• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث اور احناف کے علماء کے اقوال کی روشنی میں 11 رکعات نمازِ تراویح

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ، نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِینُہٗوَنَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلاَ ہَادِيَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ ۔

جب سے لوگوں نے اپنے اپنے مسلک اور مذہب لوگوں، قوموں اور ملکوں کے نام سے منسوب کر کے دین کے حصے بخرے کرنا شروع کیے ہیں، اس وقت سے مسلمان آپس میں تقسیم ہو کر دنیا میں بے عزت اور غیر مسلموں کے لیے ترانوالہ بن گئے ہیں، ان کی ہوا اکھڑ گئی ہے اوروہ لوگوں میں بے وقعت ہو چکے ہیں۔

اسلام بڑا وسیع الظرف مذہب ہے۔ اس نے تو یہودیوں کو بھی ایک مرکزی نکتہ پر اپنے ساتھ مل بیٹھنے اور اختلاف ختم کر دینے کی دعوت دے ڈالی تھی۔

مگر اسلام کو ماننے والے بہت ہی تنگ ظرف نکلے۔ یہ آپس میں مذہب اور مسلک کے نام پر اتنے متعصب ہوئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے واضح فرامین، دلائل اور احکامات کو بھی اپنے امام، استاذ، بزرگ اور مسلک و مذہب کی بھینٹ چڑھا بیٹھے اور اس مذہبی تعصب میں انہوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ جس نظریے یا جماعت کی مخالفت کی جارہی ہے، اس کے پاس حقائق کتنے ہیںاور اس کے دلائل کس قدر مضبوط ہیں!

ذیل میں ہم رکعات ِنمازِ تراویح کے حوالے سے آپ کو ایک اچھوتے طرز استدلال سے بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اصل حقیقت کا اعتراف کرنے والے نہایت واضح الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں اور نہ ماننے والے اس کے باوجود بھی اپنی من مانی ہی کے دَرپے رہتے ہیں۔

قدیم دور سے مسلم معاشرے کے اندر رمضان میں رات کے قیام کو قیام اللیل، قیامِ رمضان، تہجد اور تراویح کے مقدس ناموں سے پہچاناجاتا ہے۔اس میں تعداد رکعات بھی اول روز ہی سے بالکل واضح اورروزِ روشن کی طرح عیاں تھی، مگر بعد میں اسے الجھائو کا شکار کر دیا گیا تاکہ مذہب اور مسلک کے نام پر خواہشاتِ نفس پوری ہو سکیں۔ لیکن''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے'' کے مصداق اس رسالے میں آپ نہ صرف نبی اکرمﷺ کا ذاتی اور جماعتی عمل ملاحظہ فرمائیں گے بلکہ آپﷺ کے دورِ گرامی قدر میں اور آپﷺکے بعد صحابہ اور صحابیات کا جماعتی اور اتفاقی عمل بھی آپ کے سامنے آجائے گا۔

اس پر مستزادیہ کہ حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے والوں کے اکابرین علماء کرام اس حوالے سے حدیث و سنت کی تائید میں لکھ رہے ہیں اور نہ ماننے والے اب بھی خرگوش کی تین ٹانگیں مانتے ہیں۔آج انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے مگر کل یہی انصاف اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کی قوت اور فیصلہ کے بعد قوتِ نافذہ انسانوں سے چھن کر صرف اللہ وحدہ لاشریک لہٗ کے پاس ہوگی،پھر وہ اعلان فرمائے گا:

{لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ}

''آج کس کی بادشاہی ہے؟ (پھر خود ہی فرمائے گا:) صرف اللہ واحد و قہار کی۔''

( المؤمن 40: 16۔)

اب حقائق ملاحظہ فرمائیے:

1

عَنْ أَبِي سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ r : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ یَزِیدُ فِي رَمْضَانَ وَلَا فِي غَیْرہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُولِھِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِھِنّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَلَاثاً ...... الْحَدِیْثَ

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ اس پر سیدہ عائشہ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں بھی اور رمضان کے علاوہ بھی آپﷺگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ چار رکعت پڑھتے،ان کے طول اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھ،پھر چار پڑھتے،ان کی لمبائی اور خوبصورتی کے متعلق نہ پوچھ (کہ وہ کتنی خوبصورت اور لمبی ہوتی تھیں)، پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے ...... ۔

(صحیح البخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، حدیث : 1147، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ في اللیل وأنّ الوتر رکعۃ وأنّ الرکعۃ صلاۃ صحیحۃ، حدیث : 738۔)

2

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ وَّالْوِتْرَ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْقَابِلَۃِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ یَّخْرُجَ إِلَیْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتّٰی اَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ، فَقُلْنَا لَہٗ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! رَجَوْنَا أَنْ
تَخْرُجَ إِلَیْنَا فَتُصَلِّ بِنَا، فَقَالَ : 'کَرِھْتُ أَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْکُمُ الْوِتْرُ'

حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت اور وتر (جماعت سے) پڑھائے۔جب دوسری رات ہوئی تو ہم سب مسجد میں جمع ہوئے اورامید کی کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں گے مگر آپﷺ نہ آئے۔ ہم مسجد ہی میں انتظار کرتے رہے ، حتی کہ جب صبح ہوئی تو ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم آپ کے آنے اور نماز پڑھانے کے منتظر ہی رہے۔ آپﷺ نے جواب دیا: مجھے خطرہ ہوا کہ کہیںتم پر یہ نماز (وتر) فرض ہی نہ کر دی جائے۔

(صحیح ابن خزیمۃ، باب ذکر دلیل بأنّ الوتر لیس بفرض : 138/2، حدیث : 1070، صحیح ابن حبان، (باب) ذکر الخبر الدالّ علی أنّ الوتر لیس بفرض، حدیث : 2401، ورواہ الہیثمي في موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان، ص : 230، باب في قیام رمضان، ورواہ أبو یعلٰی الموصلي، حدیث : 1796، وقال الذھبي في المیزان (311/3) : إسنادہ وسط، ورواہ الطبراني في الصغیر، ص : 317/1، مکتبۃ دارعمّار، عمان ۔)

3

حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : جَائَ اُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ کَانَ مِنِّي اللَّیْلَۃَ شَيئٌ ــــ یَّعْنِي فِي رَمْضَانَ ــــ قَالَ : 'وَمَا ذَا یا اُبَيُّ؟' قَالَ : نِسْوَۃٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ : إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَنُصَلِّي بِصَلَاتِکَ، قَالَ : فَصَلِّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ : فَکَانَ شِبْہَ الرِّضَا، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا ۔

حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبt نبی اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رات مجھ سے ایک کام انجام پاگیا، یعنی رمضان میں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اُبی کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا : میرے گھرکی عورتیں جمع ہو گئیں اور مطالبہ کیا کہ ہم قرآن مجید (اتنا) نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہم آپ کی نماز کے ساتھ (جماعت سے) نماز پڑھیں گی۔ چنانچہ میں نے انھیں آٹھ رکعت نماز پڑھا دی اور پھر وتر بھی پڑھا دیا۔(آپﷺکچھ نہ بولے) گویا یہ رضا مندی کا اظہار تھا۔

(مسند أبي یعلی الموصلی : 326/2، المعجم الأوسط للطبراني : 3731، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد (212/2) : إسنادہ حسن ۔)

4

عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہٗ قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْماً الدَّارِيَّ أَنْ یَّقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ۔
''سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے (اپنے عہد خلافت میں) حضرت اُبَی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو (رمضان میں)گیارہ رکعت قیام کروائیں۔

( المؤطّا للإمام مالک : 138، السنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2بإسناد صحیح ۔)

ان مذکورہ روایات میں سے پہلی اور دوسری روایت آپﷺ کے ذاتی عمل کو ظاہر کرتی ہے کہ آپﷺرمضان المبارک میں رات کو صرف آٹھ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ، پھر اس کے بعد وتر ادا فرماتے تھے۔

تیسری حدیث میں حضرت ابی بن کعب کا واقعہ مذکور ہے کہ انھوں نے گھر کی عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھا کر صبح نبی کریمﷺ کے سامنے سارا قصہ بیان کیا توآپﷺنے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی اعتراض یا اصلاح نہیں فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اُبی کا یہ طریقہ آپﷺکو پسند تھا۔

چوتھی روایت میں رسولِ اکرمﷺکی وفات کے بعد خلیفہ راشد سیدنا عمرt تمام صحابہ کرام کو گیارہ رکعت تراویح ادا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں۔

لہٰذا نبی اکرمﷺ کا اپنا ذاتی عمل اور آپﷺ سے علیحدہ صحابہ اور صحابیات کا عمل جو آپ نے پسند فرمایا (تقریری حدیث) اور آپﷺکے بعد تمام صحابہ کرام کا اتفاقی و اجتماعی عمل صرف اور صرف آٹھ رکعت تراویح ہی کا تھا۔

اس کے بالمقابل کسی بھی صحیح، صریح اور غیر متکلم فیہ روایت میں 20 بیس یا بیس رکعات سے زائد کا عمل ، حکم یا تقریر نبی اکرمﷺسے ثابت نہیں نہ صحابہ کرام میں سے کسی نے بیس رکعت تراویح ادا کی ہے۔

تائید


حضرت امام ابوحنیفہ کے شاگردِ رشید امام محمد بن حسن شیبانی نے اپنی کتاب مؤطا محمد میں عنوان قائم فرمایا ہے :

بَابُ قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ وَمَا فِیہِ مِنَ الْفَضْلِ ۔

اس کتاب کے محشّی حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی نے اس عنوان پر حاشیہ میں لکھا ہے:

بَابُ قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ، وَیُسَمّٰی التَّرَاوِیحَ، جَمْعُ تَرْوِیحَۃٍ الخ ۔

'' باب ہے رمضان کے مہینہ میں قیام کا، اسے تراویح کا نام بھی دیا جاتا ہے جوکہ ترویحۃ کی جمع ہے۔''

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام محمد اور مولانا عبدالحئی لکھنوی رمضان میں رات کے قیام کو تراویح ہی سمجھتے تھے۔

پھر اس کے بعد امام محمدنے پہلے حضرت عائشہ کی وہ روایت بیان فرمائی ہے ، جس میں نبی اکرمﷺ کے رمضان میں تین دن نماز تراویح پڑھانے کا تذکرہ ہے ، لیکن چونکہ اس روایت میں تعدادِ تراویح کا ذکر نہیں بلکہ صرف تین دن تک نمازِ تراویح باجماعت پڑھانے ہی کا تذکرہ ہے لہٰذا اس کے بعد حضرت عائشہ کی وہ روایت ذکر فرماتے ہیں جس میں آٹھ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے۔

imam mohddddddddddd.jpg

حضرت امام محمد کے اس طرز انداز سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ انھوں نے پہلے نمبر پر تراویح باجماعت پڑھنے کا سنت ہونا ثابت کیا ہے اور اس کے بعد بمعہ وتر تراویح صرف گیارہ رکعت کا ثبوت دیا ہے۔ یہی بات میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں۔

امام ابن الہمام فقہ حنفی کی مایۂ ناز کتاب ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں محدثین اور فقہائے احناف،دونوں فریقوںکے دلائل(یعنی گیارہ رکعات اور بیس رکعات کی روایات)نقل کرنے کے بعدبیس رکعت والی ضعیف حدیث کو ذکر فرماتے ہیں،نیز فرماتے ہیں کہ یہ بیس رکعت والی روایت اپنے ضعف کے ساتھ ساتھ صحیح روایت کے مخالف بھی ہے۔اس کے بعد پوری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

فَتَحَصَّلَ مِنْ ھٰذَا کُلَّہٖ أَنَّ قِیَامَ رَمَضَانَ سُنَّۃٌ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَۃٍ فَعَلَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَرَکَہٗ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّہٗ لَوْلَا خَشْیَۃَ ذٰلِکَ لَوَاظَبْتُ بِکُمْ، وَلَا شَکَّ
فِي تَحَقُّقِ الْـأَمْنِ مِنْ ذٰلِکَ بِوَفَاتِہٖ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَکُونُ سُنَّۃً انتہی

''اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک کا قیام جماعت کے ساتھ وتر شامل کر کے صرف گیارہ ہی رکعات ہیں۔ یہ عمل نبی اکرمﷺ نے خود کیا،پھر ایک عذر کی بنا پر (جماعت) چھوڑ دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر (فرضیت کا) خطرہ نہ ہوتا تو آپ ضرور اس عمل پر تسلسل قائم فرماتے اور اب نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد اس خطرہ کے ٹل جانے میں کوئی شبہ نہیں رہا لہٰذا یہی سنت قرار پائے گا(کہ گیارہ مع الوتر ہی تراویح ہیں)۔''

(فتح القدیر شرح ھدایۃ : 407/1، مطبوعۃ المکتبۃ الرشیدیۃ کوئٹہ پاکستان ۔)

دیکھ لیا آپ نے کہ امام ابن الہمام احناف کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور وہ بھی سنت ِرسول گیارہ رکعت ہی کو سمجھتے ہیں۔

لیجیے ایک اور تائید


ابو حنیفہ الثانی،علامہ ابن زین الدین ،الشہیر با بن نجیم، کنز الدقائق کی شرح البحر الرائق میں تحریر فرماتے ہیں:
ذَکَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِیرِ مَا حَاصِلُہٗ أَنَّ الدَّلِیلَ یَقْتَضِي أَنْ تَکُونَ السُّنَّۃُ مِنَ الْعِشْرِینَ مَا فَعَلَہٗ مِنْہَا ثُمَّ تَرَکَہٗ خَشْیَۃَ أَنْ تُکْتَبَ عَلَیْنَا، وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ مِنْ حَدِیثِ عَائِشَۃَ، فَإِذَنْ یَّکُونُ الْمَسْنُونُ عَلٰی أُصُولِ مَشَایِخِنَا ثَمَانِیَۃٌ مِّنْہَا، وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انتہی ۔

''علامہ محقق نے فتح القدیر میں تحریر فرمایا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے : دلیل کا تقاضا ہے کہ بیس تراویح میں سے سنت صرف اتنی ہی ہوں گی جو نبی اکرمﷺ نے پڑھی تھیں اور پھر آپﷺ نے ہمارے لیے فرض ہو جانے کے خطرہ سے چھوڑ دی تھیں اور بیس میں سے جو رکعات ہم سنت سے زائد پڑھتے ہیں وہ مستحب ہوں گی۔یہ بات یقینا ثابت ہوچکی ہے کہ سنت وتر کے ساتھ صرف گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہے،لہٰذا ہمارے بزرگوں کے طریقہ کے مطابق سنت صرف آٹھ ہی ہوں گی اور باقی بارہ مستحب قرار پائیں گی۔''

(البحرالرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم أبي حنیفۃ الثانی : 67,66/2، مطبوعۃ مکتبۃ رشیدیۃ)

علامہ عینی شارح بخاری اپنے مذہب میں شدید متعصب ہونے کے باوجودیہ لکھنے پر مجبور ہو گئے :

فَإِنْ قُلْتَ : لَمْ یُبَیَّنْ فِي الرِّوَایَاتِ الْمَذْکُورَۃِ عَدَدُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ الَّتِي صَلَّاھَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي تِلْکَ اللَّیَالِي، قُلْتُ : رَوَی ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ مِنْ حَدِیثِ جَابِرٍ، قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ فِي رَمَضَانَ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ ۔

''اگر آپ اعتراض کریں کہ ان مذکورہ روایات میں نبی اکرمﷺکی مذکورہ راتوں میں پڑھائی ہوئی نماز کی تعداد ذکر نہیں کی گئی تو میں جواب دوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت جابر سے روایت ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعت (تراویح) پڑھائی اس کے بعد وتر بھی پڑھائے۔''

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری : 257/7، طبع بیروت )

حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری صاحب ''العرف الشذی'' شرح ترمذی میں تحریر فرماتے ہیں:

لَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیمِ أَنَّ تَرَاوِیحَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ رَکَعَاتٍ، وَلَمْ یَثْبُتْ فِي رِوَایَۃٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ أَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ صَلَّی التَّرَاوِیحَ وَالتَّہَجُّدَ عَلٰی حِدَۃٍ فِي رَمَضَانَ الخ ۔

'' اس بات کومانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی اکرمﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں اور کسی ایک بھی روایت سے یہ بات ثابت نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہو۔''

(العرف الشذی، باب ماجاء في قیام شہر رمضان، ص : 329۔)

برادران احناف سے صرف اتنی ہی گزارش ہے کہ اپنے بزرگوں ہی کی کہی ہوئی بات پر اعتماد کر لیں اور اپنے محبانِ رسول ہونے کا ثبوت دینے کی جرأت کریں۔آباؤ اجداد کا طریقہ چھوڑ کر قرآن مجید اور سنت رسولﷺ کے مطابق عمل پیرا ہوں، ورنہ آخرت میں حساب و کتاب کا وقت بڑا شدید ہے۔

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@sahj بھائی یہاں ضرور کچھ تاویل کریں گے -
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
لولی ٹائم بھیا جو احادیث جناب نے پیش کی ہیں ان پر جناب اور جناب کے تمام اہل حدیث علماء کرام کا عمل نہیں ہے ۔
عَنْ أَبِي سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ r : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ یَزِیدُ فِي رَمْضَانَ وَلَا فِي غَیْرہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُولِھِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِھِنّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَلَاثاً ...... الْحَدِیْثَ

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ اس پر سیدہ عائشہ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں بھی اور رمضان کے علاوہ بھی آپﷺگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ چار رکعت پڑھتے،ان کے طول اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھ،پھر چار پڑھتے،ان کی لمبائی اور خوبصورتی کے متعلق نہ پوچھ (کہ وہ کتنی خوبصورت اور لمبی ہوتی تھیں)، پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے ...... ۔

(صحیح البخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، حدیث : 1147، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ في اللیل وأنّ الوتر رکعۃ وأنّ الرکعۃ صلاۃ صحیحۃ، حدیث : 738۔)
اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔

اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : جَائَ اُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ کَانَ مِنِّي اللَّیْلَۃَ شَيئٌ ــــ یَّعْنِي فِي رَمْضَانَ ــــ قَالَ : 'وَمَا ذَا یا اُبَيُّ؟' قَالَ : نِسْوَۃٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ : إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَنُصَلِّي بِصَلَاتِکَ، قَالَ : فَصَلِّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ : فَکَانَ شِبْہَ الرِّضَا، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا ۔

حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبt نبی اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رات مجھ سے ایک کام انجام پاگیا، یعنی رمضان میں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اُبی کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا : میرے گھرکی عورتیں جمع ہو گئیں اور مطالبہ کیا کہ ہم قرآن مجید (اتنا) نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہم آپ کی نماز کے ساتھ (جماعت سے) نماز پڑھیں گی۔ چنانچہ میں نے انھیں آٹھ رکعت نماز پڑھا دی اور پھر وتر بھی پڑھا دیا۔(آپﷺکچھ نہ بولے) گویا یہ رضا مندی کا اظہار تھا۔

(مسند أبي یعلی الموصلی : 326/2، المعجم الأوسط للطبراني : 3731، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد (212/2) : إسنادہ حسن ۔)

اس روایت کی سند نقل کر کے اسکے راویوں کی توثیق نقل کریں (اور اس سے ثابت شدہ بات کے مطابق اپنے گھر کی عورتوں کو گھر میں نماز پڑھائیں مسجد میں نہیں)

عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہٗ قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْماً الدَّارِيَّ أَنْ یَّقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ۔
''سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے (اپنے عہد خلافت میں) حضرت اُبَی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو (رمضان میں)گیارہ رکعت قیام کروائیں۔

( المؤطّا للإمام مالک : 138، السنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2بإسناد صحیح ۔)

اسی موطا امام مالک میں یہ روایت بھی موجود ہے
امام عمر فاروق کے زمانے میں لوگ(صحابہ و تابعین) بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے ،یہ بھی اسی موطا امام مالک میں موجود ہے۔

عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الصَّلاةِ فيِ رَمَضَانَ, رقم الحديث: 251]
امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.[موطا امام مالک: ٢/١٥٥]

(شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)

یہ روایت اہل حدیث کے نزدیک بلکل صحیح ہے۔ثابت ہوا کہ صحابہ وتابعیں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔

باقی یہ بتائیں کہ علماء احناف کی عبارتیں کب سے جناب کے دلائل میں شامل ہو گئیں؟؟؟

ہمت کریں اور صرف ایک حدیث ایسی پیش کریں کہ جس سے پورا رمضان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کو با جماعت نماز تراویح مسجد نبوی میں پڑھانا ثابت ہو؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
باقی یہ بتائیں کہ علماء احناف کی عبارتیں کب سے جناب کے دلائل میں شامل ہو گئیں؟؟؟
علماء احناف کی عبارات جب احناف کے لیے دلائل نہیں تو - چلو ٹھیک ہے آ و ان عبارات کو اگر احناف نہیں مانتے تو گندی ٹوکری میں پھنک دیتے ہیں -

کیا آپ تیار ہیں اس کے لیے -
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
لولی ٹائم بھیا پوسٹیں لگانا آسان کام ہے کین انہیں نبھانا ہر کسی کے بس کا کام نہیں بندہ نے جناب کی پوسٹ کے رد میں کچھ چیزیں لکھی تھیں ،اپنی قابلیت کو آزمائیں اور اُن کا جواب لکھیں ۔آئیں بائیں سے کچھ نہیں بنے گا۔

لولی ٹائم بھیا جو احادیث جناب نے پیش کی ہیں ان پر جناب اور جناب کے تمام اہل حدیث علماء کرام کا عمل نہیں ہے ۔
عَنْ أَبِي سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ r : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ یَزِیدُ فِي رَمْضَانَ وَلَا فِي غَیْرہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُولِھِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِھِنّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَلَاثاً ...... الْحَدِیْثَ

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ اس پر سیدہ عائشہ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں بھی اور رمضان کے علاوہ بھی آپﷺگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ چار رکعت پڑھتے،ان کے طول اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھ،پھر چار پڑھتے،ان کی لمبائی اور خوبصورتی کے متعلق نہ پوچھ (کہ وہ کتنی خوبصورت اور لمبی ہوتی تھیں)، پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے ...... ۔

(صحیح البخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، حدیث : 1147، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ في اللیل وأنّ الوتر رکعۃ وأنّ الرکعۃ صلاۃ صحیحۃ، حدیث : 738۔)
اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔

اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : جَائَ اُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ کَانَ مِنِّي اللَّیْلَۃَ شَيئٌ ــــ یَّعْنِي فِي رَمْضَانَ ــــ قَالَ : 'وَمَا ذَا یا اُبَيُّ؟' قَالَ : نِسْوَۃٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ : إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَنُصَلِّي بِصَلَاتِکَ، قَالَ : فَصَلِّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ : فَکَانَ شِبْہَ الرِّضَا، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا ۔

حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبt نبی اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رات مجھ سے ایک کام انجام پاگیا، یعنی رمضان میں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اُبی کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا : میرے گھرکی عورتیں جمع ہو گئیں اور مطالبہ کیا کہ ہم قرآن مجید (اتنا) نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہم آپ کی نماز کے ساتھ (جماعت سے) نماز پڑھیں گی۔ چنانچہ میں نے انھیں آٹھ رکعت نماز پڑھا دی اور پھر وتر بھی پڑھا دیا۔(آپﷺکچھ نہ بولے) گویا یہ رضا مندی کا اظہار تھا۔

(مسند أبي یعلی الموصلی : 326/2، المعجم الأوسط للطبراني : 3731، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد (212/2) : إسنادہ حسن ۔)

اس روایت کی سند نقل کر کے اسکے راویوں کی توثیق نقل کریں (اور اس سے ثابت شدہ بات کے مطابق اپنے گھر کی عورتوں کو گھر میں نماز پڑھائیں مسجد میں نہیں)

عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہٗ قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْماً الدَّارِيَّ أَنْ یَّقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ۔
''سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے (اپنے عہد خلافت میں) حضرت اُبَی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو (رمضان میں)گیارہ رکعت قیام کروائیں۔

( المؤطّا للإمام مالک : 138، السنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2بإسناد صحیح ۔)

اسی موطا امام مالک میں یہ روایت بھی موجود ہے
امام عمر فاروق کے زمانے میں لوگ(صحابہ و تابعین) بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے ،یہ بھی اسی موطا امام مالک میں موجود ہے۔

عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الصَّلاةِ فيِ رَمَضَانَ, رقم الحديث: 251]
امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.[موطا امام مالک: ٢/١٥٥]

(شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)

یہ روایت اہل حدیث کے نزدیک بلکل صحیح ہے۔ثابت ہوا کہ صحابہ وتابعیں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔

باقی یہ بتائیں کہ علماء احناف کی عبارتیں کب سے جناب کے دلائل میں شامل ہو گئیں؟؟؟

ہمت کریں اور صرف ایک حدیث ایسی پیش کریں کہ جس سے پورا رمضان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کو با جماعت نماز تراویح مسجد نبوی میں پڑھانا ثابت ہو؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@محمد باقر بھائی

ء احناف کی عبارات جب احناف کے لیے دلائل نہیں تو - چلو ٹھیک ہے آ و ان عبارات کو اگر احناف نہیں مانتے تو گندی ٹوکری میں پھنک دیتے ہیں -

کیا آپ تیار ہیں اس کے لیے -

۔آئیں بائیں سے کچھ نہیں بنے گا۔ سیدھا سادہ سا جواب دیں - کیا اوپر احناف کی کتابوں کے حوالے آپ مانتے ہیں یا گندگی کی ٹوکری میں پھنکتے ہیں -
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
عَنْ أَبِي سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ r : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ یَزِیدُ فِي رَمْضَانَ وَلَا فِي غَیْرہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُولِھِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِھِنّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَلَاثاً ...... الْحَدِیْثَ

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ اس پر سیدہ عائشہ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں بھی اور رمضان کے علاوہ بھی آپﷺگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ چار رکعت پڑھتے،ان کے طول اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھ،پھر چار پڑھتے،ان کی لمبائی اور خوبصورتی کے متعلق نہ پوچھ (کہ وہ کتنی خوبصورت اور لمبی ہوتی تھیں)، پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے ...... ۔

(صحیح البخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، حدیث : 1147، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ في اللیل وأنّ الوتر رکعۃ وأنّ الرکعۃ صلاۃ صحیحۃ، حدیث : 738۔)
اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔

اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں
اگر تو فقط بحث برائے بحث اور فریق مخالف کو نیچا دکھانا مقصود ہے تو الگ بات ہے۔ ورنہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ اعتراضات درست نہیں ہیں۔ خود علمائے احناف آٹھ رکعات کے سنت ہونے کے قائل ہیں۔ اور بیس رکعات والی روایات کو سب ہی ضعیف قرار دیتے ہیں۔ خیر، اگر کوئی نفل کی نیت سے بیس پڑھتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ ثواب ہی ہے۔ لیکن ہمارے بیچ اصل اختلاف تب ہوتا ہے جب "فقط" بیس ہی کو "سنت" قرار دیا جاتا ہے اور "آٹھ" رکعات کو بدعت وغیرہ قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عدد کے بھی خلاف ہے، اور متقدمین علمائے احناف کے اقوال کے بھی خلاف ہے ۔ خیر، آپ کے سوالات کے جوابات پیش خدمت ہیں:

1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔
ہمیشہ کا لفظ اور گھر کا لفظ اس حدیث میں کہاں ہے؟

2۔ بغیر جماعت کے پڑھی ہے۔
جی ہاں، بغیر جماعت کے بھی پڑھی ہے۔ اور دیگر دلائل سےاحناف و اہلحدیث ہر دو فریقین کے نزدیک ثابت ہے کہ تین روز تک جماعت کے ساتھ بھی پڑھائی ہے۔ بغیر جماعت اور گھر پڑھنے کی وجہ بھی دیگر دلائل میں مذکور ہے کہ لوگوں پر فرض ہو جانے کےخوف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔ لیکن پسند جماعت کو ہی کیا تھا۔ لہٰذا ہم بھی ان کی اتباع میں باجماعت نماز ہی کو پسند کرتے ہیں اور کسی وجہ سے جماعت رہ جائے تو بغیر جماعت کے پڑھنے کے جواز کے بھی قائل ہیں۔

3۔ رمضان و غیر رمضان میں پڑھی ہے۔
جی بالکل، ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعات قیام اللیل کرتے ہیں، جسے اللہ توفیق دے۔

4۔ رات کے پچھلے پہر سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی ہے۔
یہ اس حدیث کے کن الفاظ سے ۔ثابت ہو رہا ہے ۔؟
ویسے ہمارے نزدیک دیگر دلائل کی بنیاد پر تہجد و تراویح کا افضل وقت یہی ہے کہ رات کے پچھے پہر سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے، لیکن چونکہ دیگر دلائل سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز کے بعد رمضان میں قیام اللیل کیا، تو اس کا جواز موجود ہے۔ اس لئے اہلحدیث ہوں یا احناف ، دونوں ہی عشاء کے بعد تراویح کی نماز ادا کرتے ہیں۔

5۔ چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے۔
یہاں ایک سلام سے چار رکعات پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔ اور دونوں ہی احتمالات ممکن ہیں کہ یا تو ایک سلام سے چار رکعات کی بات ہو، اور یا پھر چونکہ چار رکعت کے بعد آرام ہوتا ہے، اس لئے چار رکعت کا تذکرہ ایک ساتھ کیا گیا ہو۔ اب چونکہ دیگر دلائل سے دو دو رکعت پڑھنا ثابت ہے، اس لئے ہم اہلحدیث ہوں یا احناف، تراویح دو دو رکعت ہی پڑھتے ہیں۔ البتہ ایک اختلاف یہ ہے کہ احناف تہجد میں ایک سلام سے چار رکعت پڑھتے ہیں (حالانکہ احناف تہجد کو نفل قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب نوافل دو دو رکعت ہی کے قائل بھی ہیں، عجیب)۔ لیکن اہلحدیث تراویح و تہجد کو چونکہ قوی دلائل کی بنیاد پر ایک ہی نماز قرار دیتے ہیں، لہٰذا دونوں کو ایک ہی انداز سے پڑھتے ہیں۔

6۔ رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے
جی اہلحدیث حضرات بھی تین رکعت وتر کو ثابت مانتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ البتہ دیگر دلائل سے ایک، پانچ، سات، رکعات کا بھی تذکرہ ملتا ہے، لہٰذا اس کے جواز کے بھی قائل ہیں۔ اور دیگر دلائل کی بنیاد پر اس پر بھی عمل کرتے ہیں۔

7۔ وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔
اس حدیث کے کون سے الفاظ سے آپ کو وتر سے پہلے سونے کا ثبوت مل رہا ہے؟؟؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اپنی قابلیت کو آزمائیں ۔آئیں بائیں سے کچھ نہیں بنے گا۔

یوسف کاندھلوی صاحب کی بات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں - کیا ان کی بات کو مانتے ہیں یا گندگی کی ٹوکری میں پھنکتے ہیں - یوسف صاحب نے تو یہ کتاب لکھ کر فقہ حنفی حیاتی شریف یا مماتی شریف پتا نہیں والوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔

yousaf kandhalvi - 1.jpg
yousaf kandhalvi -01.jpg
yousaf kandhalvi - 2.jpg


@محمد باقر


 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، ان کے جواب میں باقر بھائی آپ سے فقط اتنی بات پوچھنی ہے کہ سائل رمضان کی نماز کے متعلق پوچھے اور مفتی اسے (احناف والے) تہجد کے بارے میں بتا دے، تو ایسے مفتی کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرمائیں گے؟
بھائی یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہمارے لیت و لعل کرنے سے ایک مقدس شخصیت کی فقاہت پر کیسا الزام عائد ہوتا ہے۔۔! اور وہ بھی فقط ایک نفل نماز کی تعداد کے بارے میں، جس میں ہر دو فریقین کے معتدل علماء کے نزدیک بہت گنجائش موجود ہے۔ ہمارے نزدیک بھی آٹھ سے زائد پڑھنے میں حرج نہیں، اور علمائے احناف بھی آٹھ پڑھنے والوں کو سنت پر ہی عامل مانتے ہیں۔ اس قسم کے اجتہادی مسائل میں غلو کرنا درست نہیں۔
 
Top