• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلاف ِ امت پر رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کا صحیح اطلاق

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تمہید

آج کچھ دین بیزار لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا واقعی امت میں کسی اختلاف کی ضرورت تھی یا یہ صرف مولویوں نے پیٹ پالنے کے بہانے بنائے ہوئے ہیں-
تو محترم بھائیو آپ کو بتاتا چلوں کہ اختلافِ امت اللہ کی طرف سے آزمائش کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے
اللہ تعالی نے یہ زندگی کو پیدا کرنے کا مقصد امتحان بتایا ہے جیسے فرمایا الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا (یعنی زندگی کا مقصد آزمانا ہے) پس ہر امتحان میں پیچیدگیاں ہوتی ہیں اور یہ بھی ہم مانتے ہیں کہ جس امتحان سے جتنا بڑا انعام ملنا ہو وہ اتنا ہی مشکل اور پیچیدگیوں سے بھرپور ہو گا مثلا مقابلے کے امتحانات (CSS, PCS) ان میں مشکلات بھی بڑی ہوتی ہیں اور محنت بھی بڑی کرنی پڑتی ہے
مگر یہ دنیا کی سوچیں ہیں اللہ کے ہاں سب سے بڑا انعام کیا ہے فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز کے تحت جب سب سے بڑا انعام جنت کا حصول ہی ہے تو سوچیں اس میں کتنی مشکلات اور محنت کار فرما ہو گی جیسے اللہ نے فرمایا الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنوں یعنی تمھارے جنت کے حصول کے دعوی کے بعد کیا جنت کے شیان شان امتحان (فتنوں) سے تمھیں پالا نہیں پڑے گا (ایمان لانا دراصل جنت کے حصول کا دعویدار ہونا ہی ہے)
ان امتحانوں میں ولنبلونکم بشیء من ا لخوف والجوع ------- کی تمام چیزیں بھی شامل ہیں اور ان میں اختلاف کا امتحان بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا کہ ہم نے سیدھے راستے کو سمجھنے کا امتحان جو رکھا ہے اسکو بھی حلوہ بنا کے آپ کے آگے نہیں رکھ دیا بلکہ انعام (یعنی جنت) کے شایان شان اس میں بھی آپ کو محنت کرنی پڑے گی تو پھر ہم سیدھا راستہ دکھا دیں گے
اب ہمارے ائمہ کرام (محدثین اور فقہا) نے اس دین کے لئے محنتیں کی ہیں جن میں ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور وہ حق کو بھی پہنچے ہیں
امتِ محمد کے جن مقبول عام ائمہ کرام سے غلطیاں ہوئیں ان کے بچاؤ کے لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس کا مقصد امتِ مسلمہ کے ائمہ سے متعلق اس خیال کی تردید کرنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کی مخالفت کر سکتے ہیں
اس رسالے کے مندرجات کو مکمل یہاں لگانا تو مجھے نہیں آتا ساتھ ساتھ باتوں میں جتنا ہو سکا اسکو لکھ کر ان شاءاللہ اپنی بات کرتا جاؤں گا
میرے مقاصد

محترم بھائیو میری محترم اشماریہ بھائی سے اسی طرح کی بات چل رہی تھی جو وہاں موضوع کے مطابق نہیں تھی تو میں نے سوچا کہ علیحدہ سے ایک موضوع شروع کر کے اس طرح کی باتوں کو تفصیل سے ڈسکس کیا جائے
میں بنیادی طور پر مندرجہ ذیل باتوں پر باری باری یہاں بحث کرنا چاہتا ہوں
1-اس رسالے میں جن وجوہات کی بنا پر ائمہ سے ملامت کو رفع کیا گیا ہے ان کی وضاحت
2-رسالے میں جن ائمہ سے ملامت کو اٹھایا گیا ہے ان میں کون کون سے علماء آ سکتے ہیں اسکی وضاحت
3-ان ائمہ سے ملامت کو رفع کرنے کے بعد ہمارا عقائد یا عبادات میں لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے (یہ اصل مقصود ہے کیونکہ ہمارا کام ائمہ پر حکم لگا کر چھوڑ دینا نہیں بلکہ حکم لگانے کا مقصد بھی صراظ الذین انعمت علیھم کے تحت اپنے اعمال کا رخ صحیح کرنا ہوتا ہے)
باقی انشاء اللہ اگلی فرصت میں لکھوں گا
یوسف ثانی بھائی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تمہید

آج کچھ دین بیزار لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا واقعی امت میں کسی اختلاف کی ضرورت تھی یا یہ صرف مولویوں نے پیٹ پالنے کے بہانے بنائے ہوئے ہیں-
تو محترم بھائیو آپ کو بتاتا چلوں کہ اختلافِ امت اللہ کی طرف سے آزمائش کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے
محترم بھائیو آگے چلنے سے پہلے اوپر کےاشکال کی تھوڑی سی اور وضاحت کر دوں جو پہلے جلدی کی وجہ سے نہیں کر سکا
اقبال نے کہا ہے کہ
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اسکی وضاحت ایسے ہے کہ فرشتے اور انسان میں دو چیزوں کا فرق ہے جو فرق انسان کے عمل کو اعلی بناتا ہے
1-فرشتے امتحان میں نہیں ڈالے گئے مگر انسانوں کا عمل امتحان ہی ہوتا ہے جیسے لیبلوکم ایکم احسن عملا
2-فرشتوں کو بہکانے والا کوئی نہیں مگر انسان کو بہکانے والا شیطان ہر وقت موجود ہوتا ہے جیسے زین لھم الشیطن اعمالھم
فرشتوں کے اندر اللہ نے خواہش نہیں رکھی تھی پس انکے لئے امتحان نہیں تھا تبھی وہ یفعلون ما یومرون کی صفت سے متصف تھے اور پھر جب اللہ نے اس صفت سے ہٹ کر ایک مخلوق پیدا کرنی چاہی جس پر آزمائش بھی آنی تھی تو انھوں نے اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء کا اعتراض کیا کہ اس طرح تو خون ریزی ہو گی کیونکہ فرشتے کوئی کام کرتے ہیں تو بہکانے والا نفس یا شیطان نہیں ہوتا مگر انسان جب نیک عمل کرتا ہے تو اسکو نفس اور شیطان بہکاتے ہیں
اسکو ایک ایک مثال سے سمجھتے ہیں زید نے ابھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے اب اسکو بھوک نہیں ہے اور اسلم صبح سے بھوکا ہے اور اس کو کھانے کی خواہش ہے اب اگر میں کہوں کہ دو گھنٹے تک کسی نے کچھ نہیں کھانا تو اگر زید کچھ نہیں کھاتا تو اسکی میرے ہاں وہ قدر نہیں ہو گی جتنی اسلم کے نہ کھانے پر ہو گی کیونکہ اس نے خواہش کے باوجود بھوک برداشت کی
پس اسلام پر عمل کے لئے ہمیں ان تکالیف (بشمول اختلاف پر تحقیق کی تکلیف) سے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ یہ تو ہمیں اقبال کے شعر کی طرح الٹا بلند کرتی ہیں کہ
تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اگلی فرصت میں ان شاءاللہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب سے بات شروع کروں گا اللہ توفیق دے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تمہید

1-اس رسالے میں جن وجوہات کی بنا پر ائمہ سے ملامت کو رفع کیا گیا ہے ان کی وضاحت
اس رسالے میں امام صاحب نے لکھا ہے کہ ہمیں بظاہر ایسے لگتا ہے کہ کچھ ائمہ کا قول یا عمل بعض احادیث نبوی پر جان بوجھ کر نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم ان پر مخالفتِ حدیث کا الزام لگاتے ہیں لیکن اصل میں ان ائمہ کے پاس اس حدیث پر عمل نہ کرنے کا یا اسکو حجت نہ سمجھنے کا کوئی جائز سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس حدیث پر عمل سے معذوری ظاہر کرتے ہیں
اب وہ آئمہ جس طرح اپنے آپ کو حدیث پر عمل کرنے سے معذور سمجھتے ہیں یا ظاہرا انکا عمل کسی حدیث کے مخالف نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے جو عذر (مجبوریاں) ہیں ان کو امام صاحب رحمہ اللہ نے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے اور پھر ان تین مختلف عذروں کو مد نظر رکھتے ہوئے امام صاحب نے لکھا ہے کہ اسکے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں جن میں سے 10 اسباب انھوں نے ذکر کیے ہیں مگر کہا ہے کہ اور بھی ہو سکتے ہیں یعنی ان 10 کے علاوہ بھی سبب ہو سکتے ہیں
امام صاحب لکھتے ہیں
وجميع الأعذار ثلاثة أصناف: أحدها: عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله.
والثاني: عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة بذلك القول.
والثالث: اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ

یعنی ایسے تمام اسباب جن کی وجہ سے آئمہ کا عمل بظاہر کسی حدیث کے مخالف نظر آتا ہے وہ تین قسم کے ہو سکتے ہیں
1-وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا (حدیث کے ثبوت کا اختلاف)
2-وہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا مقصد وہ نہیں تھا جو لوگ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں (حدیث کے فہم کا اختلاف)
3-یا وہ سمجھتے ہیں کہ حدیث ثابت بھی ہے اور اس سے مراد بھی ٹھیک لیا گیا ہے مگر اب یہ حکم منسوخ ہے (حدیث کے بلحاظ عمل قبولیت میں اختلاف)

اسکے بعد امام صاحب رحمہ اللہ نے جو دس اسباب بیان کیے ہیں جو انہی تین عذروں سے ہی منسلک ہیں کہ جن کی وجہ سے آئمہ سے صحیح حدیث کے خلاف قول یا عمل ملتا ہے وہ مختصرا یہاں لکھ دیتا ہوں

1-حدیث امام تک صحیح حدیث پہنچی نہ ہو
2-صحیح حدیث پہنچی تو ہو مگر انکو جس واسطے سے پہنچی ہو وہ ضعیف ہو جبکہ دوسروں کو جس واسطے سے پہنچی ہو وہ صحیح ہو پس وہ حدیث ان امام صاحب کے نزدیک ثابت نہیں
3-صحیح حدیث پہنچی تو ہو اور انکو بھی اسی واسطے سے پہنچی ہو جس سے دوسروں کو پہنچی ہے مگر امام صاحب کی صحت کی شرائط دوسرں سے مختلف ہونے کی وجہ سے یہ انکے نزدیک ثابت نہ ہو جیسے امام حاکم نے مستدرک وغیرہ میں بہت سی اسانید کو صحیح کہا جبکہ دوسرے علماء اسکو صحیح نہیں کہتے
4-صحیح حدیث کسی امام کو پہنچی ہو مگر وہ خبر واحد ہو تو چونکہ اسکی قبولیت کے لئے شرائط میں آئمہ نے اختلاف کیا ہے (جیسے کچھ عمل مدینہ کے خلاف قبول نہیں کرتے کچھ قرآن کے ظاہر کے خلاف قبول نہیں کرتے وغیرہ) تو جب وہ صحیح حدیث اس امام کے اصول کے خلاف پڑتی ہے تو وہ اسکو رد کرتے ہیں جیسے خیار مجلس کی حدیث کو امام مالک نے اپنے اصول کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کیا ہے
5-صحیح حدیث تو اس امام کو پینچی ہو مگر وہ بھول گیا ہو جیسے جنابت میں تیمم کرنے والی حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھول گئے تھے اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے یاد کروانے پر بھی یاد نہ آئی
6-صحیح حدیث کسی امام کو پہنچی تو ہو مگر اس میں کسی وجہ (مثلا غریب الفاظ وغیرہ) سے وہ حدیث کے مدلول کی معرفت سے محروم رہے
7-صحیح حدیث کسی امام کو پہنچی ہو اور انکو حدیث کے مدلول کی معرفت بھی ہو گئی ہو مگر انکے نزدیک وہ دلالت ان کے کسی اصول کی وجہ سے صحیح نہ ہو (چاہے وہ اصول میں حق پر ہوں یا خطا پر ہوں)
8-صحیح حدیث کی دلالت کسی دوسری صحیح حدیث سے کی دلالت کے معارض (مخالف) ہو تو ترجیح کے اصولوں میں اختلاف کی وجہ سے کوئی امام پہلے والی صحیح حدیث کے خلاف ترجیح دوسری کو دے دے مثلا دلالتِ مفہوم اور دلالتِ منطوق میں ترجیح کا فیصلہ کرنا وغیرہ
9-صحیح حدیث کی دلالت کسی دوسری صحیح حدیث کی دلالت کے معارض (مخالف) ہو اور ترجیح بھی نہ ہو سکے لیکن اس مسئلہ کے سیاق میں کسی امام کو کچھ ایسی باتیں مل جائیں جس سے اس کے نزدیک کسی ایک کو ترجیح مل جائے مثلا باقی اثار، صحابہ کا منہج وغیرہ
10-صحیح حدیث کی دلالت کسی امام کو اس چیز کے معارض محسوس ہو جسکو وہ حدیث کی نص سے قوی سمجھتا ہے پس وہ چیز اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ یہ صحیح حدیث ضعیف سمجھی جائے یا منسوخ سمجھی جائے یا تاویل کی جائے مثلا یہ سمجھنا کہ قرآن کا ظاہر عموم پر دلالت کرتا ہے

محترم بھائیو میں نے اپنے علم کے مطابق پہلے نمبر کے بارے لکھ دیا ہے اس میں اگر کسی کو وضاحت درکار ہو تو وہ پوچھ سکتا ہے اور اگر میری کم علمی یا جلدی کی وجہ سے کچھ رہ گیا ہو یا کوئی بھائی اصلاح کرنا چاہے تو وہ لازمی کرے اللہ اسکو جزا دے

اس بحث کے بعد ان شاء اللہ اگلے نقطے پر بحث کریں گے کہ کون کون سے علماء اس میں آتے ہیں اور پھر آخر پر اصل مقصود پر بات ہو گی کہ ان اختلافات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے
خضر حیات
اشماریہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میں نے پہلے نمبر پر وجوہات لکھی تھیں جن کے تحت بظاہر ہمیں آئمہ پر اعتراض نظر آتا ہے اس پر بھائیوں سے اصلاح چاہی تھی مگر مصروفیت یا میرے ساتھ اتفاق کی وجہ سے اصلاح نہیں کی گئی خیر دوسری بات کی طرف آتے ہیں
2-رسالے میں جن ائمہ سے ملامت کو اٹھایا گیا ہے ان میں کون کون سے علماء آ سکتے ہیں اسکی وضاحت
کتاب میں آئمہ اہل سنت سے ملامت کو رفع کیا گیا ہے جن میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہوتی ہیں
1-وہ دین یا شریعت کا مصدر قرآن و حدیث کو ہی مانتے ہوں اور عقل کو اسکے تابع کرتے ہوں
2-قرآن و حدیث کو مصدر ماننے کے بعد اسکی تفہیم و تفسیر کو خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم کے تحت پہلے تین زمانوں کے آئمہ کی فہم اور تعبیر کے دائرے تک رکھا جاتا ہو

اب جو لوگ پہلے پوائنٹ کو ہی نہیں مانتے تو ان سے ملامت رفع نہیں ہوتی مثلا منکرین حدیث، معتزلہ یا اسی طرح کا عقیدہ رکھنے والا کوئی اور گروہ
اسی طرح جو لوگ دوسرے پوائنٹ کا خیال نہیں کرتے اور قرآن و حدیث کی تشریح اپنی مرضی سے یا لغت وغیرہ سے کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی اس میں نہیں آتے
البتہ جو لوگ اسکی تعبیر و تفسیر کو نمبر دو میں بتائے گئے دائرہ تک ہی محدود رکھتے ہیں ان میں دائرے کے اندر صحیح تعبیر و تفسیر کو ماننے والے بھی ہو سکتے ہیں جو اصل اہل سنت ہیں اور دائرے کے اندر غلط تعبیر کو مان کر اجتہادی غلطی کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں
بھائی اصلاح کر دیں تاکہ بات آگے چل سکے جزاکم اللہ خیرا
خضر حیات بھائی اشماریہ بھائی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
3-ان ائمہ سے ملامت کو رفع کرنے کے بعد ہمارا عقائد یا عبادات میں لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے (یہ اصل مقصود ہے کیونکہ ہمارا کام ائمہ پر حکم لگا کر چھوڑ دینا نہیں بلکہ حکم لگانے کا مقصد بھی صراظ الذین انعمت علیھم کے تحت اپنے اعمال کا رخ صحیح کرنا ہوتا ہے)
محترم اشماریہ بھائی آپ نے اوپر پوسٹ کو متفق کر دیا جزاک اللہ- محترم خضر بھائی شاہد مصروف ہیں خیر اب اصل نتیجہ کی طرف آ گئے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے
اس بارے ابتدائی بطور پر اوپر نمبر 2 میں کچھ وضاحت کر دی گئی ہے کہ
جو لوگ اسکی تعبیر و تفسیر کو نمبر دو میں بتائے گئے دائرہ تک ہی محدود رکھتے ہیں ان میں دائرے کے اندر صحیح تعبیر و تفسیر کو ماننے والے بھی ہو سکتے ہیں جو اصل اہل سنت ہیں اور دائرے کے اندر غلط تعبیر کو مان کر اجتہادی غلطی کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں
یعنی کم از کم اس پر تو اتفاق ہے کہ اس دائرے کے اندر رہنا ہے مگر اس دائرے کے اندر بہترین بات کے تعین کے لئے آپس میں ایک دوسرے کو دلائل سے قائل کر سکتے ہیں مگر یہ بحث لڑائی کی بجائے علمی حد تک ہی ہو اور اپنی رائے کو ٹھوسنے کی کوشش نہ ہو
تو میری محترم اشماریہ بھائی سے گزارش ہے کہ وہ اس دائرے کے اندر تقلید شخصی کا زیادہ درست ہونا ثابت کریں اور محترم خضر حیات بھائی اور میں تقلید مطلق کا زیادہ درست ہونا ثابت کرتے ہیں
اشماریہ بھائی پہلے آپ شروع کریں جزاک اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دیر سے آنے پر معذرت ۔
ماشاء اللہ موضوع اچھا ہے اور انداز گفتگو بھی ۔
اشماریہ بھائی اور عبدہ بھائی جاری رکھیں ۔
ان شاء اللہ اس علمی مباحثے کی تمام شراکتوں سے مستفید ہوتے رہیں گے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ
تو میری محترم اشماریہ بھائی سے گزارش ہے کہ وہ اس دائرے کے اندر تقلید شخصی کا زیادہ درست ہونا ثابت کریں اور محترم خضر حیات بھائی اور میں تقلید مطلق کا زیادہ درست ہونا ثابت کرتے ہیں
اشماریہ بھائی پہلے آپ شروع کریں جزاک اللہ
جزاک اللہ بھائی لیکن اس سے پہلے میرا موقف تو سن لیں۔
جو بالکل علم نہیں رکھتا یا کم علم رکھتا ہے اس کے لیے تقلید شخصی لازم ہے۔
جو اتنا علم رکھتا ہے کہ مختلف اقوال سے مستفید ہو سکے اور مختلف دلائل کا تقابل کر سکے اور مسائل میں مختلف مذاہب کو تمام حقوق کے ساتھ اپنا سکے وہ تقلید مطلق بھی کر سکتا ہے۔ بہتر اور اہل علم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی رائے کو دیگر اہل علم کے سامنے رکھ کر پہلے ان سے مشورہ لے لے کیوں کہ بسا اوقات ایک شخص کی نظر سے کوئی نکتہ اوجھل ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر تقلید شخصی کرے تو بہتر ہے صرف اس وجہ سے کہ اس میں خطا کا احتمال کم ہوتا ہے۔
جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے کسی ایک بھی مسئلے میں اس پر اپنے اجتہاد کے مطابق عمل لازم ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی کے قول کو درست سمجھے۔

تینوں قسم کے افراد کی نظیریں موجود ہیں۔
اب بتائیے ان میں سے کس پر میں نے دلیل دینی ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اشماریہ بھائی فرض کریں اگر ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ لاعلم انسان پر تقلید واجب ہے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کی تقلید واجب ہے ؟؟ کیا صرف ایک ہی انسان کی تقلید واجب ہے اور کیا صرف ایک انسان کے پاس علم کل ہے کیا اور کیا وہ انسان خطا سے مبرأ ہے تقلید کرنے کے لیے کسی بھی انسان کا انتخاب کیسے کیا جاے گا حالاں کہ تقلید کی حرمت پر واضح نص موجود ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی فرض کریں اگر ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ لاعلم انسان پر تقلید واجب ہے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کی تقلید واجب ہے ؟؟ کیا صرف ایک ہی انسان کی تقلید واجب ہے اور کیا صرف ایک انسان کے پاس علم کل ہے کیا اور کیا وہ انسان خطا سے مبرأ ہے تقلید کرنے کے لیے کسی بھی انسان کا انتخاب کیسے کیا جاے گا حالاں کہ تقلید کی حرمت پر واضح نص موجود ہے

جی نہیں نہ ایک انسان کے پاس علم کل موجود ہے اور نہ ہی وہ خطا سے مبرا ہے۔
میرا مطلب ہے ایک مذہب کی تقلید کی جائے جسے ہم عرفا ایک انسان کی تقلید کہتے ہیں کیوں کہ مذہب اس کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔
تقلید کی حرمت پر واضح نص ہونا کیسے ممکن ہے جب کہ تقلید ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے اور فقہائے امت نے اس کا رد نہیں کیا۔ لیکن اگر ہے تو آپ فرمائیے۔
 
Top