پہلی حدیث مبارکہ کا مفہوم
1. یہ واقعہ نبی کریمﷺ کے مرض الموت کا ہے، لیکن آپ کے اس واقعہ کے کئی دن بعد فوت ہوئے۔
2. ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اختلاف سے بچنے کیلئے کچھ چیزوں پر زور دینا چاہتے تھے یا آئندہ خلفاء کے بارے میں وضاحت فرمانا چاہتے تھے، تو سیدنا عمر ودیگر بعض صحابہ کرام (جو اس وقت ان کے مؤید تھے) کو خیال ہوا کہ شائد نبی کریمﷺ کچھ لمبا لکھوانا چاہتے ہیں، اور ان کی طبیعت کافی ناساز ہے، تو نبی کریمﷺ کو زحمت دینے سے بچانے کیلئے انہوں نے عرض کیا کہ نبی کریمﷺ کو تکلیف نہ دی جائے۔ ہمارے پاس اللہ کی کتاب (بمعہ اپنی تبیین یعنی ذخیرۂ احادیث کے) موجود ہے، جو اختلاف کو ختم کرنے کیلئے کافی ہے۔
3. وہاں کافی صحابہ کرام موجود تھے، ان میں اختلاف ہوگیا اور شور مچ گیا، کچھ نے سیدنا عمر کی تائید کی اور کچھ نے مخالفت
4. نبی کریمﷺ نے اس اختلاف اور شور کو پسند نہ فرمایا اور صحابہ کرام کو وہاں سے اٹھا دیا۔ جس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت وہاں زیادہ دیر بیٹھنا اور شور نہیں کرنا چاہئے۔
5. سیدنا عمر کے اس فعل کے بارے میں علمائے کرام کی دو آراء ہیں:
بعض کا خیال یہ ہے کہ عمر وغیرہ نے نبی کریمﷺ کے قلم دوات وغیرہ لانے کے حکم کو اپنے وجوب پر نہیں سمجھا تھا، (ان کا خیال تھا کہ نبی کریمﷺ پہلی بیان کی گئی کتاب وسنت کی ہدایات کا اعادہ فرمائیں گے) لہٰذا انہوں نے رائے ظاہر کی کہ اتنی تکلیف میں نبی کریمﷺ کو زحمت نہ دی جائے۔
جبکہ دیگر بعض کا خیال یہ ہے نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، نبی کریمﷺ کے ارشادات کو لکھ لینا ہی بہتر تھا کہ اس سے نبی کریمﷺ کے حکم کی تعمیل بھی ہو جاتی اور ممکن ہے اس میں پچھلے احکامات پر کچھ اضافہ بھی ہوتا۔
امام ابن حجر وغیرہ نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر نبی کریمﷺ نے جو کچھ لکھوانا تھا اگر اسے نبی کریمﷺ بہت زیادہ ضروری سمجھتے تو صحابہ کرام کو خاموش کرا کر دوبارہ لکھوا دیتے، لیکن آپﷺ نے ان کے اختلاف اور شور کو نا پسند کرتے ہوئے انہیں اٹھا دیا، دوبارہ قلم دوات لانے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کے بعد نبی کریمﷺ کئی دن حیات رہے اس کے باوجود آپ نے ایسا ارادہ دوبارہ نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم!
بلکہ بہت سے علماء نے اسے سیدنا عمر کی ان موافقات میں شامل کیا ہے جن میں ان کی رائے وحی کے مطابق ہوگئی تھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
(تلخیص من فتح الباری)