• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احسان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
احسان

اللہ تعالیٰ تم کو احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ تم نیکی اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو۔
احسان کے لغوی معنی اچھا کام کرنے اور کسی کام کو اچھے طریقے سے کرنے کے ہیں۔ اردو میں احسان جود و سخاوت اور کرم کو کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک اچھا اور نیک کام ہے۔ احسان اور نیکی و بھلائی کے بہت سے افعال ہیں، ان میں سے ایک اچھا کام سخاوت اور کرم بھی ہے۔ یہ احسان و بھلائی کرنا ایک اعلیٰ درجے کی صفت ہے جو تمام نیکیوں کو شامل ہے اور نیکی کا کوئی فرد احسان سے خالی اور خارج نہیں۔ احسان کرنے والے کو محسن کہتے ہیں اور محسن اللہ کا محبوب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (بقرہ:۱۹۵)
نیکی اور احسان کرنے والوں کو اللہ دوست رکھتا ہے۔
اور ان کے اچھے کام کو اکارت نہیں کرتا۔
اِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (توبہ:۱۲۰)
یقینا اللہ نیک اور اچھے کام کرنے والوں کی مزدوری کو ضائع اور برباد نہیں کرتا۔
احسان اور بھلائی یہ ہے کہ دوسرے کے ساتھ نیک اور اچھا سلوک کرنا جس سے اس کو آرام پہنچے اور دل خوش ہوجائے اور اس کی تکلیف دُور ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی مصیبت دُور کر کے ان کو قیدخانہ سے نجات دلائی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے شکریہ کے طور پر فرمایا:
وَقَدْ أَحْسَنَ بَیْ إِذْ أَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَاء بِکُم مِّنَ الْبَدْوِ ۔ (یوسف:۱۰۰)
اور اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ احسان کیا کہ اس نے مجھے جیل خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کو گاؤں سے یہاں لے آیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قصور وار کے قصوروں کو معاف کردینا اور درگزر کردینا اور ان کے مقابلہ میں غصہ کو پی جانا ایک احسان ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے اور ایسے لوگ جنت کے مستحق لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۳ۙ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳۴ۚ (اٰل عمران:۱۳۳۔۱۳۴)
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس کی جنت کی طرف لپکو جس کا پھیلاؤ اتنا بڑا ہے جیسے زمین و آسمان کا پھیلاؤ، ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے جو خوش حالی اور تنگ دستی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے قصوروں کو معاف کردیتے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس سے زیادہ اور کیا درجہ ہوسکتا ہے کہ احسان کرنے والا اللہ کا محب ہوتا ہے اور عفو و درگزر کردینا احسان کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس احسان اور درگزری کی تاکید ہے۔ فرمایا:
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۝۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۲ (نور:۲۲)
اور چاہیے کہ وہ معاف اور درگزر کریں، کیا تم اس بات کو نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرما دے، وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔
اس آیت کریمہ میںاللہ تعالیٰ نے لوگوں کو عفو و احسان کی ترغیب دلائی ہے کہ جب دوسروں کے قصوروں کو معاف کردو گے تو اللہ بھی تمہارے قصوروں کو معاف فرمائے گا، جب تم لوگوں کے ساتھ احسان کرو گے تو اللہ بھی تمہارے ساتھ احسان فرمائے گا۔
ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا اْلاِحْسَان۔ (رحمٰن:۶۰)
احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دراصل دوسروں کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنا گویا اپنے ساتھ بھلائی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْھَا۔ (جاثیہ:۱۵)
جس نے اچھا کام کیا اس نے اپنی بھلائی کی اور جس نے برائی کی اس نےاپنا برا کیا۔
دوسروں کے ساتھ احسان کرنا اور اس کی تکلیفوں کو دُور کرنا ہے۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(۱) مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَمَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ فِی الدُّنْیَا یَسَّرَاللہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ۔ (مسلم، ابوداؤد)
جو مسلمان کسی مسلمان سے دنیا کی پریشانی دُور کردے گا اور جو مسلمان کسی تنگ دست پر دنیا میں آسانی کردے گا، اللہ تعالیٰ اس کی دونوں جہاں میں پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اعانت میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲) اور آپ نے فرمایا:
مَنْ مَشٰی فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ حَتّٰی یُثْبِتَھَا لَہٗ اَظَلَّہٗ عَزَّوَجَلَّ بِخَمْسَۃٍ وَّسَبْعِیْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یُصَلُّوْنَ لَہٗ وَیَدْعُوْنَ لَہٗ اِنْ کَانَ صَبَاحًا حَتّٰی یُمْسِیَ وَاِنْ کَانَ مَسَائً حَتّٰی یُصْبِحَ وَلَا یَرْفَعُ قَدَمًا اِلَّا حَطَّ اللہُ عَنْہُ بِھَا خَطِیْئَۃً وَّرَفَعَ لَہٗ بِھَا دَرَجَۃً۔ (ابن ماجۃ، ترغیب)
جو مسلمان اپنے بھائی کی حاجت روائی میں جائے یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری کردے، اگر صبح کے وقت جائے تو اللہ تعالیٰ پچھتر ہزار فرشتوں سے اس پر سایہ کراتا ہے اور شام تک فرشتے ان کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کے وقت جائے تو صبح تک یہ فرشتے اسی طرح کرتے رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہر قدم پر ایک گناہ معاف کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے۔
(۳) مَنْ مَشٰی فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ کَتَبَ اللہُ لَہٗ بِکُلِّ خَطْوَۃٍ سَبْعِیْنَ حَسَنَۃً وَمَحَاعَنْہُ سَبْعِیْنَ سَیِّئَۃً اِلٰی اَنْ یَّرْجِعَ مِنْ حَیْثُ فَارَقَہٗ فَاِنْ قُضِیَتْ حَاجَتُہٗ عَلٰی یَدَیْہِ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَّلَدَتْہُ اُمُّہٗ وَاِنْ ھَلَکَ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ (ترغیب)
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی میں چلے پھرے گا، اس کو اللہ تعالیٰ ہر ہر قدم پر ستر(۷۰) ستر(۷۰) نیکیاں دے گا اور ستر(۷۰) ستر(۷۰) گناہ معاف فرمائے گا یہاں تک کہ وہ واپس آجائے، اگر اس کے ہاتھوں اس کی ضرورت پوری ہوجائے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا گویا آج ہی وہ پیدا ہوا ہے، اگر وہ اسی دوران مر جائے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ وُصْلَۃً لِاَخِیْہِ الْمُسْلِمِ اِلٰی ذِیْ سُلْطَانٍ فِیْ مَبْلَغٍ بِرٍّ اَوْ یَسِیْرِ عُسْرٍ اَعَانَہُ اللہُ عَلٰی اِجَازَۃِ الصِّرَاطِ یَومَ القِیَامَةِ عِنْدَ دَحْضِ الْاَقْدَامِ۔ (طبرانی، ترغیب)
جو بادشاہ یا حاکم اپنے مسلمان بھائی کو بھلائی پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ بنے یا اس کی تنگ دستی و پریشانی کے دُور کرنے میں اعانت کرے تو اللہ تعالیٰ پُل صراط سے گزرنے میں اس کی اعانت کرے گا، جس وقت بہت سے لوگوں کے قدم پھسل جائیں گے۔
(۵) اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ اِدْخَالُ السُّرُوْرِ کَسَوْتَ عَوْرَتَہٗ اَوْ اَشْبَعْتَ جُوْعَتَہٗ اَوْ قَضَیْتَ حَاجَتَہٗ۔ (الحدیث)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ سب عملوں سے بہتر عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوش کردو یعنی اگر وہ برہنہ ہے تو اس کی ستر پوشی کرو اور اگر بھوکا ہے تو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دو، پیاسا ہے تو پانی پلا دو، اور اگر کسی کا محتاج اور ضرورت مند ہے تو اس کی حاجت پوری کردو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۶) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی بَعْدَ الْفَرَآئِضِ اِدْخَالِ السُّرُوْرِ عَلَی الْمُسْلِمِ۔ (ترغیب)
یقینا فرائض کے بعد اللہ کے نزدیک سب عملوں سے زیادہ پیارا عمل مسلمان بھائی کو خوش کردینا ہے۔
دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تنگ دست قرض دار کے قرض کو معاف کر کے اس بارِ گراں سے سبکدوش کردیا جائے، یہ احسان اللہ کو اس قدر پسند ہے کہ صرف اسی ایک احسان کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوگی
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص جو نیکی کا کام نہیں کرتا تھا، صرف لوگوں کو قرض دیتا تھا اور جب اس کو کوئی مقروض تنگ دست نظر آتا تھا تو اپنے ملازموں سے کہتا، اس سے درگزر کرو، شاید اللہ ہم سے بھی درگزر کرے، چناںچہ اس کے صلہ میں اللہ نے اس سے درگزر کیا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا، موت کے بعد فرشتوں نے اس سے سوال کیا کہ تم نے نیکی کا کوئی کام کیا ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں۔ فرشتوں نے کہا ذرا یاد کرو، اس نے کہا میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا، اگر مقروض فراخ دست ہوتا تھا تو قرض لینے میں آسانی کرتا تھا اور اگر تنگ دست ہوتا تھا تو اس کو مہلت دیتا تھا یا یہ کہ فراخ دست مقروض کو مہلت دیتا تھا اور تنگ دست کا قرض چھوڑ دیتا تھا۔ (بخاری، کتاب البیوع)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اِنَّ رَجُلًا کَانَ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَتَاہُ الْمَلَکُ لِیَقْبِضَ رُوْحَہٗ فَقِیْلَ لَہٗ ھَلْ عَمِلْتَ مِنْ خَیْرٍ قَالَ مَا اَعْلَمُ قِیْلَ لَہٗ اُنْظُرْ قَالَ مَا اَعْلَمُ شَیْئًا غَیْرَ اَنِّیْ کُنْتُ اُبَائِعُ النَّاسَ فِی الدُّنْیَا وَاُجَازِیْھِمْ فَاُنْظِرُ الْمُوْسِرَ وَاَتَجَاوَزُ عَنِ الْمُعْسِرِ فَاَدْخَلَہُ اللہُ الْجَنَّۃَ۔ (بخاری)
اور دوسری روایت میں یوں ہے آپ نے فرمایا: کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ قیامت کی تکلیف سے اس کو نجات دے وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کرے۔ (مسلم، کتاب البیوع) … یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے جو شخص اپنے قرض دار کو مہلت دے گا تو قیامت کے دن وہ اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوگا۔ (مسند احمد حنبل جلد ۵ ص ۳۰۸)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
غرض یہ ہے کہ اسلام نے دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنے کو کسی خاص معنی میں محدود نہیں کیا ہے بلکہ اس کو نیکی کی ہر راہ میں وسیع کردیا ہے۔ زندگی تو زندگی موت میں بھی اس نے اس اصول کے دائرہ کو تنگ نہیں کیا۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوْا الْقِتْلَۃَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوْا الذِّبْحَ وَ لَیُحَدِّ اَحَدُکُمْ شُفْرَتَہٗ وَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ نے ہر شے پر احسان کرنا فرض کیا ہے تو اگر تمہیں کسی کو (کسی شرعی حکم کے سبب سے) جان سے مارنا بھی پڑے تو اس کو بھی اچھائی کے ساتھ کرو۔ کسی جانور کو ذبح کرنا چاہو تو بھی خوبی کے ساتھ کرو۔ چھری کو خوب تیز کرلیا کرو اور اپنے ذبیحہ کو راحت دو۔
 
Top