• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث مبارکہ

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ویسے یہاں اُمت محمدیﷺ کے افراد کی عمروں کی طرف بھی اشارہ سا ملتا ہے کہ عمر کی حد سو سال سے کم ہوگی۔
اور یہ کہ انسان فانی ہے اور اُسے لازمی مٹنا ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پہلی حدیث مبارکہ کا مفہوم
1. یہ واقعہ نبی کریمﷺ کے مرض الموت کا ہے، لیکن آپ کے اس واقعہ کے کئی دن بعد فوت ہوئے۔
2. ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اختلاف سے بچنے کیلئے کچھ چیزوں پر زور دینا چاہتے تھے یا آئندہ خلفاء کے بارے میں وضاحت فرمانا چاہتے تھے، تو سیدنا عمر﷜ ودیگر بعض صحابہ کرام﷢ (جو اس وقت ان کے مؤید تھے) کو خیال ہوا کہ شائد نبی کریمﷺ کچھ لمبا لکھوانا چاہتے ہیں، اور ان کی طبیعت کافی ناساز ہے، تو نبی کریمﷺ کو زحمت دینے سے بچانے کیلئے انہوں نے عرض کیا کہ نبی کریمﷺ کو تکلیف نہ دی جائے۔ ہمارے پاس اللہ کی کتاب (بمعہ اپنی تبیین یعنی ذخیرۂ احادیث کے) موجود ہے، جو اختلاف کو ختم کرنے کیلئے کافی ہے۔
3. وہاں کافی صحابہ کرام﷢ موجود تھے، ان میں اختلاف ہوگیا اور شور مچ گیا، کچھ نے سیدنا عمر﷜ کی تائید کی اور کچھ نے مخالفت
4. نبی کریمﷺ نے اس اختلاف اور شور کو پسند نہ فرمایا اور صحابہ کرام﷢ کو وہاں سے اٹھا دیا۔ جس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت وہاں زیادہ دیر بیٹھنا اور شور نہیں کرنا چاہئے۔
5. سیدنا عمر﷜ کے اس فعل کے بارے میں علمائے کرام ﷭ کی دو آراء ہیں:
بعض کا خیال یہ ہے کہ عمر﷢ وغیرہ نے نبی کریمﷺ کے قلم دوات وغیرہ لانے کے حکم کو اپنے وجوب پر نہیں سمجھا تھا، (ان کا خیال تھا کہ نبی کریمﷺ پہلی بیان کی گئی کتاب وسنت کی ہدایات کا اعادہ فرمائیں گے) لہٰذا انہوں نے رائے ظاہر کی کہ اتنی تکلیف میں نبی کریمﷺ کو زحمت نہ دی جائے۔
جبکہ دیگر بعض کا خیال یہ ہے نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، نبی کریمﷺ کے ارشادات کو لکھ لینا ہی بہتر تھا کہ اس سے نبی کریمﷺ کے حکم کی تعمیل بھی ہو جاتی اور ممکن ہے اس میں پچھلے احکامات پر کچھ اضافہ بھی ہوتا۔
امام ابن حجر﷫ وغیرہ نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر نبی کریمﷺ نے جو کچھ لکھوانا تھا اگر اسے نبی کریمﷺ بہت زیادہ ضروری سمجھتے تو صحابہ کرام﷢ کو خاموش کرا کر دوبارہ لکھوا دیتے، لیکن آپﷺ نے ان کے اختلاف اور شور کو نا پسند کرتے ہوئے انہیں اٹھا دیا، دوبارہ قلم دوات لانے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کے بعد نبی کریمﷺ کئی دن حیات رہے اس کے باوجود آپ نے ایسا ارادہ دوبارہ نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم!
بلکہ بہت سے علماء نے اسے سیدنا عمر﷜ کی ان موافقات میں شامل کیا ہے جن میں ان کی رائے وحی کے مطابق ہوگئی تھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
(تلخیص من فتح الباری)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
تیسری حدیث مبارکہ کا مفہوم
1. یہ واقعہ نبی کریمﷺ کی وفات سے تقریباً ایک مہینہ پہلے کا ہے۔
2. اس حدیث مبارکہ میں اس امت کی مختصر عمروں کی طرف اشارہ ہے کہ پچھلی اُمتوں کے برخلاف ان کی عمریں چھوٹی ہوں گی لہٰذا انہیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنے کی بجائے دین کو غالب کرنے (عبادت، تعلیم وتعلّم اور دعوت وجہاد وغیرہ) میں زیادہ سے زیادہ صرف کرنا چاہئے۔
3. اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس اُمت میں کسی کی عمر سو سال سے زیادہ نہیں ہوگی، بلکہ مراد یہ ہے آج رات جو بھی اس زمین پر موجود ہے سو سال گزرنے کے بعد ان میں کوئی ایک بھی موجود نہیں ہوگا۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top