• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجتماعی اجتہاد اور اجماع

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بعض حضرات نے اس تقسیم کو بنیاد بناتے ہوئے کسی نص کے فہم پراجماع کا انکار کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال لکھتے ہیں:
''فرض کیجیے صحابہ کسی امر پر متفق ہیں۔ اندریں صورت سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے کی پابندی کیا ہمارے لیے بھی ضروری ہے؟ شوکانی نے اس مسئلے میں بڑی سیر حاصل بحث کی ہے اور مذاہب اربعہ نے اس کے متعلق جو رائیں قائم کی ہیں ان سب کا ذکر بھی کر دیاہے۔ میری رائے میں اس مسئلے کا فیصلہ یوں ہونا چاہیے کہ ہم ایک امر واقعی اور امر قانونی میں فرق کریں۔ مثلاً اس مسئلے میں کہ آخری دو سورتیں 'معوذتان' قرآن پاک کا جزو ہیں یا نہیں اور جن کے متعلق صحابہ کا بالاتفاق یہ فیصلہ ہے کہ یہ سورتیں جزو قرآن ہیں' ہمارے لیے ان کا اجماع حجت ہے' کیونکہ یہ صرف صحابہ تھے جو اس امر واقعی کو ٹھیک ٹھیک جانتے تھے۔ بصورت دیگر یہ مسئلہ تعبیر اور ترجمانی کاہو گا۔ لہٰذا ہم کرخی کی سند پر یہ کہنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ اس صورت میں صحابہ کا اجماع ہمارے لیے حجت نہیں۔ کرخی کہتا ہے صحابہ کا طریق انہی باتوں میں حجت ہے جن میں قیاس سے کام نہیں چلتا۔ جن معاملات میں قیاس سے کام لیاجا سکتاہے ان میں ہم اسے حجت نہیں ٹھہرائیں گے۔''(١)

محمد عمار خان ناصر لکھتے ہیں:
''اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت اور دین و شریعت کے نہایت بنیادی تصورات اور احکام کی حد تک تو یہ بات یقیناً درست ہے کہ ان کو نسلاً بعد نسل دین کی حیثیت سے نقل کرنے میں اس امت کے اہل علم اور عوام کا ایک عمومی عملی اتفا ق ہے اور تاریخی معیار پر ہر دور میں اس اتفاق کو ثابت کرنا بھی پوری طرح ممکن ہے' لیکن جہاں تک نصوص اور احکام کی علمی تعبیرو تشریح کا تعلق ہے تو کسی مخصوص مسئلے میں امت کے تمام اہل علم یا کم سے کم وہ اہل علم جنھوں نے اس مسئلے پر غور کیا اور اس پر باقاعدہ کوئی رائے قائم کی' ان سب کی آراء کو استقصاء کے درجے میں معلوم کرنا بدیہی طور پر انسانی بساط سے بالکل باہر ہے۔ چودہ سو سال میں ہر دور اور علاقے کے اہل علم کی آراء کو یقینی طور پر معلوم کرنے کا تو کیا سوال' تاریخ اسلام کے بالکل ابتدائی دور یعنی صحابہ اور تابعین کے عہد میں بھی اس کاکوئی عملی امکان نہیں پایا جاتا۔''(٢)

اس اشکال کا جواب ہم اجماع صریح کی بحث میں امام شافعی کی تعبیر کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ کے دور میں بھی جن مسائل میں اجما ع کا دعوی کیا جاتا ہے تو اس اجماع میں ابتداء اً اپنی رائے کا اظہار کرنے والے مدینہ کے فقہائے صحابہ تھے۔ بعد میں ان اجماعات کو قانون کا درجہ دے کر نافذ کر دیا جاتا اور یہ اجماعی فیصلے مملکت اسلامیہ کے شرق وغرب میں پھیل جاتے۔ دوسرے شہروں کے صحابہ ان قوانین کو قبول کرتے اور ان کے مطابق فتوی جاری کرتے تھے اور اس طرح امت کے علماء کا اس مسئلے میں اتفاق حاصل ہوجاتا تھا۔ بعض مسائل میں اگرچہ آج مدینہ کے صحابہ کے علاوہ دوسرے شہروں کے صحابہ کی آراء و فتاوی کوکتب تاریخ' حدیث اور فقہ سے معلوم کرناممکن نہ بھی ہو تو پھر بھی ان میں دعوی اجماع ممکن ہے بشرطیکہ وہ مسائل دین کے بنیادی أصولوں میں سے ہوں۔
مثلاًاگر کوئی عالم دین یہ کہے کہ 'أقیموا الصلوة' میں فعل أمر استحباب کے لیے ہے۔ آپ اور صحابہ کی جماعت بھی اگرچہ نماز تو پڑھتی تھی لیکن اس کا پڑھنا مستحب ہے نہ کہ واجب۔ ایسے شخص کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیت مبارکہ میں فعل أمر سے مراد 'وجوب' ہے' اور اس پرصحابہ کا اجماع ہے اگرچہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہر ہر صحابی کی رائے فقہی یا تاریخی ذخیرے کے حوالوں سے ثابت کر سکیں کہ وہ اس نص سے وجوب صلوۃ ثابت کرتے ہیں، اگرچہ وجوب صلوۃ کسی اور نص سے بھی ثابت ہوتا ہے لیکن اس نص کا بھی تو کوئی معنی و مفہوم ہے، وہ معنی کیا ہے؟ اور وہ معنی قطعی ہے یا نہیں ؟ ہمارے نزدیک وہ معنی وجوب صلوۃ کا ہے اور وہ قطعی ہے اور اس کی قطعی ہونے کی دلیل اجماع ہے۔

اجماع کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں' ان کو دیکھ کر اندازہوتا ہے کہ علماء کے اجماع کے اکثر دعوے کسی نص کے فہم پر اجماع سے متعلق ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں أصول فقہ کی کتابوں میں اجماع کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے' اس کا بنیادی رکن یہ ہے کہ مجتہدین کے اتفاق کو اجماع کہتے ہیں ۔ گویا کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک اصل اجماع در اصل نص کے فہم پر ہوتا ہے' ورنہ تومجتہدین کی قید لگانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اگر محدثین کا کسی روایت کے بارے میں اتفاق ہو کہ وہ آپۖ سے قطعیت سے ثابت ہے تو یہ بھی اجماع کی ایک قسم ہے لیکن فقہاء زیادہ تر نص کے فہم پر اجماع کی قسم کو موضوع بحث بناتے ہیں۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ بعض علماء کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بات بات پر اجماع کے دعوے نقل کر دیتے ہیں یا کوئی عالم دین اپنے علم کی حد تک کسی مسئلے میں اختلاف نہیں دیکھتا تو اس پر اجماع کا دعوی نقل کر دیتا ہے حالانکہ درحقیقت اس مسئلے میں علماء کا اجماع نہیں ہوتا اور اس میں کئی ایک علماء سے اختلافات بھی مروی ہوتے ہیں۔ پس اس قدر احتیاط تو ضروری ہے کہ کسی جگہ اجماع کے دعوی کو دیکھ کر اجماع کا یقین نہ کر لیا جائے بلکہ اس کا ممکن حد تک تحقق بھی کرنا چاہیے۔ امام ابن حزم نے 'مراتب الاجماع'کے نام سے ایک کتاب لکھی ' جس میں انہوں نے سینکڑوں مسائل میں اجماع کا دعوی کیا جبکہ امام ابن تیمیہ نے اس پر 'نقد بیسیوں مسائل میں کہ جن میں امام ابن حزم نے اجماع کا دعوی کیا تھا' علماء کا اختلاف ثابت کیاہے۔ پس فی لواقع کسی مسئلے میں اجماع کا پایا جانا کچھ اورشیء ہے اور دعوی اجماع کچھ اور۔

بعض علماء نے اجماع کو 'منہاج' کا مسئلہ قرار دیا ہے یعنی مسلمانوں کے اہل علم کے معروف منہج استدلال سے نکل کر کوئی رائے پیش کرنا یا استنباط کرنا درحقیقت اجماع کی مخالفت ہے۔ ان علماء نے اپنے اس موقف کی دلیل میں یہ بیان کیا ہے کہ اجماع کے حق میں پیش کی جانے والی دلیل میں 'اتباع سبیل المؤمنین' کے لفظ نمایاں ہیں جس میں 'سبیل' کا قریبی ترجمہ 'منہج' ہی بنتا ہے۔ امام الحرمین کا رجحان اس رائے کی طرف ہے۔

حواشی
١۔تشکیل جدید الہیات اسلامیة : ص ٢٤٩۔٢٥٠
٢۔'حدود وتعزیرات :چند اہم مباحث' مولانا مفتی عبد الواحد کی تنقیدات کا ایک جائزہ : ص٦
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top