- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جمشید صاحب نے ''غیر فقیہ صحابی'' کی روایت کو خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کو رد کرنے کے لئے کچھ شروط ذکر کئے ہیں!
جمشید صاحب:
شرائط کا ترتیب وارذکر
1: وہ روایت صرف اسی ایک غیرفقیہہ راوی کے واسطے سے منقول ہو،
مثلاایک روایت صرف حضرت ابوہریرہ ہی سےمروی ہے۔وہ حضرات جن کےنزدیک فقاہت راوی بھی ایک شرط ہے ۔اگرغیرفقیہہ راوی کی روایت کے ساتھ دوسرے صحابی کی روایت مل جائے تواس وقت یہ روایت خبرواحد نہ رہ کر مشہور ہوجائے گی اورایسی روایت کو قیاس پر مطلقا مقدم کردیاجائے گا
2: ثانیاامت نے اس پر عمل نہ کیاہو۔
اگرفقہاء اورمجتہدین نے اس سے استدلال کیاہے اوراس روایت پر عمل کیاہے توبھی روایت قیاس پر مقدم ہوگی ۔
3:صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اس پرنکیر کیاہو۔
اس کی ایک مثال لیجئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جن احادیث پر حضرت صحابہ کرام نے اعتراض کیاہے۔اس کی وجہ سے وہ حدیث اب اس لائق ہوگئی ہے کہ ایک مجتہد اس مین غوروفکر کرے اورغوروفکر کے بعداس کو قبول کرنے اورقبول نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔
4: اس مفہوم کی دوسری روایات اس کی تائید نہ کرتی ہوں
اس میں اورشرط نمبر1 میں باریک سافرق ہے کہ اگرکسی دوسری روایت کے عموم سےیامفہوم سےبھی غیرفقیہہ راوی کی روایت کی تائید ہوتی تو اس روایت کو قیاس پر مقدم کردیاجائے گا۔
5: کتاب وسنت کے دوسرے نظائر اس مروی حدیث کے خلاف ہوں۔
مثلاایک حدیث ہے۔ہم حدیث مصراۃ کو ہی لیتے ہیں۔اب دوسری مشہور اورمقبول احادیث کا جومفہوم اورعموم ہے۔وہ اس حدیث کے خلاف ہے۔ مثلاالخراج بالضمان یاپھر اس مفہوم کی احادیث کہ سامان اورقیمت میں توازن ہوناچاہئے۔
6: ہرپہلوسے خلاف قیاس ہو، قیاس اوررائے کی ا س میں کوئی گنجائش نہ ہو۔
فقہ میں ہی قیاس کی دوبنیادی قسمیں ہیں۔ قیاس جلی اورقیاس خفی۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ صرف ایک پہلو ہی اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ متعدد پہلواپنے اندر رکھتاہے۔خلاف قیاس ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ قیاس ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو۔کسی بھی پہلو سے اس حدیث کا موافق قیاس ہونا ثابت نہ ہو۔علامہ فناری لکھتے ہیں۔
والمعروف بالرواية فقط؛ كأبي هريرة، وأنس بن مالك يقبل إن وافق القياس مطلقًا أو خالف من وجه وإن خالف من كل وجه وهو المراد بانسداد باب الرأي يضطر إلى تركه.(فصول البدائع فی اصول الشرائع 2/251)
اورروایت میں معروف سے مراد جیسے حضرت ابوہریرہ اورانس بن مالک ہیں توان کی روایت قبول کی جائے اگرمطلقا قیاس کے موافق ہو یاایک پہلو سے خلاف قیاس اوربقیہ پہلو سے موافق قیاس ہو توان کی روایت قیاس پر مقدم ہوگی۔اوراگران کی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو اوروہی مراد ہے رای کے باب کے مطلقا بند ہوجانے سے تواس وقت ان کی روایت پر قیاس کو مقدم کرنا مجبوری ہوگی ۔
7: خلاف قیاس ہونابالبداہت ثابت ہوجائے۔
ایک چیز ہے کسی چیز کا نظریاتی طورپر ثابت ہونا۔دوسراہے اس چیز کا ظاہری طورپر ثابت ہونا۔مثلادنیا ایک دن فناہوجائے گی اس کیلئے ہمیں نظریاتی دوڑلگانی پڑے گی کہ دنیامتغیر ہے اورہرتغیر پذیرچیز کوفناہے ثابت ہواکہ دنیاایک دن فناہوجائے گی لیکن ہم شکر کو زبان پر رکھتے ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ شکر میٹھی ہوتی ہے،نیم کڑواہوتاہے۔ املی کٹھی ہوتی ہے۔اسی طرح جو چیز خلاف قیاس ثابت ہو اس کا خلاف قیاس ہونانہایت واضح ہو اوریہ کہ اس کا خلاف قیاس ہونا بالکل سامنے کی بات ہو۔ڈھیر سارے مقدمات ترتیب دے کر نتیجہ نکالنے کی ضرورت نہ پڑے۔
8: قیاس عقلی نہیں بلکہ قیاس شرعی کے خلاف ہو۔
قیاس کی دوقسمیں ہیں قیاس عقلی اورقیاس شرعی۔ قیاس عقلی تو عقل سے اندازہ لگاناہے یہ دنیاوی چیزوں کے بارے میں ہوتاہے۔فلاں چیز ایسی ہے اور وہی خصوصیات فلاں چیز میں ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی یاہونی چاہئے۔جب کہ قیاس شرعی کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ ایک مجتہد کے سامنے آتاہے تو وہ دیکھتاہے کہ آیا یہ حکم کتاب اللہ میں ہے۔ اگرہے توٹھیک ،نہیں ہے توسنت رسول مین دیکھتاہے۔ اگروہاں بھی نہیں ہے توحضرات صحابہ کرام اورماقبل کے مجتہدین کا متفقہ قول تلاش کرتاہے اگرنہیں ملتاتووہ دیکھتاہے کہ اس مسئلہ کی بنیادی علت کیاہے۔پھر اس علت کو دیکھناشروع کرتاہے کہ قرآن کریم کی آیتوں، فرامین رسول پاک اوراجماع صحابہ وتابعین میں میں سے کسی میں یہ علت پائی جارہی ہے یانہیں اگرپائی جارہی ہے تو وہ اس علت کو اس مسئلہ کی بنیاد بناکروہی حکم اس مسئلہ میں بھی جاری کرتاہے۔ اس کوقیاس شرعی کہتے ہیں کیونکہ یہ صرف کتاب اللہ ،سنت رسول اوراجماع پر ہی ہوتاہے۔
9: خبر سے حلال وحرام کی بات کا اثبات ہورہاہے۔ اگرصرف استحباب ،سنت یاافضل وغیرافضل کی بات ہو توبھی قیاس پر خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا خواہ راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ۔
مزید فرماتے ہیں:
جمشید صاحب:
خبر پر قیاس کے مقدم کرنے کیلئے کیساقیاس معتبر ہے۔
قارئین کو ہم بتاتے چلیں کہ بات صرف قیاس شرعی تک ہی محدود نہیں ہے کہ قیاس شرعی ہوگاتو خبر پر مقدم ہوگا ورنہ نہیں بلکہ قیاس شرعی میں بھی کچھ اقسام ہیں اوریہ اقسام علت کے اعتبار سے ہیں کہ قیاس کیلئے جس علت کو بنیاد بنایاگیاہےاس علت کی خود پوزیشن کیاہے۔ کبھی علت منصوص ہوتی اوردلیل پر قطعی ہوتی ہے ۔کبھی علت منصوص ہوتی ہے اوردلالت پر ظنی ہوتی ہے لیکن یہ علت جو منصوص اورظنی ہے یہ اس خبر پر جس کے خلاف ہے راجح ہوتی ہے۔ کبھی منصوص علت ظنی ہوتی ہے اورخبر کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے۔کبھی ایساہوتاہے کہ دلیل کی قوت کے لحاظ سے منصوص علت اورخبردونوں ہی برابرہوتے ہیں ۔
ان حالات میں کہ اگر قیاس کی علت منصوص ہواوردلالت پر قطعی ہوتو پھر وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہواورظنی ہو لیکن دوسری وجوہات سے وہ خبرواحد پر رجحان رکھتی ہوتواس وقت بھی وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص اورظنی ہےاورخبرواحد بھی ظنی ہے اوردلیل کی قوت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں توایسے وقت میں مجتہد اس میں اجتہاد کرے گااوراس کا جس جانب رجحان ہواس کو مقدم کرے گا۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہونے کے باوجود خبرواحد کے مقابلے میں مرجوح ہے توخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام تحریر میں اوران کےشارح لکھتے ہیں۔
إنْ كَانَ ثُبُوتُ الْعِلَّةِ بِقَاطِعٍ) لِأَنَّ النَّصَّ عَلَى الْعِلَّةِ كَالنَّصِّ عَلَى حُكْمِهَا فَحِينَئِذٍ الْقِيَاسُ قَطْعِيٌّ وَالْخَبَرُ ظَنِّيٌّ وَالْقَطْعِيُّ مُقَدَّمٌ قَطْعًا (فَإِنْ لَمْ يُقْطَعْ) بِشَيْءٍ (سِوَى بِالْأَصْلِ) أَيْ بِحُكْمِهِ (وَجَبَ الِاجْتِهَادُي التَّرْجِيحِ) فَيُقَدَّمُ مَا يَتَرَجَّحُ إذْ فِيهِ تَعَارُضُ ظَنَّيْنِ: النَّصُّ الدَّالُّ عَلَى الْعِلَّةِ، وَخَبَرُ الْوَاحِدِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا مَا إذَا كَانَتْ الْعِلَّةُ مَنْصُوصًا عَلَيْهَا بِظَنِّيٍّ وَمَا إذَا كَانَتْ مُسْتَنْبَطَةً (وَإِلَّا) إنْ انْتَفَى كِلَا هَذَيْنِ (فَالْخَبَرُ) مُقَدَّمٌ عَلَى الْقِيَاسِ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الظَّنِّ وَتَرَجَّحَ الْخَبَرُ عَلَى النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ بِأَنَّهُ يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِدُونِ وَاسِطَةٍ بِخِلَافِ النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ فَإِنَّهُ إنَّمَا يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِوَاسِطَةِ الْعِلَّةِ
(التقریروالتحبیر علی تحریر الکمال ابن الھمام2/299)
اگرعلت کا ثبوت قطعی ہو کیونکہ علت کی نص ویسی ہی ہوتی ہے جیسے نص کسی حکم پر ہوتی ہے توایسی حالت میں علت کے قطعی ہونے کی صورت میں قیاس قطعی ہوگا اورخبرظنی ہوگی توقیاس کو خبرپرمقدم کیاجائے گا۔اوراگرقطعی نہ ہو اوراصل کے اعتبار سے دونوں برابر ہوںتواس وقت ترجیح کیلئے اجتہاد کیاجائے گا۔اوراس کو مقدم کیاجائے گا جو راجح ہو کیونکہ یہاں پر دوظن میں تعارض ہے۔ ایک خبرواحد اورایک قیاس کی منصوص علت ۔علت کے منصوص ہونے میں شامل ہے کہ وہ براہ راست نص سے ثابت ہو یانص سے مستنبط کیاگیاہو۔اگریہ دونوں صورتیں نہ ہوں یعنی نہ علت قطعی ہو اورنہ منصوص اورظنی ہوتو خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام اک سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ خبرواحد کو آپ ظنی مانتے ہیں اورقیاس بھی ظنی ہے تو پھر آپ قیاس اورخبرواحد کے تعارض کی صورت مین مذکورہ دوبالاشرط کیوں لگارہے ہیں کہ ایساایساہوگاتو قیاس مقدم ہوگا اورایسانہیں ہوگاتو خبرمقدم ہوگی۔ اصول کا تقاضہ تویہ ہوناچاہئے تھاکہ جب دونوں ظنی ہیں توچاہے قیاس کی علت منصوص ہویانہ ہو قطعی ہو یانہ ہو ہرحال میں وجہ ترجیح دیکھی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ قیاس میں کسی حکم کااثبات علت کے واسطے سے ہوتاہے اورخبرواحدمیں اسی حکم کااثبات بغیر علت کے اوربراہ راست ہوتاہے لہذا جب ایک جان صرف قیاس اورخبرواحد ہوتوخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔
(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا
بات یہ ہے کہ آپ کے مطابق ''غیر فقیہ صحابی '' کی ایسی حدیث جو مذکورہ بالا شروط پر پوری ہوتی ہو، تو اس حدیث کو رد کر دیا جائے گا، کیونکہ آپ کے بقول ایسی روایت کتاب اللہ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے أصول السرخسی کے حوالہ سے فرمایا ہے!
مگر ایسی حدیث ''فقیہ صحابی'' سے روایت کی گئی ہو، جو مذکورہ بالا شروط پر پوری ہوتی ہو تو اس حدیث کو کیونکر قبول جائے گا، جبکہ آپ کے بقول ایسی روایت کتاب اللہ ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے أصول السرخسی کے حوالہ سے فرمایا ہے!
یہاں ایک اور اہم نکتہ ہے:
علامہ ابن الهمام کا یہ کہنا کہ وغیرہ کا مؤقف عیسی بن ابان کے مؤقف کے بالکل خلاف نہیں ہے،بلکہ وہ بھی ایک قسم کے قیاس کے مقابلہ میں حدیث کو رد کرنے کے قائل ہیں: جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔
اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔
(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا۔
بلکہ ایک اہم نکتہ اور سامنے آتا ہے؛
کہ باوجود اس بات کہ کہ ابن الھمام امام صاحب کا أصول اسے کے برخلاف بتلاتے ہیں، اور پھر امام صاحب سے أصول میں اختلاف کرتے ہیں:
جمشید صاحب:
علامہ ابن ہمام کی رائے:
علامہ ابن ہمام اوران کے شارحین نے تو(التقریر والتحبیر علی تحریرالکمال ابن الھمام 2/298)میں صاف سیدھالکھاہے کہ امام ابوحنیفہ مطللقا قیاس پرخبرواحد کو مقدم کرتے ہیں۔چاہے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کا راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ،اوراس مسئلے میں ان کو امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کا ہم نواقراردیاہے۔
مسْأَلَةٌ إذَا تَعَارَضَ خَبَرُ الْوَاحِدِ وَالْقِيَاسُ بِحَيْثُ لَا جَمْعَ) بَيْنَهُمَا مُمْكِنٌ (قُدِّمَ الْخَبَرُ مُطْلَقًا عِنْدَ الْأَكْثَرِ) مِنْهُمْ أَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ
مسئلہ:جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہو کہ دونوں کے درمیان تطبیق کی کوئی صورت نہ نکل سکتی ہو تو اکثرائمہ کے نزدیک ہرحال میں خبر کو قیاس پر مقدم کیاجائے۔ ان ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ،امام شافعی اورامام احمد بھی ہیں۔
(جاری ہے)
جمشید صاحب نے ''غیر فقیہ صحابی'' کی روایت کو خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کو رد کرنے کے لئے کچھ شروط ذکر کئے ہیں!
جمشید صاحب:
شرائط کا ترتیب وارذکر
1: وہ روایت صرف اسی ایک غیرفقیہہ راوی کے واسطے سے منقول ہو،
مثلاایک روایت صرف حضرت ابوہریرہ ہی سےمروی ہے۔وہ حضرات جن کےنزدیک فقاہت راوی بھی ایک شرط ہے ۔اگرغیرفقیہہ راوی کی روایت کے ساتھ دوسرے صحابی کی روایت مل جائے تواس وقت یہ روایت خبرواحد نہ رہ کر مشہور ہوجائے گی اورایسی روایت کو قیاس پر مطلقا مقدم کردیاجائے گا
2: ثانیاامت نے اس پر عمل نہ کیاہو۔
اگرفقہاء اورمجتہدین نے اس سے استدلال کیاہے اوراس روایت پر عمل کیاہے توبھی روایت قیاس پر مقدم ہوگی ۔
3:صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اس پرنکیر کیاہو۔
اس کی ایک مثال لیجئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جن احادیث پر حضرت صحابہ کرام نے اعتراض کیاہے۔اس کی وجہ سے وہ حدیث اب اس لائق ہوگئی ہے کہ ایک مجتہد اس مین غوروفکر کرے اورغوروفکر کے بعداس کو قبول کرنے اورقبول نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔
4: اس مفہوم کی دوسری روایات اس کی تائید نہ کرتی ہوں
اس میں اورشرط نمبر1 میں باریک سافرق ہے کہ اگرکسی دوسری روایت کے عموم سےیامفہوم سےبھی غیرفقیہہ راوی کی روایت کی تائید ہوتی تو اس روایت کو قیاس پر مقدم کردیاجائے گا۔
5: کتاب وسنت کے دوسرے نظائر اس مروی حدیث کے خلاف ہوں۔
مثلاایک حدیث ہے۔ہم حدیث مصراۃ کو ہی لیتے ہیں۔اب دوسری مشہور اورمقبول احادیث کا جومفہوم اورعموم ہے۔وہ اس حدیث کے خلاف ہے۔ مثلاالخراج بالضمان یاپھر اس مفہوم کی احادیث کہ سامان اورقیمت میں توازن ہوناچاہئے۔
6: ہرپہلوسے خلاف قیاس ہو، قیاس اوررائے کی ا س میں کوئی گنجائش نہ ہو۔
فقہ میں ہی قیاس کی دوبنیادی قسمیں ہیں۔ قیاس جلی اورقیاس خفی۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ صرف ایک پہلو ہی اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ متعدد پہلواپنے اندر رکھتاہے۔خلاف قیاس ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ قیاس ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو۔کسی بھی پہلو سے اس حدیث کا موافق قیاس ہونا ثابت نہ ہو۔علامہ فناری لکھتے ہیں۔
والمعروف بالرواية فقط؛ كأبي هريرة، وأنس بن مالك يقبل إن وافق القياس مطلقًا أو خالف من وجه وإن خالف من كل وجه وهو المراد بانسداد باب الرأي يضطر إلى تركه.(فصول البدائع فی اصول الشرائع 2/251)
اورروایت میں معروف سے مراد جیسے حضرت ابوہریرہ اورانس بن مالک ہیں توان کی روایت قبول کی جائے اگرمطلقا قیاس کے موافق ہو یاایک پہلو سے خلاف قیاس اوربقیہ پہلو سے موافق قیاس ہو توان کی روایت قیاس پر مقدم ہوگی۔اوراگران کی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو اوروہی مراد ہے رای کے باب کے مطلقا بند ہوجانے سے تواس وقت ان کی روایت پر قیاس کو مقدم کرنا مجبوری ہوگی ۔
7: خلاف قیاس ہونابالبداہت ثابت ہوجائے۔
ایک چیز ہے کسی چیز کا نظریاتی طورپر ثابت ہونا۔دوسراہے اس چیز کا ظاہری طورپر ثابت ہونا۔مثلادنیا ایک دن فناہوجائے گی اس کیلئے ہمیں نظریاتی دوڑلگانی پڑے گی کہ دنیامتغیر ہے اورہرتغیر پذیرچیز کوفناہے ثابت ہواکہ دنیاایک دن فناہوجائے گی لیکن ہم شکر کو زبان پر رکھتے ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ شکر میٹھی ہوتی ہے،نیم کڑواہوتاہے۔ املی کٹھی ہوتی ہے۔اسی طرح جو چیز خلاف قیاس ثابت ہو اس کا خلاف قیاس ہونانہایت واضح ہو اوریہ کہ اس کا خلاف قیاس ہونا بالکل سامنے کی بات ہو۔ڈھیر سارے مقدمات ترتیب دے کر نتیجہ نکالنے کی ضرورت نہ پڑے۔
8: قیاس عقلی نہیں بلکہ قیاس شرعی کے خلاف ہو۔
قیاس کی دوقسمیں ہیں قیاس عقلی اورقیاس شرعی۔ قیاس عقلی تو عقل سے اندازہ لگاناہے یہ دنیاوی چیزوں کے بارے میں ہوتاہے۔فلاں چیز ایسی ہے اور وہی خصوصیات فلاں چیز میں ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی یاہونی چاہئے۔جب کہ قیاس شرعی کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ ایک مجتہد کے سامنے آتاہے تو وہ دیکھتاہے کہ آیا یہ حکم کتاب اللہ میں ہے۔ اگرہے توٹھیک ،نہیں ہے توسنت رسول مین دیکھتاہے۔ اگروہاں بھی نہیں ہے توحضرات صحابہ کرام اورماقبل کے مجتہدین کا متفقہ قول تلاش کرتاہے اگرنہیں ملتاتووہ دیکھتاہے کہ اس مسئلہ کی بنیادی علت کیاہے۔پھر اس علت کو دیکھناشروع کرتاہے کہ قرآن کریم کی آیتوں، فرامین رسول پاک اوراجماع صحابہ وتابعین میں میں سے کسی میں یہ علت پائی جارہی ہے یانہیں اگرپائی جارہی ہے تو وہ اس علت کو اس مسئلہ کی بنیاد بناکروہی حکم اس مسئلہ میں بھی جاری کرتاہے۔ اس کوقیاس شرعی کہتے ہیں کیونکہ یہ صرف کتاب اللہ ،سنت رسول اوراجماع پر ہی ہوتاہے۔
9: خبر سے حلال وحرام کی بات کا اثبات ہورہاہے۔ اگرصرف استحباب ،سنت یاافضل وغیرافضل کی بات ہو توبھی قیاس پر خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا خواہ راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ۔
مزید فرماتے ہیں:
جمشید صاحب:
خبر پر قیاس کے مقدم کرنے کیلئے کیساقیاس معتبر ہے۔
قارئین کو ہم بتاتے چلیں کہ بات صرف قیاس شرعی تک ہی محدود نہیں ہے کہ قیاس شرعی ہوگاتو خبر پر مقدم ہوگا ورنہ نہیں بلکہ قیاس شرعی میں بھی کچھ اقسام ہیں اوریہ اقسام علت کے اعتبار سے ہیں کہ قیاس کیلئے جس علت کو بنیاد بنایاگیاہےاس علت کی خود پوزیشن کیاہے۔ کبھی علت منصوص ہوتی اوردلیل پر قطعی ہوتی ہے ۔کبھی علت منصوص ہوتی ہے اوردلالت پر ظنی ہوتی ہے لیکن یہ علت جو منصوص اورظنی ہے یہ اس خبر پر جس کے خلاف ہے راجح ہوتی ہے۔ کبھی منصوص علت ظنی ہوتی ہے اورخبر کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے۔کبھی ایساہوتاہے کہ دلیل کی قوت کے لحاظ سے منصوص علت اورخبردونوں ہی برابرہوتے ہیں ۔
ان حالات میں کہ اگر قیاس کی علت منصوص ہواوردلالت پر قطعی ہوتو پھر وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہواورظنی ہو لیکن دوسری وجوہات سے وہ خبرواحد پر رجحان رکھتی ہوتواس وقت بھی وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص اورظنی ہےاورخبرواحد بھی ظنی ہے اوردلیل کی قوت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں توایسے وقت میں مجتہد اس میں اجتہاد کرے گااوراس کا جس جانب رجحان ہواس کو مقدم کرے گا۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہونے کے باوجود خبرواحد کے مقابلے میں مرجوح ہے توخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام تحریر میں اوران کےشارح لکھتے ہیں۔
إنْ كَانَ ثُبُوتُ الْعِلَّةِ بِقَاطِعٍ) لِأَنَّ النَّصَّ عَلَى الْعِلَّةِ كَالنَّصِّ عَلَى حُكْمِهَا فَحِينَئِذٍ الْقِيَاسُ قَطْعِيٌّ وَالْخَبَرُ ظَنِّيٌّ وَالْقَطْعِيُّ مُقَدَّمٌ قَطْعًا (فَإِنْ لَمْ يُقْطَعْ) بِشَيْءٍ (سِوَى بِالْأَصْلِ) أَيْ بِحُكْمِهِ (وَجَبَ الِاجْتِهَادُي التَّرْجِيحِ) فَيُقَدَّمُ مَا يَتَرَجَّحُ إذْ فِيهِ تَعَارُضُ ظَنَّيْنِ: النَّصُّ الدَّالُّ عَلَى الْعِلَّةِ، وَخَبَرُ الْوَاحِدِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا مَا إذَا كَانَتْ الْعِلَّةُ مَنْصُوصًا عَلَيْهَا بِظَنِّيٍّ وَمَا إذَا كَانَتْ مُسْتَنْبَطَةً (وَإِلَّا) إنْ انْتَفَى كِلَا هَذَيْنِ (فَالْخَبَرُ) مُقَدَّمٌ عَلَى الْقِيَاسِ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الظَّنِّ وَتَرَجَّحَ الْخَبَرُ عَلَى النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ بِأَنَّهُ يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِدُونِ وَاسِطَةٍ بِخِلَافِ النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ فَإِنَّهُ إنَّمَا يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِوَاسِطَةِ الْعِلَّةِ
(التقریروالتحبیر علی تحریر الکمال ابن الھمام2/299)
اگرعلت کا ثبوت قطعی ہو کیونکہ علت کی نص ویسی ہی ہوتی ہے جیسے نص کسی حکم پر ہوتی ہے توایسی حالت میں علت کے قطعی ہونے کی صورت میں قیاس قطعی ہوگا اورخبرظنی ہوگی توقیاس کو خبرپرمقدم کیاجائے گا۔اوراگرقطعی نہ ہو اوراصل کے اعتبار سے دونوں برابر ہوںتواس وقت ترجیح کیلئے اجتہاد کیاجائے گا۔اوراس کو مقدم کیاجائے گا جو راجح ہو کیونکہ یہاں پر دوظن میں تعارض ہے۔ ایک خبرواحد اورایک قیاس کی منصوص علت ۔علت کے منصوص ہونے میں شامل ہے کہ وہ براہ راست نص سے ثابت ہو یانص سے مستنبط کیاگیاہو۔اگریہ دونوں صورتیں نہ ہوں یعنی نہ علت قطعی ہو اورنہ منصوص اورظنی ہوتو خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام اک سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ خبرواحد کو آپ ظنی مانتے ہیں اورقیاس بھی ظنی ہے تو پھر آپ قیاس اورخبرواحد کے تعارض کی صورت مین مذکورہ دوبالاشرط کیوں لگارہے ہیں کہ ایساایساہوگاتو قیاس مقدم ہوگا اورایسانہیں ہوگاتو خبرمقدم ہوگی۔ اصول کا تقاضہ تویہ ہوناچاہئے تھاکہ جب دونوں ظنی ہیں توچاہے قیاس کی علت منصوص ہویانہ ہو قطعی ہو یانہ ہو ہرحال میں وجہ ترجیح دیکھی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ قیاس میں کسی حکم کااثبات علت کے واسطے سے ہوتاہے اورخبرواحدمیں اسی حکم کااثبات بغیر علت کے اوربراہ راست ہوتاہے لہذا جب ایک جان صرف قیاس اورخبرواحد ہوتوخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔
(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا
بات یہ ہے کہ آپ کے مطابق ''غیر فقیہ صحابی '' کی ایسی حدیث جو مذکورہ بالا شروط پر پوری ہوتی ہو، تو اس حدیث کو رد کر دیا جائے گا، کیونکہ آپ کے بقول ایسی روایت کتاب اللہ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے أصول السرخسی کے حوالہ سے فرمایا ہے!
مگر ایسی حدیث ''فقیہ صحابی'' سے روایت کی گئی ہو، جو مذکورہ بالا شروط پر پوری ہوتی ہو تو اس حدیث کو کیونکر قبول جائے گا، جبکہ آپ کے بقول ایسی روایت کتاب اللہ ، سنت مشہور اور اجماع کے خلاف قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے أصول السرخسی کے حوالہ سے فرمایا ہے!
یہاں ایک اور اہم نکتہ ہے:
علامہ ابن الهمام کا یہ کہنا کہ وغیرہ کا مؤقف عیسی بن ابان کے مؤقف کے بالکل خلاف نہیں ہے،بلکہ وہ بھی ایک قسم کے قیاس کے مقابلہ میں حدیث کو رد کرنے کے قائل ہیں: جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔
اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔
(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا۔
بلکہ ایک اہم نکتہ اور سامنے آتا ہے؛
کہ باوجود اس بات کہ کہ ابن الھمام امام صاحب کا أصول اسے کے برخلاف بتلاتے ہیں، اور پھر امام صاحب سے أصول میں اختلاف کرتے ہیں:
جمشید صاحب:
علامہ ابن ہمام کی رائے:
علامہ ابن ہمام اوران کے شارحین نے تو(التقریر والتحبیر علی تحریرالکمال ابن الھمام 2/298)میں صاف سیدھالکھاہے کہ امام ابوحنیفہ مطللقا قیاس پرخبرواحد کو مقدم کرتے ہیں۔چاہے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کا راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ،اوراس مسئلے میں ان کو امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کا ہم نواقراردیاہے۔
مسْأَلَةٌ إذَا تَعَارَضَ خَبَرُ الْوَاحِدِ وَالْقِيَاسُ بِحَيْثُ لَا جَمْعَ) بَيْنَهُمَا مُمْكِنٌ (قُدِّمَ الْخَبَرُ مُطْلَقًا عِنْدَ الْأَكْثَرِ) مِنْهُمْ أَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ
مسئلہ:جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہو کہ دونوں کے درمیان تطبیق کی کوئی صورت نہ نکل سکتی ہو تو اکثرائمہ کے نزدیک ہرحال میں خبر کو قیاس پر مقدم کیاجائے۔ ان ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ،امام شافعی اورامام احمد بھی ہیں۔
(جاری ہے)