difa-e- hadis
رکن
- شمولیت
- جنوری 20، 2017
- پیغامات
- 294
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 71
موصوف نے خالد بن مخلد القطوانی پر جرح مفسر کا دعوی کیا ہے کہ خالد بن مخلد کوفیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے اور موصوف نے یہ کہا کہ میں نے تعدیل کے اقوال نقل کر کے مخلط مبحث کی ہے جبکہ میں نے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک منفرد قول ہے اور کسی نے بھی اس کی جانب التفاء نہیں کیا ہے چنانچہ پہلے اصول پر نظر ڈالتے ہیں موصول نے لکھا کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے جبکہ "الجرح مفسر الاولی بتعدیل" کا اصول اس وقت لاگو ہو گا جب جرح بھی تعدیل کے برابر یا اس سے قدر کم ہوں
اتفق اہل علم ان جرحہ الواحد والاثنان عدلہ مثل عدد من جرحہ فان الجرح اولی(الکفایہ فی علم الرویہ ص 108)
اور یہاں تو ایک منفرد قول ہے جس کو جرح مفسر کا نام دیا جا رہا ہے
ذكر الغلابي في تاريخه. قال: القطواني يؤخذ عنه مشيخة المدينة، وابن بلال فقط يريد سليمان بن بلال.
ومعنى هذا أنه لا يؤخذ عنه إلا حديثه عن أهل المدينة، وسليمان بن بلال منهم، لكنه أفرده بالذكر.
(شرح علل ترمذی2/775)
اس قول کے مطابق خالد بن مخلد کی صرف کوفیوں سے نہیں اہل مدینہ کے علاوہ کسی سے بھی روایت قبول نہیں ہے
موصوف اس کو جرح مفسر فرما رہےہیں جبکہ جرح مفسر اسے کہتے ہیں کہ جس میں راوی کے بابت وجہ بیان کی گئی مثلا"ضعیف الحدیث" جرح مفسر میں شمار ہوتی ہے کہ روای حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہے مگر امام الغلابی نے صرف یہ بیان کیا" يؤخذ عنه مشيخة المدينة" کہ خالد بن مخلد کے اہل مدینہ کے شیوخ سے روایات لی ہے" اس میں کونسی جرح مفسر ہے اس سے اہل مدینہ کے سوا رواۃ سے روایات کو کیوں ترک کیا گیا ہے اس کی وجہ بتائی گئی ہے کیا اسے جرح مفسر کہتے ہیں؟اس کے برعکس جب ابن عدی نے اس پر جرح کی تو کس قدر وضاحت اور مفسر بیان کیا ہے چنانچہ اس کی اہل مدینہ ہی کے شییوخ سے بعض منکر روایات نقل کرکے فرماتے ہیں ۔ وهذه الأحاديث التي ذكرتها عن مالك وعن غيره لعله توهما منه أنه كما يرويه أو حمل على حفظه.(کامل ضعفاء لابن عدی 3/466)
اس میں ابن عدی نے ان روایات کے منکر ہونے کی وجہ بیان کی ہے کہ اس میں اپنے حافظہ کی وجہ سے وہم کا شکار ہوا ہے۔
یہ جرح مفسر کہلاتی ہے کہ اس میں وجہ بیان کی گئی ہےکہ اہل مدینہ سے بعض روایات بیان کرنے میں اپنے حافظہ کی بنا پر وہم اور غلطی کا شکار ہوا ہے جبکہ امام الغلابی کے قول کے مطابق اس کی اہل مدینہ کے شیوخ کے علاوہ روایات ضعیف ہوتی ہیں جبکہ ابن عدی اس کے اہل مدینہ کے بعض شیوخ "مالک بن انس، سیلمان بن بلال" کی بعض روایات کو منکر قرار دیا ہے اور انہوں نے اس روایت کا ذکر تک نہیں کیا جس کو موصوف ضعیف فرما رہے ہیں اور نہ اہل کوفہ سے ہی کوئی منکر روایت اپنی کتاب میں درج کی ہے جبکہ امام ابن عدی کا عمومی منہج یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب میں راوی کی منکر روایات نقل کرتے ہیں اور ان منکر روایات میں ایک روایت بھی اہل کوفہ سے نہیں ہے۔
ان دلائل سے موصوف کا جرح مفسر اور امام الغلابی کے اس قول کا کافی خلاصہ ہو گیا لیکن اگر اس کو جرح مفسر مان بھی لیا جائے تو جمہور نے اس کو مخالف جاتے ہوئے خالد بن مخلد کی اہل کوفہ سے روایات لی ہیں اور ان پر صحیح کا حکم بھی لگایا ہے
(1)امام ترمذی نے جامع ترمذی میں اس کی اہل کوفہ سے روایت لی ہے اور اس کو حسن صحیح بھی کہا ہے
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [المائدة: 93] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ مِنْهُمْ» . «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
(کتاب التفسر رقم 3053)
(2) امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اس کی کوفیوں سے روایت لی ہے اور امام ذہبی نے تلخیص میں اس کو بخاری اور مسلم کی شرط پر کہا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثنا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْقَطَوَانِيُّ، ثنا حَمْزَةُ بْنُ حَبِيبٍ الزَّيَّاتُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَضْلُ الْعِلْمِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَةِ، وَخَيْرُ دِينِكُمُ الْوَرَعُ»
على شرطهما
(مستدرک الحاکم رقم 314)
موصوف نے ابو یحیٰی نور پوری کے حوالے سے بکر بن سھل کی توثیق کے لئے "المختارۃ، ابو عوانۃ، مستخرج ابو نعیم" کے حوالے دے کر یہ فرمایا کہ بکر بن سھل کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے کہ وہ ان کتب میں موجود ہیں اسی طرح ہم بھی ذیل میں نقل کر رہے ہیں کہ خالد بن مخلد کی اہل کوفہ سے روایات ان کتب میں موجود ہے اور سونے پر سوھاگہ یہ ہے کہ المختارۃ میں یہی روایت بمع اسی سند کے موجود ہے جس کو ابو یحیٰی نور پوری کی وساطت سے موصوف ضعیف فرما رہے ہیں
(3) أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي الْفَتْحِ الْخَرَقِيُّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بن حمد بن الْحسن الدوبي أَخْبَرَهُمْ أبنا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْكَسَّارِ الدِّينَوَرِيُّ أبنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ السُّنِّيِّ ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ النَّسَائِيُّ أبنا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الأَوْدِيُّ عَنْ خَالِدِ بْنِ مُخَلَّدٍ ثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ فَقُلْتُ يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِنْ فُسْطَاطِهِ فَقَالَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ
الاحادیث المختارۃ 10/378رقم403)
(4) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ السِّجْزِيُّ، قَالَ: ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ الْبَهْرَانِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ يُنْبَذُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّبِيذُ» ، قَالَ: «فَيَشْرَبُهُ فِي الْيَوْمِ، وَالْغَدِ، وَبَعْدَ الْغَدِ، إِلَى مَسَاءِ الثَّالِثِ، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ بِسِقَاءِ الْخَدَمِ، أَوْ يُهَرَاقُ»
(مستخرج ابوعوانۃ رقم8121)
اس میں ابو معاویہ "محمد بن خازم التميمى السعدى ، أبو معاوية الضرير الكوفى" ہیں
تو مستخرج ابو عوانۃ میں خالد بن مخلد کی کوفیوں سے روایت موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی کوفیوں سے روایت صحیح ہوتی ہے
موصوف نے ان ہی کتب کا حوالے دے کر بکر بن سھل کی توثیق ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جس کا خلاصہ ہم آگے کریں گے یہاں موصوف سے عرض ہے اپ ہی کے اصول پر جب بکر بن سھل ان کتب میں موجود ہو کر ثقہ ہو سکتا ہے تو خالد بن مخلد کی ان کتب میں کوفیوں سے موجود روایت کیونکر صحیح نہیں ہیں۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
(5) شیخ البانی کے مطابق بھی اہل کوفہ سے خالد بن مخلد کی روایت صحیح ہے(دیکھئے سنن نسائی رقم 3006)
(6) شیخ شعیب الانوروط نے بھی سنن نسائی کی تخریخ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے(سنن نسائی تخریج شیخ شعیب)
(7) محمد مصطفی الاعظیمی نے صحیح ابن خزیمہ کی تخریج میں اسی روایت کو صحیح کہا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ رقم 2830)
(8)شیخ زبیر علی زئی نے بھی انوار صحیفہ فی احادیث الضیعفہ میں اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے اس کا معنی یہی ہے کہ ان کے نذدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔
امام ترمذی سے لے کر شیخ زبیر علی زئی تک ان تمام کے نزدیک اہل کوفہ سے خالد بن مخلد کی روایت صحیح ہے اور انہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور موصوف نے میرے جن حوالاجات کوخلط مبحث کا نام دے کر رد کرنے کی کوشش کی تھی وہ اسی حوالے سے تھی کہ کسی بھی محدث نے امام الغلابی کے اس منفرد قول کو قبول ہی نہیں کیا ہے اور خالد بن مخلد کی روایت کو بلا شرط قبول کیا ہے اور امام ابن عدی نے اس کی اہل مدینہ سے چند منکر روایات نقل کرکے یہ پورے طریقے سے ثابت کر دیا کہ یہ ایک منفرد اور مردود قول ہے کہ خالد بن مخلد کی روایات اہل کوفہ سے ضعیف ہوتی ہیںوگرنہ ابن عدی اہل کوفہ سے اس کی ضعیف روایات ضرور نقل کرتے۔ خالد بن مخلد صدوق راوی ہے اور اس کی بیان کردہ حدیث حسن ہوتی ہے اور محترم کا یہ مفروضہ امام الغلابی کے قول کی طرح منفرد اور مردود ہے۔(6) شیخ شعیب الانوروط نے بھی سنن نسائی کی تخریخ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے(سنن نسائی تخریج شیخ شعیب)
(7) محمد مصطفی الاعظیمی نے صحیح ابن خزیمہ کی تخریج میں اسی روایت کو صحیح کہا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ رقم 2830)
(8)شیخ زبیر علی زئی نے بھی انوار صحیفہ فی احادیث الضیعفہ میں اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے اس کا معنی یہی ہے کہ ان کے نذدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔