• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلاف امتى رحمة

شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
31
*حدیث مبارکہ*

"اختلاف امتی رحمة"

*حوالہ جات:*
( "جامع الاحادیث للسیوطی جلد 1 صفحہ 124 حدیث 706 بیروت"، "کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 79 حدیث نمبر 153" الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 108 مطبوعہ المکتب الاسلامی")

*اسانید:*
اس کی مکمل سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی مگر صاحب مدخل نے ابن عباس سے بسند منقطع اور صاحب فردوس نے بسند مرفوع روایت کیں۔

اسی طرح ملا علی قاری نے مسند فردوس کے حوالے سے ہی اس کی ایک سند "بطریق جویبر عن الضحاک عن ابن عباس مرفوعا" بیان کی ہے
لیکن اس میں جویبر بن سعید الازدی کو ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

( "الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 110" )

*اقوال آئمہ:*

صاحبِ کشف الخفاء نے اس کی سند کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ
"رواہ البیہقی فی المدخل بسند منقطع عن ابن عباس لفظ:
"قال رسول اللہ مما اوتیتم من کتاب اللہ فالعمل بہ لا عذر لاحد فی ترکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واختلاف اصحابی لکم رحمتہ"

اس کے بعد کچھ آگے جا کر آپ لکھتے ہیں کہ

وقد اوردہ ابن الحاجب فی المختصر فی مباحث القیاس بلفظ: اختلاف امتی رحمۃ للناس ،وکثر السوال عنہ وزعم کثیر من الائمۃ انہ لااصل لہ لکن ذکرہ الخطابی فی غریب الحدیث مستطردا وقال اعترض علی ھذا الحدیث رجلان احدھما ماجن والآخر ملحد وھما اسحاق الموصلی وعمروبن بحر الحاحظ،وقالا لو کان الاختلاف لکان الاتفاق عذابا ثم تشاغل الخطابی برد ھذ ا الکلام، ولم یشف فی عزوالحدیث، لکنہ أشعر بان لہ اصلا عندہ۔

اس کے بعد آپ نے (کشف الخفاء) مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں علامہ خطابی کا جواب نقل کر کے اپنی طرف سے بھی اس کا جواب نقل کیا ہے جس کو میں آگے چل کے بیان کرتا ہوں اس سے پہلے اس کے متعلق علامہ سیوطی کا موقف جانتے ہیں

اس کی سند کے متعلق خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمتہ الله عليه نے کلھا ہے کہ
اس حدیث کو المقدسی نے الحجة اور البیہقی نے الرسالہ الشعریہ میں بغیر سند کے ذکر کیا اسی طرح حلیمی،قاضی حیسن اور امام الحرمین نے بھی ذکر کیا مگر اس کی سند نہیں بیان کی گئی۔
اس کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ
"ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا"

کہ ان آئمہ نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے مگر ہمیں اس کی سند نہیں ملی شاید کہ اس کی تخریج ان کتب حفاظ میں کی گئی ہو جن تک ہماری رسائی نہ ہو۔

یہ بات کہہ کر جہاں علامہ سیوطی نے حسنِ ظن و آدابِ اسلاف کا کمال مظاہرہ کیا ہے وہاں ہی انہوں نے اس حدیث کے متعلق ان آئمہ پر اعتماد کیا ہے۔

اس حدیث کو اور بھی کئی محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے جنہیں صاحب کشف الخفاء نے بیان کیا ہے مثلا:

ومن ھذاالوجہ اخرجہ الطبرانی والدیلمی بلفظہ و فیہ ضعف۔

کہ اسی طریق پہ طبرانی اور دیلمی نے بھی روایت کی انہی الفاظ کے ساتھ اور اس میں ضعف ہے۔۔

وعزاہ العراقی لآدم بن ابی ایاس فی کتاب العلم والحکم بغیر بیان لسندہ ایضا بلفظ :
"اختلاف اصحابی رحمۃ لامتی"
وھو مرسل ضعیف۔

اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعث رحمت ہے

اور ساتھ ہی یحیی بن سعید کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم بھی یہی ہے۔

اسی طرح امام مالک رحمۃ الله عليه کا قول بھی نقل کیا ہے کہ
"ان اختلاف العلماء رحمۃ من اللہ تعالیٰ علی ھذہ الامة"

اسی طرح مسند فردوس نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا

اور ابن سعد نے طبقات میں قاسم بن محمد کا قول نقل کیا ہے کہ
"کان اختلاف اصحاب محمد رحمۃ للناس"

اور ابو نعیم ان الفاظ کے ساتھ لے کر آئے کہ
" کان اختلاف اصحاب رسول الله رحمۃ لھؤلاء الناس"

(کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 79،80 تحت حدیث 153)

*ملا علی قاری* نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا اور کہا کہ "بہت سارے آئمہ نے یہ کہا ہے کہ
اس کی کوئی اصل نہیں ہے"

مگر اس کے بعد آپ نے بھی طویل بحث کی اور اس کی نظیر ذکر کیں اور علامہ خطابی کا ذکر بھی کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو غریب الحدیث میں مستطردا ذکر کیا ہے اور انہوں( خطابی) نے یہی اشارہ دیا کہ ان کے نزدیک اس کی اصل موجود ہے۔

"( الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 108،109 مطبوعہ المکتب الاسلامی )"

اب آتے ہیں اس پر آنے والے اعتراض کے جواب کیطرف جس کو صاحب کشف الخفاء نے بھی نقل کیا ہے

لیکن اس سے پہلے اس پر *علامہ البانی* کے اعتراض کو بھی شامل کر لیتے ہیں جو انہوں نے اس حدیث کو موضوع قرار دے کر علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ الله عليه کا بھی رد کیا اور ساتھ میں اعتراض بھی کیا ہے کہ
جلال الدین سیوطی رحمہ الله کا یہ قول
"ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا"

"میری عقل سے بعید ہے"۔

اور ساتھ میں یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ

امت کا اختلاف درست نہیں ہے اللہ ارشاد فرماتا ہے۔

وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

اور دوسری جگہ

وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔۔

لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاََ مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

‏ "ملخصا السلسۃ الضعیفۃ ( 11 )"
نوٹ
*یہ اعتراض غیر مقلدین کے فتوے سے نقل کیا گیا ہے*

پہلے اعتراض کا جواب تو واضح ہے کہ موصوف متشدد غیر مقلد تھے اور اس حدیث کے مفہوم کو مقلدین حضرات آئمہِ مجتہدین کے درمیان ہونے والے فروعی اختلافات کے حق ہونے پر شاہد گردانتے ہیں اس لیے وہ اس حدیث کو اپنی عقل کی فہم سے بعید سمجھتے تھے

اور

اِن کے اِن دوسرے اعتراضات کا جواب صاحب کشف الخفاء اور علامہ خطابی نے بہت پہلے دے دیا تھا

صاحب کشف الخفاء اس اعتراض کے جواب میں خطابی کا قول نقل کرتے ہیں کہ
"والاختلاف فی الدین ثلاثة اقسام:الاول فی اثبات الصانع ووحدانیتہ، وانکارہ کفر، والثانی فی صفاتہ و مشیئتہ، وانکارھما بدعة، والثالث فی احکام الفروع المحتملة وجوھاً، فھذا جعل الله رحمۃ و کرامة للعلماء، وھو المراد بحدیث:"اختلاف امتی رحمۃ" انتہی۔

مختصرا یہ کہ یہاں صرف آئمہ فقہاء و مجتہدین کا فروعی اختلاف مراد ہے جو کہ امت میں فقہاء و آئمہ مجتہدین کے مابین مشہور و معروف ہے۔

اس کے بعد صاحب کشف الخفاء نے اس اعتراض کا جواب اپنی طرف سے بھی دیا ہے جس کےلیے وہ *شرح مسلم علامہ نووی* کی عبارت نقل کرتے ہیں کہ

"ولا یلزم من کون الشئی رحمۃ ان یکون ضدہ عذابا، ولا یلتزم ھذا و یذکرہ الا جاعل او متجاھل وقد قال اللہ تعالی:
" ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ"
فسمی اللیل رحمۃ ولا یلزم من ذلك ان یکون النہار عذابا" انتہی ۔

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ کسی چیز کے رحمت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی مخالف چیز عذاب ہو، اور اس بات کا التزام اور ذکر صرف جاہل یا متجاہل( جو جان بوجھ کر جاہل بنے) ہی کرے گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ
" ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ"
پس تو یہاں رات کو رحمت قرار دیا گیا ہے اور اس سے دن کا عذاب ہونا لازم نہیں آتا۔

المختصر حدیث کی سند کے ہونے اور نہ ہونے کلام اپنی جگہ ہے مگر یہ مفہوم بلکل درست ہے اور اسے اختلاف نہ کرے گا مگر متعصب۔

*اقول:*
یہ حدیث اگرچہ جمہور محدثین کے نزدیک "لا اصل لہ عندھم" ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا ذکر کرنے والوں پہ علامہ سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کا اعتماد کرنا اور علامہ خطابی کے کلام سے ان کے نزدیک اس کی اصل کے موجود ہونے کا اشارہ ملنا اور دیگر آئمہ کا اس کو ذکر کرنے کے بعد اس کی نظیرات ذکر کرنا خصوصا صاحب کشف الخفاء کا اس کے مفہوم کے درست ہونے پہ تبصرہ کرنا اور اس کے مماثل ذکر کرنا اس حدیث کو درجہ ضعف میں لائے گا نہ کہ یہ موضوع ہو۔

اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ موضوع ۔۔۔

*حکم الروایة :*
ضعیف

واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب۔۔۔

*تحقیق :*
*قیصر عباس عطاری*
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
*تحقیق :*
*قیصر عباس*
یہ کیا غضب، ظلم اور اندھیرہے کہ ایک مقلد ’’تحقیق‘‘ کررہا ہے۔
کیا اہل حدیث کی دشمنی میں قیصرعباس صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب سے بغاوت کا علم بلند کیا ہے؟
یاد رہے کہ ہمیں کسی شخص کےتحقیق کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ اندھے مقلدوں کے دوغلے پن پر اعتراض ہے جب تقلیدی مذہب سوائے امام کے کسی مقلد کو تحقیق و اجتہاد کی اجازت ہی نہیں دیتا تو یہ بے شرم کس منہ سے تحقیق کرتے ہیں۔ موصوف قیصر صاحب پہلے اپنے مذہب پر لعنت بھیجئے اس کے بعد جتنی چاہے تحقیق فرمائیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
31
یہ کیا غضب، ظلم اور اندھیرہے کہ ایک مقلد ’’تحقیق‘‘ کررہا ہے۔
کیا اہل حدیث کی دشمنی میں قیصرعباس صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب سے بغاوت کا علم بلند کیا ہے؟
یاد رہے کہ ہمیں کسی شخص کےتحقیق کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ اندھے مقلدوں کے دوغلے پن پر اعتراض ہے جب تقلیدی مذہب سوائے امام کے کسی مقلد کو تحقیق و اجتہاد کی اجازت ہی نہیں دیتا تو یہ بے شرم کس منہ سے تحقیق کرتے ہیں۔ موصوف قیصر صاحب پہلے اپنے مذہب پر لعنت بھیجئے اس کے بعد جتنی چاہے تحقیق فرمائیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
جب کسی شخص کی تحقیق پر اعتراض نہیں تو باقی آپ کی باتیں لغویات ہی ہیں جن کا میں جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔
والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جب کسی شخص کی تحقیق پر اعتراض نہیں تو باقی آپ کی باتیں لغویات ہی ہیں جن کا میں جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔
والسلام
آپ کی تحقیق پر تو سخت اعتراض ہے کیونکہ آپ اپنے ہی مذہب کی رو سے اس کام کے اہل نہیں ہیں۔ چناچہ ایک نااہل شخص کی اپنی حدود سے تجاوز پر آپ کی یہ تحقیق مردود اور حنفی مذہب سے بغاوت کے حکم میں ہے۔ یا تو آپ اپنا مذہب بچائیں یا پھر تحقیق کا شوق پورا کریں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
قیصر عباس عطاری صاحب آپ کو تواتنی بھی شرم نہیں کہ آپ کی تحقیق کے آگے آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کا سر نیچا ہوگیا ہے کیونکہ انہوں نے ساری زندگی اتنی تحقیق نہیں کی تھی جتنی آ پ نے ان کا مقلد ہوتے ہوئے کر ڈالی۔ یعنی آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ آپ کے امام اعظم آپکی خاک پاہ کے برابر بھی نہیں ہیں۔ یعنی حد ہوتی ہے گستاخی کی۔ آپ کو اپنے امام کی عزت کی لاج رکھتے ہوئے اس تحقیق سے توبہ کرنی چاہیے۔ کیا خیال ہے؟
 
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
31
قیصر عباس عطاری صاحب آپ کو تواتنی بھی شرم نہیں کہ آپ کی تحقیق کے آگے آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کا سر نیچا ہوگیا ہے کیونکہ انہوں نے ساری زندگی اتنی تحقیق نہیں کی تھی جتنی آ پ نے ان کا مقلد ہوتے ہوئے کر ڈالی۔ یعنی آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ آپ کے امام اعظم آپکی خاک پاہ کے برابر بھی نہیں ہیں۔ یعنی حد ہوتی ہے گستاخی کی۔ آپ کو اپنے امام کی عزت کی لاج رکھتے ہوئے اس تحقیق سے توبہ کرنی چاہیے۔ کیا خیال ہے؟
یہ محض آپ کی لغویات ہیں بجائے اس کے آپ حدیث پہ بات کریں آپ میری ذات پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں بس یہی آپ کے باطل پر ہونے کی واضح علامت ہے۔
اور یہ محدث فورم ہے، کوئی مناظرہ و مجادلہ فورم نہیں لہذا مقصود کی طرف نظر کرتے ہوئے اپنا کام کریں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بس یہی آپ کے باطل پر ہونے کی واضح علامت ہے۔
سبحان اللہ! دنیا کے سب سے باطل مذہب کا پیروکار دوسروں پر باطل ہونے کی پھبتی کس رہا ہے۔
یہ محض آپ کی لغویات ہیں بجائے اس کے آپ حدیث پہ بات کریں آپ میری ذات پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں
آپ کو اپنے اصولوں اور مذہب سے بغاوت لغویات کیوں نظر آرہی ہیں؟ اس لئے کہ اس اصولی بات کا آپ جیسے دوغلے کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
لہذا مقصود کی طرف نظر کرتے ہوئے اپنا کام کریں۔
ہم مقصود کی طرف نظر کرتے ہوئے ہی بتارہے ہیں کہ یہ آپکی جاہلانہ تحقیق آپ کے مذہب کی رو سے باطل اور مردود ہے اس لئے اس کام کو چھوڑ کر اپنا اصل کام کیجئے یعنی حنفی مذہب کی اندھی پیروی۔
 
Top