پہلی بات تو یہ ہے کہ مقاییس اللغۃ کی ایک عبارت کے حوالے سے آپ نے نسخ کا جو معنی بیان کیا ہے، وہ اس سے نہیں نکل رہا ہے کیونکہ عربی زبان میں خلف کا معنی محض قائمقام ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس طرح قائمقام ہونا کہ پہلا ختم ہو چکا ہو اور یہ درحقیقت پہلے معنی ہی کی وضاحت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩﴿٥٨﴾ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
پس مقاییس اللغۃ کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر چیز جب دوسری کے اس طرح قائمقام ہو جائے کہ پہلی نہ رہے تو اس کو نسخ کہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ زید کالاسد کہنا ایک درست جملہ ہے، چاہے زید میں بہادری نہ بھی ہو اور بہادری نہ ہونے کی صورت میں اسے مبالغہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن جملہ درست رہے گا۔
اس کے لیے یوں مثال دوں گا کہ نیلسن منڈیلا حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام جیسا، بلاشبہہ آپ کی بات بجا کہ گرامر اور زبان کے اعتبار سے جملہ درست ہے یعنی علم بیان میں درست ہے لیکن علم معانی کے اعتبار سے سو فی صد لغو ہے کیونکہ وجہ شبہہ میں مبالغہ نہیں بلکہ وہ مشبہہ میں مفقود ہے۔ مبالغہ اس کو کہتے ہیں کہ ایک صفت موجود ہو اور آپ اس کو بڑھا دیں یعنی ایگزیجیریٹ کر دیں۔ اور اگر ایک موجود ہی نہ ہو اور اسے ثابت کیا جائے تو یہ امر واقع کا خلاف ہے جسے ہم اصطلاح میں کذب کہتے ہیں۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ کلام محض الفاظ کی صحت ترکیب کا نام نہیں ہے بلکہ الفاظ کی صحت ترکیب کے ساتھ ان سے پیدا ہونے والے معانی کا نام ہے۔ ورنہ تو مستشرقین نے بھی قرآن جیسا کلام لانے کا نہ صرف دعوی کیا بلکہ وہ لے کر بھی آئے ہیں جیسا مستشرقین کا قرآن دی ٹرو فرقان اس کی ایک مثال ہے۔ ایک مستشرق نے قرآن کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے یہ آیات گھڑیں:
الفیل ما الفیل وما ادراک ما الفیل۔ اب کلام کی صحت ترکیب یا علم بیان کا کون سا قاعدہ ہے جو اس میں لغو ثابت ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ایک عربی دان اسے سن کر ہنسے بغیر نہیں رہے گا۔
ایک اوربات واضح کرتا چلوں کہ حنفی فقہ میں کتب فقہ کو چار درجات میں تقسیم کیا گیا ہے: کتب اصول، کتب نوادر، کتب فتاوی اور کتب جمع وتالیف۔ الہدایہ آخری درجے کی کتاب شمار ہوتی ہے جو لتب اصول، کتب نوادر اور کتب فتاوی، فتاوی سے مراد حالیہ معنی میں فتاوی نہیں ہے، سے کیسےبے نیاز کر سکتی ہے؟
میری رائے میں ایک جملے میں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ شاعر کا یہ شعر امر واقعہ کے خلاف ہے، اور اگر وہ ایسا شعر نہ کہتے تو بہت بہتر تھا، تو اتنی لمبی چوڑی دفاعی تاویلات سے بچا جا سکتا ہے۔