راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اما بعد !
! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اما بعد !
پچھلی امتوں کی طرح اس امت کے لوگ بھی فرقہ بندی کا شکار ہو چکے ہیں - اس فرقہ بندی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے الله تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت کو چھوڑ دیا اور اپنے اپنے آباؤ اجداد کے خود ساختہ مذاہب کی پیروی شروع کر دی - کسی نے تحقیق کرنا گوارا نہ کیا اور یوں تقلید جیسی گمراہی اس امت میں بھی شامل ہو گئی -تقلید شخصی جیسی گمراہی اپنے اندر مزید بہت سی گمراہیاں سمیٹے ہوۓ ہے اور انہیں میں سے ایک قرآن اور حدیث نبوی میں تحریف کرنا بھی شامل ہے -
ہر فرقہ یہی کوشش کرتا ہے کہ قرآن اور حدیث نبوی میں جو باتیں اس کے خلاف ہیں ، ان میں تحریف کر دی جائے تاکہ ہمارا فرقہ محفوظ رہے -
یہ عمل یہود و نصاریٰ والا ہے
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ
کیا پس تم توقع رکھتے ہو کہ وہ ایمان لے آئیں گے تمہاری (دعوت) پر حالانکہ یقینا ایک گروہ ایساہے ان میں (جو) سنتے ہیں اللہ کا کلام پھر بدل ڈالتے ہیں اسے اس کے بعد کہ سمجھ لیتے ہیں اسے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔
(البقرہ -75)
فرقے اجتہاد کو ثابت کرنے کے لئے ایک حدیث نبوی کا مطلب بدل کر پیش کرتے ہیں جس کا ہم جائزہ لیں گے اور حق بات آپ کے سامنے رکھیں گے - ان شاء الله
یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم میں ہے
حدیث درج ذیل ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ الْمَکِّيُّ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَکَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
عبداللہ بن یزید، حیوۃ، یزید بن عبداللہ بن الہاد، محمد بن ابراہیم بن حارث، بسربن سعید، ابوقیس عمرو بن عاص کے آزاد کردہ غلام حضرت عمروبن عاص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تو اس کو ایک ثواب ملے گا، یزید بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے یہ حدیث ابوبکر بن عمرو، بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بواسطہ حضرت ابوہریرہ (رض) اسی طرح بیان کی ہے اور عبدالعزیز بن مطلب نے عبداللہ بن ابی بکر سے انہوں نے ابوسلمہ سے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کی مثل نقل کیا ہے۔
(صحیح بخاری و مسلم )
قارئین ! مندرجہ بالا حدیث میں لفظ " حاکم " وارد ہوا ہے - لفظ عالم نہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حاکم یا قاضی یا خلیفۃ المسلمین وغیرہ کو ایک قسم کی آسانی دی ہے ۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ حاکم کا فیصلہ جو اس نے فریقین کے درمیان کیا ہو گا وہ فیصلہ ہو گا قانون نہیں ہو گا -اس فیصلہ کو شریعت کی حیثیت حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ بطور فیصلہ عارضی ہو گا اور ہنگامی طور پر اس کو تسلیم کر لیا جائے گا - پھر اس حاکم کے بعد دوسرا حاکم جو اس حکومت کا والی ہو گا تو وہ اس بات کا مکلف نہیں ہو گا کہ جو فیصلے سابقہ حکومت میں ہو چکے ہیں وہ ان کے مطابق ہی فیصلہ کرے بلکہ وہ آزاد ہو گا ۔
برخلاف اس کے آج فرقوں کے ہاں ان کے مجتہد کا فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر شریعت میں شامل ہو جاتا ہے -جبکہ مجتہد کو قرآن مجید اور سنّت رسول کے مطابق مسئلہ بتانا چاہیے نہ کہ مسائل سازی کرنا ، شریعت سازی کرنا ، مسائل گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بتانا۔
کیا حدیث نبوی اس بات کی اجازت دیتی ہے ۔حدیث سے غلط قسم کا استدلال کر کے لوگوں کو دھوکا دیا جائے ،بے حد افسوس کی بات ہے ۔
عالم یا مجتہد ، اجتہاد کے سلسلے میں ماجور نہیں ہے بلکہ حاکم وقت اس بات کا حقدار ہے کہ الله تعالیٰ ہر حال میں اس کو اجر و ثواب سے نوازتا ہے ۔
مزید برآں فیصلہ کرنا اور اجتہاد کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے ۔
فیصلہ فریقین کے درمیان مقدمات میں ہوتا ہے اور یہ چیز جائز ہے -
جبکہ اجتہاد و قیاس فرقوں کے علماء اور فقہاء مسائل میں کرتے ہیں جس کی اجازت الله تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی ، لہذا یہ چیز ناجائز ہوئی ۔
مسائل سازی صرف الله تعالیٰ کا کام ہے - الله تعالیٰ فرماتا ہے
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ
اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے ‘ اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو کہ قائم کرو دین کو۔ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) ُچن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔
(شوریٰ -13)
کسی انسان کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ مسائل میں اجتہاد کرے اور پھر اپنے خود ساختہ مسائل کو الله کی طرف منسوب کر دے ، یہ چیز قطعا حرام ہے - الله تعالیٰ نے اس چیز کی اجازت کسی کو نہیں دی بلکہ یہ چیز شرک کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے جو کسی طرح بھی برداشت نہیں کی جائے گی ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
کیا ان لوگوں نے (اللہ کے) ایسے شریک (بنا رکھے) ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا کوئی ایسا راستہ طے کردیا ہو جس کا اِذن الله نے نہیں دیا ؟ اور اگر ایک قطعی حکم پہلے سے طے نہ ہوچکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ اور ظالموں کے لیے تو بہت دردناک عذاب ہے۔
(شوریٰ -21)
ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟
اس سے مراد، انسان یا انسانوں کے گروہ ہی ہو سکتے ہیں ۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔ اور ایسے لوگ پارلیمنٹ یا ایوانوں کے ممبر بھی ہوسکتے ہیں۔ خود سر حکمران بھی، آستانوں اور مزاروں کے متولی اور مجاور بھی اور گمراہ قسم کے فلاسفر اور مصنف بھی۔ انہیں ہی طاغوت کہا جاتا ہے۔
الله تعالیٰ کے علاوہ شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ
اور مت کہوجس کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرو یقیناً جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے
(النحل – 116)
یہ امت یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے لگ چکی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے -
ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ
تم پہلی امتوں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے، آپ نے فرمایا کہ اور کون ہوسکتا ہے۔
(صحیح بخاری)
شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کفّار بھی کرتے رہے اور اہل کتاب کے علماء اور مشائخ بھی کرتے رہے - مشرکین (وغیرہ) کی شریعت سازی یا حلال و حرام کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ ۭسَيَجْزِيْهِمْ بِمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ
اور کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی ممنوع ہیں ‘ ان کو نہیں کھا سکتے مگر وہی جن کے بارے میں ہم چاہیں ‘ اپنے گمان کے مطابق اور کچھ چوپائے ہیں جن کی پیٹھیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ‘ اور کچھ چوپائے ہیں جن پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے ‘ یہ سب کچھ جھوٹ گھڑتے ہیں اس پر اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کے اس افترا کی
وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ
اور وہ کہتے ہیں جو کچھ ان چوپایوں کے پیٹوں میں ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر وہ حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہو تو پھر وہ سب اس میں حصہ دار ہوں گے۔ اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کی ان باتوں کی جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ‘ وہ یقیناً حکیم اور علیم ہے
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ
یقیناً نامراد ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا بےوقوفی سے ‘ بغیر علم کے ‘ اور انہوں نے حرام کرلیا (اپنے اوپر) وہ رزق جو اللہ نے انہیں دیا تھا اللہ پر افترا کرتے ہوئے وہ گمراہ ہوچکے ہیں اور اب ہدایت پر آنے والے نہیں ہیں
(الانعام -138تا 140)
اہل کتاب کے علماء اور مشائخ حلال اور حرام کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور عوام ان کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے ۔
اس فعل کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ
انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علماءکو اور اپنے درویشوں کو اپنا رب، اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو بھی حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی، پاک ہے وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں
(التوبہ -31)
مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ کفار مکّہ اور اہل کتاب کے علما اور مشائخ حرام و حلال کا فیصلہ خود کرتے تھے اور پھر اسے الله تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے -یہ ان کی الله تعالیٰ پر افتراء پردازی تھی ۔
سورة توبہ کی مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ علماء اور مشائخ کے حلال و حرام کے فیصلہ کو ماننا ، ان کو رب بنانا ہے ، یہ ان کی عبادت ہے ۔فیصلہ کر سکتا ہے ، دوسرا کوئی نہیں کر سکتا - سورة توبہ کی آیت کے آخری جملے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عوام علماء اور مشائخ کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا کرتے تھے اور یہ فعل الله تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے ۔
قرآن اور حدیث نبوی میں اتنی وضاحت کے ساتھ بات سمجھائی گئی لیکن لوگ اس کے باوجود شرک اور فرقہ بندی کا شکار ہیں ۔
جو کام یہود و نصاریٰ کرتے تھے وہی کام آج اس امت کے فرقے کر رہے ہیں ۔
سورة شوریٰ کی آیت 21 کا خلاصہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے دین میں شریعت سازی کرنے والا گویا خود شارع بن بیٹھتا ہے - اس کا یہ فعل گویا الله تعالیٰ کے منصب میں الله تعالیٰ کے ساتھ شرکت ہے اور جو لوگ ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ گویا ان کو شریعت سازی میں الله تعالیٰ کا شریک مانتے ہیں ۔
یہ دونوں الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کر رہے ہیں اور یہ لوگ بڑے ظالم ہیں ۔
توحید تمام اعمال صالحہ کی اصل ہے ، اگر توحید نہیں تو تمام اعمال صالحہ بیکار ہیں. توحید نہیں تو ایمان نہیں . توحید کے بغیر نجات نہیں اور شرک کی موجودگی میں نجات ناممکن ہے . شرک کسی حالت میں معاف نہیں ہو گا . اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے :۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا
بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے تو اس نے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا
.(النساء -48)
ایمان لانے کے بعد جو شخص شرک کرے گا تو اس کا ایمان اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا - ایمان وہی مفید ہو گا جس کے ساتھ شرک کی آمیزش نہ ہو ۔
اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے : ۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہیں ملایا ان کے لیے امن اور سکون ہے اور وہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
(الانعام - 82)
رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیہ وسلّم کے فرمان کے مطابق (آیت بالا میں ) ظلم سے مراد شرک ہے -
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ قَالَ لَيْسَ کَمَا تَقُولُونَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ بِشِرْکٍ أَوَلَمْ تَسْمَعُوا إِلَی قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
عمر بن حفص بن غیاث ان کے والد اعمش ابراہیم علقمہ حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت کریمہ "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا" نازل ہوئی تو ہم نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں ایسا کون ہے جس نے اپنے اوپر ظلم نہیں کیا فرمایا یہ بات تمہارے خیال کے مطابق نہیں ہے بلکہ ( لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) میں ظلم سے مراد شرک ہے کیا تم نے لقمان کی بات جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہی تھی نہیں سنی کہ "اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے"۔
(صحیح بخاری و صحیح مسلم )
ایک اور جگہ اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا : -
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ
اور نہیں ایمان لاتے ان میں سے اکثر اللّٰه پر مگر اس حال میں کہ وہ مشرک ہوتے ہیں .
(یوسف - 106)
آیت بالا سے ثابت ہوا کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں۔
شرک کو قرآن مجید میں بدترین گناہ اور سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے نیک انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرمائے !
آمین یا رب العلمین
والحمد لله رب العلمین
آمین یا رب العلمین
والحمد لله رب العلمین