• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجتماعی اجتہاد اور اجماع

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
فصل چہارم
اجتماعی اجتہاد بذریعہ اجماع

اجتماعی اجتہاد کا تصور اگرچہ قدیم ہے لیکن اس کی اصطلاح نئی ہے جبکہ اجماع کی اصطلاح بھی اس کے تصور کی طرح ہی شروع ہی سے چلی آ رہی ہے۔ أئمہ أربعہ کے دور میں ہی اجماع کی حجیت کی بحثیں علمی مجالس کا موضوع بحث بن گئی تھیں۔ امام أبو حنیفہ ' امام مالک'امام شافعی' امام أحمد اور دیگر أئمہ سلف نے اجماع کے مختلف تصورات کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے اس کی حجیت کو واضح کیا۔ اس فصل میں ہم اجتماعی اجتہاد اور اجماع کے مابین باہمی ربط و تعلق اور فرق و اختلاف کے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔

اجماع کی لغوی تعریف
اجماع کا مادہ 'ج۔م۔ع'ہے اور یہ باب افعال سے مصدر ہے۔ أبو منصور أزہری متوفی ٣٧٠ھ لکھتے ہیں:
'' والجمع أن تجمع شیء لی شیء والجماع أن تجعل المتفرق جمیعاً.''(١)
''اور 'جمع' سے مراد ایک شیء کو دوسری شیء سے ملانا ہے اور 'اجماع' سے مراد ہے آپ متفرق اشیاء کو اکٹھا کر دیں۔''
علامہ أبو نصر الجوہری متوفی٣٩٣ھ لکھتے ہیں:
'' قال الکسائی یقال جمعت الأمر وعلی الأمر ذا عزمت علیہ والأمر مجمع ویقال أیضاً أجمع أمرک ولا تدعہ منتشرا.''(٢)
''کسائی نے کہا: 'جمعت الأمر' اور 'جمعت علی الأمر' اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ آپ کسی کام کا عزم کر لیںاور اسی سے'أمر مجمع' کا لفظ بھی نکلا ہے یعنی ایسا کام' جس کا عزم کیا گیا ہو۔ اسی طرح کہا جاتا ہے:'أجمع أمرک' یعنی اپنے معاملے کوجمع کر لو اور اس کو منتشر نہ چھوڑو۔''
ابن منظورالأفریقی متوفی ٧١١ھ لکھتے ہیں:
'' وجمع أمرہ وأجمعہ وأجمع علیہ عزم علیہ کأنہ جمع نفسہ لہ ...و قولہ تعالی( فَاَجْمِعُوْا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآء کُمْ )أی وادعوا شرکاء کم...قال الفراء الجماع العداد والعزیمة علی الأمر قال و نصب شرکاء کم بفعل مضمر کأنک قلت فأجمعوا أمرکم وادعوا شرکاء کم قال أبو سحق الذی قالہ الفراء غلط فی ضمارہ وادعوا شرکاء کم لأن الکلام لا فائدة لہ لأنھم کانوا یدعون شرکا ئھم لأن یجمعوا أمرھم قال والمعنی فأجمعوا أمرکم مع شرکاء کم...قال الفراء ذا أردت جمع المتفرق قلت جمعت القوم فھم مجموعون قال اللہ تعالی( ذٰلِکَ یَوْم مَّجْمُوْع لَّہُ النَّاسُ )...قال (أی الفراء) وکذلک یقال أجمعت النھب والنھب بل القوم التی أغار علیھا اللصوص وکانت متفرقة فی مراعیھا فجمعوھا من کل ناحیة حتی اجتمعت لھم.''(٣)
'' 'جمع أمرہ'سے مراد ہے اس نے اپنے معاملے کو جمع کیا اور یہ باب افعال سے بھی اسی معنی میں آتا ہے ۔باب افعال سے 'علی' کے صلہ کے ساتھ کسی کام کاعزم کرنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے گویا کہ اس نے اپنے ذات کو کسی کام کے کرنے کے لیے جمع کر لیا ہے...ارشاد باری تعالی ہے: 'پس تم اپنی چال کوجمع کرو اور اپنے شرکاء کو پکارو'...فراء نے کہا ہے کہ اجماع سے مراد کسی کام کی تیاری اور اس کا عزم کرنا ہے۔فرا ء کا کہنا یہ بھی ہے کہ آیت قرآنی میں 'شرکاء کم'سے پہلے ایک فعل محذوف ہے اور وہ 'وادعوا'ہے۔جبکہ أبو اسحاق کا کہنا یہ ہے کہ فراء کا یہاں پر فعل محذوف ہونے کادعوی کرنا غلط ہے ۔اس محذوف کا نکالنا بے فائدہ ہے کیونکہ مشرکین تو اس آیت کے نزول سے پہلے بھی اپنے شرکاء کو پکار رہے تھے۔أبو اسحاق کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ اپنی چال کے ساتھ اپنے شریکوں کو بھی جمع کر لو...فراء نے کہا کہ جب تم نے منتشرلوگوں کو جمع کرنا ہو تو کہو گے : میں نے قوم کو جمع کیا اور وہ جمع ہو گئے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے: 'یہ ایک ایسا دن ہے جس میں لوگ جمع کیے جائیں گے'...اسی طرح عرب کہتے ہیں میں نے 'نھب' جمع کیا اور 'نھب'سے مراد کسی قوم کے وہ اونٹ ہیں جن پر چور أچکے غارت گری کرتے ہوئے دھاوا بول دیں اور وہ اپنی چراگاہوں میں ادھر ادھر بکھر جائیں پس وہ انہیں ہر کونے سے اکٹھا کریں یہاں تک کہ وہ سب جمع ہو جائیں۔''
حواشی
١۔تہذیب اللغة:١ ٢٥٤
٢۔تاج اللغة وصحاح العربیة:٣ ١١٩٨۔ ١١٩٩
٣۔لسان العرب: ٥٣٨
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
امام راغب أصفہانی متوفی ٥٠٢ھ لکھتے ہیں:
'' الجمع ضم الشیء بتقریب بعضہ من بعض یقال جمعتہ فاجتمع وقال عز وجل ( وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ) (وَجَمَعَ فَاَوْعٰی ) و( جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہ )( یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ)...وأجمعت کذا أکثر ما یقال فیما یکون جمعاً یتوصل لیہ بالفکرة نحو( فَاَجْمِعُوْا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآئَ کُمْ )...وقال تعالی ( فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ) ویقال أجمع المسلمون علی کذا اجتمعت آراؤھم علیہ.''(١)
'' 'جمع' سے مراد مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہوئے آپس میں ان کو ملا دینا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے:میں نے اس کوجمع کیا تو وہ جمع ہو گیا۔اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:'اور سورج اور چاند کو جمع کیا جائے گا'۔ایک اور آیت میں ارشاد ہے: 'اس نے مال جمع کیا اور اس کو گن کرمحفوظ رکھا'۔ایک اور آیت میں ارشاد ہے: 'اس نے مال کو جمع کیا اور اس کو گن گن کر رکھا '۔ایک اور آیت میں ارشاد ہے:'اللہ تعالی ہم سب کو(قیامت کے دن) جمع کرے گا پھر وہ ہمارے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے گا'...باب افعال سے یہ لفظ اکثر و بیشتر ان چیزوں کے جمع کرنے کے بارے میں آتا ہے' جو فکر سے متعلق ہوں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: 'تم اپنی چال کو اپنے شریکوں سمیت جمع کر لو'...اسی طرح اللہ نے فرمایا: 'تم اپنی چال کو جمع کر لو'۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے یعنی اس مسئلے میں ان کی آراء متفق ہیں۔''
علامہ سید مرتضی الزبیدی متوفی ١٢٠٥ھ لکھتے ہیں:
'' والاجماع أی جماع الأمة الاتفاق یقال ھذا أمر مجمع علیہ أی متفق علیہ.''(٢)
''اجماع سے اجماع امت ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے 'أمر مجمع علیہ' یعنی یہ معاملہ متفق علیہ ہے۔''

اجماع کی اصطلاحی تعریف
مختلف علماء نے کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ اجماع کی تعریف متنوع عبارتوں میں بیان کی ہے۔ امام أبو حامد غزالی متوفی ٥٠٥ھ فرماتے ہیں:
'' أما تفھیم لفظ الاجماع فنما نعنی بہ اتفاق أمة محمد ۖ خاصة علی أمر من الأمور الدینیة. '' (٣)
'' جہاں تک اجماع کے لفظ کے مفہوم کا معاملہ ہے تو اس سے ہماری مراد امت محمدیہ کا اتفاق ہے' خاص طور پرجبکہ وہ امور دینیہ میں سے '' جہاں تک اجماع کے لفظ کے مفہوم کا معاملہ ہے تو اس سے ہماری مراد امت محمدیہ کا اتفاق ہے' خاص طور پرجبکہ وہ امور دینیہ میں سے کسی معاملے پرہو۔''

حواشی
١۔المفردات فی غریب القرآن: ص١٩٠
٢۔تاج العروس من جواھر القاموس:٢٠ / ٤٦٣
٣۔المستصفی:١/ ٢٨٦
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
موفق الدین ابن قدامہ المقدسی حنبلی متوفی٦٢٠ھ اجماع کی تعریف میں لکھتے ہیں:
'' ومعنی الاجماع فی الشرع اتفاق علماء العصر من أمة محمد ۖعلی أمر من أمور الدین.''(١)
''شرع میں 'اجماع' سے مراد کسی زمانے میں امت محمدیہ کے علماء کا امور دینیہ میں سے کسی أمر پر اتفاق کر لیناہے۔''
علامہ أبو الحسن الآمدی الشافعی متوفی ٦٣١ھ لکھتے ہیں:
'' الاجماع عبارة عن اتفاق جملة أھل الحل والعقد من أمة محمد من عصر من الأعصار علی حکم واقعة من الوقائع.''(٢)
''اجماع سے مراد کسی زمانے میں امت محمدیہ کے جملہ اہل حل و عقد کا کسی واقعے کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینا ہے۔''
علامہ علاؤ الدین البخاری حنفی متوفی ٧٣٠ھ فرماتے ہیں:
'' وقیل وھو الأصح نہ عبارة عن اتفاق المجتھدین من ھذہ الأمة فی عصر علی أمر من الأمور.''(٣)
''ایک قول کے مطابق اور یہ قول صحیح ترین ہے' اجماع سے مراد اس امت کے مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی معاملے پر اتفاق کر لینا ہے۔''
امام بدر الدین الزرکشی متوفی ٧٩٤ھ فرماتے ہیں:
'' وأما فی الاصطلاح فھو اتفاق مجتھدین أمة محمد ۖبعد وفاتہ فی حادثة علی أمر من الأمور فی عصر من الأعصار فخرج اتفاق العوام...ویخرج أیضا اتفاق بعض المجتھدین وبالضافہ الی محمدۖ خرج اتفاق الأمم السابقة...وقولنا بعد وفاتہ قید لا بد منہ علی رأیھم فان الاجماع لا ینعقد فی زمانہ علیہ السلام کما سنذکرہ وخرج بالحادثة انعقاد الاجماع علی الحکم الثابت بالنص والعمل بہ وقولنا علی أمر من الأمور یتناول الشرعیات والعقلیات والعرفیات واللغویات وقولنا فی عصر من الأعصار لیرفع وھم من یتوھم أن المراد بالمجتھدین من یوجد الی یوم القیامة وھذا التوھم باطل فنہ یؤدی الی عدم تصور الاجماع والمراد بالعصر منا من کان من أھل الاجتھاد فی الوقت الذی حدثت فیہ المسألة وظھر الکلام فیہ فھو من ذلک العصر ومن بلغ ھذا بعد حدوثھا فلیس من أھل ذلک العصر...واعلم أن أصل ھذا التعریف أشار الیہ الشافعی فی الرسالة.''(٤)
''اصطلاحی طور پر اجماع سے مراد امت محمدیہ کے مجتہدین کا آپe کی وفات کے بعد کسی بھی زمانے میں کسی بھی مسئلے میں وقوع پذیر قضیے میں اتفاق کرلینا ہے۔ پس مجتہدین کی قید لگانے سے عوام الناس نکل گئے...اسی طرح کل کی قید لگانے سے بعض مجتہدین کا اتفاق بھی نکل کیا۔ امت محمدیہ کی قید لگانے سابقہ امتوں کااتفاق خارج ہو گیا...اور آپ کی وفات کے بعد کی قید اس لیے لگائی گئی کہ علماء کے نزدیک اجماع آپ کی زندگی میں واقع نہیں ہو سکتا۔ کسی واقعے کی قید کا تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ نص سے ثابت شدہ حکم یا حکم پر عمل پر اتفاق کو اجماع نہیں کہتے۔ کسی بھی مسئلے کی قید لگانے سے شرعی' عقلی' عرفی اور لغوی سب امور داخل ہو گئے۔ کسی بھی زمانے کی قید اس لیے لگائی گئی تاکہ یہ وہم ختم ہو جائے کہ اجماع قیامت تک آنے والے مجتہدین کے اتفاق کا نام ہے اور یہ وہم باطل ہے کیونکہ اس کو مان لینے وقوع پذیر ہونے اور اس پر باہمی گفتگو کے بعد پہنچا تو وہ اہل زمانہ میں شامل نہ ہو گا...جان لو! اس تعریف کی طرف امام شافعی نے اپنی کتاب 'الرسالہ' میں اشارہ کیا ہے۔''

حواشی
١۔روضة الناظر وجنة المناظر : ١٣٠/١۔١٣١
٢۔الاحکام فی أصول الأحکام: ١/ ٢٥٤
٣۔کشف الأسرار: ٣ / ٣٣٧
٤۔البحر المحیط فی أصول الفقہ: ٣/ ٤٨٧
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اجماع کی أقسام
علمائے أصول نے اجماع کی کئی ایک اعتبارات سے مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ ان میں سے کئی ایک اقسام کا اجتماعی اجتہاد کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ذیل میں ہم ان اقسام کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔

اجماع تام اور اجماع ناقص
اجماع کے اراکن اور شروط کے تمام اور ناقص ہونے کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں : اجماع تام اوراجماع ناقص۔ اجماع تام کو اجماع کامل بھی کہتے ہیں۔ نصر محمود الکرنز لکھتے ہیں:
'' التام: ھو ما تحقق رکنہ تاماً وھو اتفاق جمیع المجتھدین فی العصر الواحد دون استثناء مع تحقق سائر شروطہ سواء فی المجتھدین أو فی المسألة محل الاجماع أو عصر الاجماع والناقص: ما لم یکتمل فیہ رکن الاجماع بل اتفق أکثر المجتھدین وخالف الأقل أو اختل فیہ شرط من شروطہ المعتبرة وعلیہ فالاجماع التام ھو الکامل فی رکنہ وشروطہ ویکون قطعیاً فی دلالتہ وھو المراد عند الطلاق والناقص ھو ما یطلق علیہ جماعاً تساھلاً أو تجاوزا ویکون ظنی الدلالة و ینطبق علی سائر أنواع الاجماع المختلف فیہ کاتفاق الشیخین (أبی بکر و عمر) واتفاق العترة واجماع أھل المدینة واتفاق المذاھب الأربعة و غیرھا.''(١)
''اجماع تام سے مراد وہ اجماع ہے جس کے تمام ارکان پورے ہوںیعنی ایک ہی زمانے کے جمیع مجتہدین کابغیر کسی استثناء کے اتفاق' اجماع تام کہلاتا ہے جبکہ مجتہدین' مسئلہ زیر بحث اور زمانہ اجماع سے متعلق تمام شرائط بھی پوری ہو رہی ہوں۔اور اجماع ناقص سے مراد وہ اجماع ہے جس کے اراکین مکمل نہ ہوں مثلاً اکثر مجتہدین کا اتفا ق ہو اور بعض کا اختلاف ہو یا اس میں اجماع کی معتبر شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو۔پس اس تعریف کے مطابق اجماع تام سے مراد وہ اجماع ہے جس کے ارکان اور شروط پوری ہوںاور وہ اپنی دلالت میں قطعی ہو۔ جب مطلق طور پر اجماع کا لفظ مستعمل ہو تو اس سے مراد اجماع تام ہوتا ہے۔ جبکہ اجماع ناقص وہ ہے جس پر تساہل یا تجاوز کرتے ہوئے اجماع کا لفظ بول دیا جاتاہے اور یہ ظنی الدلالة ہوتا ہے اور اجماع کی ان تمام قسموں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو علماء کے مابین مختلف فیہ ہیں مثلاً شیخین کا اجماع' اہل بیت کا اجماع' اہل مدینہ کا اجماع' مذاہب اربعہ کا اتفاق وغیرہ۔
اس تقسیم کے مطابق اجتماعی اجتہاد کو ہم اجماع ناقص کا نام دے سکتے ہیں کیونکہ اس میں جمیع مجتہدین کا اجماع نہیں ہوتا بلکہ مجتہدین کی ایک جماعت کا اتفاق ہوتا ہے۔

حواشی
۔الاجتھاد الجماعی وتطبیقاتہ المعاصرة : ص ٦٨
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اجماع صریح اور اجماع سکوتی
مجتہدین کی رائے کی صراحت اور عدم صراحت کے اعتبار سے اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی اجماع صریح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' فالاجماع الصریح ھو أن تتفق آراء المجتھدین بأقوالھم أو أفعالھم علی حکم فی مسألة معینة کأن یجتمع العلماء فی مجلس ویبدی کل منھم رأیہ صراحة فی المسألة وتتفق الآراء علی حکم الواحد أو أن یفتی کل عالم فی المساألة برأی وتتحد الفتاوی علی شیء واحد وھو حجة عند الجمھور کما عرفنا.''(١)
''اجماع صریح سے مراد ہے کسی معین مسئلے کے شرعی حکم پر مجتہدین کی آراء' ان کے اقوال یا افعال کی روشنی میں متفق ہو جائیں۔ مثلاً علماء کسی مجلس میں جمع ہوں اور ہر ایک اس مسئلے میں اپنے رائے صراحت سے بیان کرے اور بالآخر ایک ہی حکم شرعی پر ان کی آراء جمع ہو جائیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی مسئلہ میں ہر مفتی اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کوئی فتوی جاری کرے اور ان کے فتاوی ایک ہی حکم پر جمع ہو جائیں۔ اجماع کی یہ قسم جمہور کے نزدیک حجت ہے۔''

اجماع صریح جمہور علماء کے نزدیک حجت ہے جبکہ بعض علماء نے اس کے وقوع کو ناممکن قرار دیا ہے اور اس کے وقوع پذیر ہونے کے اعتبار سے اس کا انکار کیا ہے۔
امام ابن قیم' امام أحمد بن حنبل کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''من ادعی الاجماع فھو کاذب.''(٢)
'' جس نے اجماع کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے۔''
زہیر شفیق لکھتے ہیں:
'' والذی یتضح من النصوص التی أوردناھا أن الاجماع الکامل وھو معرفة جمیع آراء الفقھاء والمجتھدین صراحة فی المسألة لم یقع فی عھد الصحابة وذلک أنہ رغم القامة الجبریة التی فرضھا عمر علی الفقھاء فی خلافتہ کان ھو بنفسہ یرسل القضاة الفقھاء الی الأمصار لیحکموا بین الناس کارسالہ أبا موسی الأشعری الی البصرة مثلا لیقضی بین الناس و ھو الفقیہ الذی یعد أحد الفقھاء فی عصر الرسول و لم یکن یستخرج رأیہ أو أقل ما یقال لم یعرف أنہ استخرج رأیہ فی المسائل التی عرضت لعمر و التی لم یعرف لھا حکما لا من کتاب و لا سنة و لھذا یمکن أن نقول أن الاجماع الذی کان علی عھد الصحابہ رضی اﷲ عنھم ھو اجماع الفقھاء حاضری مرکز الخلافة أما من سواھم من الفقھاء و المجتھدین فجماعھم یکون تبعاً لاجماع الذی صدق علیہ الخلیفة و عمل بہ و أفتی الناس علیہ و ان کان قولھم ن خالفوا یعتد بہ۔'' (٣)
''جن نصوص کا ہم نے تذکرہ کیا ہے' ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اجماع کامل یعنی کسی مسئلہ میں جمیع فقہاء اور مجتہدین کی آراء کی معرفت' صحابہ کے دور میں واقع نہیں ہوا۔ حضرت عمر ' جنہوں نے اپنے دور خلافت کے اجتہادات کو جبراً نافذ بھی کیا' ہی تھے جو مختلف شہروں کی طرف فقہاء اور قاضیوں کو لوگوں کے مابین فیصلوں کے لیے بھیجتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت أبو موسی أشعری کو بصرہ کی طرف بھیجا تا کہ وہ لوگوں کے مابین فیصلے کریں اور یہ صحابی رسول ایک فقیہ صحابیتھے جو آپ کے زمانے میں بھی فقہاء صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت عمر ( اپنے زمانے کے اجتہادات ) میں ان سے رائے طلب نہیں کرتے تھے یا کم ازکم یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ سے یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت عمر نے کبھی ان سے بھی ان مسائل میں رائے طلب کی ہو جو انہیں مرکز خلافت میں درپیش آتے تھے اور ان کا حکم کتاب و سنت سے معلوم نہ ہوسکتا ہو۔ اسی لیے اس بات کا امکان ہے کہ ہم یہ بات کہیں کہ صحابہ کے دور کا اجماع مرکز خلافت مدینہ منورہ میں موجود فقہاء کا اجماع تھا۔ جبکہ ان کے سواء فقہاء اور مجتہدین کا اجماع اس اجماع کے تابع ہوتا ہے' جس کی تصدیق خلیفہ کی طرف سے ہوتی تھی اور خلیفہ اس پر عمل کرتا اور ا س کے مطابق لوگوں کو فتوی دیتا تھا۔ اور اگر ان صحابہ نے خلیفہ کے ''جن نصوص کا ہم نے تذکرہ کیا ہے' ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اجماع کامل یعنی کسی مسئلہ میں جمیع فقہاء اور مجتہدین کی آراء کی معرفت' صحابہ کے دور میں واقع نہیں ہوا۔ حضرت عمر ' جنہوں نے اپنے دور خلافت کے اجتہادات کو جبراً نافذ بھی کیا' ہی تھے جو مختلف شہروں کی طرف فقہاء اور قاضیوں کو لوگوں کے مابین فیصلوں کے لیے بھیجتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت أبو موسی أشعری کو بصرہ کی طرف بھیجا تا کہ وہ لوگوں کے مابین فیصلے کریں اور یہ صحابی رسول ایک فقیہ صحابی تھے جو آپ کے زمانے میں بھی فقہاء صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت عمر ( اپنے زمانے کے اجتہادات ) میں ان سے رائے طلب نہیں کرتے تھے یا کم ازکم یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ سے یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت عمر نے کبھی ان سے بھی ان مسائل میں رائے طلب کی ہو جو انہیں مرکز خلافت میں درپیش آتے تھے اور ان کا حکم کتاب و سنت سے معلوم نہ ہوسکتا ہو۔ اسی لیے اس بات کا امکان ہے کہ ہم یہ بات کہیں کہ صحابہ کے دور کا اجماع مرکز خلافت مدینہ منورہ میں موجود فقہاء کا اجماع تھا۔ جبکہ ان کے سواء فقہاء اور مجتہدین کا اجماع اس اجماع کے تابع ہوتا ہے' جس کی تصدیق خلیفہ کی طرف سے ہوتی تھی اور خلیفہ اس پر عمل کرتا اور ا س کے مطابق لوگوں کو فتوی دیتا تھا۔ اور اگر ان صحابہ نے خلیفہ کے قول کی مخالفت کی ہوتی تو اس کا اعتبار ہوتا۔''

حواشی
١۔أصول الفقہ الاسلامی: ١/ ٥٥٢
٢۔اعلام الموقعین:١ / ٣٠ ؛مجموع الفتاوی: ١٩ / ٢٧١
٣۔الاجماع: ص١٣۔١٤
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
محمد عمار خان ناصر لکھتے ہیں:
''لیکن بالبداہت واضح ہے کہ صحابہ کے دور کے حوالے سے بھی یہ محض ایک نظری امکان ہے' اس لیے کہ کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں جس میں بلا استثنا تمام اہل الرائے صحابہ کو کسی موقع پر جمع کیا گیا ہو' ان سے کسی علمی مسئلے کے بارے رائے دریافت کی گئی ہو اور ان سب نے کوئی ایک متفقہ رائے اختیار کر لی ہو۔''(١)
سلف صالحین کی ایک جماعت کاخیال ہے کہ اجماع صریح ' حجت شرعیہ توہے لیکن اس کا وقوع بہت مشکل ہے۔ امام ابن تیمیہ کا کہنا یہ ہے کہ صحابہ کے دور میں تو اجماع ممکن تھا اور واقع بھی ہوا ہے لیکن ان کے زمانہ کے بعد اس کا وقوع ممکن نہیں ہے۔(٢) شیخ الاسلام کے اس قول کا مطلب یہی ہے کہ مدینہ میں صحابہ کی ایک جماعت اجتہاد کرتی تھی اور اس اجتہاد کو بطور قانون خلافت اسلامیہ میں نافذ کر دیا جاتا، اب اہل اجتہاد صحابہ کا اس قانون کو قبول کرنا اور اس سے اختلاف نہ کرنا ان کی اس اجتہاد سے صراحتا تائید پر دلالت کرتا ہے اور اگر صحابہ نے اس قانون کے خلاف رائے کا اظہار کر دیا ہو تو یہ اجماع نہ ہو گا۔

اسی طرح امام شافعی نے بھی اجماع کے ممکن الوقوع ہونے کے اعتبار سے مذکورہ بالا اشکال کابہت ہی عمدہ جواب دیا ہے۔ امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اجماع صریح' ممکن الوقوع ہے لیکن اس کے واقع ہونے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی ایک مجلس یا مکان میں جمیع علماء و فقہاء جمع ہوں اور اپنی آراء کا صراحت سے اظہارکریں یا ایک عالم دین جمیع بلاد اسلامیہ کا سفر کرتے ہوئے تمام فقہاء کی آراء جمع کرے بلکہ اس کا وقوع یوں ممکن ہے کہ دین اسلام میں کوئی مسئلہ اس قدر واضح اور صریح ہو کہ اس کے بارے میں اگر تم کسی بھی شخص یا عالم دین سے پوچھو تو وہ اس کا ایک ہی جواب دے گا۔ مثلاً دین اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں' یہ مجمع علیہ مسئلہ ہے لیکن کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جمیع علماء و فقہاء سے صراحتاً نماز کی فرضیت کے بارے میں رائے معلوم کر سکے اور اس کی بنیاد پر اجماع کا دعوی کرے اور نہ ہی کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ کسی زمانے میں جمیع صحابہ' تابعین یا علماء نے کسی ایک جگہ جمع ہو کر پانچ نمازوں کی فرضیت کے بارے میں اتفاق کا اظہار کیا ہو۔ بلکہ پانچ نمازوں کی فرضیت کو ہم اس طرح مجمع علیہ مسئلہ کہیں گے کہ اگر کسی بھی مسلمان یا عالم دین سے تم اس مسئلے کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمہیں ایک ہی جواب دے گا۔(٣)
یہ اجماع صریح آج کے دور میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہم کہہ سکتے ہیں' آج بھی مسلمانوں کا پانچ نمازوں کی فرضیت پر اجماع ہے۔ اگر کوئی شخص اس پر یہ اشکال وارد کرے کہ اہل قرآن اور منکرین حدیث تو پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل نہیں ہیں توپھر اجماع کا دعوی کیسے ممکن ہے؟ اس کا یہی جواب ہے کہ نماز أصول دین میں سے ایک أصل ہے اور اس کی فرضیت صحابہ کے دور سے بالاجماع منقول ہے۔ اگر ما بعد کے ادوار میں کچھ فرقوں نے اس کی فرضیت کا انکار کر دیا تو یہ گروہ دائرہ اسلام ہی سے خارج ہو جاتے ہیں لہذا اجماع کا دعوی برقرار رہا۔ اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اگرچہ کسی ایک مجلس یا مکان میں جمع ہو کر علماء نے ان کے غیر مسلم ہونے کا فتوی جاری نہیں کیا اور نہ مشرق و مغرب کے جمیع علماء میں سے ہر ہرعالم دین کی رائے ان کے بارے میں ہمیں صراحت سے معلوم ہے لیکن اس کے باوجود اجماع کا دعوی جائز ہے اور یہ دعوی اسی معنی میں ہو گا' جس کو امام شافعی نے بیان کیا ہے۔ کیونکہ ایک تو ختم نبوت کا مسئلہ دین اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ہے اور دوسرا جس بھی مسلمان عالم دین کے سامنے اس گروہ کے عقائد بیان کیے جائیں گے تو اس کا ان کے بارے میں یہی فتوی ہو گا۔ پس ہمارے نزدیک اجماع صریح سے مراد دین کے وہ صریح و بنیادی مسائل ہیں کہ جن کے بارے علماء کی ایک معتد بہ جماعت اپنی رائے کا اظہار اپنے قول اور عمل سے کرے اور بقیہ علماء میں سے کسی بھی عالم دین سے جب اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ قولی یا عملی صراحت سے اسی رائے کا اظہار کریں اور ان سے اس کے خلاف رائے کے اظہار کا امکان نہ ہو، اور اگر اس کے خلاف رائے کے اظہار کا امکان ہو تو یہ اجماع سکوتی ہو جائے گا۔ پس امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول اجماع صریح میں علما کی ایک جماعت کی تائید بالفعل ہوتی ہے اور دوسری جماعت کی تائید بالقوہ Potentialy ہوتی ہے۔
جاری ہے۔

حواشی
١۔'حدود وتعزیرات : چند أہم مباحث' مولانا مفتی عبد الواحد کی تنقیدات کا ایک جائزہ : ص١١
٢۔مجموع الفتاوی :١١ / ٣٤١
٣۔ الرسالة:ص ٣٥٧۔٣٥٩'٤٧١۔٤٧٢ ؛ الأم : ٧/ ٢٨١
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اجماع صریح کے بالمقابل دوسری قسم اجماع سکوتی کی ہے۔ ڈاکٹروہبہ الزحیلی اجماع سکوتی کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' ھو أن یقول بعض المجتھدین فی العصر الواحد قولاً فی مسألة و یسکت الباقون بعد اطلاعھم علی ھذا القول من غیر انکار.''(١)
''اجماع سکوتی یہ ہے کہ کسی زمانے میں کسی مسئلے میں مجتہدین کی ایک جماعت ایک قول کہے اور باقی مجتہدین اس قول کو جان لینے کے بعد بھی خاموش رہیں اور اس کا انکار نہ کریں۔''
اجماع سکوتی جمیع علماء کے ہاںممکن الوقوع ہے لیکن اس کی حجیت کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے اجماع سکوتی کی حجیت کے بارے علمائے أصول کے بارہ اقوال نقل کیے ہیں۔(٢) ڈاکٹر وہبہ الزحیلی ان اقوال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' وللعلماء فیہ خمسة مذاہب أولھا مذھب الشافعی وعیسی بن أبان و الباقلانی والمالکیة: لایکون اجماعاً ولا حجة. ثانیھا مذھب أکثر الحنفیة والامام أحمد: یعتبر اجماعاً وحجة قطعیة. ثالثھا مذھب أبی علی الجبائی أنہ اجماع بعد انقراض عصرھم لأن استمرارھم علی السکوت الی الموت یضعف الاحتمال.رابعھا مذھب أبی ھاشم بن أبی علی أنہ لیس بجماع لکنہ حجة و اختار الآمدی أنہ جماع ظنی یحتج بہ وھو قریب من ھذا المذھب وأیدہ ابن الحاجب فی مختصرہ الکبیر والکرخی من الحنفیة.خامسھا مذھب ابن أبی ھریرة أنہ ان کان القائل حاکماً لم یکن جماعاً ولا حجة ولا فھو اجماع وحجة.''(٣)
''اس مسئلے میں علماء کے پانچ مذاہب ہیں۔پہلا مذہب امام شافعی' عیسی بن أبان' باقلانی اور مالکیہ کا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نہ تو اجماع ہے اور نہ ہی حجت ہے۔ دوسرا مذہب جمہور حنفیہ اور امام أحمد کا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ اجماع اور قطعی حجت ہے۔تیسرا مذہب أبو علی الجبائی کا ہے کہ یہ اجماع تو ہے لیکن ان مجتہدین کے زمانہ کے گزر جانے کے بعد کیونکہ موت تک ان کا سکوت پر استمرار ایک ضعیف احتمال ہے۔ چوتھا مذہب أبو ہاشم کا ہے کہ یہ اجماع تو نہیں ہے لیکن حجت ہے۔ علامہ آمدی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ظنی اجماع ہے لیکن قابل احتجاج ہے۔ علامہ آمدی کا موقف بھی چوتھی رائے کے قریب قریب ہے۔ ابن حاجب نے اپنی کتاب 'المختصر' میں اور حنفیہ میں سے امام کرخی نے بھی اسی مذہب کی تائید کی ہے۔ پانچواں قول ابن أبی ہریرة کا ہے کہ اگر قائل حاکم ہو تو یہ نہ تو اجماع ہوگا اور نہ ہی حجت اور اگر وہ حاکم نہ ہو تو یہ اجماع بھی ہے اور حجت بھی۔''
جو علماء اجماع سکوتی کی حجیت کے قائل ہیں' انہوں نے اس کے حجت ہونے کے لیے کچھ شرائط عائد کی ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی ان شرائط کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' أما القائلون بحجیة الاجماع السکوتی وھم (الحنفیة والحنابلة) فقد اشترطوا فی توافر ھذا الاجماع:١۔ أن یکون السکوت مجرداً عن علامة الرضا أو الکراھة.٢۔ وأن ینتشر الرأی المقول بہ من مجتھد بین أھل العصر.٣۔ وتمضی مدة کافیة للتأمل والبحث فی المسألة۔٤۔ وأن تکون المسألة اجتھادیة.٥۔ وأن تنفی الموانع التی تمنع من اعتبار ھذا السکوت موافقة کالخوف من سلطان جائر أو عدم مضی مدة تکفی للبحث أو أن یکون الساکت ممن یرون أن کل مجتھد مصیب فلا ینکر ما یقولہ غیرہ لأنہ من مواضع الاجتھاد أو یعلم أنہ لو أنکر لا یلتفت لیہ ونحو ذلک.''(٤)
''جو لوگ اجماع سکوتی کی حجیت کے قائل ہیں یعنی حنفیہ اور حنابلہ' انہوں نے اس اجماع کے پائے جانے میں چند شرائط عائد کی ہیں۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ مجتہدین کے ایک طبقے کا سکوت رضا یا کراہت کی علامات سے خالی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جو رائے کسی ایک مجتہد کی طرف سے پیش کی گئی ہے' وہ اہل زمانہ میں پھیل جائے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مسئلے میں غور و فکر اورتحقیق کے لیے ایک مناسب مدت گزر چکی ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مسئلہ اجتہادی ہو۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ موانع موجود نہ ہوں جو اس سکوت کا اعتبار کرنے میں مانع ہوں جیساکہ ظالم حکمران کا خوف یا تحقیق کے لیے مناسب مدت کا نہ پایا جانا یا سکوت اختیار رکرنے والے مجتہدین وہ ہوں' جن کی یہ رائے ہو کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ اپنے علاوہ مجتہدین کے اقوال کا اس وجہ سے انکار نہ کرتے ہوں کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں یا اس مجتہد کا یہ خیال ہو کہ اگر میں نے انکار بھی کیا تو کوئی توجہ نہ دے گا وغیرہ ذلک۔''

حواشی
١۔أصول الفقہ الاسلامی:١ /٥٥٢
٢۔ارشاد الفحول: ١/ ٢٢٤۔٢٢٦
٣۔أصول الفقہ الاسلامی:١/ ٥٥٢
٤۔أیضاً: ص٥٥٣
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اجتماعی اجتہاد' بعض صورتوں میں اجماع سکوتی کا درجہ حاصل کر سکتا ہے' خصوصاً جبکہ ایک خاص وقت گزر جانے کے باوجود بھی اس کے مخالف رائے موجود نہ ہو۔ اجماع سکوتی ہی کے قبیل کی ایک اور قسم اجماع استقرائی بھی بعض علماء نے بیان کی ہے۔ محمد حسین الجیزانی اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' ومثلہ الاجماع الاستقرائی وھو أن تستقرأ أقوال العلماء فی مسألة فلا یعلم خلاف فیھا.''(١)
''اس کی مانند استقرائی اجماع بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں علماء کے اقوال کا استقراء کیا جائے تو اس میں کوئی اختلاف معلوم نہ ہو۔''

اجماع سندی اور اجماع مذہبی
ایک اور پہلو سے اجماع کی دو بڑی قسمیں بیان کی گئی ہیں : اجماع سندی اور اجماع مذہبی۔ ڈاکٹر أحمد حسن، اجماع سندی کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اجماع سندی سے مراد یہ ہے کہ امت مسلمہ کے تمام علماء کسی زمانہ میں کسی مسئلہ پر اتفاق کر لیں اور ان کے اس اجماع کی خبر روایت و سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہو۔''(٢)
اجماع مذہبی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر أحمد حسن لکھتے ہیں:
''اجماع مذہبی سے مراد یہ ہے کہ کسی مسلک کے کچھ مجتہدین و علماء کسی مسئلہ پر اتفاق کر لیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں: مرکب و غیر مرکب۔''(٣)
اجماع مذہبی کوئی شرعی حجت نہیں ہے لیکن معلومات میں اضافے کے لیے مفید ہے۔ جیسا کہ أئمہ أربعہ یا أئمہ ثلاثہ کا کسی مسئلہ میں اتفاق بھی اجماع مذہبی ہی کی ایک مثالیں ہیں۔ اجتماعی اجتہاد' اجماع مذہبی ہو سکتا ہے۔

اجماع مرکب و غیر مرکب
ڈاکٹر أحمد حسن، اجماع مرکب کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''مرکب وہ ہے جس میں کسی مسئلہ کے حکم کے بارے میں بہت سی رائیں اکھٹی ہوجائیں لیکن علت حکم میں اختلاف ہو۔ جیسے کسی شخص کو قے آ جائے اور اس حالت میں وہ کسی عورت کو ہاتھ بھی لگائے تو امام شافعی اور امام أبو حنیفہ دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ امام أبو حنیفہ کے نزدیک قے کے سبب اور امام شافعی کے نزدیک عورت کو ہاتھ لگانے کے سبب سے۔ یہ اجماع دونوں علتوں میں سے ایک کے فاسد ہونے سے حجت کے قائل نہیں رہتا...اجماع مرکب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب مجتہدین کسی مسئلہ میں اختلاف کریں اور بعد کے دور میں مختلف مسالک کے فقہاء علیحدہ علیحدہ ان میں سے کسی ایک رائے پر اتفاق کر لیں تو اب ان دو یاتین اقوال پر اجماع کیا جائے گا اور آئندہ لوگوں کو اس کا اختیار نہ ہو گا کہ اس مسئلہ میں کوئی تیسرا قول یا نظریہ اختیار کریں۔''(٤)

حواشی
١۔معالم أصول الفقہ عند أھل السنة والجماعة: ص١٨٣
٢۔جامع الأصول: ص٢٤٠
٣۔أیضاً
٤۔أیضاً: ص٢٤٠۔ ٢٤١
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اجتماعی اجتہاد بھی اجماع مرکب ہو سکتا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اجماع مرکب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ اسی طرح اجماع غیر مرکب کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر أحمد حسن لکھتے ہیں:
''اجماع غیر مرکب: اس سے مراد یہ ہے کہ فقہاء کا ایسے مسئلہ پر اتفا ق ہو جس میں دو قول نہ ہوں بلکہ ایک قول ہو۔ اس میں امت کا ایسے مسائل پر اتفاق ہے جس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں۔ یہ عقائد اور فرائض میں اجماع ہے۔ جس مسئلہ میں صرف ایک رائے پر اتفاق ہو جائے اور تمام فقہاء اس کو تسلیم کر لیں تو وہ غیرمرکب ہے۔''(١)

اجماع قطعی اور اجما ع ظنی
حجت ہونے کے اعتبارسے اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ اجماع قطعی اور اجماع ظنی۔ اجماع قطعی' حجت ہے جبکہ اجماع ظنی' شرعی حجت نہیں ہے۔ ابن قدامہ المقدسی حنبلی فرماتے ہیں:
'' الاجماع ینقسم الی مقطوع ومظنون فالمقطوع ما وجد فیہ الاتفاق مع الشروط التی لا تختلف فیہ مع وجودھا ونقلہ أھل التواتر والمظنون ما اختلف فیہ أحد القیدین بأن توجد شروطہ مع الاختلاف فیہ کالاتفاق فی بعض العصر وجماع التابعین علی أحد قولی الصحابة أو یوجد القول من البعض والسکوت من الباقی أو توجد شروطہ ولکن ینقلہ الآحاد.''(٢)
''اجماع کی دو قسمیں ہیں : قطعی اور ظنی۔ قطعی اجماع سے مراد وہ ہے جس میں علماء کا اتفا ق ہو اور اس میں وہ تمام شرائط بھی پائی جاتی ہوں جو اختلافی نہ ہوں اور اسے نقل کرنے والے متواتر ہوں۔ جبکہ ظنی اجماع سے مراد ہے جس میں دو قیدوں میں سے ایک اختلافی ہو جائے یعنی اس کی شروط تو پائی جا رہی ہوں لیکن ان شروط کی تکمیل میں اختلاف ہو جیسا کہ مجتہدین کا (ایک زمانے کی بجائے) زمانے کے بعض حصے میں اتفاق یا تابعین کا صحابہ کے دو اقوال میں سے ایک پر اتفاق یا بعض کی طرف سے قول کا اظہار ہو اور بعض کی طرف سے سکوت ہو یا اس کی شرائط تو پائی جا رہی ہوں لیکن وہ خبر واحد سے منتقل ہو رہا ہو۔''
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اجتماعی اجتہاد بھی اجماع ظنی ہی کی ایک قسم ہے۔

اجماع عام اور اجماع خاص
اپنے اہل کے اعتبار سے اجماع کی د وقسمیں ہیں : اجماع عام اور اجماع خاص۔ ڈاکٹر محمد بن حسین الجیزانی لکھتے ہیں:
'' فاجماع العامة ھو اجماع عامة المسلمین علی ما علم من ھذا الدین بالضرورة کالاجماع علی وجوب الصلاة والصوم والحج وھذا قطعی لا یجوز فیہ التنازع.واجماع الخاصة دون العامة ھو ما یجمع علیہ العلماء کاجماعھم علی أن الوطء مفسد للصوم وھذا النوع من الاجماع قد یکون قطعیاً وقد یکون غیر قطعی فلا بد من الوقوف علی صفتہ للحکم علیہ.''(٣)
''اجماع عامہ سے مراد عامةالمسلمین کاضروریات دین پر اجماع ہے جیسا کہ ان کا نماز' روزے اور حج کے وجوب پر اجماع ہے۔ یہ اجماع قطعی ہے اور اس میں اختلاف جائز نہیں ہے۔ اجماع خاص سے مراد علماء کا اجماع ہے جیسا کہ علماء کا اس بات پر اجما ع ہے کہ وطی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اجماع کی یہ قسم بعض اوقات قطعی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں غیر قطعی' پس اس پر حکم جاری کرنے سے پہلے اس کی قطعیت یا غیر قطعیت کی صفت سے واقفیت ضروری ہے۔''

حواشی
١۔جامع الأصول:ص٢٤٠۔ ٢٤١
٢۔روضة الناظر وجنة المناظر: ص١٥٤
٣۔معالم أصول الفقہ: ص ١٨٤
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
امام شافعی نے بھی اجماع کی ان دونوں قسموں کو بیان کیا ہے۔ (١)

ہم تک نقل ہونے کے اعتبار سے اجماع کی اقسام
ہم تک نقل ہونے کے اعتبار سے بھی اجماع کی دوقسمیں ہیں۔ ڈاکٹر محمد بن حسین الجیزانی لکھتے ہیں:
''وباعتبار نقلہ لینا ینقسم الاجماع الی اجماع ینقلہ أھل التواتر واجماع ینقلہ الآحاد وکلا القسمین یحتاج الی نظر من جھتین:من جھة صحة النقل وثبوتہ ومن جھة نوع الاجماع ومرتبتہ.''(٢)
''ہم تک نقل ہونے کے اعتبار سے اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ اجماع جسے متواتر لوگ نقل کرتے ہیں اور دوسرا وہ اجماع جسے آحاد نقل کرتے ہیں۔ ان دونوں قسموں پر دو اعتبارات سے غور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے نقل کی صحت کے اعتبار سے اور ان کی نوعیت اور مرتبے کے پہلو سے۔''
امام شافعی نے تواتر سے منقول اجماع کی قسم کو حجت قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بقول ایسا اجماع عموماً ان ضروریات اور أصول دین میں ہوتاہے جو سنت سے ثابت ہوں اور ان کے سنت ہونے پرامت کااجماع بھی ہو اور اس اجماعی سنت کونقل کرنے والی عوام الناس کی ایک کثیر جماعت ہو۔(٣)

نقل روایت اور فہم نص پر اجماع
مجمع علیہ مسئلے کے اعتبار سے بھی اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ بعض اوقات مجمع علیہ مسئلہ ایسا ہوتا ہے جو کسی نص سے ثابت ہوتا ہے اور امت کا اجماع اس کے بطور نص ثابت ہونے پر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کے ثبوت پر امت کا اجماع ہے اور بعض اوقات کسی نص کے فہم پر امت کا اجماع ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کی نص 'أقیموا الصلاة' میں فعل أمر وجوب کے لیے ہے اور اس نص سے وجوب صلوة ثابت ہوتا ہے حالانکہ لغوی طور پر اس بات کا احتمال ہے کہ فعل أمر یہاں استحباب یا اباحت کے معنی میں ہو لیکن علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس نص میں فعل امر وجوب کے لیے ہے۔ امام شافعی نے اجماع کی ان دونوں قسموں کو بیان کیا ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں:
'' قال الشافعی: فقال لی قائل: قد فھمت مذھبک فی أحکام اللہ ثم أحکام رسولہ ون من قبل عن رسول اﷲ فعن اﷲ قبل بأن اﷲ افترض طاعة رسولہ وقامت الحجة بما قلت بأن لا یحل لمسلم علم کتاباً ولا سنة أن یقول بخلاف واحد منھما وعلمت أن ھذا فرض اللہ فما حجتک فی أن تتبع ما اجمتع الناس علیہ مما لیس منہ نص حکم اﷲ ولم یحکوہ عن النبیۖ.أ تزعم ما یقول غیرک أن جماعھم لا یکون أبدا لا علی سنة ثابتة ون لم یحکوھا قال فقلتہ أما ما اجتمعوا علیہ فذکروا أنہ حکایة عن رسول اﷲ فکما قالوا ان شاء اﷲ وأما ما لم یحکوہ فاحتمل أن یکون قالوا حکایة عن رسول اﷲۖ واحتمل غیرہ ولا یجوز أن نعدہ لہ حکایة لأنہ لا یجوز أن یحکی لا مسموعاً.''(٤)
''امام شافعی فرماتے ہیں : کہ مجھے ایک کہنے والے نے کہا: میں نے اللہ تعالی اور پھر اس کے رسول کے احکام کے بارے آپ کا مذہب اچھی طرح سمجھ لیا ہے ۔پس جو شخص بھی اللہ کے رسول کی طرف سے خبر کو قبول کرے گا وہ اللہ ہی کی خبر قبول کرے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے رسول e کی اطاعت کو فرض کیا ہے اور جو کچھ (دلائل ) آپ نے (اس مسئلے میں) بیان کیے ہیں اس سے حجت قائم ہو جاتی ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کتاب و سنت کی خبر پہنچ جانے کے بعد اس کی مخالفت کرے اور میں نے یہ بھی جان لیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس (طرز عمل) کو فرض قرار دیا ہے لیکن یہ بتلائیں کہ جس بات پر لوگوں کا اجماع ہو گیا ہو اس کے اتباع کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے جبکہ اس (اجماع) کے بارے میں کتاب اللہ کی نہ تو کوئی نص موجود ہو اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہوجسے لوگ اللہ کے رسول سے بیان کر رہے ہوں۔ (سائل نے مزید کہا) کیا آپ کا موقف بھی وہی ہے جو آپ کے علاوہ بعض علماء کا ہے کہ اجماع ہمیشہ کسی ایسی سنت پر ہو گا جو کہ ثابت ہو اگرچہ لوگ اس سنت کو آپ کی طرف منسوب نہ کر رہے ہوں۔ میں نے کہا: اگر تو کسی بات پر ان کا اجماع ہو گیا ہے اور وہ اسے اللہ کے رسو ل سے نقل بھی کر رہے ہیں تو اس کا معاملہ تو ویسا ہی ہے ان شاء اللہ تعالی جیسا کہ انہوں نے بیان کیاہے (یعنی آپ سے ثابت ہونے کی وجہ سے دین ہے) اور جس کو انہوں نے اللہ کے رسول سے بیان نہیں کیا ہے (لیکن اس کے دین ہونے پر ان کا اجماع ہے ) تو اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے یہ بات اللہ کے رسول سے نقل کی ہو اور اس کے غیر کابھی احتمال ہے ( یعنی کسی نص کا فہم ہو)۔ ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اس قسم کے اجماع کو اللہ کے رسول سے منقول قرار دیں کیونکہ آپ سے اسی چیز کی حکایت جائز ہے جو سن کر نقل کی گئی ہو۔ ''
جاری ہے​

حواشی
١۔الأم: ٧/ ٢٨١ ؛ جماع العلم:ص٣٨۔٣٩
٢۔معالم أصول الفقہ:ص١٨٤۔١٨٥
٣۔جماع العلم: ص ٣٣ ؛ الرسالة: ص٤٧١۔٤٧٣
٤۔الرسالة: ص٤٧١۔٤٧٢
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top