- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
ایک دوسرے دھاگے میں جاری مباحثے میں عقائد میں تقلید کے تعلق سے درج ذیل گزارش کی گئی تھی:
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ اگر فقہی مسائل میں تقلید کی حاجت و ضرورت ہے، تو عقائد کا معاملہ تو زیادہ اہم ہے اور نجات کے لئے عقائد کی جو اہمیت ہے وہ اعمال کی نہیں، یہ بات بھی فریقین کے نزدیک مسلم ہے۔ پھر امت میں جیسے اختلافات فقہی مسائل میں رہے ہیں، ویسے عقائد میں بھی رہے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم فروعی معاملات میں کسی امام پر اعتماد کرتے ہوئے، اس کی تقلید اختیار کرتے ہیں تو عقائد میں تو یہ بدرجہ اولیٰ ضروری ہے کہ اس کی تقلید اختیار کی جائے۔ کیونکہ نجات کا مدار تو عقائد کی درستی پر ہے۔ معلوم نہیں یہ سوچ درست ہے یا نہیں۔ بہرحال:
1۔ اگر دور حاضر کے احناف عقائد میں بھی مقلد ہیں، حنفی ہیں یا اشعری ، ماتریدی وغیرہ ہیں۔ تو بھی میرے ذہن میں کافی الجھنیں اور سوالات ہیں۔ جن کا ذکر جواب آنے کے بعد مناسب ہوگا۔
2۔ اگر دور حاضر کے احناف عقائد میں غیر مقلد ہیں، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کی حد تک اہلحدیث اور احناف متفق ہیں کہ تقلید کرنا درست نہیں؟ اگر دین کو عقائد اور اعمال کے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو گویا دین کا "اہم تر" حصہ ایسا ہے جس میں تقلید نہ کرنے کی حد تک ہمارا اتفاق ہے اور ذرا "کم اہم" حصہ ایسا ہے، جس میں یہ اختلاف قائم ہے۔
اس دھاگے کا مقصد ہرگز مناظرہ بازی کرنا نہیں۔ فقط ایک عامی کے ذہن کی الجھنوں کے جواب تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اب اس جواب کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے۔ یعنی عقائد میں تقلید ہونی چاہئے یا نہیں، یہ کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ جن صاحبان کا بھی اس موضوع پر مطالعہ ہے وہ یہاں ضرور شیئر کریں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
ایک دوسرے دھاگے میں جاری مباحثے میں عقائد میں تقلید کے تعلق سے درج ذیل گزارش کی گئی تھی:
وہاں غالباً موضوع سے مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے کسی صاحب علم کی جانب سے جواب نہیں آیا۔ لہٰذا یہ نیا دھاگا بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ عنوان ہی سوال ہے اور وہی اس دھاگے کا موضوع بھی۔ اس موضوع پر کچھ زیادہ پڑھنے سننے کو نہیں ملا، اس لئے مجھ پر واقعی یہ واضح نہیں ہے کہ موجودہ احناف کی اکثریت عقائد میں اشعری ، ماتریدی وغیرہ ہیں یا غیر مقلد ہیں۔ خصوصاً جمشید صاحب سے گزارش ہے کہ اس دھاگے میں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر احناف کے موقف کی ترجمانی کیجئے۔مجھے سنجیدگی سے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ آیا یہ تقلید عقائد میں بھی کی جانی چاہئے یا نہیں؟َ
اگر تقلید شخصی یا تقلید حکمی کے اتنے ہی فوائد ہیں اور یہ معتدل شاہراہ ہے تو پھر فقط فرعی مسائل ہی میں کیوں؟
معذرت، اگر یہ اس موضوع کی حدود سے خارج بحث ہے تو Hasan ، خضر حیات اور جمشید برادران سے گزارش ہے کہ نئے دھاگے میں اس موضوع پر بھی کچھ بات چیت کر لی جائے۔
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ اگر فقہی مسائل میں تقلید کی حاجت و ضرورت ہے، تو عقائد کا معاملہ تو زیادہ اہم ہے اور نجات کے لئے عقائد کی جو اہمیت ہے وہ اعمال کی نہیں، یہ بات بھی فریقین کے نزدیک مسلم ہے۔ پھر امت میں جیسے اختلافات فقہی مسائل میں رہے ہیں، ویسے عقائد میں بھی رہے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم فروعی معاملات میں کسی امام پر اعتماد کرتے ہوئے، اس کی تقلید اختیار کرتے ہیں تو عقائد میں تو یہ بدرجہ اولیٰ ضروری ہے کہ اس کی تقلید اختیار کی جائے۔ کیونکہ نجات کا مدار تو عقائد کی درستی پر ہے۔ معلوم نہیں یہ سوچ درست ہے یا نہیں۔ بہرحال:
1۔ اگر دور حاضر کے احناف عقائد میں بھی مقلد ہیں، حنفی ہیں یا اشعری ، ماتریدی وغیرہ ہیں۔ تو بھی میرے ذہن میں کافی الجھنیں اور سوالات ہیں۔ جن کا ذکر جواب آنے کے بعد مناسب ہوگا۔
2۔ اگر دور حاضر کے احناف عقائد میں غیر مقلد ہیں، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کی حد تک اہلحدیث اور احناف متفق ہیں کہ تقلید کرنا درست نہیں؟ اگر دین کو عقائد اور اعمال کے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو گویا دین کا "اہم تر" حصہ ایسا ہے جس میں تقلید نہ کرنے کی حد تک ہمارا اتفاق ہے اور ذرا "کم اہم" حصہ ایسا ہے، جس میں یہ اختلاف قائم ہے۔
اس دھاگے کا مقصد ہرگز مناظرہ بازی کرنا نہیں۔ فقط ایک عامی کے ذہن کی الجھنوں کے جواب تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اب اس جواب کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے۔ یعنی عقائد میں تقلید ہونی چاہئے یا نہیں، یہ کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ جن صاحبان کا بھی اس موضوع پر مطالعہ ہے وہ یہاں ضرور شیئر کریں۔ جزاکم اللہ خیرا۔