السلام علیکم ورحمۃ اللہ
@اسحاق سلفی بھائی اس مسئلہ کی وضاحت کردیں، کہ ابومطیع البلخی کی حیثیت کیا ہے احناف کی نظر میں!
جزاک اللہ خیر!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
ابو مطیع بلخی امام ابو حنیفہ کے شاگرد ،اور احناف کے ہاں درجہ امامت رکھنے والے فقیہ ہیں ؛
حنفی فقہاء اور علماء کے حالات و تعارف پر لکھی گئی کتابوں میں ان کو بڑے مقام کا عالم بیان کیا گیا ہے
مثلاً ۔۔
’’ الطبقات السنية في تراجم الحنفية ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
الحكم بن عبد الله بن مسلمة بن عبد الرحمن
أبو مطيع البلخي
الإمام العالم العامل، أحد أعلام هذه الأمة، ومن أقر له بالفضائل جهابذة الأئمة.
حدث عن هشام بن حسان، ومالك بن أنس، وسفيان الثوري، وأبي حنيفة، وكان من كبار أصحابه، وهو راوي " الفقه الأكبر ".
وروى عنه أحمد بن منيع، وجماعة من أهل خراسان.
وولي قضاء بلخ، وقدم بغداد غير مرة، وحدث بها، وتلقاه أبو يوسف، وتناظر معه، وكانت مدة ولايته على قضاء بلخ ستة عشر سنة، يقول بالحق ويعمل به.
یعنی ابو مطیع امام تھے ، اوراس امت کے ان نمایاں بڑے حضرات میں سے ایک تھے جن کے فضائل کا ائمہ کو بھی اقرار تھا ،
ابو مطیع نے امام مالکؒ ،ابو حنیفہ ،سفیان ثوریؒ ودیگر مشاہیر سے علم حاصل کیا ۔اور امام ابوحنیفہ کے بڑے شاگردوں ،ساتھیوں میں تھے ،اور انہوں ابو حنیفہ سے ۔۔الفقہ الاکبر ۔۔روایت کی ؛
’’ بلخ ‘‘ کے قاضی بھی رہے، کئی دفعہ بغداد آئے ،اور وہاں درس دیئے ۔اور ابو یوسف سے ملاقات ہوئی اور ان سے بحث و مناظرہ بھی ہوا ۔
بلخ کی قضاء یعنی عدالت میں سولہ سال قاضی رہے ۔حق کہتے بھی تھے اور حق پر عمل بھی کرتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح
( تاج التراجم في طبقات الحنفية ) میں انکے بارے فضائل لکھے ہیں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن یاد رہے محدثین کے ہاں ان کا درجہ اور ہے ،
یعنی علم حدیث میں انکی حیثیت مستند و معتبر راوی یا محدث کی نہیں ؛