• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجتہاد کون کرے گا ؟

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اما بعد !
! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
پچھلی امتوں کی طرح اس امت کے لوگ بھی فرقہ بندی کا شکار ہو چکے ہیں - اس فرقہ بندی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے الله تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت کو چھوڑ دیا اور اپنے اپنے آباؤ اجداد کے خود ساختہ مذاہب کی پیروی شروع کر دی - کسی نے تحقیق کرنا گوارا نہ کیا اور یوں تقلید جیسی گمراہی اس امت میں بھی شامل ہو گئی -تقلید شخصی جیسی گمراہی اپنے اندر مزید بہت سی گمراہیاں سمیٹے ہوۓ ہے اور انہیں میں سے ایک قرآن اور حدیث نبوی میں تحریف کرنا بھی شامل ہے -
ہر فرقہ یہی کوشش کرتا ہے کہ قرآن اور حدیث نبوی میں جو باتیں اس کے خلاف ہیں ، ان میں تحریف کر دی جائے تاکہ ہمارا فرقہ محفوظ رہے -
یہ عمل یہود و نصاریٰ والا ہے

الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ

کیا پس تم توقع رکھتے ہو کہ وہ ایمان لے آئیں گے تمہاری (دعوت) پر حالانکہ یقینا ایک گروہ ایساہے ان میں (جو) سنتے ہیں اللہ کا کلام پھر بدل ڈالتے ہیں اسے اس کے بعد کہ سمجھ لیتے ہیں اسے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔
(البقرہ -75)

فرقے اجتہاد کو ثابت کرنے کے لئے ایک حدیث نبوی کا مطلب بدل کر پیش کرتے ہیں جس کا ہم جائزہ لیں گے اور حق بات آپ کے سامنے رکھیں گے - ان شاء الله
یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم میں ہے
حدیث درج ذیل ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ الْمَکِّيُّ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَکَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ

عبداللہ بن یزید، حیوۃ، یزید بن عبداللہ بن الہاد، محمد بن ابراہیم بن حارث، بسربن سعید، ابوقیس عمرو بن عاص کے آزاد کردہ غلام حضرت عمروبن عاص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تو اس کو ایک ثواب ملے گا، یزید بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے یہ حدیث ابوبکر بن عمرو، بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بواسطہ حضرت ابوہریرہ (رض) اسی طرح بیان کی ہے اور عبدالعزیز بن مطلب نے عبداللہ بن ابی بکر سے انہوں نے ابوسلمہ سے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کی مثل نقل کیا ہے۔
(صحیح بخاری و مسلم )

قارئین ! مندرجہ بالا حدیث میں لفظ " حاکم " وارد ہوا ہے - لفظ عالم نہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حاکم یا قاضی یا خلیفۃ المسلمین وغیرہ کو ایک قسم کی آسانی دی ہے ۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ حاکم کا فیصلہ جو اس نے فریقین کے درمیان کیا ہو گا وہ فیصلہ ہو گا قانون نہیں ہو گا -اس فیصلہ کو شریعت کی حیثیت حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ بطور فیصلہ عارضی ہو گا اور ہنگامی طور پر اس کو تسلیم کر لیا جائے گا - پھر اس حاکم کے بعد دوسرا حاکم جو اس حکومت کا والی ہو گا تو وہ اس بات کا مکلف نہیں ہو گا کہ جو فیصلے سابقہ حکومت میں ہو چکے ہیں وہ ان کے مطابق ہی فیصلہ کرے بلکہ وہ آزاد ہو گا ۔
برخلاف اس کے آج فرقوں کے ہاں ان کے مجتہد کا فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر شریعت میں شامل ہو جاتا ہے -جبکہ مجتہد کو قرآن مجید اور سنّت رسول کے مطابق مسئلہ بتانا چاہیے نہ کہ مسائل سازی کرنا ، شریعت سازی کرنا ، مسائل گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بتانا۔
کیا حدیث نبوی اس بات کی اجازت دیتی ہے ۔حدیث سے غلط قسم کا استدلال کر کے لوگوں کو دھوکا دیا جائے ،بے حد افسوس کی بات ہے ۔
عالم یا مجتہد ، اجتہاد کے سلسلے میں ماجور نہیں ہے بلکہ حاکم وقت اس بات کا حقدار ہے کہ الله تعالیٰ ہر حال میں اس کو اجر و ثواب سے نوازتا ہے ۔

مزید برآں فیصلہ کرنا اور اجتہاد کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے ۔

فیصلہ فریقین کے درمیان مقدمات میں ہوتا ہے اور یہ چیز جائز ہے -
جبکہ اجتہاد و قیاس فرقوں کے علماء اور فقہاء مسائل میں کرتے ہیں جس کی اجازت الله تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی ، لہذا یہ چیز ناجائز ہوئی ۔
مسائل سازی صرف الله تعالیٰ کا کام ہے - الله تعالیٰ فرماتا ہے
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ

اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے ‘ اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو کہ قائم کرو دین کو۔ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) ُچن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔
(شوریٰ -13)

کسی انسان کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ مسائل میں اجتہاد کرے اور پھر اپنے خود ساختہ مسائل کو الله کی طرف منسوب کر دے ، یہ چیز قطعا حرام ہے - الله تعالیٰ نے اس چیز کی اجازت کسی کو نہیں دی بلکہ یہ چیز شرک کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے جو کسی طرح بھی برداشت نہیں کی جائے گی ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

کیا ان لوگوں نے (اللہ کے) ایسے شریک (بنا رکھے) ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا کوئی ایسا راستہ طے کردیا ہو جس کا اِذن الله نے نہیں دیا ؟ اور اگر ایک قطعی حکم پہلے سے طے نہ ہوچکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ اور ظالموں کے لیے تو بہت دردناک عذاب ہے۔
(شوریٰ -21)

ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟
اس سے مراد، انسان یا انسانوں کے گروہ ہی ہو سکتے ہیں ۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔ اور ایسے لوگ پارلیمنٹ یا ایوانوں کے ممبر بھی ہوسکتے ہیں۔ خود سر حکمران بھی، آستانوں اور مزاروں کے متولی اور مجاور بھی اور گمراہ قسم کے فلاسفر اور مصنف بھی۔ انہیں ہی طاغوت کہا جاتا ہے۔

الله تعالیٰ کے علاوہ شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ

اور مت کہوجس کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرو یقیناً جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے
(النحل – 116)

یہ امت یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے لگ چکی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے -
ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ

تم پہلی امتوں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے، آپ نے فرمایا کہ اور کون ہوسکتا ہے۔
(صحیح بخاری)

شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کفّار بھی کرتے رہے اور اہل کتاب کے علماء اور مشائخ بھی کرتے رہے - مشرکین (وغیرہ) کی شریعت سازی یا حلال و حرام کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ ۭسَيَجْزِيْهِمْ بِمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ

اور کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی ممنوع ہیں ‘ ان کو نہیں کھا سکتے مگر وہی جن کے بارے میں ہم چاہیں ‘ اپنے گمان کے مطابق اور کچھ چوپائے ہیں جن کی پیٹھیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ‘ اور کچھ چوپائے ہیں جن پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے ‘ یہ سب کچھ جھوٹ گھڑتے ہیں اس پر اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کے اس افترا کی
وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ

اور وہ کہتے ہیں جو کچھ ان چوپایوں کے پیٹوں میں ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر وہ حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہو تو پھر وہ سب اس میں حصہ دار ہوں گے۔ اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کی ان باتوں کی جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ‘ وہ یقیناً حکیم اور علیم ہے
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ

یقیناً نامراد ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا بےوقوفی سے ‘ بغیر علم کے ‘ اور انہوں نے حرام کرلیا (اپنے اوپر) وہ رزق جو اللہ نے انہیں دیا تھا اللہ پر افترا کرتے ہوئے وہ گمراہ ہوچکے ہیں اور اب ہدایت پر آنے والے نہیں ہیں
(الانعام -138تا 140)

اہل کتاب کے علماء اور مشائخ حلال اور حرام کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور عوام ان کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے ۔
اس فعل کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علماءکو اور اپنے درویشوں کو اپنا رب، اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو بھی حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی، پاک ہے وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں
(التوبہ -31)

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ کفار مکّہ اور اہل کتاب کے علما اور مشائخ حرام و حلال کا فیصلہ خود کرتے تھے اور پھر اسے الله تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے -یہ ان کی الله تعالیٰ پر افتراء پردازی تھی ۔
سورة توبہ کی مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ علماء اور مشائخ کے حلال و حرام کے فیصلہ کو ماننا ، ان کو رب بنانا ہے ، یہ ان کی عبادت ہے ۔فیصلہ کر سکتا ہے ، دوسرا کوئی نہیں کر سکتا - سورة توبہ کی آیت کے آخری جملے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عوام علماء اور مشائخ کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا کرتے تھے اور یہ فعل الله تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے ۔
قرآن اور حدیث نبوی میں اتنی وضاحت کے ساتھ بات سمجھائی گئی لیکن لوگ اس کے باوجود شرک اور فرقہ بندی کا شکار ہیں ۔
جو کام یہود و نصاریٰ کرتے تھے وہی کام آج اس امت کے فرقے کر رہے ہیں ۔
سورة شوریٰ کی آیت 21 کا خلاصہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے دین میں شریعت سازی کرنے والا گویا خود شارع بن بیٹھتا ہے - اس کا یہ فعل گویا الله تعالیٰ کے منصب میں الله تعالیٰ کے ساتھ شرکت ہے اور جو لوگ ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ گویا ان کو شریعت سازی میں الله تعالیٰ کا شریک مانتے ہیں ۔
یہ دونوں الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کر رہے ہیں اور یہ لوگ بڑے ظالم ہیں ۔
توحید تمام اعمال صالحہ کی اصل ہے ، اگر توحید نہیں تو تمام اعمال صالحہ بیکار ہیں. توحید نہیں تو ایمان نہیں . توحید کے بغیر نجات نہیں اور شرک کی موجودگی میں نجات ناممکن ہے . شرک کسی حالت میں معاف نہیں ہو
گا . اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے :۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا

بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے تو اس نے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا
.(النساء -48)

ایمان لانے کے بعد جو شخص شرک کرے گا تو اس کا ایمان اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا - ایمان وہی مفید ہو گا جس کے ساتھ شرک کی آمیزش نہ ہو ۔
اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے : ۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ

جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہیں ملایا ان کے لیے امن اور سکون ہے اور وہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
(الانعام - 82)

رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیہ وسلّم کے فرمان کے مطابق (آیت بالا میں ) ظلم سے مراد شرک ہے -
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ قَالَ لَيْسَ کَمَا تَقُولُونَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ بِشِرْکٍ أَوَلَمْ تَسْمَعُوا إِلَی قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

عمر بن حفص بن غیاث ان کے والد اعمش ابراہیم علقمہ حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت کریمہ "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا" نازل ہوئی تو ہم نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں ایسا کون ہے جس نے اپنے اوپر ظلم نہیں کیا فرمایا یہ بات تمہارے خیال کے مطابق نہیں ہے بلکہ ( لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) میں ظلم سے مراد شرک ہے کیا تم نے لقمان کی بات جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہی تھی نہیں سنی کہ "اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے"۔
(صحیح بخاری و صحیح مسلم )

ایک اور جگہ اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا : -
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ

اور نہیں ایمان لاتے ان میں سے اکثر اللّٰه پر مگر اس حال میں کہ وہ مشرک ہوتے ہیں .
(یوسف - 106)

آیت بالا سے ثابت ہوا کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں۔
شرک کو قرآن مجید میں بدترین گناہ اور سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے نیک انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرمائے !
آمین یا رب العلمین
والحمد لله رب العلمین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
@راشد محمود
جہالت بیوقوں کے بنائے سے نہیں بنتی
خدا جب عقل لیتا ہے، جہالت آہی جاتی ہے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں
اگر حاکم شرعی نہ ہوں تو پھر کیا کرنا چاہئے؟
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم @راشد محمود صاحب
میری درخواست ہے پہلے اجتھاد کی وہ تعریف بیان کریں جس پر آپ نقد کررہے ہیں۔کیونکہ میرا خیال ہے اگر آپ کو ان اصطلاحات کے معنی پتہ ہوتے تو شاید اسطرح کی پوسٹیں نا کرتے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@تلمیذ بھائی! یہ شعر مجتہدین کے لئے نہیں، بلکہ ان کے اجتہاد کے حق کی نفی کرنے والوں کے لئے ہے!
آپ کا اسے ناپسند کرنا مجھے سمجھ نہیں آیا!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@تلمیذ بھائی! یہ شعر مجتہدین کے لئے نہیں، بلکہ ان کے اجتہاد کے حق کی نفی کرنے والوں کے لئے ہے!
آپ کا اسے ناپسند کرنا مجھے سمجھ نہیں آیا!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تلمیذ صاحب کا کہنا ہے کہ ’ انداز تخاطب ‘ درست نہیں ۔
راشد محمود صاحب جیسے لوگوں کے جواب میں مجھے اس طرح کے تخاطب سے کوئی اختلاف نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فرقے اجتہاد کو ثابت کرنے کے لئے ایک حدیث نبوی کا مطلب بدل کر پیش کرتے ہیں
جسے آپ تحریف کہتے ہیں ، اس معنی کو شروع سے لیکر اب تک علماء کرام بیان کرتے ہیں :
ذَكَرَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَحْمَدَ الشَّافِعِيُّ الْبَغْدَادِيُّ فِي كِتَابِهِ فِي الْقِيَاسِ جُمَلًا مِمَّا ذَكَرَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فِي الرِّسَالَةِ الَبْغَدَادِيَّةِ وَفِي الرِّسَالَةِ الْمِصْرِيَّةِ وَفِي كِتَابِ جِمَاعِ الْعِلْمِ وَفِي كِتَابِ اخْتِلَافِ الْحَدِيثِ فِي الْقِيَاسِ وَفِي الِاجْتِهَادِ قَالَ: " وَفِي هَذَا مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيِّ دَلِيلٌ عَلَى تَرْكِ تَخْطِئَةِ الْمُجْتَهِدِينَ بَعْضِهِمْ لِبَعْضٍ إِذْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ قَدْ أَدَّى مَا كُلِّفَ بِاجْتِهَادِهِ إِذَا كَانَ مِمَّنِ اجْتَمَعَتْ فِيهِ آلَةُ الْقِيَاسِ وَكَانَ مِمَّنْ لَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ وَيَقِيسَ قَالَ: وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا فِي ذَلِكَ فَذَكَرَ مَذْهَبُ الْمُزَنِيِّ قَالَ: وَقَدْ خَالَفَهُ غَيْرُهُ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ: وَلَا أَعْلَمُ اخْتِلَافًا بَيْنَ الْحُذَّاقِ مِنْ شُيُوخِ الْمَالِكِيِّينَ وَنُظَرَائِهِمْ مِنَ الْبَغْدَادِيِّينَ مِثْلِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِسْحَاقَ الْقَاضِي وَابْنِ بُكَيْرٍ وَأَبِي الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيِّ وَمَنْ دُونَهُمْ مِثْلُ شَيْخِنَا عَمْرِو بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْفَرَجِ الْمَالِكِيِّ، وَأَبِي الطِّيبِ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، وَأَبِي الْحَسَنِ بْنِ الْمُنْتَابِ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الشَّيُوخِ الْبَغْدَادِيِّينَ وَالْمِصْرِيِّينَ الْمَالِكِيِّينَ، كُلٌّ يَحْكِي أَنَّ مَذْهَبَ مَالِكٍ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي اجْتِهَادِ الْمُجْتَهِدِينَ وَالْقِيَاِسِيِّينَ إِذَا اخْتَلَفُوا فِيمَا يَجُوزُ فِيهِ التَّأْوِيلُ مِنْ نَوَازِلِ الْأَحْكَامِ أَنَّ [ص:886] الْحَقَّ مِنْ ذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ وَاحِدٌ مِنْ أَقْوَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ إِلَّا أَنَّ كُلَّ مُجْتَهِدٍ إِذَا اجْتَهَدَ كَمَا أُمِرَ وَبَالَغَ وَلَمْ يَأْلُ وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّنَاعَةِ وَمَعَهُ آلَةُ الِاجْتِهَادِ فَقَدْ أَدَّى مَا عَلَيْهِ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُ ذَلِكَ، وَهُوَ مَأْجُورٌ عَلَى قَصْدِهِ الصَّوَابَ وَإِنْ كَانَ الْحَقُّ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ وَاحِدًا، قَالَ: وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ عَمَلُ أَكْثَرِ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: وَهُوَ الْمَشْهُورُ مِنْ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ فِيمَا حَكَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، وَأَبُو يُوسُفَ وَفِيمَا حَكَاهُ الْحُذَّاقِ مِنْ أَصْحَابِهِمْ مِثْلُ عِيسَى بْنِ أَبَانَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعٍ الْبَلْخِيِّ، وَمَنْ تَأَخَّرَ عَنْهُمْ مِثْلُ أَبِي سَعِيدٍ الْبَرْذَعِيِّ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدَ الْجُرْجَانِيِّ وَشَيْخِنَا أَبِي الْحَسَنِ الْكَرْخِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ الْبُخَارِيِّ الْمَعْرُوفِ بِحَدِّ الْجِسْمِ وَغَيْرِهِمْ مِمَّنْ رَأَيْنَا وَشَاهَدْنَا " وَبِاللَّهِ التَّوْفِيقُ قَالَ أَبُو عُمَرَ: قَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ مَالِكٍ فِيمَا وَصَفْنَا وَاخْتَلَفَ فِيهِ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَكَذَلِكَ اخْتَلَفَ فِيهِ أَصْحَابُهُ، وَالَّذِي أَقُولُ بِهِ: إِنَّ الْمُجْتَهِدَ الْمُخْطِئَ لَا يَأْثَمُ إِذَا قَصَدَ الْحَقَّ وَكَانَ مِمَّنْ لَهُ الِاجْتِهَادُ، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ لَهُ فِي قَصْدِهِ الصَّوَابُ وَأَرَادَ بِهِ، لَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ إِذَا صَحَّتْ نِيَّتُهُ فِي ذَلِكَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
جامع بيان العلم وفضله (2/ 885)
الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم (6/ 163)
قوله صلى الله عليه وسلم إذا اجتهد الحاكم عموم لكل مجتهد لأن كل من اعتقد في مسألة ما حكما ما فهو حاكم فيها۔
الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم (7/ 114)
قوله صلى الله عليه وسلم إذا اجتهد الحاكم فأخطأ فله أجر وإذا اجتهد فأصاب فله أجران ۔۔۔ فيه إباحة الاجتهاد فقط والاجتهاد ليس قياسا ولا رأيا وإنما الاجتهاد إجهاد النفس واستفراغ الوسع في طلب حكم طلب النازلة في القول والسنة فمن طلب القرآن وتقرأ آياته وطلب في السنن وتقرأ الأحاديث في طلب ما نزل به فقد اجتهد فإن وجدها منصوصة فقد أصاب فله أجران أجر الطلب وأجر الإصابة وإن طلبها في القرآن والسنة فلم يفهم موضعا منهما ولا وقف عليه وفاتت إدراكه فقد اجتهد فأخطأ فله أجر ولا شك أنها هنالك إلا أنه قد يجدها من وفقه الله لها ولا يجدها من لم يوفقه الله تعالى۔
مزید فرماتے ہیں :
الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم (8/ 137)
اعتقاد الشيء والعمل به والفتيا به حكم به فدخل هؤلاء تحت لفظ الحديث المذكور وعمومه ۔
خطیب بغدادی لکھتے ہیں :
الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي (2/ 118)
قال تعالی {وداود وسليمان إذ يحكمان في الحرث} إلى قوله: {ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما} [الأنبياء: 79] فأخبر: أن سليمان هو المصيب وحمده على إصابته , وأثنى على داود في اجتهاده , ولم يذمه على خطئه , وهذا نص في إبطال قول من قال: إذا أخطأ المجتهد يجب أن يكون مذموما , ويدل عليه أيضا قول النبي صلى الله عليه وسلم المشهور: إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران , وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر , وقد سقنا هذا الحديث بإسناده فيما تقدم , وفيه دليل على أن المجتهد بين الإصابة والخطأ ۔
اس کے علاوہ سیکڑوں حوالے دیے جاسکتے ہیں کہ علماء کرام نے یہاں حاکم سے مراد صرف حکمران یا قاضی نہیں لیا ، بلکہ ہر عالم دین اور مفتی بھی مراد ہے ۔
اس دلیل سے ہٹ کر ،قرآں کریم کی آیت ہے :
و ليس عليكم جناح فيما أخطأتم به و لكن ما تعمدت قلوبكم
اگر غلطی جان بوجھ کر نہ ہو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔
یہ آیت عام ہے ، اس میں حاکم ، قاضی ، عالم سب شریک ہیں ۔
حاکم یا قاضی کو کس بنا پر غلطی پر اجر ملے گا ؟ وہی چیز عالم اور مجتہد کے اندر بھی موجود ہے ، باقی جان بوجھ کر غلطی کرنا چاہے فتوی میں ہو یا فیصلہ میں ، اس میں سب گناہگار ہیں ۔
قارئین ! مندرجہ بالا حدیث میں لفظ " حاکم " وارد ہوا ہے - لفظ عالم نہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حاکم یا قاضی یا خلیفۃ المسلمین وغیرہ کو ایک قسم کی آسانی دی ہے ۔
لفظ تو حدیث میں ایک ہی وارد ہے ’ حاکم ‘ آپ نے اگر اس میں ’ قاضی ‘ اور ’ خلیفۃ المسلمین ‘ دونوں کو باقی رکھا ہے تو اسی دلیل سے اس میں ’ مفتی اور عالم ‘ بھی آسکتے ہیں ۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ حاکم کا فیصلہ جو اس نے فریقین کے درمیان کیا ہو گا وہ فیصلہ ہو گا قانون نہیں ہو گا -اس فیصلہ کو شریعت کی حیثیت حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ بطور فیصلہ عارضی ہو گا اور ہنگامی طور پر اس کو تسلیم کر لیا جائے گا - پھر اس حاکم کے بعد دوسرا حاکم جو اس حکومت کا والی ہو گا تو وہ اس بات کا مکلف نہیں ہو گا کہ جو فیصلے سابقہ حکومت میں ہو چکے ہیں وہ ان کے مطابق ہی فیصلہ کرے بلکہ وہ آزاد ہو گا ۔
قاضی یا مفتی دونوں کے موقف کی غلطی واضح ہونے پر اس پر اصرار درست نہیں ، البتہ قاضی جس فیصلہ کی تنفید کردے ، اس پر جو کچھ مرتب ہوچکا ہو ، بعد میں غلطی واضح ہوجانے پر ، پہلے فیصلے کو واپس نہیں کیا جائے گا ۔
رائے کی تبدیلی کے لیے ’ حکومت ‘ کے ’ سابقہ ‘ ہونے کا انتظار نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اگر اگلے ہی کسی کیس میں جج کو اپنی پہلی رائے کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ اس بار بھی وہی غلطی نہیں دہرائے گا ، بلکہ اپنے حالیہ موقف کے مطابق فیصلہ کرے گا ۔
برخلاف اس کے آج فرقوں کے ہاں ان کے مجتہد کا فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر شریعت میں شامل ہو جاتا ہے -جبکہ مجتہد کو قرآن مجید اور سنّت رسول کے مطابق مسئلہ بتانا چاہیے نہ کہ مسائل سازی کرنا ، شریعت سازی کرنا ، مسائل گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بتانا۔
یہ غلط رویہ ہے ، لیکن کیا یہ خرابیاں ججز کے اندر نہیں پائی جاتیں ؟ کیا وہ من مانی یا مرضی کے فیصلے نہیں کرتے ، رشوت لیکر سچ جھوٹ کا کھیل نہیں کھیلتے ؟
کیا حدیث نبوی اس بات کی اجازت دیتی ہے ۔حدیث سے غلط قسم کا استدلال کر کے لوگوں کو دھوکا دیا جائے ،بے حد افسوس کی بات ہے ۔
افسوس آپ کی ذہنی سطح پر ہے ، خود قرآن و سنت کا مطالعہ ہے نہیں ، جس کی بنا پر دوسروں کو تحریف اور دھوکہ دہی کا الزام دے رہے ہیں ۔
عالم یا مجتہد ، اجتہاد کے سلسلے میں ماجور نہیں ہے بلکہ حاکم وقت اس بات کا حقدار ہے کہ الله تعالیٰ ہر حال میں اس کو اجر و ثواب سے نوازتا ہے ۔
یہ آپ کی جہالت ہے ، ورنہ دونوں میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ، جیسا کہ اوپر واضح کیا جاچکا ہے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !​
غلط فہمی : -

اس کے علاوہ سیکڑوں حوالے دیے جاسکتے ہیں کہ علماء کرام نے یہاں حاکم سے مراد صرف حکمران یا قاضی نہیں لیا ، بلکہ ہر عالم دین اور مفتی بھی مراد ہے ۔
ازالہ : - علماء کے کہنے سے کوئی چیز دین اسلام میں شامل نہیں ہو جائے گی ۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ مراد لیتے ہیں تو یہی کام تو یہود و نصاریٰ نے کیا کہ اپنے علماء و مشائخ کو رب بنا لیا اور ان کا رب بنا لینا یہی تھا کہ جس چیز کو وہ حلال کرتے وہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ۔۔۔ کیا آج وہی کام اس امّت میں نہیں ہو رہا ؟؟؟
اس دلیل سے ہٹ کر ،قرآں کریم کی آیت ہے :
و ليس عليكم جناح فيما أخطأتم به و لكن ما تعمدت قلوبكم
اگر غلطی جان بوجھ کر نہ ہو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔

کون سی دلیل ؟؟؟ یہ اقوال آپ کے لئے حجت ہوں گے کسی مسلم کے لئے نہیں
۔ اور جہاں تک آیت کی بات ہے تو اجتہاد حاکم کرے گا ، حدیث کے مطابق : اگر اس سے غلطی ہو جائے انجانے میں تو پھر بھی اسے اجر ملے گا اور اگر صحیح فیصلہ کرے گا تو پھر بھی اسے اجر ملے گا ۔

غلط فہمی : -

حاکم یا قاضی کو کس بنا پر غلطی پر اجر ملے گا ؟ وہی چیز عالم اور مجتہد کے اندر بھی موجود ہے
[H2
]ازالہ : -[/H2]
حاکم یا قاضی کو حدیث کی بنا پر اجر ملے گا ۔ عالم یا مجتہد جیسے کہ ہر فرقے نے اپنے مقرر کر رکھے ہیں ! کو نہیں ملے گا ۔۔۔ انہیں کس نے اختیار دیا ؟؟؟ کیا یہ حاکم ہیں ؟؟؟

غلط فہمی : -

لفظ تو حدیث میں ایک ہی وارد ہے ’ حاکم ‘ آپ نے اگر اس میں ’ قاضی ‘ اور ’ خلیفۃ المسلمین ‘ دونوں کو باقی رکھا ہے تو اسی دلیل سے اس میں ’ مفتی اور عالم ‘ بھی آسکتے ہیں ۔
[H2]ازالہ : -
[/H2]
خلیفتہ المسلمین حاکم ہوتا ہے اور اسی طرح قاضی بھی!
مفتی یا عالم صاحب کیسے اس میں آ گئے ؟؟؟ آپ کو بس اپنے مفتی صاحب کی پڑی ہے کہ کسی طرح سے انہیں بچا لیا جائے تا کہ فرقہ بچ جائے !؟ باقی قرآن اور حدیث کے احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون


غلط فہمی : -

قاضی یا مفتی دونوں کے موقف کی غلطی واضح ہونے پر اس پر اصرار درست نہیں
ازالہ : -
غلطی واضح اگر ہو قاضی کے فیصلہ میں تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا البتہ آپ نے قارئین کو دوکھا دینے کے لئے "قاضی یا مفتی" لکھ دیا ! تاکہ اثر یہ قائم کیا جائے کہ دونوں ایک ہی ہیں !؟
جناب یہ آپ نے ایک کیسے کر دیے ؟؟؟
آپ کی مندرجہ ذیل بات درست ہے کہ :
رائے کی تبدیلی کے لیے ’ حکومت ‘ کے ’ سابقہ ‘ ہونے کا انتظار نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اگر اگلے ہی کسی کیس میں جج کو اپنی پہلی رائے کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ اس بار بھی وہی غلطی نہیں دہرائے گا ، بلکہ اپنے حالیہ موقف کے مطابق فیصلہ کرے گا ۔
آپ کا یہ کہنا کہ :
یہ غلط رویہ ہے ، لیکن کیا یہ خرابیاں ججز کے اندر نہیں پائی جاتیں ؟ کیا وہ من مانی یا مرضی کے فیصلے نہیں کرتے ، رشوت لیکر سچ جھوٹ کا کھیل نہیں کھیلتے ؟
واضح نہیں ہے ! کون سے ججز کی بات آپ کر رہے ہیں ؟؟؟ وضاحت درکار ہے ۔

الزام:

افسوس آپ کی ذہنی سطح پر ہے ، خود قرآن و سنت کا مطالعہ ہے نہیں ، جس کی بنا پر دوسروں کو تحریف اور دھوکہ دہی کا الزام دے رہے ہیں ۔

تبصرہ : -
جناب جب قرآن اور احادیث کو قبول کرنے اور اپنے فرقے کو چھوڑنے کا حوصلہ آپ میں نہیں ہے تو پھر الزام تراشی سے مکمل طور پر اجتناب کیجیے ۔

غلط فہمی : -

یہ آپ کی جہالت ہے ، ورنہ دونوں میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ، جیسا کہ اوپر واضح کیا جاچکا ہے ۔

ازالہ : -
دونوں میں بہت فرق ہے ۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے ۔ اور یہ آپ کی کم فہمی اور کم علمی یعنی فرقہ پرستی کا نتیجہ ہے کہ دونوں کو ایک باور کروانا چاہ رہے ہیں !

اس کے علاوہ @تلمیذ صاحب نے سوال پوچھا ہے کہ :

سوال : -


اگر حاکم شرعی نہ ہوں تو پھر کیا کرنا چاہئے؟
جواب : -
اگر حکمران ایسے ہوں جو قرآن و احادیث نبوی کے مطابق حکم نہ دیں تو ان کی کوئی اطاعت نہیں ۔اس سلسلہ میں کئی احادیث نبوی ہیں جن میں سے دو ملاحظہ کیجیے : ۔
عبداللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے بعد تمہارے امور کے متولی (حاکم) ایسے مرد ہوں گے جو (چراغ) سنت کو بجھائیں گے اور بدعت پر عمل کریں گے اور نماز کو اپنے وقتوں سے مؤخر کریں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں ان لوگوں (کے زمانہ) کو پالوں تو کیا کروں فرمایا اے ابن ام عبد تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی کوئی اطاعت نہیں۔
تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٩٣٧٠، ومصباح الزجاجة: ١٠١٣)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٣٩٩، ٥/٣٢٥ ٣٢٩) (صحیح) (صحیح أبی داود: ٤٥٨، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: ٢/ ١٣٩)

سیدنا علی (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر روا نہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ) کو مقرر کیا اور لشکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ وہ امیر ان سے کسی بات پر خفا ہوگیا اور ان سے پوچھا 'کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا۔' وہ کہنے لگے 'کیوں نہیں؟' امیر نے کہا 'اچھا تو ایندھن جمع کرو اور آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہوجاؤ۔' انہوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی اور جب داخل ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا 'ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہی اس لیے کی ہے کہ آگ سے بچ جائیں، تو کیا ہم آگ میں داخل ہوں؟' اتنے میں آگ بجھ گئی اور امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ اس بات کا ذکر آپ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا 'اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔' اور مسلم کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا 'اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔' (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ)
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@خضر حیات بھائی! میں نے تو پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ یہ جہالت جان کا آئے گی!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
علماء کے کہنے سے کوئی چیز دین اسلام میں شامل نہیں ہو جائے گی ۔
ہزاروں علماء کے کہنے سے کوئی چیز دین میں شامل نہیں ہوسکتی بالکل درست ، اسی طرح کسی جاہل کی سوچ سے کوئی چیز دین سے خارج بھی نہیں ہوسکتی ۔
میں نے جان بوجھ کر اوپر عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کیا تھا ، جن کے اندر یہ بات بالکل واضح انداز میں لکھی ہوئی ہے ، کہ حدیث میں لفظ ’ حاکم ‘ سے مراد ’ عالم اور مفتی ‘ بھی ہے ، لہذا ہزاروں علماء ’ عالم یا مفتی ‘ کو شامل کرکے تشریع سازی نہیں کر رہے ، بلکہ آپ ایسے معنی کے منکر ہورہے ہیں ، لفظ حدیث جس کو شامل ہے ۔
جیسا کہ آپ نے کہا کہ مراد لیتے ہیں تو یہی کام تو یہود و نصاریٰ نے کیا کہ اپنے علماء و مشائخ کو رب بنا لیا اور ان کا رب بنا لینا یہی تھا کہ جس چیز کو وہ حلال کرتے وہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ۔۔۔ کیا آج وہی کام اس امّت میں نہیں ہو رہا ؟؟؟
ہو بھی رہا ہے ، اور نہیں بھی ہورہا ۔ لفظ حاکم کے درست معنی سمجھنے میں آپ کی لاعلمی آڑے آرہی ہے ، اگر حدیث کے لفظ علماء کے توسط سے آپ قبول کرلیتے ہیں ، تو اس کا درست معنی و مفہوم ان سے لینے میں کیوں چیں بہ چیں ہورہے ہیں ؟
خلیفتہ المسلمین حاکم ہوتا ہے اور اسی طرح قاضی بھی!
اگر آپ کی یہ خبر درست ہے کہ اس میں ’ خلیفۃ المسلمین ‘ اور ’ قاضی ‘ بھی شامل ہیں ، تو ہزاروں علماء کرام کی یہ اطلاع کس طرح غلط کہ ’ عالم اور مفتی ‘ بھی اس میں موجود ہیں؟!
آپ کو بس اپنے مفتی صاحب کی پڑی ہے کہ کسی طرح سے انہیں بچا لیا جائے تا کہ فرقہ بچ جائے !؟ باقی قرآن اور حدیث کے احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
مفتی ، فرقہ ، اسلام ، مولوی کو آپ جیسوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ و لو کان بعضہم لبعض ظہیرا ۔
کون سی دلیل ؟؟؟ یہ اقوال آپ کے لئے حجت ہوں گے کسی مسلم کے لئے نہیں ۔ اور جہاں تک آیت کی بات ہے تو اجتہاد حاکم کرے گا ، حدیث کے مطابق : اگر اس سے غلطی ہو جائے انجانے میں تو پھر بھی اسے اجر ملے گا اور اگر صحیح فیصلہ کرے گا تو پھر بھی اسے اجر ملے گا ۔
جاہل مطلق صاحب ! یہ’ ولیس علیکم جناح فیما أخطأتم بہ و لکن ما تعمدت قلوبکم ‘ سوائے آیت قرآنی کے اور کیا ہے ؟
اور پھر اس میں اجتہاد حاکم کرے گا ، دو ہرا یا اکہرا جر ، والی بات کا یہاں کیا تعلق ہے ؟ ۔ اب حدیث کے بعد آیت قرآنی کے ساتھ بھی ظلم کریں گے ؟
آیت کہتی ہے ، غلطی فہمی معاف ہے ، کیا غلطی کے معاف ہونے کے لیے بھی ’ حاکم یا قاضی یا خلیفۃ المسلمین ‘ ہونا ضروری ہے ؟
حاکم یا قاضی کو حدیث کی بنا پر اجر ملے گا ۔ عالم یا مجتہد جیسے کہ ہر فرقے نے اپنے مقرر کر رکھے ہیں ! کو نہیں ملے گا ۔۔۔ انہیں کس نے اختیار دیا ؟؟؟ کیا یہ حاکم ہیں ؟؟؟
جی حدیث میں جو لفظ ’ حاکم ‘ استعمال ہوا ہے ، اس میں عالم اور مفتی بھی شامل ہے ۔
تبصرہ : -
جناب جب قرآن اور احادیث کو قبول کرنے اور اپنے فرقے کو چھوڑنے کا حوصلہ آپ میں نہیں ہے تو پھر الزام تراشی سے مکمل طور پر اجتناب کیجیے ۔
ایک ڈیڑھ سطر میں آپ تضاد سے نہیں بچ سکے ۔ پہلے حصے میں الزامی تراشی کر رہے ہیں ، آخری میں اسی سے بچنے کی نصیحت بھی ۔
لاتنه عن خلق و تأتي مثله
عار عليك إذا فعلت عظيم

دونوں میں بہت فرق ہے ۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے ۔ اور یہ آپ کی کم فہمی اور کم علمی یعنی فرقہ پرستی کا نتیجہ ہے کہ دونوں کو ایک باور کروانا چاہ رہے ہیں !
اوپر جو کچھ واضح کیا گیا ، کاش آپ اسے سمجھ سکتے ۔ عربی عبارات کو ذرا پڑھنے کی کوشش کیجیے گا ، اگر آپ کو رب بنانے کا خدشہ نہ ہو ، تو کہیے گا ، کوئی آپ کو ترجمہ بھی کردے گا ۔
 
Last edited:
Top