• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شرح السنۃ للبغوی (محیی السنۃ حسین بن مسعود الفرا۔ باب فضل التامین)
علامہ بغوی نے اس سے پہلے جہر بالتامین کا باب بھی قائم کیا ہے لیکن اس میں اس حدیث کو ذکر ہی نہیں کیا۔
آپ کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ ہماری دلیل ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اگر آپ کو جہر امام پر دلیل نہیں پتا تو میں بتا دیتا ہوں محترم بھائی۔
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ (سورة الفاتحة آية 7) ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". مسند أبي داود الطيالسي
اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے اگر نبی ﷺ نے دل میں آمین فرمایا تھا تو انہوں نے کیسے سنا؟ تو پتا چلا کہ آپ نے زبان سے آمین فرمایا تھا۔
البتہ اس سے اتنی آواز نہیں ثابت ہوتی جتنی آپ لوگبیان کرتے ہیں کیوں کہ آگے خفض کا بھی ذکر ہے۔
اشماریہ بھائی روایت بھی وہی ہے اور راوی بھی ایک اور الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں:
عن وائل بن حجر
أنه صلى خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فجهر بآمين وسلم عن يمينه وعن شماله حتى رأيت بياض خده . حسن صحيح (سنن ابوداود:۹۳۳
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آئیں دیکھتے ہیں کہ تقی عثمانی صاحب کیا کہتے ہیں اس بارے میں
1.jpg
2.jpg
3.jpg
4.jpg
5.jpg
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
موطا مالک (مالک بن انس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک بروایۃ محمد (محمد بن الحسن الشیبانی احد صاحبی ابی حنیفۃ) (موطا محمد کو الگ سے کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے اس لیے اس کا ذکر الگ سے کیا ہے)
سنن ابی داؤد (تامین وراء الامام)
منتقی لابن جارود (قراءۃ وراء الامام)
مستدرک حاکم (التامین)
سنن الترمذی (فضل التامین)
صحیح مسلم (باب فضل قول المأموم آمين)
شرح السنۃ للبغوی (محیی السنۃ حسین بن مسعود الفرا۔ باب فضل التامین)
علامہ بغوی نے اس سے پہلے جہر بالتامین کا باب بھی قائم کیا ہے لیکن اس میں اس حدیث کو ذکر ہی نہیں کیا۔
عدم ذکر نفی کو مستلزم نہیں ہے یہ تمام لوگ آمین بالجہر کے قائل اور فاعل تھے، اس حدیث میں بہت سارے مسائل ہیں جو محدثین نے بیان نہیں کیے ہیں ، اور یہاں قول مطلق بیان ہوا جس سے جہر پر دلالت ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 925 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ آمِينَ وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ
محمد بن کثیر، سفیان، سلمہ، حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولا الضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 882 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ کَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی حَاذَتَا أُذُنَيْهِ ثُمَّ يَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهَا قَالَ آمِينَ يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ
قتیبہ، ابواحوص، ابواسحاق، عبدالجباربن وائل، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت نماز شروع فرمائی تو تکبیر پڑھی اور دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی جس وقت اس سے فراغت ہوئی تو بلند آواز سے آمین پڑھی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جناب اشماریہ صاحب نے آمین کے بارے امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک بیا ن کیا ہے، اور حوالے کے طور پر ان کی مسند کو پیش کیا ہے،لیکن حسب سابق حنفی بھائی یہاں بھی بے جا تقلید کو ثابت کرنے کی کوشسش کی گئ
ہے، حالاں کہ امام شافعی نے اسی حدیث سے آمین بالجہر کو ثابت کیا ہے،اور اپنی مسند میں بھی انہی روایات کو لے کر آئے ہیں جن سے اہل حدیث آمین کو ثابت کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا؛ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «آمِينَ»
(مسند الشافعی،باب:وَمِنْ كِتَابِ اخْتِلَافِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ )
لیکن اپنی دوسری کتاب الام میں ایسی حدیث سے امام شافعی نے آمین بالجہر کو ثابت کیا ہےاور اس پر یہ باب قائم کیا ہے: بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ابن شھاب کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے سوال کیا:
سَأَلْت الشَّافِعِيَّ عَنْ الْإِمَامِ إذَا قَالَ:غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ هَلْ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِآمِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ وَيَرْفَعُ بِهَا مَنْ خَلْفَهُ أَصْوَاتَهُمْ فَقُلْت: وَمَا الْحُجَّةُ فِيمَا قُلْت مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا » قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ يَقُولُ: آمِينَ» قَالَ: وَفِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ «إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا» دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَمَرَ الْإِمَامَ أَنْ يَجْهَرَ بِآمِينَ؛ لِأَنَّ مَنْ خَلْفَهُ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ تَأْمِينِهِ إلَّا بِأَنْ يَسْمَعَ تَأْمِينَهُ
"کیا امام سورہ فاتحہ کے آخر میں بلند آواز سے آمین کہے گا؟ تو جناب امام شافعی نے جواب دیا : بالکل امام اور مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہیں گے،ابن شہاب کہتے ہیں : میں دوبارہ سوال کیا اس کی دلیل کیا ہے ؟ تو امام شافعی نے مذکورہ حدیث کو دلیل بنایا ، اور کہا کہ اس حدیث کے یہ الفاظ اونچی آمین کی دلیل ہیں:«إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا»یعنی جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو،اور امام شافعی نے مزید کہا : یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی اکرم امام کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ بلند آواز سے آمین کہے، کیوں کہ مقتدیوں کو امام کا آمین سن کر اس کی آمین کا علم ہوگا" (الام للشافعی:باب سجود القرآن،ص:212)
اشماریہ بھا ئی اللہ سے ڈر کر بات کیا کریں ، آپ ایک عالم آدمی ہیں ،روز قیامت آپ سے باز پرس ہو گی


میرے محترم حافظ بھائی۔ اگر بات کو خلط ملط نہ کیا جائے تو میرے خیال سے زیادہ بہتر ہے۔ میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں کہ بات کچھ ہو رہی ہوتی ہے اور آپ اس کے جواب کو کسی اور بات پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ کیا میں اس کی وجہ جان سکتا ہوں؟
محترم! مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ امام شافعیؒ کا مسلک کیا ہے۔ اور وہ کن احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ جن احادیث وغیرہ سے آپ لوگ استدلال کرتے ہیں وہ کوئی آپ حضرات کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ جس مسلک کے آپ موافق ہوتے ہیں اس کے علماء وہ استدلال کر چکے ہوتے ہیں اور علمائے احناف اکثر جواب بھی دے چکے ہوتے ہیں۔
آپ نے یہ بتایا تھا کہ محدثین کرام نے اس حدیث سے جہر پر استدلال کیا ہے اور جہر کا باب باندھا ہے۔ میں نے جواب میں وہ محدثین دکھا دیے جنہوں نے اس پر یہ باب نہیں باندھا یعنی یہ استدلال نہیں کیا۔ ان میں جو بھی اس مسلک کے حامی ہیں انہوں نے دیگر مقامات پر یقینا اس سے استدلال کیا ہوگا۔ ورنہ وہ عمل کیوں کرتے۔ ان کے پاس بھی کچھ زیادہ مضبوط دلائل نہیں ہیں۔
میں نے عرض کیا تھا:۔
یہ تو تھا اصولی جواب۔ اب ذرا آگے دیکھیئے۔ (یہ اضافی جواب ہے)

اضافی جواب اس کو میں نے اس لیے قرار دیا ہے کہ میں اس قسم کے استدلالات کا قائل نہیں ہوں۔ اگر میں صرف ضد کر رہا ہوتا تو پیش کیا جانا چاہیے تھا کہ ان محدثین نے اس سے استدلال کیا ہے اور آپ بضد ہیں بلا دلیل۔ لیکن میرے پاس اپنے موقف پر باقاعدہ دلیل موجود ہے جس کا آپ نے رد نہیں کیا۔
دوسری روایت میں ہے:۔
إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}فقولوا: آمين
بخاری

آپ کا کیا خیال ہے اس روایت کے مطابق امام آمین نہیں کہے گا یا مقتدی اس کے آمین کہنے سے پہلے ہی آمین کہ دیں گے؟
دونوں روایتوں کو جمع کریں تو علم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آمین کا اصل مقام ولاالضالین کے بعد ہے۔ اور یہی مقام امام کی آمین کا بھی ہے۔ اس لیے اس مقام پر مقتدی آمین کہیں گے چاہے امام کی آواز سنیں یا نہیں۔
اسی بات کو آپ دوسرے انداز سے لے لیں کہ اس روایت میں جو میں نے اوپر لکھی ہے آپ "ف" کو تعقیب کے لیے لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ امام کے ولا الضالین کہنے کے بعد مقتدی آمین کہیں گے ولا الضالین کے ساتھ نہیں۔ تو پھر اگر امام کی آمین کو آواز سے قرار دیں تو مقتدیوں کو اس کے بعد آمین کہنی چاہیے کیوں کہ یہی انداز و الفاظ وہاں بھی ہیں۔
إذا أمن الإمام فأمنوا
إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}فقولوا: آمين
یعنی جب امام آمین کہے تو تم اس کے فورا بعد آمین کہو۔ بلکل اسی طرح جیسے کہ جب امام ولا الضالین کہے تو تم اس کے فورا بعد آمین کہو۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں روایات میں جمع کیا گیا ہے کہ مقتدیوں کا اصل وقت ولا الضالین کے بعد آمین کہنا ہے اور امام بھی اسی وقت آمین کہے گا۔
لیکن اس سے آپ کا اپنا دعوی باطل ہو جائے گا کہ امام کی آمین سن کر مقتدی آمین کہیں گے۔ اور یہی میں بھی عرض کر رہا ہوں۔
یہ بات صرف آپ کے استدلال پر نہیں بلکہ ان محدثین کرام کے استدلال پر بھی وارد ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ میں اس بات کو بھول جاؤں اور ان محدثین کے صرف استدلال کرنے کو دیکھوں تو ظاہر ہے یہ کیسے مانا جا سکتا ہے؟ میں نے اصولی جواب عرض کیا تھا:۔
کیا آپ ان کا طرز استدلال بتا سکتے ہیں؟ آخر انہوں نے یہ استدلال کیوں کیا؟
ورنہ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے احناف اس سے یہ استدلال نہیں کر رہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے یہ بات ثابت نہیں ہو رہی جیسا کہ میں نے وضاحت سے عرض کیا ہے۔
اب اگر اس کے مقابلے میں آپ ان ائمہ کے استدلالات بغیر دلیل کے لگا دیتے ہیں تو پھر تقلید کس بلا کا نام ہے؟
میرے محترم بھائی انہوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے اپنے اجتہاد کی بنا پر یا اپنے مسلک کی موافقت میں۔ میں ان کے مسلک پر ہوں نہیں اور ان کے اجتہاد کے مقابلے میں احناف کا اجتہاد زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ حدیث کے الفاظ کے مطابق بھی ہے، تطبیق کے موافق بھی اور دیگر دلائل کے مطابق بھی۔ (جن کا ذکر شاید بعد میں آئے)۔
آپ کس وجہ سے قبول کر رہے ہیں؟؟؟
تو آپ تو تقلید کے بالکل ہی مخالف ہیں۔ آپ مجھے ان کی تقلید کا مشورہ بین السطور کیوں دیتے ہیں؟
آپ نے ولا الضالین والی روایت پر ابن حجرؒ کا استدلال پیش کیا تھا جو در حقیقت ان کا اپنا نہیں ہے۔ وہ متفق ہوں گے اس سے۔
لیکن اس کا جواب بھی میں نے عرض کیا تھا۔
http://forum.mohaddis.com/threads/احادیث-کی-صحت-درکار-ہے.21618/page-6#post-172353

تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ میں کہتا ہوں کہ اس حدیث سے جہر ثابت نہیں ہوتا۔ صراحتا تو بالکل نہیں ہوتا اور قیاسا بھی درست نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر محمد بن ادریس شافعیؒ نے آمین بالجہر کا مسلک کیوں اختیار کیا؟ تو یہ میں ان شاء اللہ اس بحث کے آخر میں عرض کروں گا۔

یہ روایت محدثین کے نزدیک ناقابل احتجاج ہے اور اس کے معنی میں بھی اختلاف ہے، خفض کا معنی سکوت نہیں ہے بلکہ آواز کو پست رکھنا ہے ، حنفی علما نے بھی اس کا یہی معنی مراد لیا ہے جیسا کہ سابقہ پوسٹوں میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے
ایک بات تو یہ کہ احناف سکوت کے نہیں اخفاء کے قائل ہیں۔ یہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے۔ اور آواز کو پست کرنا اسی کو کہا جاتا ہے۔
محدثین کے نزدیک یہ ناقابل احتجاج ہے۔۔۔۔! یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ محدثین کے اپنے اصولوں کے مطابق یا تو اس کے دونوں طرق، سفیان کا بھی اور شعبہ کا بھی، اضطراب میں شمار ہونے چاہیے تھے یا پھر تطبیق ہونی چاہیے تھی۔ اس کا طریقہ میں عرض کروں گا ان شاء اللہ۔ پہلے یہ ذیلی ابحاث جو آپ حضرات کے ان دلائل پر چل رہی ہیں ختم ہو جائیں۔ اصل تھریڈ تو اسی روایت کے متعلق ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں واضح نظر آتا ہے کہ فن جرح و تعدیل اجتہادی ہے۔

آپ کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ ہماری دلیل ہے

جی مجھے نظر آتا ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ علامہ بغوی نے ایک باب جہر کا بھی قائم کیا ہے۔ اس حدیث کو جہر کے باب میں ذکر نہیں کیا۔
براہ کرم میری اس پوسٹ کو کم از کم دو گلاس ٹھنڈا پانی پی کر اور بغور پڑھیے گا۔ (ابتسامہ)۔ اب اس سے زیادہ وضاحت کرنا مشکل ہوگا۔

اب آگے دلائل کی بات کرتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی روایت بھی وہی ہے اور راوی بھی ایک اور الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں:
عن وائل بن حجر
أنه صلى خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فجهر بآمين وسلم عن يمينه وعن شماله حتى رأيت بياض خده . حسن صحيح (سنن ابوداود:۹۳۳
جزاک اللہ خیرا بھائی جان۔
اس روایت میں ایک چھوٹا سا فنی مسئلہ ہے۔ وہ یہ کہ اس روایت میں ایک راوی علی بن صالح ہے۔ ابو داود نے ابن نمیر سے جو ذکر کیا ہے اس میں علی بن صالح ہے لیکن ابن ابی شیبہ نے اور طبرانی نے ابن مندہ کی روایت سے ابن نمیر ہی سے جو ذکر کیا ہے اس میں اس کی جگہ علاء بن صالح ہے۔
علامہ مزی اپنی سند سے یہ روایت کر کے کہتے ہیں:۔

رواه أبو داود ، والترمذي من حديث عبد الله بن نمير، فوقع لنا بدلا عاليا إلا أن أبا داود سماه في روايته، علي بن صالح، وهو وهم.
تھذیب الکمال

کچھ یہی بات کشمیریؒ نے بھی کی ہے۔

اس علاء بن صالح کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں ابن حجرؒ نے فرمایا ہے:۔
صدوق له أوهام
تو اس وجہ سے یہ روایت کمزور ہو جاتی ہے۔

یہ زبردست پوسٹ تھی۔ مجھے اس کی تحقیق کرتے کرتے پورا گھنٹہ لگ گیا۔
اب ذرا تفصیلی پوسٹس کے لیے کچھ عرصے تک معذرت چاہوں گا۔ امتحانات کی تیاری کرنی ہے۔ جب بھی موقع ملا تو ان شاء اللہ جواب دے دیا کروں گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عدم ذکر نفی کو مستلزم نہیں ہے یہ تمام لوگ آمین بالجہر کے قائل اور فاعل تھے، اس حدیث میں بہت سارے مسائل ہیں جو محدثین نے بیان نہیں کیے ہیں ، اور یہاں قول مطلق بیان ہوا جس سے جہر پر دلالت ہے
اس کا جواب ما قبل پوسٹ سے واضح ہو ہی جاتا ہے لیکن پھر بھی صراحت سے عرض کرتا ہوں کہ جو بات چل رہی تھی یہ اس سے متعلق جواب تھا۔ مطلقا نہیں۔
 
Top