ایک معاصر فورم سے
رمضان کو افغان کوہساروں میں خوابیدہ دھندلکے دھیرے دھیرے اپنا دامن سمیٹ رہے تھے، اور دن بھر کے روزہ کے بعد فرزندانِ اسلام اور دخترانِ توحیداذانِ مغرب کے انتظار میں بیٹھےتھے، عین اسی وقت عرشِ بریں پر کچھ خوش نصیبوں کیلئے جنان الخلد میں دعوتِ افطارکا اہتمام ہو رہا تھا۔غازیوں کی ایک طویل فہرست سے مالکِ کون نے چند ناموں کو روشن نشاں کر دیاتھا۔ایک نہیں، دو نہیں اکٹھے تین جگہوں پرفضائیں دھماکوں کی گھن گرج سے لرز اٹھیں۔فردوس کے بالاخانوں سے شرفِ قبولیت کے پروانے جاری ہو چکے تھے۔آرام و آسائش کی زندگی ٹھکرا کر عقبی سے دل لگانے آخرت کے راہیوں کی مناجات رنگ لا چکی تھیں۔روحیں جسدِ خاکی کی قید سے آزاد ہوئیں، جنتوں کے قفل کھلےاوررسمِ محبت کو زندگئ نو دینے والے نفوسِ مطمئنہ وہاں ابدی سکونت کی غرض سےداخل
ہوگئے،اس حال میں کہ انکا رب ان سے راضی اور وہ اپنے رب سےراضی!
اور پھر یہ ہوا
قیدِ دنیا سے جب میں نکلنے لگا
بندگی کا سفر جب میں طے کر چکا
میں نے دھیرے سے یہ ساتھیوں سے کہا
’’میں شہید اب ہوا ‘‘
پھر گواہی کا کلمہ زباں پر مری
لمحۂ واپسیں خود رواں ہو گیا
اک ستارہ تھا میں
کہکشاں ہو گیا
احسن عزیز ہم سے جدا ہو کر اس منزل کی طرف روانہ ہوئے جسے قرآن حیات جاودانی سے تعبیر کرتا ہے، جہاں پر اللہ کی طرف سے ان کے لئے خاص رزق تیار ہے۔
کلمتہ اللہ کو بلند کرنے کیلئے انکی جدوجہد ایک دو سال پر محیط نہیں، اس راہ پر قدم تو انہوں نے زمانۂ طالب علمی میں ہی رکھ دیے تھے۔آغاز میں انکی سرگرمیاں دعوتی عمل تک محدود رہیں ۔ایف ایس سی میں انہوں نے آزاد کشمیر بوڑد میں ٹاپ کیا اور یو ای ٹی ٹیکسلا میں شعبۂ انجنیئرنگ میں داخلہ لیا۔کشمیر میں موجودطلبہ تحریک میں قرآن فہمی کے حوالے سے تشنگی محسوس کی تو میرپور یونیورسٹی میں ٹرانسفر ہو گئے اور آزاد کشمیر میں اسلامی جمیعت طلبہ کو ایک نیا رخ دے ڈالا۔ دن یونیورسٹی میں گزرتا تو شامیں اپنے گھر کی زیریں منزل میں پروجیکٹرز پر اور بالمشافہ درس و تدریس کے حلقے جاری ہوتے۔قرآن فہمی کی کلاسز کا اہتمام ہو رہا ہوتا۔دینِ اسلام اور تحریک سے شغف انکے لہو میں شامل تھا۔بچپن سے انہوں نے اپنے والد (جو کہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوری سے ہجرت کر کے آئے تھے)کمانڈر عبد العزیز مرزا کو تحریکی میدان کےراہ ِ وفا میں پیش پیش دیکھا تھا سورب کی محبت جو شہید احسن کے چہرے پر دمکتی تھی، آنکھوں میں چمکتی تھی ،لب ولہجے میں جھلکتی تھی اور دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی تھی، انہیں وراثت میں ملی ہوئی تھی۔جماعتِ اسلامی کشمیر کی خوش بختی کہ کمانڈرعزیز کا دستِ شفقت آج بھی انکے سر پر ہے۔نیوی سے رئٹائرمنٹ کے بعد کمانڈر صاحب ایک عرصے تک حزب المجاہدین کے کیمپوں میں انکی تربیت کی ذمہ داری پوری جانفشانی سے انجام دیتے رہے ہیں۔
جہادِ کشمیر کا آغاز ہوا تو احسن عزیز کو مجاہدین کی تربیت کا فریضہ سونپا گیا۔ وہ ایک ایسا نظم نافذ کرنے میں خاصی حد تک کامیاب رہے جہاں انکے ساتھی دن میں جہاد اور قتال میں مصروف ہوتے تو راتیں اپنے رب کے حضور سجدوں میں صرف ہوتیں۔یہیں سے جہاد کی محبت نے زور پکڑا۔اس اثنا ء میں نائب امیر جماعت اسلامی آزادکشمیرالیف الدین ترابی صاحب (جو چند سال عرصہ سعودی عرب میں مقیم رہے ہیں)کی صاحبزادی محترمہ عذرا بتول انکی شریک ِ حیات قرار پائیں، یہ پروفیسر خدیجہ ترابی کی بہن ہیں جنھوں نے عبداللہ عزام کی کتاب کا اردو ترجمہ ’جنھیں جنتوں کی تلاش تھی‘ کر کے عرب شہداءکی ایمان افروز داستانیں ہم تک پہنچائی ہیں۔ یہ شادی دینی اور تحریکی بنیادوں پر طے پائی تھی اسی لیے اسے تائیدِ ایزدی تو حاصل رہنی ہی تھی! انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے علوم دینیہ سے فارغ التحصیل عذرا بتول نہ صرف عربی زبان پرعبور رکھتی تھیں بلکہ حافظہء قرآن بھی تھیں اور آغاز سے ہی تعلیمِ قرآن سے منسلک تھیں۔تقوی و زہد کا عالم یہ تھا کہ شادی کےفورا بعد اپنے تمام قیمتی ملبوسات اور زیورات اللہ کی راہ میں دیکر اخروی آسائشوں کا سودا کر لیا۔احسن شہید کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ تھیں، نہ صرف انکے والدین کی خدمت گزار بلکہ خاندان کے سب چھوٹے بڑوں کی ہر ہر ضرورت کا خوشی خوشی خیال رکھنا جیسے انکی سرشت میں شامل تھا۔
افغان جہاد کا آغاز ہوا تو امت میں جیسے جہاد کی ایک نئی لہر نے سر اٹھایا۔عبداللہ عزام رحمہ اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئےدنیائے عرب کےعشرت کدوں سے بیشمار امیر زادے رنگ و بو کی دنیا کو خیر باد کہہ کر اللہ کے دشمن سے سر بکف ہونے کیلئےسرزمینِ افغانستان کی جانب رواں ہو گئے۔انجنیئراحسن عزیز کو بھی عبداللہ عزام کی مقناطیسی شخصیت اور دلسوز بیانات اور عرب زادوں کے جذبات ِ ایمانی نے بہت متاثر کیا۔ تربیتی اور فکری میدان میں تو وہ ایک عرصے سے اپنے جوہر دکھا ہی رہے تھے ، اب اس سے ایک قدم بڑھ کرعملی جہاد کی تڑپ نے انکو بیقرار کر دیا۔جذبہءایمانی سے سرشاروہ افغان محاذ کی جانب کھچے چلے گئے۔اس تمام کارروائی کے دوران طواغیت کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں اور جب زمین ان پر تنگ کر دی گئی تو انبیاءکی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہجرت کی راہ اختیار کی اور خود کو راہِ خدا میں وقف کر دیا۔ایک ایسی دنیا کے باسی جس کے فیوض و برکات کوئی کوئی ہی جان سکتا ہے، جہاں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے، جہاں کے غم اور فکریں کچھ الگ ہی ہیں، جہاں جس کے پاس جتنا کم زادِ دنیا ہے وہ اتنا ہی سکھی اور مقصد کی جانب اتنا ہی زیادہ مرکوز ہے۔جہاں ثباتِ عدن کے بالقابل جہاں کی بے ثباتی واضح تر ہوئی جاتی ہے۔ جہاں سسک سسک کر جینا کسی نے سیکھا ہی نہیں، جہاں سعادت کی راہیں اور عزیمت کی توفیق، تاروں کے جھرمٹ کی مانند صف بستہ مجاہدین کی راہیں تکتی ہیں۔جہاں خشک موسموں میں بھی ابرِ کرم برستا ہے ، جہاں خاک و خون کی بوچھاڑ میں بھی فصلِ ایمان مہکتی ہے، جہاں سبیلِ ہدی پر قدم صرف آگے کی طرف بڑھتے ہی جاتے ہیں، اورجہاں سادہ زندگی میں اس قدر کشش محسوس ہوتی ہے کہ مکینوں کو عافیت کدوں کے بارے میں جاننے کی فرصت ہی نہیں ملتی...
یہ بات یاد رہے کہ شہیداحسن عزیز نے ’شارٹ کٹ‘ اختیار نہیں کیا۔ میدانِ جہادکی راہ اختیار کرنے سے قبل انہوں نے ایک اچھا خاصا سرمایہ صالح نوجوانوں کی صورت میں تیار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ عقائد ِ اسلامی کی روح کو جاننے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں کہ راہ ِ خدا میں اٹھائے ہوئے ہر قدم کی رہنمائی عقیدہ و منہج کی درست سمت کا تعین کرنے میں ہی مضمر ہے۔اپنی تحریر ’ اجنبی ، آج اور کل ‘ میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’توحید، رسالت اور آخرت ...یہ دعوت کے وہ بنیادی موضوعات ہیں جو زمانے کے تبدیلی کے باوجود نہیں بدل سکتے۔ سب انبیا علیھم السلام نے انھی بنیادی عقائد کو ذہنوں میں راسخ کرایا، انسانوں کو اللہ کی توحید کے اقرار اور طاغوت سے انکار کی طرف بلایا۔ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کو مقصود زندگی ٹھرایا، اپنی اطاعت اور اللہ کے دین پر عمل (دین کی اقامت) کی دعوت دی، اس اطاعت و عدم اطاعت کے انجام سے آگاہ کیا اور پوری شدت سے انزار و تبشیر کا یہ کام کیا...
.. .آج امت کے پاس اصلاح کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ طاغوت کے انکار اور توحید کے اقرار کے تقاضوں کو پورا کرے، فکر و عمل میں کفار کی مشابہت سے بچے اور وقت کی جاہلی تہذیب کی اقدار اور اس کے مظاہر سے اپنی جان چھڑائے، ظاہر و باطن میں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور شریعت مطہرہ سے چمٹ جائے، دنیا کی امامت و سیادت کے لئے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے منہج کو اپنا اسوہ بنائے، کامیابی اور فلاح کے دجالی تصورات کو رد کر ے اور جن و انس کو جس مقصد کے لئے اللہ تعالی نے پیدا فرمایا ہے، اسی کو اپنا مقصد زندگی بنائے...
... عافیت کدوں میں رہنے والوں میں رہنے والوں کو جاننا ہو گا کہ امت مسلمہ حالت جنگ میں ہے اور ہمارے پاس صبر، توکل، ذکر الہی، استقامت، اخوت اور یکسوئی کے ساتھ کفار کی اس یلغارکا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ورنہ دنیا اور آخرت کے پے در پے عذابوں کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں تیار ہونا چاہیے.. .‘‘
مجاہدین کی دنیا میں زبان زدِ عام ترانے تقریبا تما م ہی انکے قلم کا شاہکار ہیں۔’میرے زندان کے ساتھی‘، ’نشیبِ دنیا کے اے اسیرو‘، ’تمہارا مجھ سے وعدہ تھا میرے ایمان کے ساتھی‘، ’دلوں کے حکمران‘، ’زندگی میری فقط تیری رضا کے واسطے‘ آج بھی قلوب و اذہان کی دنیا کو گرما جاتے ہیں۔
بیشک احسن عزیز رحمہ اللہ نے نہ صرف تحریکی دنیا میں مفقود عقیدہ و منہج اورقلم کی روشنائی کی لاج رکھی بلکہ خواب ِ غفلت میں پڑی امت کی جانب سے فریضہءجہاد کے میدان ِ کارزار میں اولوالعزمی کا اک خلا بھی اپنے لہو سےُپر کرکےصحیح معنوں میں عہدِ وفا تابہ ملکِ عدم نبھاکر دکھایا۔
اس موقع پر ہم اپنے بھائی احسن کے والد محترم کمانڈر عبد العزیز صاحب جو’ لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ ‘کے مصداق اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات اللہ کی راہ میں لٹا کر مطمئن اور پر عزم ہیں اور اپنی بہن عذرا ترابی کے والد پروفیسر الیف الدین ترابی صاحب جن کی تربیت کا سارا نچوڑ انکی دخترِ نیک اختر میں سمٹ آیا یہاں تک کہ رب الکونین نے انہیں اپنے ساتھی کے ہمراہ اس اعزاز میں ابدی حصے دار بنا کر انکے اخلاص اور قربانیوں پرمہرِ قبولیت ثبت کر دی...ہم انکو اور انکے تمام اہلِ خانہ کو تہہِ دل سے تہنیت پیش کرتے ہیں کہ رب العالمین نے انکوان شاءاللہ شہداءکی صف میں شامل کر کے سرخرو کر دیا ہے۔
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
’’ مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا‘‘
اللہ سے دعا ہے کہ وہ جنات نعیم کے راستوں پر رواں دواں ہونے کی توفیق ہم سب کو عطا فرمائے...
نوجوانانِ اسلام کے نام شہید کا پیغام:
’’اسلام کے مورچوں میں بیٹھا ہوا ہر ایک مجاہد ... آج جنت کے پر متلاشی، عالمِ اسلام کے ہر مرد، عورت، جوان، بزرگ، عالم، طالب علم، تاجر، صنعت کار، صحافی، استاد، ڈاکٹر اور انجنیئر سے خاموشی کی زبان سے یہ سوال کر رہا ہے کہ ہمارے قدم تو اس راستے میں بحمد للہ ثابت ہیں لیکن کیا ہوا اسکا ...وہ جو ایمان کے ایک لازوال رشتے کی بنیاد پر ’’تمہارا مجھ سے وعدہ تھا؟!‘‘
ہم جو پر نور راہوں میں مارے گئے
رمضان کو افغان کوہساروں میں خوابیدہ دھندلکے دھیرے دھیرے اپنا دامن سمیٹ رہے تھے، اور دن بھر کے روزہ کے بعد فرزندانِ اسلام اور دخترانِ توحیداذانِ مغرب کے انتظار میں بیٹھےتھے، عین اسی وقت عرشِ بریں پر کچھ خوش نصیبوں کیلئے جنان الخلد میں دعوتِ افطارکا اہتمام ہو رہا تھا۔غازیوں کی ایک طویل فہرست سے مالکِ کون نے چند ناموں کو روشن نشاں کر دیاتھا۔ایک نہیں، دو نہیں اکٹھے تین جگہوں پرفضائیں دھماکوں کی گھن گرج سے لرز اٹھیں۔فردوس کے بالاخانوں سے شرفِ قبولیت کے پروانے جاری ہو چکے تھے۔آرام و آسائش کی زندگی ٹھکرا کر عقبی سے دل لگانے آخرت کے راہیوں کی مناجات رنگ لا چکی تھیں۔روحیں جسدِ خاکی کی قید سے آزاد ہوئیں، جنتوں کے قفل کھلےاوررسمِ محبت کو زندگئ نو دینے والے نفوسِ مطمئنہ وہاں ابدی سکونت کی غرض سےداخل
ہوگئے،اس حال میں کہ انکا رب ان سے راضی اور وہ اپنے رب سےراضی!
اور پھر یہ ہوا
قیدِ دنیا سے جب میں نکلنے لگا
بندگی کا سفر جب میں طے کر چکا
میں نے دھیرے سے یہ ساتھیوں سے کہا
’’میں شہید اب ہوا ‘‘
پھر گواہی کا کلمہ زباں پر مری
لمحۂ واپسیں خود رواں ہو گیا
اک ستارہ تھا میں
کہکشاں ہو گیا
احسن عزیز ہم سے جدا ہو کر اس منزل کی طرف روانہ ہوئے جسے قرآن حیات جاودانی سے تعبیر کرتا ہے، جہاں پر اللہ کی طرف سے ان کے لئے خاص رزق تیار ہے۔
کلمتہ اللہ کو بلند کرنے کیلئے انکی جدوجہد ایک دو سال پر محیط نہیں، اس راہ پر قدم تو انہوں نے زمانۂ طالب علمی میں ہی رکھ دیے تھے۔آغاز میں انکی سرگرمیاں دعوتی عمل تک محدود رہیں ۔ایف ایس سی میں انہوں نے آزاد کشمیر بوڑد میں ٹاپ کیا اور یو ای ٹی ٹیکسلا میں شعبۂ انجنیئرنگ میں داخلہ لیا۔کشمیر میں موجودطلبہ تحریک میں قرآن فہمی کے حوالے سے تشنگی محسوس کی تو میرپور یونیورسٹی میں ٹرانسفر ہو گئے اور آزاد کشمیر میں اسلامی جمیعت طلبہ کو ایک نیا رخ دے ڈالا۔ دن یونیورسٹی میں گزرتا تو شامیں اپنے گھر کی زیریں منزل میں پروجیکٹرز پر اور بالمشافہ درس و تدریس کے حلقے جاری ہوتے۔قرآن فہمی کی کلاسز کا اہتمام ہو رہا ہوتا۔دینِ اسلام اور تحریک سے شغف انکے لہو میں شامل تھا۔بچپن سے انہوں نے اپنے والد (جو کہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوری سے ہجرت کر کے آئے تھے)کمانڈر عبد العزیز مرزا کو تحریکی میدان کےراہ ِ وفا میں پیش پیش دیکھا تھا سورب کی محبت جو شہید احسن کے چہرے پر دمکتی تھی، آنکھوں میں چمکتی تھی ،لب ولہجے میں جھلکتی تھی اور دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی تھی، انہیں وراثت میں ملی ہوئی تھی۔جماعتِ اسلامی کشمیر کی خوش بختی کہ کمانڈرعزیز کا دستِ شفقت آج بھی انکے سر پر ہے۔نیوی سے رئٹائرمنٹ کے بعد کمانڈر صاحب ایک عرصے تک حزب المجاہدین کے کیمپوں میں انکی تربیت کی ذمہ داری پوری جانفشانی سے انجام دیتے رہے ہیں۔
جہادِ کشمیر کا آغاز ہوا تو احسن عزیز کو مجاہدین کی تربیت کا فریضہ سونپا گیا۔ وہ ایک ایسا نظم نافذ کرنے میں خاصی حد تک کامیاب رہے جہاں انکے ساتھی دن میں جہاد اور قتال میں مصروف ہوتے تو راتیں اپنے رب کے حضور سجدوں میں صرف ہوتیں۔یہیں سے جہاد کی محبت نے زور پکڑا۔اس اثنا ء میں نائب امیر جماعت اسلامی آزادکشمیرالیف الدین ترابی صاحب (جو چند سال عرصہ سعودی عرب میں مقیم رہے ہیں)کی صاحبزادی محترمہ عذرا بتول انکی شریک ِ حیات قرار پائیں، یہ پروفیسر خدیجہ ترابی کی بہن ہیں جنھوں نے عبداللہ عزام کی کتاب کا اردو ترجمہ ’جنھیں جنتوں کی تلاش تھی‘ کر کے عرب شہداءکی ایمان افروز داستانیں ہم تک پہنچائی ہیں۔ یہ شادی دینی اور تحریکی بنیادوں پر طے پائی تھی اسی لیے اسے تائیدِ ایزدی تو حاصل رہنی ہی تھی! انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے علوم دینیہ سے فارغ التحصیل عذرا بتول نہ صرف عربی زبان پرعبور رکھتی تھیں بلکہ حافظہء قرآن بھی تھیں اور آغاز سے ہی تعلیمِ قرآن سے منسلک تھیں۔تقوی و زہد کا عالم یہ تھا کہ شادی کےفورا بعد اپنے تمام قیمتی ملبوسات اور زیورات اللہ کی راہ میں دیکر اخروی آسائشوں کا سودا کر لیا۔احسن شہید کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ تھیں، نہ صرف انکے والدین کی خدمت گزار بلکہ خاندان کے سب چھوٹے بڑوں کی ہر ہر ضرورت کا خوشی خوشی خیال رکھنا جیسے انکی سرشت میں شامل تھا۔
افغان جہاد کا آغاز ہوا تو امت میں جیسے جہاد کی ایک نئی لہر نے سر اٹھایا۔عبداللہ عزام رحمہ اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئےدنیائے عرب کےعشرت کدوں سے بیشمار امیر زادے رنگ و بو کی دنیا کو خیر باد کہہ کر اللہ کے دشمن سے سر بکف ہونے کیلئےسرزمینِ افغانستان کی جانب رواں ہو گئے۔انجنیئراحسن عزیز کو بھی عبداللہ عزام کی مقناطیسی شخصیت اور دلسوز بیانات اور عرب زادوں کے جذبات ِ ایمانی نے بہت متاثر کیا۔ تربیتی اور فکری میدان میں تو وہ ایک عرصے سے اپنے جوہر دکھا ہی رہے تھے ، اب اس سے ایک قدم بڑھ کرعملی جہاد کی تڑپ نے انکو بیقرار کر دیا۔جذبہءایمانی سے سرشاروہ افغان محاذ کی جانب کھچے چلے گئے۔اس تمام کارروائی کے دوران طواغیت کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں اور جب زمین ان پر تنگ کر دی گئی تو انبیاءکی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہجرت کی راہ اختیار کی اور خود کو راہِ خدا میں وقف کر دیا۔ایک ایسی دنیا کے باسی جس کے فیوض و برکات کوئی کوئی ہی جان سکتا ہے، جہاں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے، جہاں کے غم اور فکریں کچھ الگ ہی ہیں، جہاں جس کے پاس جتنا کم زادِ دنیا ہے وہ اتنا ہی سکھی اور مقصد کی جانب اتنا ہی زیادہ مرکوز ہے۔جہاں ثباتِ عدن کے بالقابل جہاں کی بے ثباتی واضح تر ہوئی جاتی ہے۔ جہاں سسک سسک کر جینا کسی نے سیکھا ہی نہیں، جہاں سعادت کی راہیں اور عزیمت کی توفیق، تاروں کے جھرمٹ کی مانند صف بستہ مجاہدین کی راہیں تکتی ہیں۔جہاں خشک موسموں میں بھی ابرِ کرم برستا ہے ، جہاں خاک و خون کی بوچھاڑ میں بھی فصلِ ایمان مہکتی ہے، جہاں سبیلِ ہدی پر قدم صرف آگے کی طرف بڑھتے ہی جاتے ہیں، اورجہاں سادہ زندگی میں اس قدر کشش محسوس ہوتی ہے کہ مکینوں کو عافیت کدوں کے بارے میں جاننے کی فرصت ہی نہیں ملتی...
یہ بات یاد رہے کہ شہیداحسن عزیز نے ’شارٹ کٹ‘ اختیار نہیں کیا۔ میدانِ جہادکی راہ اختیار کرنے سے قبل انہوں نے ایک اچھا خاصا سرمایہ صالح نوجوانوں کی صورت میں تیار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ عقائد ِ اسلامی کی روح کو جاننے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں کہ راہ ِ خدا میں اٹھائے ہوئے ہر قدم کی رہنمائی عقیدہ و منہج کی درست سمت کا تعین کرنے میں ہی مضمر ہے۔اپنی تحریر ’ اجنبی ، آج اور کل ‘ میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’توحید، رسالت اور آخرت ...یہ دعوت کے وہ بنیادی موضوعات ہیں جو زمانے کے تبدیلی کے باوجود نہیں بدل سکتے۔ سب انبیا علیھم السلام نے انھی بنیادی عقائد کو ذہنوں میں راسخ کرایا، انسانوں کو اللہ کی توحید کے اقرار اور طاغوت سے انکار کی طرف بلایا۔ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کو مقصود زندگی ٹھرایا، اپنی اطاعت اور اللہ کے دین پر عمل (دین کی اقامت) کی دعوت دی، اس اطاعت و عدم اطاعت کے انجام سے آگاہ کیا اور پوری شدت سے انزار و تبشیر کا یہ کام کیا...
.. .آج امت کے پاس اصلاح کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ طاغوت کے انکار اور توحید کے اقرار کے تقاضوں کو پورا کرے، فکر و عمل میں کفار کی مشابہت سے بچے اور وقت کی جاہلی تہذیب کی اقدار اور اس کے مظاہر سے اپنی جان چھڑائے، ظاہر و باطن میں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور شریعت مطہرہ سے چمٹ جائے، دنیا کی امامت و سیادت کے لئے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے منہج کو اپنا اسوہ بنائے، کامیابی اور فلاح کے دجالی تصورات کو رد کر ے اور جن و انس کو جس مقصد کے لئے اللہ تعالی نے پیدا فرمایا ہے، اسی کو اپنا مقصد زندگی بنائے...
... عافیت کدوں میں رہنے والوں میں رہنے والوں کو جاننا ہو گا کہ امت مسلمہ حالت جنگ میں ہے اور ہمارے پاس صبر، توکل، ذکر الہی، استقامت، اخوت اور یکسوئی کے ساتھ کفار کی اس یلغارکا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ورنہ دنیا اور آخرت کے پے در پے عذابوں کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں تیار ہونا چاہیے.. .‘‘
مجاہدین کی دنیا میں زبان زدِ عام ترانے تقریبا تما م ہی انکے قلم کا شاہکار ہیں۔’میرے زندان کے ساتھی‘، ’نشیبِ دنیا کے اے اسیرو‘، ’تمہارا مجھ سے وعدہ تھا میرے ایمان کے ساتھی‘، ’دلوں کے حکمران‘، ’زندگی میری فقط تیری رضا کے واسطے‘ آج بھی قلوب و اذہان کی دنیا کو گرما جاتے ہیں۔
بیشک احسن عزیز رحمہ اللہ نے نہ صرف تحریکی دنیا میں مفقود عقیدہ و منہج اورقلم کی روشنائی کی لاج رکھی بلکہ خواب ِ غفلت میں پڑی امت کی جانب سے فریضہءجہاد کے میدان ِ کارزار میں اولوالعزمی کا اک خلا بھی اپنے لہو سےُپر کرکےصحیح معنوں میں عہدِ وفا تابہ ملکِ عدم نبھاکر دکھایا۔
اس موقع پر ہم اپنے بھائی احسن کے والد محترم کمانڈر عبد العزیز صاحب جو’ لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ ‘کے مصداق اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات اللہ کی راہ میں لٹا کر مطمئن اور پر عزم ہیں اور اپنی بہن عذرا ترابی کے والد پروفیسر الیف الدین ترابی صاحب جن کی تربیت کا سارا نچوڑ انکی دخترِ نیک اختر میں سمٹ آیا یہاں تک کہ رب الکونین نے انہیں اپنے ساتھی کے ہمراہ اس اعزاز میں ابدی حصے دار بنا کر انکے اخلاص اور قربانیوں پرمہرِ قبولیت ثبت کر دی...ہم انکو اور انکے تمام اہلِ خانہ کو تہہِ دل سے تہنیت پیش کرتے ہیں کہ رب العالمین نے انکوان شاءاللہ شہداءکی صف میں شامل کر کے سرخرو کر دیا ہے۔
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
’’ مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا‘‘
اللہ سے دعا ہے کہ وہ جنات نعیم کے راستوں پر رواں دواں ہونے کی توفیق ہم سب کو عطا فرمائے...
نوجوانانِ اسلام کے نام شہید کا پیغام:
’’اسلام کے مورچوں میں بیٹھا ہوا ہر ایک مجاہد ... آج جنت کے پر متلاشی، عالمِ اسلام کے ہر مرد، عورت، جوان، بزرگ، عالم، طالب علم، تاجر، صنعت کار، صحافی، استاد، ڈاکٹر اور انجنیئر سے خاموشی کی زبان سے یہ سوال کر رہا ہے کہ ہمارے قدم تو اس راستے میں بحمد للہ ثابت ہیں لیکن کیا ہوا اسکا ...وہ جو ایمان کے ایک لازوال رشتے کی بنیاد پر ’’تمہارا مجھ سے وعدہ تھا؟!‘‘