد کرنے والے پر اگر مالدار ہے تو اپنے شریک کے لئے اس حصہ کی قیمت واجب ہوگی اس لئے کہ مثل صوری ممکن نہیں ہے اور اجماع بھی اسی بات پر ہے کہ نقصان کا ضمان بالمثل ہوتا ہے یا بالقیمت، اس کے علاوہ تیسری کوئی شکل نہیں ہے اور مسئلہ مصراۃ میں مشتری پر ہر حال میں ایک صاع تمر واجب کرنا نہ مثل صوری ہے اور نہ معنوی، مثل صوری کا نہ ہونا تو ظاہر ہے اس لئے دودھ اور تمر ایک جنس نہیں ہے اور مثل معنوی بھی نہیں ہے اس لئے کہ مثل معنوی ماله المثل کے کم و بیش ہونے سے کم و بیش ہوتا رہتا ہے، حدیث شریف میں بیان کردہ صورت میں کہ ہر حال میں ایک ہی صاع تمر واجب ہے خواہ دودھ کم ہو یا زیادہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک صاع تمر دودھ کا مثل معنوی نہیں ہے

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 333- 334 ایضاح الحسامی اردو ترجمہ حسامی – محمد جمال بلند شہری – مکتبہ رحمانیہ، لاہور

مذکورہ بالا تحریر میں حدیث مصراة کو قران، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف ٹھہرایا گیا ہے۔
یہاں أبو الحسن الکرخی اور ان سے موافقت رکھنے والوں کے اس مؤقف کے بطلان کو بیان کرنے کے لئے تفصیل میں جائے بغیر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کا فتوی اور اس پر أبو الحسن السندھی کا حاشیہ دوبارہ پیش کرتا ہوں:

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَنْ اشْتَرَى شَاةً مُحَفَّلَةً فَرَدَّهَا فَلْيَرُدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُلَقَّى الْبُيُوعُ
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمتر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی ا للہ عنہ نے کہا کہ جو شخص ” مصراۃ “ بکری خریدے اور اسے واپس کرنا چاہے تو ( اصل مالک کو ) اس کے ساتھ ایک صاع بھی دے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے ( جو مال بیچنے لائیں ) آگے بڑھ کر خریدنے سے منع فرمایا ہے۔

صحيح البخاري «» كِتَابُ البُيُوع «» بَابُ النَّهْيِ لِلْبَائِعِ أَنْ لاَ يُحَفِّلَ الإِبِلَ، وَالبَقَرَ وَالغَنَمَ


حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري (المتوفى: 1138هـ)

﴿ قوله: عن عبد الله بن مسعود رضي الله تعالی عنه قال من اشتری شاة الخ﴾ هذا الحديث علی اصول علمائنا الحنفية يجب ان يكون له حكم الرافع فانهم صرحو بان الحديث مخالف للقياس ومن اصولهم ان الموقوف اذا خالف القياس فهو في حكم المرفوع فبطل اعتذار من قال ان الحديث قد رواه ابو هريرة وهو غير فقيه ورواية غير الفقيه اذا خالف جميع الأقسية ترد لانه اذا ثبت ابن مسعود موقوفا والموقوف في حكم المرفوع ثبت من رواية ابن مسعود ايضاً وهو من اجلاء الفقهاء بالتفاق علی ان الحديث قد جاء برواية ابن عمر اخرجه ابو دواد بوجه و الطبراني بوجه آخر وبرواية انس اخرجه ابو يعلی وبرواية عمرو ابن عوف اخرجه البيهقي في الخلافيات كذا ذكره المحقق ابن حجر.

یہ حدیث ہمارے علماء کے اصول کے مطابق حکما مرفوع ہونا لازم ہے، کیونکہ انہوں نے صراحت کی ہے کہ جو حدیث قیاس کے مخالف ہو ، اور ان کے اصول میں قیاس کے مخالف موقوف حدیث حکماً مرفوع ہے، لہٰذا یہ عذر باطل ہو گیا کہ جس نے کہا کہ یہ حدیث ابو هریرہ نے روایت کی ہے اور وہ غیر فقیہ ہیں، اور غیر فقیہ کی روایت اگر قیاس کی تمام اقسام کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے، اور جب ابن مسعود سے موقوفاً ثابت ہے، اور ابن مسعود کی موقوف روایت ہے حکماً مرفوع کے ہے، جو بالاتفاق اجلاء الفقہاء میں سے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 570 – 571 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 383 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - مكتبه رحمانيه


ممکن ہے کہ کسی صاحب کو یہ سمجھ نہ آئے کہ یہاں عبد اللہ بن مسعود کا فتوی اور ابولحسن سندھی کا کلام کیوں پیش کیا گیا ہے!
وجہ بھی بتلا دیتے ہیں کہ اگر حدیث مصراة کو قرآن، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف ہو، تو عبد اللہ بن مسعود کا یہ فتوی جو کہ أصول احناف کی رو سے ، جیسا کہ أبو الحسن السندھی نے بیان کیا ہے، حدیث مرفوع کے حکم میں ہے ، خلاف قرآن ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتا ہے۔
در حقیقت حدیث مصراة نہ قرآن کے خلاف ہے، نہ حدیث مشہورتو کیا کسی صحیح حدیث کے خلاف بھی نہیں، اور اجماع کا تو پوچھئے ہی نہیں، کیوں کہ جہاں احناف اپنی کتب میں اسے اجماع کے خلاف قرار دیتے ہیں وہیں امام شافعی وہ جمہور اہل سنت والجماعت کی احناف سے مخالفت بھی بتلاتے ہیں! ہاں اس پر بین الحنفیہ اجماع ہو سکتا ہے!

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حدیث مصراة کو رد کرنے کے لئے یہ دلائل ، یعنی کہ حدیث مصراة کا قرآن ، حدیث مشہور اور اجماع کے خلاف ہونا، امام صاحب نے بیان نہیں کئے ہیں، کیونکہ اگر امام صاحب نے بیان کئے ہوتے تو اس حدیث کو رد کرنے کے لئے عیسی بن ابان اور أبو الحسن الکرخی اور ان کے گروہوں کی جانب سے کشید کردہ دلائل مختلف نہ ہوتے، ہاں امام صاحب کا قول و فتوی منقول ہے۔ دلائل منقول نہیں!

البتہ حدیث مصراة امام صاحب کے قول کے خلاف ہے۔
( یہ انداز کہ حدیث امام صاحب کے قول کے خلاف ہے، نہ کہ امام صاحب کا قول حدیث کے خلاف ہے، یہ انداز أبو الحسن الکرخی کا ہے)۔
اور اس صورت میں احناف کا کیا أصول ہے، یہ ملاحظہ فرمائیں:
مگر اس سے قبل ایک بات یاد آئی، کہ بعض الناس کہتے ہیں کہ یہ أصول نہیں قواعد ہیں، اور بعض تو اسے أصول کہنے لکھنے پر طعن بھی کرتے ہیں، مگر ان سے عرض ہے کہ التماس ہے کہ انہیں چاہئے کہ علم الکلام کی اس اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے قبل وہ اپنے أبو الحسن الکرخی کے رسالہ کا نام اور اس کی تحریر کو پڑھ لیں کہ وہاں کیا لکھا ہوا ہے!


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
الْأُصُوْلُ الَّتِيْ عَلَيْهَا مَدَارُ كُتُبِ أَصْحَابِنَا
مِنْ جِهَةِ الْإِمَامِ الْعَالِمِ الْعَلَّامَةِ أَبِي الْحَسَنِ الْكَرْخِيِّ

۔۔۔۔
۔۔۔۔

28-الْأَصْلُ: أَنَّ كُلَّ آيَةٍ تُخَالِفُ قَوْلَ أَصْحَابِنَا فَإِنَّهُا تُحْمَلُ عَلَى النَّسْخِ أَوْ عَلَى التَّرْجِيْحِ. وَالْأَوْلَى أَنْ تُحْمَلَ عَلَى التَّأْوِيْلِ مِنْ جِهَةِ التَّوْفِيقِ.
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف آجائے اسکو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا یا پھر اسکو مرجوح سمجھا جائے گا (یعنی فقہا احناف قول کو ترجیح دینگے) اور بہتر یہ ہے کہ اسکو تاویل پر محمول کیا جائے (یعنی قرآن کی آیت کی تاویل کر لی جائے) تا کہ دونوں میں تطبیق ہو جائے۔
29-الْأَصْلُ: أَنَّ كُلَّ خَبَرٍ يَجِيْءُ بِخِلَافِ قَوْلِ أَصْحَابِنَا فَإِنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى النَّسْخِ أَوْ عَلَى أَنَّهُ مُعَارَضٌ بِمِثْلِهِ ثُمَّ يُصَارُ إِلَى دَلِيْلٍ آخَرَ أَوْ تَرْجِيْحٍ فِيْهِ بِمَا يَحْتَجُّ بِهِ أَصْحَابُنَا مِنْ وُجُوْهِ التَّرْجِيْحِ أَوْ يُحْمَلُ عَلَى التَّوْفِيْقِ وَإِنَّمَا يُفْعَلُ ذَلِكَ عَلَى حَسْبِ قِيَامِ الدَّلِيْلِ فَإِنْ قَامَتْ دَلَالَةُ النَّسْخِ يُحْمَلُ عَلَيْهِ وَإِنْ قَامَتِ الدَّلَالَةُ عَلَى غَيْرِهِ صِرْنَا إِلَيْهِ.
ہر وہ خبر (حدیث) جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی اس کو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا یا اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ اس کے معارض (مخالف) اسی طرح کی کوئی دوسری خبر (حدیث) ہے ۔ پھر ہم دوسری دلیل کی طرف جائیں گے یا اس میں ترجیح کے اسباب سے ہمارے اصحاب کے اختیار کردہ قول کی دلیل کو ترجیح دیں گے یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا، اور بیشک یہ دلیل کے حساب سے کیا جائے گا، اگر نسخ پر دلیل قائم ہوتی ہے تو اس کو منسوخ پر محمول کریں گے اور اگر نسخ کے علاوہ پر دلیل قائم ہوتی ہے تو ہم اس طرف چلے جائیں گے۔
ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 169 – 171 أصول الكرخي - أبو الحسن عبيد الله بن الحسين بن دلال بن دلهم الكرخي (340هـ) بتأسيس النظر - عبيد الله بن عمر أبو زيد الدبوسي- مكتبة الكليات الأزهرية
صفحه 84 – 85 م أصول الكرخي - أبو الحسن عبيد الله بن الحسين بن دلال بن دلهم الكرخي (340هـ) بتأسيس النظر - عبيد الله بن عمر أبو زيد الدبوسي - مكتبة الخانجي بالقاهرة
صفحه 373 – 374 م أصول الكرخي - أبو الحسن عبيد الله بن الحسين بن دلال بن دلهم الكرخي (340هـ) كنز الوصول إلى معرفة الأصول ۔ أصول البزدوي ۔ مع اصول الكرخى ۔ فخر الإسلام علي بن محمد البزدوي الحنفي - مير محمد كتب خانه كراتشي


یہاں واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر ان حنفیوں کے أصحاب یعنی امام أبو حنیفہ اور ان کے شاگردوں اقوال اور قرآن کی کسی آیت میں تطبیق نہ ہوسکی تو، حنفی اپنے أصحاب یعنی کہ امام أبو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے اقوال کو قرآن و حدیث پر مقدم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کو زور لگا کر یا تو قرآن کی آیت یا حدیث کو منسوخ ہونے پر محمول کردیں گے، یا قرآن کی آیت یا حدیث کو قرآن کی دوسری آیت یا حدیث سے معارض قرار دے کر قرآن کی آیت یا حدیث کے حکم کو رد کر دیں گے۔
حدیث مصراة میں بھی یہی کیا گیا ہے، کہ حدیث مصراة کو خواہ مخواہ قرآن کے بھی خلاف قرار دے دیا، سنت مشہور کے بھی خلاف قرار دے دیا، اور اجماع کے بھی خلاف قرار دے دیا!
ایک ممکنہ شبہ کا پیشگی ازالہ:
ممکن ہے کہ کسی صاحب کی حنفی مدارس میں کھائی ہوئی دال جوش مارے اور وہ اس کا حق ادا کرنے کے لئے کہے کہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ نے بھی تو کہا ہے ائمہ کے کسی قول کے خلاف حدیث ہونے کی وجہ ان کا اس حدیث کو منسوخ سمجھنا بھی ہو سکتا ہے؛
تو جناب ! شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ائمہ کے حدیث مخالف قول کو نسخ کی دلیل قرار نہیں دیا، اور صرف اس وجہ سے نسخ تراشنے کا مشورہ نہیں دیا ہے، بلکہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان ائمہ کا ایک عذر بیان کیا ہے کہ ممکن ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو کہ جس کے خلاف ان کا قول ہے، اسے منسوخ گمان کیا ہو۔

أبو الحسن الکرخی کے اس أصول پر ایک تحریر کافی عرصہ پہلے رقم کی تھی، وہ پیش خدمت ہے:
درس فقہ حنفیہ حصہ اول

مذکورہ مسئلہ کا بیان ختم ہوا! اگلی تحریر میں صارفین کے کچھ کلام کا جواب درج کروں گا، ان شاء اللہ!

@اشماریہ
فقاہت راوی کی شرط اوراحناف کے موقف کی وضاحت از طحاوی دوراں جمشید
 

اٹیچمنٹس

Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بارک اللہ لکم وزادکم علما و فضلا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
آپ صارفین کے کلام کے جوابات تحریر فرما لیں تو پھر میں کچھ عرض کروں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میں نے پہلے ہی اس بحث سے امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایت کو قبول کرنے سے متعلق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہ اصول تھا یا نہیں! اس سے قطع نظر !
فقہ حنفی کا یہ اصول ضرور ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر بھی!
وجہ اس کی یہ ہے کہ امام اہل حدیث کے أصول کے تحت یہ أصول امام أبو حنیفہ سے ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن فقہ حنفی کے أصول کے تحت احناف کا ایک گروہ اسے امام صاحب سے منسوب کرتا ہے، اور ایک گروہ اس کا انکاری ہے۔
باقی طحاوی دوراں کی قبیل کے لوگ ان دونوں باتوں کو اختلاف لفظی قرار دے کر مثبت پہلو کشید کر کے دونوں کو درست قرار دیتے ہیں!

میں گزشتہ دس سال سے فقہ حنفی سے متعلق ہوں، منتہی سالوں میں دلائل اور مذاہب بھی پڑھے ہیں اور میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا۔
یہ میرے علم میں ہے اور اس پر بہت سے علماء اور اسی فورم جمشید بھائی بات بھی کر چکے ہیں.
سوال ابو حنیفہ رح کے بارے میں ہے. اگر آپ ان کے قول کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی اور موقع کے مناسب بھی ہوگا.
اشماریہ بھائی، حیرت کا مقام ہے کہ دس سال فقہ حنفی سے تدریسی تعلق ہونے کے باوجود آپ نے اب تک یہ مسئلہ نہیں دیکھا، اور جب دکھلایا گیا تو فرماتے ہیں کہ یہ تو آپ کو علم میں ہے، اور اس پر بہت سے علماء جمشید صاحب کی بات آپ کے علم میں ہے، تو پھر یہ کہنا کہ دس سال میں آپ نے یہ مسئلہ نہیں دیکھا ، بہت عجیب بات ہے۔
عجیب اس لئے کہ آپ دس سال میں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آیا کہ ایک فریق اس أصول کی نسبت امام صاحب سے کرتا ہے! اور عجیب در عجیب اس لئے کہ جب ہم نے واضح الفاظ اس فریق کی جانب سے اس أصول کی نسبت امام صاحب سے کرنا دکھلایا تب بھی آپ اس مراسلہ کو ''غیر مطلق'' قرار دیتے ہیں!
جبکہ بحث میں کہ کیا امام لہٰذااس صا حب کا یہ مذکورہ أصول ہے یا نہیں، فقہاء احناف کے اس فریق کا کلام پیش کرنا کوئی غیر متعلق شئی نہیں!
ویسے آپ نے ہماری اس مراسلہ کو جس میں فقہ حنفی کی کتب سے اس أصول کا ثبوت دیا تھا، اسے ''تکرار'' کیوں قرار دیا تھا؟

اوپر محترم ابن داؤد بھائی کی پوسٹ میں مجھے ابو حنیفہؒ کے تعلق سے کچھ بھی نہیں ملا۔
چلیں آگے دیکھتے ہیں۔ (ویسے مشکل ہے کہ ابو حنیفہؒ کا کوئی قول اس بارے میں یہ پیش فرمائیں۔۔۔۔۔ بہر حال۔۔۔۔)
مکمل تفصیل سے پڑھا لیکن اس میں احناف کے اصول اور مسئلہ مصراة پر بحث تو ملی لیکن ابو حنیفہ رح کی جانب منسوب قول کا کوئی حوالہ نہیں ملا جس کے لیے یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے.
محترم بھائی کیا آپ خلط مبحث کے بجائے الگ تھریڈ شروع نہیں فرما سکتے؟
جب آپ کو دس سال میں نظر نہیں آیا تو اب اس مراسلہ میں نظر نہ آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں؛ ہاں ہم وہ اقتباس نکال کر پیش کرسکتے ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ اس کے باوجود بھی نظر نہ آئے:
جمشید صاحب:
امام ابوحنیفہ کے اجتہادات سے یہ قول نکالاگیاہے:
جمشید صاحب:
امام ابوحنیفہ کے اجتہادات سے یہ قول نکالاگیاہے:
ہاں یہ ضرور ہے کہ امام ابوحنیفہ نے احادیث کے ردوقبول میں بعض اصول کو اختیار کیاہے ان اصول کو دیکھ کر بعد کے اہل علم نے ان کے اجتہادات سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے
یہاں جمشید صاحب اس أصول کو کہ ''غیر فقیہ صحابی'' کی روایت کردہ روایت کو بعد کے حنفی علماء کی اختراع قرار نہیں دے رہے ، بلکہ أبو الحسن الکرخی کے برخلاف اسے امام أبو حنیفہ کے اقوال و فتاوی سے ہی ماخوذ قرار دے رہے ہیں۔ اور آگے اسی با ت کا ثبوت الجصاص حنفی کی تحریر سے پیش کریں گے۔
جمشید صاحب:
امام عیسی بن ابان کا موقف:
ہاں امام عیسی بن ابان سے اوران سے متاثردیگر کچھ فقہائے احناف نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہوگاتو راوی کی فقاہت کو دیکھاجائے گا۔بعض لوگ توکہتے ہیں کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کایہ قول ایجادبندہ ہے۔لیکن یہ کہنادرحقیقت لاعلمی اورجہالت ہے۔ماقبل مین یہ بات کہی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ اوردیگر کبارائمہ احناف سے اس بارے مین کچھ بھی منقول نہیں ہے۔نہ نفی میں اورنہ اثبات میں۔
عیسی بن ابان نے یہ نظریہ تخریج کیاہے:
امام عیسی بن ابان علیہ الرحمہ نے جب امام ابوحنیفہ کے اجتہادات میں غورکیاتوبعض نظائر سے ان کو یہ لگاکہ امام ابوحنیفہ فقہ راوی کوشرط مانتے ہیں جب کہ خبرواحد قیاس کے خلاف ہو۔توعیسی بن ابان کایہ کہنادرحقیقت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات میں غوروفکر کے بعد ممکن ہوسکاہے۔یہ ان کی اپنی گڑھی ہوئی بات نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے غوروفکر کے بعد جونتیجہ نکالا وہ درست ہے یانہیں ہے۔لیکن اس کو عیسی بن ابان کا اختراع کہناظلم ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو بَكْرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: قَدْ حَكَيْت جُمْلَةَ مَا ذَكَرَهُ عِيسَى فِي هَذَا الْمَعْنَى، وَهُوَ عِنْدِي مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا، وَعَلَيْهِ تَدُلُّ أُصُولُهُمْ، (الفصول فی الاصول3/122)
امام جصاص رازی کہتے ہیں اس مفہوم کی بات کا کچھ حصہ جوعیسی بن ابان نے ذکر کیاہے اس کو میں نے نقل کیاہے اوروہ میرے نزدیک ائمہ احناف کا موقف ہے اوراسی پران کے اصول دلالت کرتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ کہنا کہ مراسلہ ''غیر متعلق'' ہے اور امام أبو حنیفہ کی نسبت سے کچھ نہیں ملا!
ہاں امام أبو حنیفہ کا قول نہیں ہے، جیسے فقہ حنفی میں امام صاحب کے دلائل امام صاحب کے اقوال سے نہیں ملتے!
اشماریہ بھائی! اسی أصول کو آپ امام صاحب کی جانب سے کئے جانے والے دلائل میں بھی اختیار کریں گے تو بات بنے گی! بلکہ آپ خود ایک دوسر جگہ رقم طراز ہیں کہ:

آج کل بہت سے لوگ اصول فقہ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اصول فقہ کی تدوین کے بعد مسائل میں غور کر کے وجود میں لائے گئے ہیں۔ اور اصل فقہاء سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویسے تو یہ اعتراض خصوصیت سے فقہ حنفی پر کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراض جس طرح فقہ حنفی پر وارد ہوتا ہے اسی طرح فقہ مالکی اور حنبلی پر بھی وارد ہوتا ہے
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ اعتراض کرنا کہ کوئی بھی فقہ پہلے مدون ہوئی ہے اور اس کے اصول بعد میں مسائل سے دیکھ کر نکالے گئے ہیں، درست نہیں۔ اس لیے کہ فقہ کی تدوین کے لیے اصول کی تدوین کے بجائے اصول کا وجود ضروری ہوتا ہے اور وہ موجود تھے۔ رہ گئی تدوین تو وہ اس لیے بعد میں ہوئی کہ ہر علم کے اصول بعد میں ہی مدون ہوتے ہیں اور بطور میزان کے ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم
اب پھر یہاں امام صاحب کا قول ہی کیوں مطلوب ہے؟ یہاں أصول فقہ مدون کرنے والوں کی تخریج کردہ أصول کی نسبت امام أبو حنیفہ سے قبول کیوں نہیں؟
میرا یہ تجربہ ہے کہ ابن داؤد بھائی کو ان ابحاث کو چھیڑنے میں مزا آتا ہے جن میں وہ کسی طرح بھی احناف پر طعن کر سکیں۔
میں نے کوئی نقد بلا دلیل کیا ہو تو بتلائیں! اگر دلیل کے ساتھ کیا ہے تو ایسا نقد و طعن کیا جانا چاہئے!
محترم ابن عثمان بھائی! آپ کا جواب مکمل ہے۔ لیکن اگر آپ نے جن علماء کا نام لیا ہے ان کی تحاریر بھی لگا دیں گے تب بھی ابن داؤد بھائی اپنی ضد پر قائم رہیں گے۔ یہ تجربہ ہے میرا۔
اشماریہ بھائی! یہ ضد والی بات پر بڑی لمبی بحث شروع ہو جائے گی! اتنا میں بتلا دوں کہ آپ کے اساتذہ نے آپ کو یہ باور کروا دیا ہے کہ فقہ حنفی میں فرض و واجب میں عملاً کوئی فرق نہیں، اور آپ اس پر یقین کیئے بیٹھے ہو، اور اب آپ کی خواہش ہے کہ دوسرا شخص بھی یہ مان لے جبکہ وہ اس بات سے واقف ہو کہ فقہ حنفیہ میں ترک فرض سے نماز ادا نہیں ہوتی اور ترک واجب سے نماز ادا ہو جاتی ہے، تو یہ ممکن نہیں، جسے نماز کے ادا ہو جانے اور نماز کے ادا نہ ہونے کا فرق سمجھ آتا ہے، اسے فقہ حنفی میں فرض و واجب کا عملاً فرق بھی سمجھ آجائے گا، مگر کیا کیجئے، تقلید مت مار دیتی ہے! اور پھر اوپر سے الزام دوسروں کو!
اس لیے اکثر میں ابن داؤد بھائی کی تحاریر پڑھ کر اس کے جواب میں کچھ نہیں لکھتا۔ جب کسی نے ماننا ہی نہ ہو تو انسان لکھنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کرے۔
جی جناب ، یہ بات علم الکلام والی بحث میں دیکھی جا سکتی ہے، مگر معاملہ یوں ہوا ہے کہ وہاں علم الکلام کے اٹکل کے گھوڑے کو لگام ڈال دی گئی ہے!
ویسے ایک اہم بات بتلاؤں،میں یہاں بنیادی طور پر قارئین کے واسطے لکھتا ہوں، جس کی تحریر کے جواب میں یا جس سے مخاطب ہوا جائے، وہ سمجھے نہ سمجھے، قارئین کو لئے سند رہے!

اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں اور مسلکی تعصب سے دور کریں۔ آمین
آمین، یہ دعا ہمیں ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے، اپنے لئے بھی دوسروں کے لئے بھی!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میرا مقصد کوئی اہلحدیث کے خلاف بات کرنا نہیں ۔۔۔۔بلکہ میری تحریر کے اندر موجود ہے کہ ۔۔۔بڑے اہلحدیث علما کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی۔
میں نے اس أصول سے اہل الحدیث کے أصول کے تحت امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے علیحدہ کردیا تھا، جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی۔
ابن عثمان بھائی! آپ نے اس أصول سے متعلق بات نہیں کی تھی، ایک ''مجمل'' بات کی تھی، بلکہ اسے مبہم کہا جائے تو بہتر ہے، کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اگر کوئی ایسی بات منسوب کی جائے جو ان سے ثابت نہیں، یا امام ابو حنیفہ پر کوئی ایسی جرح کی جائے جو ان پر نہیں کی گئی، تو یقیناً اس کی نکیر کرنی چاہیئے!
لیکن یہ معاملہ بھی درست نہیں کہ اگر کوئی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر امام بخاری کی جرح و مؤقف پیش کرے تو اس پر امام صاحب کے مناقب میں منقول اقوال سنانے شروع ہو جائیں! لہٰذا جو بات جس تناظر میں ہے اسے وہیں رکھنا چاہئے!
انہیں عبد الرحمن المعملی الیمانی کو ہی دیکھ لیں آپ کی پیش کردہ تحریر میں انہوں نے امام صاحب کا دفاع کیا ہے، تو التنکیل سے بھی آپ واقف ہوں گے!

متقدمین احناف کے بڑے علما سے بھی اس اصول کے قائل نہیں۔۔مثلاََ امام طحاویؒ ، امام کرخیؒ ،
اور متاخرین عبد العزیز بخاریؒ ، الکاکیؒ الخجندیؒ (صاحب جامع الاسرار) عبد القادر قرشیؒ ، ابن ہمامؒ ، ابن امیر الحاجؒ ،ابن الملکؒ ، ابن نجیمؒ ، ملا علی قاریؒ ،الحصکفیؒ ، ابن عابدین شامیؒ ، بحر العلومؒ ، اللکنویؒ۔۔۔اور عصر حاضر کے تقریباََ سارے علما نے بھی اس کا رد کیا۔اور یہی صحیح بھی ہے ۔
اب یہ بحث تو خواہ مخواہ کی قرار پائے گی کہ اکثریت کس جانب ہے، لیکن آپ کی یہ بات درست ہے کہ ایک فریق اس أصول کو قبول نہیں کرتا۔ ایک فریق طحاوی دوراں کا بھی ہے جو دونوں فریقوں کے مؤقف میں تطبیق پیدا کرکے اسے صرف لفظی اختلاف قرار دیتا ہے!
اب اس عبارت کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ اس میں جو بے ادب اور گستاخانہ لہجہ ہے اس کے بارے میں بھی ابن داود بھائی نہیں بولے ۔۔۔
۱۔أبوهريرة رضي الله عنه جسكي أحاديث كے لينے پر تمام امت كا اتفاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابوهريرة رضي الله عنه هر حديث روايت كرتا تها بغير اسكے كه وه اس پر غور كرتا اور اسكے معاني سمجهتا اور وه ناسخ اور منسوخ نهيں جانتا
۲۔حضرت أنس بن مالك آخر عمر ميں اختلاط كے شكار هوئے تهے اور انهيں جب كوئي سؤال پوچها جاتا تو وه تو اپني عقل سے جواب ديا كرتے تهے اور ميں اسكي عقل كي تقليد نهيں كرتا
اور ابن داود بھائی کی عبارت۔قدرے تغیر کے ساتھ انہی کے لئے۔۔
اب آپ ابو هریرة رضی اللہ عنہ اور انس ؓ اور۔۔۔۔۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع میں اس شیعہ بے ادب عبارت کا رد کریں، اور اعلان کریں
تا کہ معلوم ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت سبقت لیتی ہے یا فقہ حنفیہ اور فقہاء احناف کی نفرت آڑے آجاتی ہے!
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت سے بھر دے، اور أصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ غارت کرے! آمین!
سوال کرنے والے ہمارے نعیم بھائی تھے، انہیں اس تحریر میں جو أصول بیان کیا گیا اس کی نسبت سے بتلا دیا تھا!
اب یہاں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کو جس صیغہ سے خطاب کیا گیا ہے بے ادب انداز ہے، کم از کم اردو میں اسے بے ادبی کا أسلوب ہی کہا جاتا ہے۔
اس تحریر کو لکھنے والا میری نظر میں غالباً کوئی شعیہ، بارہ امامیہ رافضی ہی ہے! اور اس نے یہ کلام امام أبو حنیفہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔
یعنی اس شعیہ رافضی نے یہ الزام امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ پر لگایا ہے کہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کا صحابہ کا ذکر اس انداز میں کیا کرتے تھے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ کسی خبیث شیعہ بارہ امامیہ رافضی نے اپنے باطن کی غلاظت کے اظہار کے لئے امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب اقوال کا استعمال کیا ہے۔
یہ الفاظ کے انتخاب پر تو بات ہو گئی!
اب نفس مسئلہ پر آتے ہیں:
نفس مسئلہ یہ ہے کہ آیا امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ نے أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرمایا ہے یا نہیں:
عبد الرحمن المعلمي اليماني تو اس بات کا انکار کر سکتے ہیں، کیوں کہ اہل حدیث جو ہوئے، کہ جن کا کسی بات کو قبول اور رد کرنے کا مدار سند ہے، سو انہوں نے یہاں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس ان اقوال کی نسبت کا رد کیا۔
جو عبارت آپ نے پیش کی ہے وہاں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب اقوال سے استدلال کرنے کا ذکر بھی ہے۔

وقد احتاج العلامة الكوثري في رسالته (الترحيب) ص24 إلى هذه الحكاية،
اب مجھے علامہ کوثری حنفی صاحب کا تعارف کرانے کی حاجت تو نہیں، اور نہ یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ علامہ کوثری کا علمائے دیوبند سے کیا تعلق ہے، یا یوں کہئے کہ علمائے دیوبند کی علامہ کوثری سے کیا نسبت ہے!
اور اگر کچھ نہ بھی معلوم ہو ، تو اتنا تو معلوم ہو گا کہ یہ صاحب بھی حنفی ہیں، اور خوب امام أبو حنیفہ کے دفاع میں محدثین پر تہمتیں دھریں ہیں!
یہ علامہ صاحب تو ان حکایت سے کیا خوب استدلال کرتے ہیں؛ علامہ کوثری حنفی کے استدلال کو پڑھیئے اور سر دھنئے!

وليس تخير الإمام الأعظم في روايات بعض الصحابة ببدع في هذا الباب عند من ألَّم بهذا البحث إلماماً كافياً، وأسماء الصحابة الذين رغب الإمام عما انفردوا به من الروايات مذكورة في (المؤمل) لأبي شامة الحافظ.
وليس هذا إلا تحرياً بالغاً في المرويات، يدل علی عقلية أبي حنيفة الجبارة،

مختصرا ً کہ کتنے صحابہ کرام کی روایت کردہ احادیث کو امام أبو حنیفہ نے قبول نہیں کیا ہے، امام صاحب کا یہ کارنامہ ان کے بہت بڑے عقلمند ہونے کی دلیل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 392 الترحيب بنقد التانيب مع تأنيب الخطيب على ما ساقه فى ترجمة ابى حنيفة من الأكاذيب - محمد زاهد بن الحسن الكوثرى


اب کہیئے کیا کریں؟ اہل حدیث
عبد الرحمن المعلمي اليماني تو امام أبو حنیفہ سے ان اقوال کی نسبت کا رد کر رہے ہیں، اور حنفی علامہ کوثری صاحب ان اقوال کو امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کو انتہائی عقلمند ودانشمند ہونے کا ثبوت قرار دے رہے ہیں!
اب معاملہ رہا یہ کہ آیا فقہ حنفی میں امام صاحب کے یہ اقوال منقول ہیں یا نہیں، تو میں بحوالہ پیش کر دیتا ہوں:

الفصل الأول
في تقليد الصحابة
اما الأول: فحاصل ما روي عن أبي حنيفة رحمه الله فيه ثلاث روايات:
اما الاولی: فقد قال: اقلد من كان من القضاة والمفتين من الصحابة رضی الله عنهم لقوله الصلاة والسلام: ﴿اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر و عمر﴾.
وقد اجتمع في حقهما القضاء والفتيا، فمن كان بمثابتها مثل عثمان وعلي والعبادة الثلاثة، وزيد بن ثابت، ومعاذ بن جبل، وغيرهم، ممن كان في معانهم فاقلدهم، ولا استجيز خلافهم برأي.
والثانية:
قال: اقلد جميع الصحابة، ولا استجيز خلافهم برأي الا ثلاثة نفر هم أنس بن مالك، وأبو هريرة، وسمرة بن جندب.
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
والثالثة:
قال: ما بلغني عن صحابي انه افتی به فاقلده ولا استجيز خلافه.
يعنی اقلد جميع الصحابة.
وهو الظاهر من المذهب.
وهذا لانه لا يخلو: اما ان قالوا ذلك جزافا أو سماعا أو اجتهادا.
ولا يظن بهم أنهم قالوا جزافا.
فاذا كان سماعا لزم كم واحد منهم الانقياد له.
وان كان اجتهادا فاجتهادهم اولی من اجتهاد غيرهم؛ لأنهم يوفقون للصواب ما لا يوفق غير لذلك.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ)- عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية - مطبعة الإرشاد، بغداد

روي عن ابي حنيفة رضي الله عنه انه سئل فقيل اذا قلت وكتاب الله يخالف قولك قال اترك قولي بكتاب الله وقول الرسول، فقيل اذا كان قول الصحابة يخالف قولك هم رجال ونحن رجال ثم قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) - علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)









میں پوسٹ نمبر ۱۱ کی آخری ۴ سطروں پر ۔۔ابن داود بھائی سے معافی مانگتا ہوں۔۔
اور میری خیال میں یہ سطریں اور انداز مناسب نہیں۔۔۔
انتظامیہ کا کوئی بھائی اس کو اگر پڑھ لے تو ان کو ریموو کر دے ۔۔
باقی بات کو علمی انداز سے بے شک جاری رکھیں۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔
ابن عثمان بھائی! ایسی کوئی بات نہیں! ہمارا اختلاف اگر ہوگا تو مؤقف کا ہوگا، وگرنہ آپ سے میری اور میری آپ سے کوئی رنجش نہ ہو گی!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی، حیرت کا مقام ہے کہ دس سال فقہ حنفی سے تدریسی تعلق ہونے کے باوجود آپ نے اب تک یہ مسئلہ نہیں دیکھا، اور جب دکھلایا گیا تو فرماتے ہیں کہ یہ تو آپ کو علم میں ہے، اور اس پر بہت سے علماء جمشید صاحب کی بات آپ کے علم میں ہے، تو پھر یہ کہنا کہ دس سال میں آپ نے یہ مسئلہ نہیں دیکھا ، بہت عجیب بات ہے۔
عجیب اس لئے کہ آپ دس سال میں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آیا کہ ایک فریق اس أصول کی نسبت امام صاحب سے کرتا ہے! اور عجیب در عجیب اس لئے کہ جب ہم نے واضح الفاظ اس فریق کی جانب سے اس أصول کی نسبت امام صاحب سے کرنا دکھلایا تب بھی آپ اس مراسلہ کو ''غیر مطلق'' قرار دیتے ہیں!
جبکہ بحث میں کہ کیا امام لہٰذااس صا حب کا یہ مذکورہ أصول ہے یا نہیں، فقہاء احناف کے اس فریق کا کلام پیش کرنا کوئی غیر متعلق شئی نہیں!
ویسے آپ نے ہماری اس مراسلہ کو جس میں فقہ حنفی کی کتب سے اس أصول کا ثبوت دیا تھا، اسے ''تکرار'' کیوں قرار دیا تھا؟
محترم ابن داؤد بھائی
دس سال سے میرا فقہ حنفی سے تعلق رہا ہے۔ سوال یہ تھا کہ:
امام ابوحنيفة رحمه الله كے نزديک بعض صحابه كرام كي احاديث قابل قبول نهيں، اور انكي تعداد تقريباً تين هے:
[1) أبوهريرة رضي الله عنه جسكي أحاديث كے لينے پر تمام امت كا اتفاق هے ابوحنيفة سے جب پوچها گيا كه ابو هريرة رض كي احاديث كو كيون قبول نه كيا جائے ؟ تو جواب ديا: كه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه هر حديث روايت كرتا تها بغير اسكے كه وه اس پر غور كرتا اور اسكے معاني سمجهتا اور وه ناسخ اور منسوخ نهيں جانتا تهے اسلئے انكي احاديث معتبر نهيں.
[2] حضرت أنس بن مالك آخر عمر ميں اختلاط كے شكار هوئے تهے اور انهيں جب كوئي سؤال پوچها جاتا تو وه تو اپني عقل سے جواب ديا كرتے تهے اور ميں اسكي عقل كي تقليد نهيں كرتا.
[3] حضرت سمرة بن جندب رضي الله عنه كي احاديث بهي معتبر نهيں.
امام ابو يوسف رحمه الله سے مروي هے جو ابو حنيفه كے شاگرد تهے كهتے هيں كه ميں نے ابو حنيفة سے پوچها كه اگر همارے پاس كوئي حديث همارے قياس كے خلاف هو تو هم كيا كريں تو ابوحنيفة نے جواب ديا كه اسي پر عمل كيا جائے اور قياس ترک كيا جائے تو ميں نے عرض كيا كه اگر ابوبكر و عمر عثمان و علي كي روايت آئے تو آپ نے فرمايا انكي بهي حديث معتبر هے اور اسي پر عمل هوگا اور فرمايا كه تمام صحابه عدول هيں سوائے چند صحابہ مثلا: أبوهريرة أنس بن مالك رضوان الله عليهم اجمعين.
اور اسي طرح أحمد أمين المصراة نقل كرتے هيں امام ابوحنيفة سے كه وه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه كي احاديث كو رد كرتے تهے جب انكي احاديث انكے قياس كے مخالف هوتي اور كها كرتهے كه ابوهريرة رضي الله عنه غير فقيه هيں ، اسلئے انكي احاديث رد كي جائے جو همارۓ قياس كے مخالف هو.
ان میں سے کوئی بھی قول ابو حنیفہؒ سے ثابت شدہ میں نے کبھی نہیں دیکھا حالانکہ شاید آپ کے علم میں ہو کہ فقہاء بہت سی جگہوں پر سند کا لحاظ کیے بغیر اقوال ذکر ضرور کر دیتے ہیں۔
رہ گئی بات اقوال و مسائل میں غور کر کے اصول اخذ کرنے کی جیسا کہ دیگر اہل فقہ نے بھی کیا ہے تو اس سے مذہب کا اصول تو ثابت ہوتا ہے کسی حد تک لیکن وہ ان امام کا قول نہیں بن جاتا۔
میں ان شاء اللہ آگے چل کر امام مالکؒ کے ایک اصول پر بات کروں گا جس کے بارے میں اسی طرح اختلاف ہے۔ وہ فقہ مالکی کا اصول ہے، امام مالک کا مسائل میں اس کے مطابق عمل ہے لیکن اس کے باوجود وہ امام مالک کا واحد قول نہیں ہے بلکہ امام سے اس کے خلاف بھی ثابت ہے (یہاں یہ فرق بھی نوٹ کیا جائے کہ مذکورہ اصول احناف تو نہ نفیا ثابت ہے نہ اثباتا لیکن امام مالک کا اصول تقدیم القیاس علی الخبر نفیا اور اثباتا دونوں طرح ثابت ہے بلکہ اثباتا مضبوط ہے پھر بھی مالکی علماء ان کا یہ مذہب ہونے نہ ہونے پر بحث کرتے ہیں۔)

آخر میں جو حوالہ شرح ادب القاضی کا آپ نے پیش فرمایا ہے یہ اگر پہلے پیش فرما دیتے تو میں اسے غیر متعلق کی ریٹنگ نہ دیتا۔

ہاں امام أبو حنیفہ کا قول نہیں ہے، جیسے فقہ حنفی میں امام صاحب کے دلائل امام صاحب کے اقوال سے نہیں ملتے!
اشماریہ بھائی! اسی أصول کو آپ امام صاحب کی جانب سے کئے جانے والے دلائل میں بھی اختیار کریں گے تو بات بنے گی!
اسی کے لیے میں عرض کر رہا ہوں:
رہ گئی بات اقوال و مسائل میں غور کر کے اصول اخذ کرنے کی جیسا کہ دیگر اہل فقہ نے بھی کیا ہے تو اس سے مذہب کا اصول تو ثابت ہوتا ہے کسی حد تک لیکن وہ ان امام کا قول نہیں بن جاتا۔

الفصل الأول
في تقليد الصحابة
اما الأول: فحاصل ما روي عن أبي حنيفة رحمه الله فيه ثلاث روايات:
اما الاولی: فقد قال: اقلد من كان من القضاة والمفتين من الصحابة رضی الله عنهم لقوله الصلاة والسلام: ﴿اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر و عمر﴾.
وقد اجتمع في حقهما القضاء والفتيا، فمن كان بمثابتها مثل عثمان وعلي والعبادة الثلاثة، وزيد بن ثابت، ومعاذ بن جبل، وغيرهم، ممن كان في معانهم فاقلدهم، ولا استجيز خلافهم برأي.
والثانية:
قال: اقلد جميع الصحابة، ولا استجيز خلافهم برأي الا ثلاثة نفر هم أنس بن مالك، وأبو هريرة، وسمرة بن جندب.
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
والثالثة:
قال: ما بلغني عن صحابي انه افتی به فاقلده ولا استجيز خلافه.
يعنی اقلد جميع الصحابة.
وهو الظاهر من المذهب.
وهذا لانه لا يخلو: اما ان قالوا ذلك جزافا أو سماعا أو اجتهادا.
ولا يظن بهم أنهم قالوا جزافا.
فاذا كان سماعا لزم كم واحد منهم الانقياد له.
وان كان اجتهادا فاجتهادهم اولی من اجتهاد غيرهم؛ لأنهم يوفقون للصواب ما لا يوفق غير لذلك.
پہلی بات تو یہ کہ ان تینوں روایات میں صحابہ کرام رض کی "روایات" کے قبول و عدم قبول کی بحث نہیں ہو رہی بلکہ ان کے فتاوی میں تقلید و عدم تقلید کی بحث ہو رہی ہے اور تھریڈ "روایات" سے متعلق ہے۔ اسی لیے اس بحث کا عنوان شارح ادب القاضی نے "فی تقلید الصحابۃ" رکھا ہے۔ اور آپ حضرات تو مطلقا تقلید کے مخالف ہیں چاہے وہ صحابی کی ہو یا غیر صحابی کی تو آپ سے اس بات پر کیا بحث کروں! (اگر میں آپ کے مسلک کے بارے میں غلط ہوں تو متنبہ فرمائیے۔) روایت کے بارے میں تو وضاحت سے لکھا ہے:
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.

دوسری بات اس میں بھی ظاہر المذہب تیسری روایت کو کہا گیا ہے اور تینوں روایات کی سند موجود نہیں ہے۔ شارح صدر الشہید (متوفی 536ھ) اور ماتن خصاف (متوفی 261ھ) میں سے کس نے یہ عبارت لکھی ہے یہ بھی واضح نہیں ہے حالانکہ درمیان میں زمانہ کا کافی فرق ہے۔ اور خود امام اعظمؒ اور خصاف میں بھی کافی زمانہ ہے۔
ایسی صورت میں ظاہر الروایہ کو اختیار کیا جاتا ہے اور دیگر اقوال کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے الا یہ کہ وہ کسی دلیل سے مضبوط ہو جائیں۔ اگر آپ کا فقہ حنفی کا مطالعہ رہا ہے تو آپ اس سے واقف ہوں گے۔ ورنہ اس کی تفصیل علامہ شامی كی شرح عقود رسم المفتی میں دیكهی جا سكتی ہے۔

روي عن ابي حنيفة رضي الله عنه انه سئل فقيل اذا قلت وكتاب الله يخالف قولك قال اترك قولي بكتاب الله وقول الرسول، فقيل اذا كان قول الصحابة يخالف قولك هم رجال ونحن رجال ثم قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
اس سے پیچھے یہ عبارت ہے:
قال علماءنا فی ظاہر الاصول یجوز (ای تقلید الصحابۃ۔۔۔۔۔۔۔ ناقل) و اقاویل جمیع الصحابۃ حجۃ بغیر معرفۃ المعنی و نقول بہا حتی روی۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہمارے علماء ظاہر الاصول میں کہتے ہیں کہ جائز ہے۔ اور تمام صحابہ کی اقوال حجت ہیں بغیر معنی کے جانے اور ہم ان کے ذریعے کہتے ہیں (یعنی فتوی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ مترجم) حتی کہ ابو حنیفہؒ سے روایت کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"
اور اس سے ایک صفحہ آگے یہ کہا ہے:
و قال الشافعیؒ فی ظاہر الاصول لا یقلد قول احد فی الصحابۃ و قال بعض اصحابہ یقلد قول اربعۃ۔۔۔۔۔۔ قلنا ان اقاویل جمیع الصحابۃ حجۃ
"اور شافعیؒ ظاہر الاصول میں یہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کسی کے قول کی تقلید نہیں کی جائے گی اور ان کے بعض اصحاب کہتے ہیں کہ چار صحابہ کے قول کی تقلید کی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہتے ہیں کہ تمام صحابہ کے اقوال حجت ہیں۔"

ایک تو یہ عبارت بھی روایات صحابہ میں نہیں بلکہ تقلید صحابہ کے بارے میں ہے۔ دوسرا اس میں موجود روایت کی بھی سند نہیں ہے اور مذہب جو بیان کیا ہے وہ اس کے خلاف ہے جس سے اس کا غیر مقبول ہونامزید معلوم ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

چونکہ اس بحث کو میں اس تھریڈ سے غیر متعلق سمجھتا ہوں اس لیے میں الگ تھریڈ شروع کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ اس میں تفصیل سے بحث کے ساتھ اشکالات کے جوابات بھی عرض کروں گا۔ واللہ الموفق۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! معلوم ہوتا ہے آپ کو پھر کلام سمجھ نہیں آیا! خیر یہی کہوں گا کہ آپ بغور مطالعہ فرمائیں!
اس تھریڈ میں براہ کرم یہ بات واضح الفاظ میں بیان کیجئے گا کہ رد الخبر بالقیاس کا اصول صحیح ہے ہا غلط!
 
Top