lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ، نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِینُہٗوَنَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلاَ ہَادِيَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ ۔
جب سے لوگوں نے اپنے اپنے مسلک اور مذہب لوگوں، قوموں اور ملکوں کے نام سے منسوب کر کے دین کے حصے بخرے کرنا شروع کیے ہیں، اس وقت سے مسلمان آپس میں تقسیم ہو کر دنیا میں بے عزت اور غیر مسلموں کے لیے ترانوالہ بن گئے ہیں، ان کی ہوا اکھڑ گئی ہے اوروہ لوگوں میں بے وقعت ہو چکے ہیں۔
اسلام بڑا وسیع الظرف مذہب ہے۔ اس نے تو یہودیوں کو بھی ایک مرکزی نکتہ پر اپنے ساتھ مل بیٹھنے اور اختلاف ختم کر دینے کی دعوت دے ڈالی تھی۔
مگر اسلام کو ماننے والے بہت ہی تنگ ظرف نکلے۔ یہ آپس میں مذہب اور مسلک کے نام پر اتنے متعصب ہوئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے واضح فرامین، دلائل اور احکامات کو بھی اپنے امام، استاذ، بزرگ اور مسلک و مذہب کی بھینٹ چڑھا بیٹھے اور اس مذہبی تعصب میں انہوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ جس نظریے یا جماعت کی مخالفت کی جارہی ہے، اس کے پاس حقائق کتنے ہیںاور اس کے دلائل کس قدر مضبوط ہیں!
ذیل میں ہم رکعات ِنمازِ تراویح کے حوالے سے آپ کو ایک اچھوتے طرز استدلال سے بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اصل حقیقت کا اعتراف کرنے والے نہایت واضح الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں اور نہ ماننے والے اس کے باوجود بھی اپنی من مانی ہی کے دَرپے رہتے ہیں۔
قدیم دور سے مسلم معاشرے کے اندر رمضان میں رات کے قیام کو قیام اللیل، قیامِ رمضان، تہجد اور تراویح کے مقدس ناموں سے پہچاناجاتا ہے۔اس میں تعداد رکعات بھی اول روز ہی سے بالکل واضح اورروزِ روشن کی طرح عیاں تھی، مگر بعد میں اسے الجھائو کا شکار کر دیا گیا تاکہ مذہب اور مسلک کے نام پر خواہشاتِ نفس پوری ہو سکیں۔ لیکن''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے'' کے مصداق اس رسالے میں آپ نہ صرف نبی اکرمﷺ کا ذاتی اور جماعتی عمل ملاحظہ فرمائیں گے بلکہ آپﷺ کے دورِ گرامی قدر میں اور آپﷺکے بعد صحابہ اور صحابیات کا جماعتی اور اتفاقی عمل بھی آپ کے سامنے آجائے گا۔
اس پر مستزادیہ کہ حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے والوں کے اکابرین علماء کرام اس حوالے سے حدیث و سنت کی تائید میں لکھ رہے ہیں اور نہ ماننے والے اب بھی خرگوش کی تین ٹانگیں مانتے ہیں۔آج انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے مگر کل یہی انصاف اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کی قوت اور فیصلہ کے بعد قوتِ نافذہ انسانوں سے چھن کر صرف اللہ وحدہ لاشریک لہٗ کے پاس ہوگی،پھر وہ اعلان فرمائے گا:
{لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ}
''آج کس کی بادشاہی ہے؟ (پھر خود ہی فرمائے گا:) صرف اللہ واحد و قہار کی۔''
( المؤمن 40: 16۔)
اب حقائق ملاحظہ فرمائیے:
1
عَنْ أَبِي سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ r : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ یَزِیدُ فِي رَمْضَانَ وَلَا فِي غَیْرہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُولِھِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِھِنّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَلَاثاً ...... الْحَدِیْثَ
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ اس پر سیدہ عائشہ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں بھی اور رمضان کے علاوہ بھی آپﷺگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ چار رکعت پڑھتے،ان کے طول اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھ،پھر چار پڑھتے،ان کی لمبائی اور خوبصورتی کے متعلق نہ پوچھ (کہ وہ کتنی خوبصورت اور لمبی ہوتی تھیں)، پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے ...... ۔
(صحیح البخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، حدیث : 1147، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ في اللیل وأنّ الوتر رکعۃ وأنّ الرکعۃ صلاۃ صحیحۃ، حدیث : 738۔)
2
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ وَّالْوِتْرَ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْقَابِلَۃِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ یَّخْرُجَ إِلَیْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتّٰی اَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ، فَقُلْنَا لَہٗ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! رَجَوْنَا أَنْ
تَخْرُجَ إِلَیْنَا فَتُصَلِّ بِنَا، فَقَالَ : 'کَرِھْتُ أَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْکُمُ الْوِتْرُ'
حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت اور وتر (جماعت سے) پڑھائے۔جب دوسری رات ہوئی تو ہم سب مسجد میں جمع ہوئے اورامید کی کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں گے مگر آپﷺ نہ آئے۔ ہم مسجد ہی میں انتظار کرتے رہے ، حتی کہ جب صبح ہوئی تو ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم آپ کے آنے اور نماز پڑھانے کے منتظر ہی رہے۔ آپﷺ نے جواب دیا: مجھے خطرہ ہوا کہ کہیںتم پر یہ نماز (وتر) فرض ہی نہ کر دی جائے۔
(صحیح ابن خزیمۃ، باب ذکر دلیل بأنّ الوتر لیس بفرض : 138/2، حدیث : 1070، صحیح ابن حبان، (باب) ذکر الخبر الدالّ علی أنّ الوتر لیس بفرض، حدیث : 2401، ورواہ الہیثمي في موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان، ص : 230، باب في قیام رمضان، ورواہ أبو یعلٰی الموصلي، حدیث : 1796، وقال الذھبي في المیزان (311/3) : إسنادہ وسط، ورواہ الطبراني في الصغیر، ص : 317/1، مکتبۃ دارعمّار، عمان ۔)
3
حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : جَائَ اُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ کَانَ مِنِّي اللَّیْلَۃَ شَيئٌ ــــ یَّعْنِي فِي رَمْضَانَ ــــ قَالَ : 'وَمَا ذَا یا اُبَيُّ؟' قَالَ : نِسْوَۃٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ : إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَنُصَلِّي بِصَلَاتِکَ، قَالَ : فَصَلِّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ : فَکَانَ شِبْہَ الرِّضَا، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا ۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبt نبی اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رات مجھ سے ایک کام انجام پاگیا، یعنی رمضان میں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اُبی کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا : میرے گھرکی عورتیں جمع ہو گئیں اور مطالبہ کیا کہ ہم قرآن مجید (اتنا) نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہم آپ کی نماز کے ساتھ (جماعت سے) نماز پڑھیں گی۔ چنانچہ میں نے انھیں آٹھ رکعت نماز پڑھا دی اور پھر وتر بھی پڑھا دیا۔(آپﷺکچھ نہ بولے) گویا یہ رضا مندی کا اظہار تھا۔
(مسند أبي یعلی الموصلی : 326/2، المعجم الأوسط للطبراني : 3731، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد (212/2) : إسنادہ حسن ۔)
4
عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہٗ قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْماً الدَّارِيَّ أَنْ یَّقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ۔
''سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے (اپنے عہد خلافت میں) حضرت اُبَی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو (رمضان میں)گیارہ رکعت قیام کروائیں۔
( المؤطّا للإمام مالک : 138، السنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2بإسناد صحیح ۔)
ان مذکورہ روایات میں سے پہلی اور دوسری روایت آپﷺ کے ذاتی عمل کو ظاہر کرتی ہے کہ آپﷺرمضان المبارک میں رات کو صرف آٹھ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ، پھر اس کے بعد وتر ادا فرماتے تھے۔
تیسری حدیث میں حضرت ابی بن کعب کا واقعہ مذکور ہے کہ انھوں نے گھر کی عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھا کر صبح نبی کریمﷺ کے سامنے سارا قصہ بیان کیا توآپﷺنے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی اعتراض یا اصلاح نہیں فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اُبی کا یہ طریقہ آپﷺکو پسند تھا۔
چوتھی روایت میں رسولِ اکرمﷺکی وفات کے بعد خلیفہ راشد سیدنا عمرt تمام صحابہ کرام کو گیارہ رکعت تراویح ادا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں۔
لہٰذا نبی اکرمﷺ کا اپنا ذاتی عمل اور آپﷺ سے علیحدہ صحابہ اور صحابیات کا عمل جو آپ نے پسند فرمایا (تقریری حدیث) اور آپﷺکے بعد تمام صحابہ کرام کا اتفاقی و اجتماعی عمل صرف اور صرف آٹھ رکعت تراویح ہی کا تھا۔
اس کے بالمقابل کسی بھی صحیح، صریح اور غیر متکلم فیہ روایت میں 20 بیس یا بیس رکعات سے زائد کا عمل ، حکم یا تقریر نبی اکرمﷺسے ثابت نہیں نہ صحابہ کرام میں سے کسی نے بیس رکعت تراویح ادا کی ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے شاگردِ رشید امام محمد بن حسن شیبانی نے اپنی کتاب مؤطا محمد میں عنوان قائم فرمایا ہے :
بَابُ قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ وَمَا فِیہِ مِنَ الْفَضْلِ ۔
اس کتاب کے محشّی حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی نے اس عنوان پر حاشیہ میں لکھا ہے:
بَابُ قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ، وَیُسَمّٰی التَّرَاوِیحَ، جَمْعُ تَرْوِیحَۃٍ الخ ۔
'' باب ہے رمضان کے مہینہ میں قیام کا، اسے تراویح کا نام بھی دیا جاتا ہے جوکہ ترویحۃ کی جمع ہے۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام محمد اور مولانا عبدالحئی لکھنوی رمضان میں رات کے قیام کو تراویح ہی سمجھتے تھے۔
پھر اس کے بعد امام محمدنے پہلے حضرت عائشہ کی وہ روایت بیان فرمائی ہے ، جس میں نبی اکرمﷺ کے رمضان میں تین دن نماز تراویح پڑھانے کا تذکرہ ہے ، لیکن چونکہ اس روایت میں تعدادِ تراویح کا ذکر نہیں بلکہ صرف تین دن تک نمازِ تراویح باجماعت پڑھانے ہی کا تذکرہ ہے لہٰذا اس کے بعد حضرت عائشہ کی وہ روایت ذکر فرماتے ہیں جس میں آٹھ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے۔
حضرت امام محمد کے اس طرز انداز سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ انھوں نے پہلے نمبر پر تراویح باجماعت پڑھنے کا سنت ہونا ثابت کیا ہے اور اس کے بعد بمعہ وتر تراویح صرف گیارہ رکعت کا ثبوت دیا ہے۔ یہی بات میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں۔
امام ابن الہمام فقہ حنفی کی مایۂ ناز کتاب ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں محدثین اور فقہائے احناف،دونوں فریقوںکے دلائل(یعنی گیارہ رکعات اور بیس رکعات کی روایات)نقل کرنے کے بعدبیس رکعت والی ضعیف حدیث کو ذکر فرماتے ہیں،نیز فرماتے ہیں کہ یہ بیس رکعت والی روایت اپنے ضعف کے ساتھ ساتھ صحیح روایت کے مخالف بھی ہے۔اس کے بعد پوری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
فَتَحَصَّلَ مِنْ ھٰذَا کُلَّہٖ أَنَّ قِیَامَ رَمَضَانَ سُنَّۃٌ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَۃٍ فَعَلَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَرَکَہٗ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّہٗ لَوْلَا خَشْیَۃَ ذٰلِکَ لَوَاظَبْتُ بِکُمْ، وَلَا شَکَّ
فِي تَحَقُّقِ الْـأَمْنِ مِنْ ذٰلِکَ بِوَفَاتِہٖ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَکُونُ سُنَّۃً انتہی
''اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک کا قیام جماعت کے ساتھ وتر شامل کر کے صرف گیارہ ہی رکعات ہیں۔ یہ عمل نبی اکرمﷺ نے خود کیا،پھر ایک عذر کی بنا پر (جماعت) چھوڑ دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر (فرضیت کا) خطرہ نہ ہوتا تو آپ ضرور اس عمل پر تسلسل قائم فرماتے اور اب نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد اس خطرہ کے ٹل جانے میں کوئی شبہ نہیں رہا لہٰذا یہی سنت قرار پائے گا(کہ گیارہ مع الوتر ہی تراویح ہیں)۔''
(فتح القدیر شرح ھدایۃ : 407/1، مطبوعۃ المکتبۃ الرشیدیۃ کوئٹہ پاکستان ۔)
دیکھ لیا آپ نے کہ امام ابن الہمام احناف کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور وہ بھی سنت ِرسول گیارہ رکعت ہی کو سمجھتے ہیں۔
ابو حنیفہ الثانی،علامہ ابن زین الدین ،الشہیر با بن نجیم، کنز الدقائق کی شرح البحر الرائق میں تحریر فرماتے ہیں:
ذَکَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِیرِ مَا حَاصِلُہٗ أَنَّ الدَّلِیلَ یَقْتَضِي أَنْ تَکُونَ السُّنَّۃُ مِنَ الْعِشْرِینَ مَا فَعَلَہٗ مِنْہَا ثُمَّ تَرَکَہٗ خَشْیَۃَ أَنْ تُکْتَبَ عَلَیْنَا، وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ مِنْ حَدِیثِ عَائِشَۃَ، فَإِذَنْ یَّکُونُ الْمَسْنُونُ عَلٰی أُصُولِ مَشَایِخِنَا ثَمَانِیَۃٌ مِّنْہَا، وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انتہی ۔
''علامہ محقق نے فتح القدیر میں تحریر فرمایا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے : دلیل کا تقاضا ہے کہ بیس تراویح میں سے سنت صرف اتنی ہی ہوں گی جو نبی اکرمﷺ نے پڑھی تھیں اور پھر آپﷺ نے ہمارے لیے فرض ہو جانے کے خطرہ سے چھوڑ دی تھیں اور بیس میں سے جو رکعات ہم سنت سے زائد پڑھتے ہیں وہ مستحب ہوں گی۔یہ بات یقینا ثابت ہوچکی ہے کہ سنت وتر کے ساتھ صرف گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہے،لہٰذا ہمارے بزرگوں کے طریقہ کے مطابق سنت صرف آٹھ ہی ہوں گی اور باقی بارہ مستحب قرار پائیں گی۔''
(البحرالرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم أبي حنیفۃ الثانی : 67,66/2، مطبوعۃ مکتبۃ رشیدیۃ)
علامہ عینی شارح بخاری اپنے مذہب میں شدید متعصب ہونے کے باوجودیہ لکھنے پر مجبور ہو گئے :
فَإِنْ قُلْتَ : لَمْ یُبَیَّنْ فِي الرِّوَایَاتِ الْمَذْکُورَۃِ عَدَدُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ الَّتِي صَلَّاھَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي تِلْکَ اللَّیَالِي، قُلْتُ : رَوَی ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ مِنْ حَدِیثِ جَابِرٍ، قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ فِي رَمَضَانَ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ ۔
''اگر آپ اعتراض کریں کہ ان مذکورہ روایات میں نبی اکرمﷺکی مذکورہ راتوں میں پڑھائی ہوئی نماز کی تعداد ذکر نہیں کی گئی تو میں جواب دوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت جابر سے روایت ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعت (تراویح) پڑھائی اس کے بعد وتر بھی پڑھائے۔''
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری : 257/7، طبع بیروت )
حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری صاحب ''العرف الشذی'' شرح ترمذی میں تحریر فرماتے ہیں:
لَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیمِ أَنَّ تَرَاوِیحَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ رَکَعَاتٍ، وَلَمْ یَثْبُتْ فِي رِوَایَۃٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ أَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ صَلَّی التَّرَاوِیحَ وَالتَّہَجُّدَ عَلٰی حِدَۃٍ فِي رَمَضَانَ الخ ۔
'' اس بات کومانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی اکرمﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں اور کسی ایک بھی روایت سے یہ بات ثابت نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہو۔''
(العرف الشذی، باب ماجاء في قیام شہر رمضان، ص : 329۔)
جب سے لوگوں نے اپنے اپنے مسلک اور مذہب لوگوں، قوموں اور ملکوں کے نام سے منسوب کر کے دین کے حصے بخرے کرنا شروع کیے ہیں، اس وقت سے مسلمان آپس میں تقسیم ہو کر دنیا میں بے عزت اور غیر مسلموں کے لیے ترانوالہ بن گئے ہیں، ان کی ہوا اکھڑ گئی ہے اوروہ لوگوں میں بے وقعت ہو چکے ہیں۔
اسلام بڑا وسیع الظرف مذہب ہے۔ اس نے تو یہودیوں کو بھی ایک مرکزی نکتہ پر اپنے ساتھ مل بیٹھنے اور اختلاف ختم کر دینے کی دعوت دے ڈالی تھی۔
مگر اسلام کو ماننے والے بہت ہی تنگ ظرف نکلے۔ یہ آپس میں مذہب اور مسلک کے نام پر اتنے متعصب ہوئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے واضح فرامین، دلائل اور احکامات کو بھی اپنے امام، استاذ، بزرگ اور مسلک و مذہب کی بھینٹ چڑھا بیٹھے اور اس مذہبی تعصب میں انہوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ جس نظریے یا جماعت کی مخالفت کی جارہی ہے، اس کے پاس حقائق کتنے ہیںاور اس کے دلائل کس قدر مضبوط ہیں!
ذیل میں ہم رکعات ِنمازِ تراویح کے حوالے سے آپ کو ایک اچھوتے طرز استدلال سے بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اصل حقیقت کا اعتراف کرنے والے نہایت واضح الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں اور نہ ماننے والے اس کے باوجود بھی اپنی من مانی ہی کے دَرپے رہتے ہیں۔
قدیم دور سے مسلم معاشرے کے اندر رمضان میں رات کے قیام کو قیام اللیل، قیامِ رمضان، تہجد اور تراویح کے مقدس ناموں سے پہچاناجاتا ہے۔اس میں تعداد رکعات بھی اول روز ہی سے بالکل واضح اورروزِ روشن کی طرح عیاں تھی، مگر بعد میں اسے الجھائو کا شکار کر دیا گیا تاکہ مذہب اور مسلک کے نام پر خواہشاتِ نفس پوری ہو سکیں۔ لیکن''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے'' کے مصداق اس رسالے میں آپ نہ صرف نبی اکرمﷺ کا ذاتی اور جماعتی عمل ملاحظہ فرمائیں گے بلکہ آپﷺ کے دورِ گرامی قدر میں اور آپﷺکے بعد صحابہ اور صحابیات کا جماعتی اور اتفاقی عمل بھی آپ کے سامنے آجائے گا۔
اس پر مستزادیہ کہ حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے والوں کے اکابرین علماء کرام اس حوالے سے حدیث و سنت کی تائید میں لکھ رہے ہیں اور نہ ماننے والے اب بھی خرگوش کی تین ٹانگیں مانتے ہیں۔آج انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے مگر کل یہی انصاف اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کی قوت اور فیصلہ کے بعد قوتِ نافذہ انسانوں سے چھن کر صرف اللہ وحدہ لاشریک لہٗ کے پاس ہوگی،پھر وہ اعلان فرمائے گا:
{لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ}
''آج کس کی بادشاہی ہے؟ (پھر خود ہی فرمائے گا:) صرف اللہ واحد و قہار کی۔''
( المؤمن 40: 16۔)
اب حقائق ملاحظہ فرمائیے:
1
عَنْ أَبِي سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ أَنَّہٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ r : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ یَزِیدُ فِي رَمْضَانَ وَلَا فِي غَیْرہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُولِھِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِھِنّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَلَاثاً ...... الْحَدِیْثَ
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ اس پر سیدہ عائشہ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں بھی اور رمضان کے علاوہ بھی آپﷺگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔آپ چار رکعت پڑھتے،ان کے طول اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھ،پھر چار پڑھتے،ان کی لمبائی اور خوبصورتی کے متعلق نہ پوچھ (کہ وہ کتنی خوبصورت اور لمبی ہوتی تھیں)، پھر آپ تین وتر پڑھتے تھے ...... ۔
(صحیح البخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، حدیث : 1147، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ في اللیل وأنّ الوتر رکعۃ وأنّ الرکعۃ صلاۃ صحیحۃ، حدیث : 738۔)
2
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي رَمْضَانَ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ وَّالْوِتْرَ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْقَابِلَۃِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ یَّخْرُجَ إِلَیْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتّٰی اَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ، فَقُلْنَا لَہٗ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! رَجَوْنَا أَنْ
تَخْرُجَ إِلَیْنَا فَتُصَلِّ بِنَا، فَقَالَ : 'کَرِھْتُ أَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْکُمُ الْوِتْرُ'
حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت اور وتر (جماعت سے) پڑھائے۔جب دوسری رات ہوئی تو ہم سب مسجد میں جمع ہوئے اورامید کی کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں گے مگر آپﷺ نہ آئے۔ ہم مسجد ہی میں انتظار کرتے رہے ، حتی کہ جب صبح ہوئی تو ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم آپ کے آنے اور نماز پڑھانے کے منتظر ہی رہے۔ آپﷺ نے جواب دیا: مجھے خطرہ ہوا کہ کہیںتم پر یہ نماز (وتر) فرض ہی نہ کر دی جائے۔
(صحیح ابن خزیمۃ، باب ذکر دلیل بأنّ الوتر لیس بفرض : 138/2، حدیث : 1070، صحیح ابن حبان، (باب) ذکر الخبر الدالّ علی أنّ الوتر لیس بفرض، حدیث : 2401، ورواہ الہیثمي في موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان، ص : 230، باب في قیام رمضان، ورواہ أبو یعلٰی الموصلي، حدیث : 1796، وقال الذھبي في المیزان (311/3) : إسنادہ وسط، ورواہ الطبراني في الصغیر، ص : 317/1، مکتبۃ دارعمّار، عمان ۔)
3
حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ : جَائَ اُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ کَانَ مِنِّي اللَّیْلَۃَ شَيئٌ ــــ یَّعْنِي فِي رَمْضَانَ ــــ قَالَ : 'وَمَا ذَا یا اُبَيُّ؟' قَالَ : نِسْوَۃٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ : إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَنُصَلِّي بِصَلَاتِکَ، قَالَ : فَصَلِّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ : فَکَانَ شِبْہَ الرِّضَا، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا ۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبt نبی اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رات مجھ سے ایک کام انجام پاگیا، یعنی رمضان میں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اُبی کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا : میرے گھرکی عورتیں جمع ہو گئیں اور مطالبہ کیا کہ ہم قرآن مجید (اتنا) نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہم آپ کی نماز کے ساتھ (جماعت سے) نماز پڑھیں گی۔ چنانچہ میں نے انھیں آٹھ رکعت نماز پڑھا دی اور پھر وتر بھی پڑھا دیا۔(آپﷺکچھ نہ بولے) گویا یہ رضا مندی کا اظہار تھا۔
(مسند أبي یعلی الموصلی : 326/2، المعجم الأوسط للطبراني : 3731، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد (212/2) : إسنادہ حسن ۔)
4
عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہٗ قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْماً الدَّارِيَّ أَنْ یَّقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ۔
''سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے (اپنے عہد خلافت میں) حضرت اُبَی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو (رمضان میں)گیارہ رکعت قیام کروائیں۔
( المؤطّا للإمام مالک : 138، السنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2بإسناد صحیح ۔)
ان مذکورہ روایات میں سے پہلی اور دوسری روایت آپﷺ کے ذاتی عمل کو ظاہر کرتی ہے کہ آپﷺرمضان المبارک میں رات کو صرف آٹھ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ، پھر اس کے بعد وتر ادا فرماتے تھے۔
تیسری حدیث میں حضرت ابی بن کعب کا واقعہ مذکور ہے کہ انھوں نے گھر کی عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھا کر صبح نبی کریمﷺ کے سامنے سارا قصہ بیان کیا توآپﷺنے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی اعتراض یا اصلاح نہیں فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اُبی کا یہ طریقہ آپﷺکو پسند تھا۔
چوتھی روایت میں رسولِ اکرمﷺکی وفات کے بعد خلیفہ راشد سیدنا عمرt تمام صحابہ کرام کو گیارہ رکعت تراویح ادا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں۔
لہٰذا نبی اکرمﷺ کا اپنا ذاتی عمل اور آپﷺ سے علیحدہ صحابہ اور صحابیات کا عمل جو آپ نے پسند فرمایا (تقریری حدیث) اور آپﷺکے بعد تمام صحابہ کرام کا اتفاقی و اجتماعی عمل صرف اور صرف آٹھ رکعت تراویح ہی کا تھا۔
اس کے بالمقابل کسی بھی صحیح، صریح اور غیر متکلم فیہ روایت میں 20 بیس یا بیس رکعات سے زائد کا عمل ، حکم یا تقریر نبی اکرمﷺسے ثابت نہیں نہ صحابہ کرام میں سے کسی نے بیس رکعت تراویح ادا کی ہے۔
تائید
حضرت امام ابوحنیفہ کے شاگردِ رشید امام محمد بن حسن شیبانی نے اپنی کتاب مؤطا محمد میں عنوان قائم فرمایا ہے :
بَابُ قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ وَمَا فِیہِ مِنَ الْفَضْلِ ۔
اس کتاب کے محشّی حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی نے اس عنوان پر حاشیہ میں لکھا ہے:
بَابُ قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ، وَیُسَمّٰی التَّرَاوِیحَ، جَمْعُ تَرْوِیحَۃٍ الخ ۔
'' باب ہے رمضان کے مہینہ میں قیام کا، اسے تراویح کا نام بھی دیا جاتا ہے جوکہ ترویحۃ کی جمع ہے۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام محمد اور مولانا عبدالحئی لکھنوی رمضان میں رات کے قیام کو تراویح ہی سمجھتے تھے۔
پھر اس کے بعد امام محمدنے پہلے حضرت عائشہ کی وہ روایت بیان فرمائی ہے ، جس میں نبی اکرمﷺ کے رمضان میں تین دن نماز تراویح پڑھانے کا تذکرہ ہے ، لیکن چونکہ اس روایت میں تعدادِ تراویح کا ذکر نہیں بلکہ صرف تین دن تک نمازِ تراویح باجماعت پڑھانے ہی کا تذکرہ ہے لہٰذا اس کے بعد حضرت عائشہ کی وہ روایت ذکر فرماتے ہیں جس میں آٹھ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے۔
حضرت امام محمد کے اس طرز انداز سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ انھوں نے پہلے نمبر پر تراویح باجماعت پڑھنے کا سنت ہونا ثابت کیا ہے اور اس کے بعد بمعہ وتر تراویح صرف گیارہ رکعت کا ثبوت دیا ہے۔ یہی بات میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں۔
امام ابن الہمام فقہ حنفی کی مایۂ ناز کتاب ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں محدثین اور فقہائے احناف،دونوں فریقوںکے دلائل(یعنی گیارہ رکعات اور بیس رکعات کی روایات)نقل کرنے کے بعدبیس رکعت والی ضعیف حدیث کو ذکر فرماتے ہیں،نیز فرماتے ہیں کہ یہ بیس رکعت والی روایت اپنے ضعف کے ساتھ ساتھ صحیح روایت کے مخالف بھی ہے۔اس کے بعد پوری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
فَتَحَصَّلَ مِنْ ھٰذَا کُلَّہٖ أَنَّ قِیَامَ رَمَضَانَ سُنَّۃٌ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَۃٍ فَعَلَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَرَکَہٗ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّہٗ لَوْلَا خَشْیَۃَ ذٰلِکَ لَوَاظَبْتُ بِکُمْ، وَلَا شَکَّ
فِي تَحَقُّقِ الْـأَمْنِ مِنْ ذٰلِکَ بِوَفَاتِہٖ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَکُونُ سُنَّۃً انتہی
''اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک کا قیام جماعت کے ساتھ وتر شامل کر کے صرف گیارہ ہی رکعات ہیں۔ یہ عمل نبی اکرمﷺ نے خود کیا،پھر ایک عذر کی بنا پر (جماعت) چھوڑ دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر (فرضیت کا) خطرہ نہ ہوتا تو آپ ضرور اس عمل پر تسلسل قائم فرماتے اور اب نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد اس خطرہ کے ٹل جانے میں کوئی شبہ نہیں رہا لہٰذا یہی سنت قرار پائے گا(کہ گیارہ مع الوتر ہی تراویح ہیں)۔''
(فتح القدیر شرح ھدایۃ : 407/1، مطبوعۃ المکتبۃ الرشیدیۃ کوئٹہ پاکستان ۔)
دیکھ لیا آپ نے کہ امام ابن الہمام احناف کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور وہ بھی سنت ِرسول گیارہ رکعت ہی کو سمجھتے ہیں۔
لیجیے ایک اور تائید
ابو حنیفہ الثانی،علامہ ابن زین الدین ،الشہیر با بن نجیم، کنز الدقائق کی شرح البحر الرائق میں تحریر فرماتے ہیں:
ذَکَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِیرِ مَا حَاصِلُہٗ أَنَّ الدَّلِیلَ یَقْتَضِي أَنْ تَکُونَ السُّنَّۃُ مِنَ الْعِشْرِینَ مَا فَعَلَہٗ مِنْہَا ثُمَّ تَرَکَہٗ خَشْیَۃَ أَنْ تُکْتَبَ عَلَیْنَا، وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ مِنْ حَدِیثِ عَائِشَۃَ، فَإِذَنْ یَّکُونُ الْمَسْنُونُ عَلٰی أُصُولِ مَشَایِخِنَا ثَمَانِیَۃٌ مِّنْہَا، وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انتہی ۔
''علامہ محقق نے فتح القدیر میں تحریر فرمایا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے : دلیل کا تقاضا ہے کہ بیس تراویح میں سے سنت صرف اتنی ہی ہوں گی جو نبی اکرمﷺ نے پڑھی تھیں اور پھر آپﷺ نے ہمارے لیے فرض ہو جانے کے خطرہ سے چھوڑ دی تھیں اور بیس میں سے جو رکعات ہم سنت سے زائد پڑھتے ہیں وہ مستحب ہوں گی۔یہ بات یقینا ثابت ہوچکی ہے کہ سنت وتر کے ساتھ صرف گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہے،لہٰذا ہمارے بزرگوں کے طریقہ کے مطابق سنت صرف آٹھ ہی ہوں گی اور باقی بارہ مستحب قرار پائیں گی۔''
(البحرالرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم أبي حنیفۃ الثانی : 67,66/2، مطبوعۃ مکتبۃ رشیدیۃ)
علامہ عینی شارح بخاری اپنے مذہب میں شدید متعصب ہونے کے باوجودیہ لکھنے پر مجبور ہو گئے :
فَإِنْ قُلْتَ : لَمْ یُبَیَّنْ فِي الرِّوَایَاتِ الْمَذْکُورَۃِ عَدَدُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ الَّتِي صَلَّاھَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِي تِلْکَ اللَّیَالِي، قُلْتُ : رَوَی ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ مِنْ حَدِیثِ جَابِرٍ، قَالَ : صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ فِي رَمَضَانَ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ أَوْتَرَ ۔
''اگر آپ اعتراض کریں کہ ان مذکورہ روایات میں نبی اکرمﷺکی مذکورہ راتوں میں پڑھائی ہوئی نماز کی تعداد ذکر نہیں کی گئی تو میں جواب دوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت جابر سے روایت ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعت (تراویح) پڑھائی اس کے بعد وتر بھی پڑھائے۔''
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری : 257/7، طبع بیروت )
حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری صاحب ''العرف الشذی'' شرح ترمذی میں تحریر فرماتے ہیں:
لَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیمِ أَنَّ تَرَاوِیحَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ رَکَعَاتٍ، وَلَمْ یَثْبُتْ فِي رِوَایَۃٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ أَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ صَلَّی التَّرَاوِیحَ وَالتَّہَجُّدَ عَلٰی حِدَۃٍ فِي رَمَضَانَ الخ ۔
'' اس بات کومانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی اکرمﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں اور کسی ایک بھی روایت سے یہ بات ثابت نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہو۔''
(العرف الشذی، باب ماجاء في قیام شہر رمضان، ص : 329۔)
برادران احناف سے صرف اتنی ہی گزارش ہے کہ اپنے بزرگوں ہی کی کہی ہوئی بات پر اعتماد کر لیں اور اپنے محبانِ رسول ہونے کا ثبوت دینے کی جرأت کریں۔آباؤ اجداد کا طریقہ چھوڑ کر قرآن مجید اور سنت رسولﷺ کے مطابق عمل پیرا ہوں، ورنہ آخرت میں حساب و کتاب کا وقت بڑا شدید ہے۔