- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
فصل چہارم
اجتماعی اجتہاد کا تصور اگرچہ قدیم ہے لیکن اس کی اصطلاح نئی ہے جبکہ اجماع کی اصطلاح بھی اس کے تصور کی طرح ہی شروع ہی سے چلی آ رہی ہے۔ أئمہ أربعہ کے دور میں ہی اجماع کی حجیت کی بحثیں علمی مجالس کا موضوع بحث بن گئی تھیں۔ امام أبو حنیفہ ' امام مالک'امام شافعی' امام أحمد اور دیگر أئمہ سلف نے اجماع کے مختلف تصورات کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے اس کی حجیت کو واضح کیا۔ اس فصل میں ہم اجتماعی اجتہاد اور اجماع کے مابین باہمی ربط و تعلق اور فرق و اختلاف کے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
اجماع کی لغوی تعریف
اجماع کا مادہ 'ج۔م۔ع'ہے اور یہ باب افعال سے مصدر ہے۔ أبو منصور أزہری متوفی ٣٧٠ھ لکھتے ہیں:
'' والجمع أن تجمع شیء لی شیء والجماع أن تجعل المتفرق جمیعاً.''(١)
'' قال الکسائی یقال جمعت الأمر وعلی الأمر ذا عزمت علیہ والأمر مجمع ویقال أیضاً أجمع أمرک ولا تدعہ منتشرا.''(٢)
'' وجمع أمرہ وأجمعہ وأجمع علیہ عزم علیہ کأنہ جمع نفسہ لہ ...و قولہ تعالی( فَاَجْمِعُوْا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآء کُمْ )أی وادعوا شرکاء کم...قال الفراء الجماع العداد والعزیمة علی الأمر قال و نصب شرکاء کم بفعل مضمر کأنک قلت فأجمعوا أمرکم وادعوا شرکاء کم قال أبو سحق الذی قالہ الفراء غلط فی ضمارہ وادعوا شرکاء کم لأن الکلام لا فائدة لہ لأنھم کانوا یدعون شرکا ئھم لأن یجمعوا أمرھم قال والمعنی فأجمعوا أمرکم مع شرکاء کم...قال الفراء ذا أردت جمع المتفرق قلت جمعت القوم فھم مجموعون قال اللہ تعالی( ذٰلِکَ یَوْم مَّجْمُوْع لَّہُ النَّاسُ )...قال (أی الفراء) وکذلک یقال أجمعت النھب والنھب بل القوم التی أغار علیھا اللصوص وکانت متفرقة فی مراعیھا فجمعوھا من کل ناحیة حتی اجتمعت لھم.''(٣)
١۔تہذیب اللغة:١ ٢٥٤
٢۔تاج اللغة وصحاح العربیة:٣ ١١٩٨۔ ١١٩٩
٣۔لسان العرب: ٥٣٨
اجتماعی اجتہاد بذریعہ اجماع
اجتماعی اجتہاد کا تصور اگرچہ قدیم ہے لیکن اس کی اصطلاح نئی ہے جبکہ اجماع کی اصطلاح بھی اس کے تصور کی طرح ہی شروع ہی سے چلی آ رہی ہے۔ أئمہ أربعہ کے دور میں ہی اجماع کی حجیت کی بحثیں علمی مجالس کا موضوع بحث بن گئی تھیں۔ امام أبو حنیفہ ' امام مالک'امام شافعی' امام أحمد اور دیگر أئمہ سلف نے اجماع کے مختلف تصورات کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے اس کی حجیت کو واضح کیا۔ اس فصل میں ہم اجتماعی اجتہاد اور اجماع کے مابین باہمی ربط و تعلق اور فرق و اختلاف کے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
اجماع کی لغوی تعریف
اجماع کا مادہ 'ج۔م۔ع'ہے اور یہ باب افعال سے مصدر ہے۔ أبو منصور أزہری متوفی ٣٧٠ھ لکھتے ہیں:
'' والجمع أن تجمع شیء لی شیء والجماع أن تجعل المتفرق جمیعاً.''(١)
علامہ أبو نصر الجوہری متوفی٣٩٣ھ لکھتے ہیں:''اور 'جمع' سے مراد ایک شیء کو دوسری شیء سے ملانا ہے اور 'اجماع' سے مراد ہے آپ متفرق اشیاء کو اکٹھا کر دیں۔''
'' قال الکسائی یقال جمعت الأمر وعلی الأمر ذا عزمت علیہ والأمر مجمع ویقال أیضاً أجمع أمرک ولا تدعہ منتشرا.''(٢)
ابن منظورالأفریقی متوفی ٧١١ھ لکھتے ہیں:''کسائی نے کہا: 'جمعت الأمر' اور 'جمعت علی الأمر' اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ آپ کسی کام کا عزم کر لیںاور اسی سے'أمر مجمع' کا لفظ بھی نکلا ہے یعنی ایسا کام' جس کا عزم کیا گیا ہو۔ اسی طرح کہا جاتا ہے:'أجمع أمرک' یعنی اپنے معاملے کوجمع کر لو اور اس کو منتشر نہ چھوڑو۔''
'' وجمع أمرہ وأجمعہ وأجمع علیہ عزم علیہ کأنہ جمع نفسہ لہ ...و قولہ تعالی( فَاَجْمِعُوْا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآء کُمْ )أی وادعوا شرکاء کم...قال الفراء الجماع العداد والعزیمة علی الأمر قال و نصب شرکاء کم بفعل مضمر کأنک قلت فأجمعوا أمرکم وادعوا شرکاء کم قال أبو سحق الذی قالہ الفراء غلط فی ضمارہ وادعوا شرکاء کم لأن الکلام لا فائدة لہ لأنھم کانوا یدعون شرکا ئھم لأن یجمعوا أمرھم قال والمعنی فأجمعوا أمرکم مع شرکاء کم...قال الفراء ذا أردت جمع المتفرق قلت جمعت القوم فھم مجموعون قال اللہ تعالی( ذٰلِکَ یَوْم مَّجْمُوْع لَّہُ النَّاسُ )...قال (أی الفراء) وکذلک یقال أجمعت النھب والنھب بل القوم التی أغار علیھا اللصوص وکانت متفرقة فی مراعیھا فجمعوھا من کل ناحیة حتی اجتمعت لھم.''(٣)
حواشی'' 'جمع أمرہ'سے مراد ہے اس نے اپنے معاملے کو جمع کیا اور یہ باب افعال سے بھی اسی معنی میں آتا ہے ۔باب افعال سے 'علی' کے صلہ کے ساتھ کسی کام کاعزم کرنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے گویا کہ اس نے اپنے ذات کو کسی کام کے کرنے کے لیے جمع کر لیا ہے...ارشاد باری تعالی ہے: 'پس تم اپنی چال کوجمع کرو اور اپنے شرکاء کو پکارو'...فراء نے کہا ہے کہ اجماع سے مراد کسی کام کی تیاری اور اس کا عزم کرنا ہے۔فرا ء کا کہنا یہ بھی ہے کہ آیت قرآنی میں 'شرکاء کم'سے پہلے ایک فعل محذوف ہے اور وہ 'وادعوا'ہے۔جبکہ أبو اسحاق کا کہنا یہ ہے کہ فراء کا یہاں پر فعل محذوف ہونے کادعوی کرنا غلط ہے ۔اس محذوف کا نکالنا بے فائدہ ہے کیونکہ مشرکین تو اس آیت کے نزول سے پہلے بھی اپنے شرکاء کو پکار رہے تھے۔أبو اسحاق کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ اپنی چال کے ساتھ اپنے شریکوں کو بھی جمع کر لو...فراء نے کہا کہ جب تم نے منتشرلوگوں کو جمع کرنا ہو تو کہو گے : میں نے قوم کو جمع کیا اور وہ جمع ہو گئے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے: 'یہ ایک ایسا دن ہے جس میں لوگ جمع کیے جائیں گے'...اسی طرح عرب کہتے ہیں میں نے 'نھب' جمع کیا اور 'نھب'سے مراد کسی قوم کے وہ اونٹ ہیں جن پر چور أچکے غارت گری کرتے ہوئے دھاوا بول دیں اور وہ اپنی چراگاہوں میں ادھر ادھر بکھر جائیں پس وہ انہیں ہر کونے سے اکٹھا کریں یہاں تک کہ وہ سب جمع ہو جائیں۔''
١۔تہذیب اللغة:١ ٢٥٤
٢۔تاج اللغة وصحاح العربیة:٣ ١١٩٨۔ ١١٩٩
٣۔لسان العرب: ٥٣٨