راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اجماع حجت یا اللہ کے دین کا انکار ؟؟؟
تمام تعریفیں اللہ ربّ العالمین کے لیئے ہیں جو تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے ۔ امابعد !
دین بنانا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار و حق ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمارا خالق اور مالک ہے اسی نے انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا اور وہ ہی ان سے حساب لے گا اور سزا یا جزاء دے گا ۔
اس لیے اللہ تعالیٰ ہی مقرر کرےگاکہ کون سے عمل پرثواب ہے اور کون سےعمل پر عذاب ، لہذا اللہ تعالیٰ کایہ حق ہےکہ وہ اپنی مخلوق کے لیے ضابطہِ حیات ، قانون و شریعت اور ہدایت کا راستہ مقرر کرے ، اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے شریعت ( دینی قوانین ) بنا کر دین اسلام کے نام سے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعے انسانوں تک پہنچا دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ ۔
ترجمہ !! اللہ نے تمارے لیے دینی قوانین (شریعی قانون) بنائے۔ (شوریٰ : ۱۳ )
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۔
ترجمہ ! کیا انہوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں جنہوں نے اِنکے لیئے دینی شریعت(قوانین) بنائے ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی ،اور اگر فیصلے (کے دن) کا وعدہ نہ ہوتا تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا اور جو ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے ۔ (سورۃ الشورٰی ۲۱ )
لہذا دین اسلام کے تمام اجزاء اور احکام اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں ۔
[H2]دین میں کسی قسم کی بھی کمی یا زیادتی کی اجازت کسی بھی مخلوق کو نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کامل دین اسلام میں کسی قسم کی ترمیم کرے ۔ [/H2]
اللہ تعالیٰ کا دین کامل ہے : ترجمہ !! آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر دیا، اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو بطور دین پسند کیا ہے ۔ (سورۃ المائدہ : ۳ )
جب دین کامل ہے تو پھر کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کچھ اپنی مرضی سے بدل دے یا کچھ نیا داخل کر دے ۔
کیا اللہ تعالیٰ نے (نعوذباللہ من ذالک ) دین کو مکمل نہیں کیا ؟
کہ اجماع کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین اسلام کو مکمل کیا جائے گا جبکہ اجماع ممکن بھی نہیں ؟
ترجمہ!!بیشک اللہ کےنزدیک تودین،اسلام ہی ہے۔(سورۃ آل عمران ۱۹)
ترجمہ ! خبردار اللہ کا ( دین تو) دین خالص ہے ۔( سورۃ الزمر : ۳ )
اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین تو خالص ، دین اسلام ہے یعنی اس میں کسی انسان (مخلوق) کا بنانے میں کچھ عمل دخل نہیں ہے ۔
انسانوں نے اپنے اپنے مذاہب بنائے جن میں حلال و حرام کا فرق موجود ہے تو یہ کیسا امت کا اجماع ہے ؟؟؟
دین اسلام کے لیئے کس کی بات مانی جائے جو واقعی ہدایت ہو جز ایمان ہو ؟
اصل ہدایت :
قَالَ ٱهۡبِطَا مِنۡهَا جَمِيعَۢاۖ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ۬ۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّڪُم مِّنِّى هُدً۬ى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشۡقَىٰ ۔
ترجمہ !!! (پھر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں یہاں سے اکٹھے (نیچے) اتر جاؤ ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں (لہذا تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں) پھر جب کبھی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جس نےمیری ہدایت کی پیروی کی وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا ۔ (سورۃ طٰہٰ ١٢٣ )
ترجمہ : آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی (در حقیقت) ہدایت ہے ،اور(اے رسول) اگر آپ نے علم آنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لیئے اللہ سے بچانے والا کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار ۔ ﴿ سورۃ البقرہ ۱۲۰ ﴾
یعنی دینی امور میں اصل ہدایت تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہوتی ہے نبی یا رسول بھی اپنی مرضی یا خواہش سے کوئی جز بھی بیان نہیں کر سکتے وہ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ من جانب اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ( ۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ( ۴)
ترجمہ !!! (یہ رسول)اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ( ۳ ) وہی کہتے ہیں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے ( ۴ )۔ (سورۃ النجم )
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
يٰۤـاَيُّهَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ ؕ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسٰلَـتَهٗ ۔
ترجمہ !!! اے رسول آپ کے ربّ کی طرف سے جو (احکام)آپ پر نازل کیئے گئے ہیں انہیں آپ پہنچا دیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت کو نہیں پہنچایا ۔ ( سورۃ المائدہ : ۶۷ )
جب رسول اکرم ﷺ اپنی طرف سے دینی امور بیان نہیں فرماتے تو ان کی امت کے لوگ کیسے دینی امور میں جزیات مقرر کر سکتے ہیں ؟؟؟
ملاحظہ فرمائیں اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے :
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
ترجمہ !!! پھر اس(قرآن) کی تفسیر بھی ہمارے ذمّہ ہے ۔ (القیامۃ : ۱۹)
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی تشریحات و تفسیر کیسے ہم تک پہنچائی ۔ یہ منزل من اللہ تفسیر رسول اللہﷺ کے پاس آئی پھر اس کو امّت تک پہنچانا آپ کے فرائض منصبی میں شامل کر دیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْہِمْ
ترجمہ !!! اور(اے رسول) ہم نے (یہ) ذکر آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیئے جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ اس کی تفسیر کر دیں ۔(النحل : ۴۴)
قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا بحکم اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے فرائض منصبی میں سے ہے ۔
غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام یعنی ذکر ( دین اسلام ) کی تفاسیر بھی بیان کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی سوائے نبی کریمﷺ کے کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ تفسیر بیان کرنے کی رہنمائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تی تھی ۔
اتباع و پیروی کس کی :
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۔ ( ۳)
ترجمہ !! جو چیز تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر اتری ہے اس کا اتباع کرو اور اس کے علاوہ دوسرے دوستوں (ولیوں)کی پیروی(اتباع) نہ کرو، مگر تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو۔ (الاعراف : ۳ )
قارئین ! اس آیت پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف ان احکامات کی پیروی و اتباع کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہوں ۔
اور منع کیا ہے کسی بھی ولی، دوست ، رفیق ، صدیق انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے ، یعنی کسی بھی غیر نبی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کی پیروی کی جائے ۔
پیروی و اتباع صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی ہی کی جائے گی پیش کرنے والا کوئی بھی ہو ۔
یہ آیت کریمہ تو کسی بھی شخص ، عالم کی بات ماننے میں رکاوٹ ہے جس کی دلیل قرآن مجید اور صحیح احادیث میں نہ ہو ۔
اجماع (کثیرلوگوں) کی پیروی کیسے ممکن ہے ؟؟؟
جبکہ اجماع امت ہی ناممکن ہے ۔
اللہ تعالیٰ او ر اللہ کےرسول ﷺسے آگے نہ بڑھو ۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ۔ ( ۱)
ترجمہ ! اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ ( الحجرات : ۱ )
قارئین !غور طلب بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ﷺ کو بھی یہ اختیار نہیں دیا کہ اپنی مرضی سے دینی امور بیان کریں تو امتیوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر لوگوں کے لیئے مسائل شریعی مقرر کریں۔
لہذا رسول اللہ ﷺ سے آگے بڑھ کر اپنی آخرت خراب کرنی ہے ۔
قارئین !اللہ کی طرف سے نازل دین کے علاوہ کسی کی بات نہ مانی جائے ۔
ترجمہ ! کیا یہ کافر اللہ تعالیٰ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کے متلاشی ہیں ( کیا یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے مطیع بننا چاہتے ہیں) حالانکہ تمام آسمان والے اور زمین والے تو خوشی سے یا ناخوشی سے سب اسی کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (انکو بھی اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے لہذا اسی کی اطاعت کرنی چاہیئے ) ﴿ آل عمران : ۸۳﴾
ترجمہ ! بر خلاف اس کے کہ جو شخص (دین)اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا متلاشی ہو (اور اس پر کاربند ہو) تو وہ دین اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا (اس کے سارے اعمال بیکار کر دیئے جائیں گے)اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا (آخرت میں اسے اپنے اعمال کا کوئی صلہ نہیں ملے گا) ﴿ آل عمران : ۸۵ ﴾
اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ دین اسلام یعنی قرآن مجید اور صحیح احادیث کو چھوڑ کر انسانوں کے لکھے ہوئے فتوؤں اور فقہ کی کتابوں جن میں بغیر قرآن مجید اور صحیح احادیث کی دلیل کے بغیر لکھے گئے مسائل پر عمل کرنا اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنانا ہے ۔
دین میں نئی بات شامل نہیں کی جا سکتی :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔
( صحیح بخاری کتاب الصلح ، و ، صحیح مسلم کتاب الاقضیہ )
بہترین بات اللہ کی بات ہے ۔
بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں(یعنی دین کےنام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ( صحیح مسلم کتاب الجمعہ )
نئے کاموں سے بچو ۔ بدعت گمراہی ہے ۔
وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ۔
اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
( رواہ ابو داؤد فی کتاب السنۃ و روی الترمذی نحوہ ٗ فی کتاب العلم و صححہ )
وہ کام جس کا حکم اللہ اور رسول نے نہیں دیا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ سے پہلے جس امت میں نبی بھیجا گیا ہے اس کی امت میں سے اس کے کچھ دوست اور صحابی بھی ہوئے ہیں جو اس کے طریقہ پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو رہے ہیں لیکن ان صحابیوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جن کا قول فعل کے خلاف اور فعل حکم نبی کے خلاف ہوا ہے جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن تھا اس کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر ایمان کا کوئی درجہ نہیں ۔
( صحیح مسلم کتاب الایمان باب کون النہی عن منکر من الایمان )
قارئین ! اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ یعنی شروع سے دین اپنے مقرر کردہ نبیوں اور رسولوں پر ہی بذریعہ وحی بھیجا ہے اور کسی غیر نبی یا رسول کو دین میں کسی قسم کی اجازت نہیں ہے امتی کا فرض ہے کہ وہ اس دین پر عمل کرے جو اس کو نبی یا رسول سے ملا ہو اپنی ناقص عقل سے دینی امور مقرر نہ کرے ورنہ اس بدعت کی وجہ سے گمراہی کی دلدل میں پھنس جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق ،،،، جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن تھا ،،،،،، ایمان والوں کے جہاد کا سامنا کرے گا ۔
ان تمام آیات اورصحیح احادیث سے یہ بات واضح اور صاف ہے کہ دین وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کے علاوہ نہ تو دین ہے اور نہ ہی وہ بطور دین قبول ہے ۔
[H1]بہت سے فرقہ وارانہ مذاہب کے پیروکار لوگوں کو اجماع کا رعب اور جھانسہ دے کر دین کو بگاڑنے کے لیئے سر توڑ کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ [/H1]
پہلی بات تو یہ ہے کہ اجماع تو قیامت تک بھی پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ امت تو قیامت تک آتی رہے گی۔
جب امت کے لوگ ہی پورے نہیں ہوئے تو اجماع کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟
اس اجماع کو دلیل بنانے والوں سے سوال کہ موجودہ تمام مذاہب کے پیرو کار اگر امت ہیں تو کیا ان سب کا اجماع ہے ؟؟؟
کیا اجماع ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب میں حلال و حرام کا فرق بھی ہو اور اجماع کا دعویٰ بھی ؟ ؟؟
اگر اجماع ہو بھی جائے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلا نہیں جا سکتا ۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت ہی نہیں دی ۔
اس لیئے اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کو کسی اجماع کی ضرورت نہیں ۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا دین ناقص نہیں ہے کہ اسے اجماع صحیح کرے گا ۔
اجماع کا جھانسہ دے کر مولوی اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔
دین اسلام قرآن مجید اور صحیح احادیث میں مکمل و محفوظ ہے ۔
ہمارا صرف یہ کام ہے کہ ہم اس پر عمل کریں اور اپنے آپ کو جہنم سے یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں نہ کہ دین میں اضافہ کر کے جہنم کا ایندھن بنیں ۔
اللہ ربّ العالمین ہم سب کو خالص دین اسلام یعنی قرآن مجید اور صحیح احادیث پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،،،
،،،،،،،،،،، آمین ثم آمین ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
والحمدللہ ربّ العالمین
والحمدللہ ربّ العالمین