اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا مستحب ہے اور پڑھنے والے کو اس کا ثواب بھی ملے گا۔ اگر کوئی اذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ یہ فرض واجب نہیں مستحب ہے لیکن جو خوش نصیب عاشقان رسولﷺ اذان سے پہلے یا بعد میں پڑھتے ہیں۔ ان کو بدعتی نہیں کہنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔
یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما
اے ایمان والو تم اپنے نبیﷺ پر خوب صلوٰۃ و سلام بھیجا کرو۔
اس آیت میں درود و سلام حکم علی الاطلاق وارد ہوا اور اسے مطلق حکم پر رکھنا چاہئے
ایک دیوبندی عالم نے کہا کہ تم لوگ صلوٰۃ و سلام کو اذان سے پہلے مسلسل پڑھ کر مقید کرتے ہو حالانکہ مطلق پر جب عمل کرنا ممکن ہو تو اسے خبر واحد یا قیاس کے ذریعے بھی مقید نہیں کیا جاسکتا۔ ہم کهتے هیں که اگر ایک شخص ہر جمعہ کے روز تسلسل سے صلوٰۃ و سلام پڑھتا ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ تم جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ یہ ایسا مبارک دن ہے کہ فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود اس کے فارغ ہوتے ہی مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کی یارسول اﷲﷺ آپ کے وصال کے بعد بھی۔ فرمایا ہاں۔ بے شک اﷲ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔ جبکہ صاحبِ مشکوٰۃ کی روایت میں یہ بھی ہے۔ پس اﷲ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے ۔
(سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 76 قدیمی کتب خانہ کراچی)
اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بہت سے اوقات مخصوصہ میں صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ شب و روز صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا ثبوت بھی موجود ہے اور امام سخاوی علیہ الرحمہ نے القول البدیع میں 75 مقامات شمار کئے ہیں جن میں صلوٰۃ و سلام پڑھنا چاہئے تو کیا امام سخاوی نے ایک مطلق حکم کو 75 قیود کے ساتھ مقید کردیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں اور نہ ہی احادیث میں مقید کیا ہے بلکہ یہاں پر خاص اوقات میں فضیلت کا بیان کیا گیا لہذا اوقات مخصوصہ میں صلوٰۃ و سلام کو پڑھنے کے احکام کو فضیلت کی طرف منسوب کریں گے نہ کہ مطلق پر مقید کا الزام لگائیں گے اور یاد رہے کہ کسی بھی مباح کام کے بار بار کرنے سے اس کے مقید ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا تو پھر اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام پر مقید ہونے کا حکم لگانا بھی جائز ہے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد نفلی نماز پڑھنا مباح ہے اگر کوئی شخص اس وقت میں ہمیشگی کے ساتھ نفل پڑھے تو کیا اس پر مقید کا الزام لگاتے ہوئے اسے نماز سے منع کرو گے۔ ماشاء اﷲ
اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام کا ثبوت
صلوٰۃ و سلام کا مطلب: یاد رہے یہاں پر ہم تفصیل میں جائے بغیر یہ بیان کررہے ہیں کہ یہ بات تمام فقہائے اسلام اور جمہور علمائے اسلام کے نزدیک متفق ہے کہ سید عالمﷺ کے لئے صلوٰۃ و سلام کا مطلب دعا ہے۔
ابن قیم لکھتے ہیں کہ جب ہم صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ عزوجل جانِ عالمﷺ پر نزول رحمت فرمائے (جلاء الافہام ص 87، دارالکتب العربی)
تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کیا سید عالمﷺ کے لئے دعا کرنا جائز ہے یا نہیں تو اس کا ثبوت ہم فراہم کررہے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر حکم نص سے ثابت ہے تاہم تسلی کے لئے ہم اس کا جزیہ بھی بیان ہیں۔
حضرت: حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرا گھر اونچے گھروں میں سے تھا اور مسجد کے گردونواح میں سے تھا۔ پس حضرت بلال رضی اﷲ عنہ فجر کی اذان کے لئے سحری کے وقت آتے اور میرے مکان پر بیٹھ جاتے اور فجر کا انتظار کرتے تھے اور جب وہ دیکھ لیتے تو یہ کہتے اے اﷲ عزوجل میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد مانگتا ہوں اس بات کی کہ قریش سرور دوعالمﷺ کے دین پر قائم رہیں۔ انہوں نے کہا پھر وہ اذان دیتے (بنی نجار کی اس عورت نے کہا) خدا کی قسم میں نہیں جانتی کہ کسی بھی رات میں آپ نے یہ کلمات پڑھنے ترک کئے ہوں (ہر رات اذان سے پہلے پڑھتے تھے)
(سنن ابو دائود، جلد 1، ص 77، مطبوعہ دارالحدیث، ملتان)
انتباہ اذان سے پہلے دعا بروایت ثابت ہے اور صلوٰۃ و سلام دعا ہے لہذا اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام ثابت ہوا کیونکہ وہ دعا ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی جائز ہے۔
نوٹ: جمہور علماء کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی نہ صرف قبول بلکہ قابل عمل ہوتی ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے جب امر عموم کی تصریح کے ساتھ ہو تو تمام از مسند تحت امر داخل ہوتے ہیں (فتاویٰ رضویہ جلد 9، ص 243، رضا فائونڈیشن)
اس قاعدے کے مطابق کہ جب امر کا صیغہ عموم کی تصریح کے ساتھ ہو اور یہاں صلوٰۃ و سلام میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا عموم کسی سے مخفی نہیں اور جب عموم ہے تو اس میں تمام اوقات داخل ہیں لہذا نماز واذان سے قبل و بعد کا وقت لامحالہ (ضروری طور پر) داخل حکم امر ہوگا یعنی جو شخص ان اوقات میں صلوٰۃ و سلام پڑھے گا تو یہ قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا۔ (قواعد فقیہ معہ فوائد رضویہ ص 298 تا 301، مطبوعہ شبیر برادرز)
یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما
اے ایمان والو تم بھی اس غیب بتانے والے نبیﷺ پر خوب درود و سلام بھیجو۔
یہ آیت کریمہ مطلق وعام ہے۔ اس میں کسی قسم کی قید و تخصیص نہیں ہے یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ بس فلاں وقت میں ہی پڑھا کرو یا فلاں وقت میں درود و سلام نہ پڑھا کرو بلکہ مطلق رکھا تاکہ تمام ممکن اوقات کو شامل رہے
اسی لئے حضرت علامہ علی قاری علیہ رحمتہ اﷲ الباری فرماتے ہیں:
انہ تعالیٰ لم یوقت ذلک یشمل سائر الاوقات
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے اس امر صلوٰۃ (درود و سلام کا حکم) کا وقت معین نہیں کیا تاکہ تمام اوقات شامل رہیں (شرح الشفاء للقاری، جلد 3، ص 447)
سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے۔ فی صلوتکم ومساجد کم و فی کل موطن
یعنی اپنی نمازوں اور مساجد اور ہر مقام میں نبی کریمﷺ پر درود شریف پڑھو (جلاء الافہام، ص 252)
زکریا کاندھلوی دیوبندی نے لکھا ہے جن اوقات میں بھی (درود شریف) پڑھ سکتا ہو، پڑھنا مستحب ہے (تبلیغی نصاب فضائل، درود شریف ص 67)
لہذا مطلقا ہر جگہ اور ہر وقت نبی کریمﷺ پر درود وسلام پڑھنا جس میں اذان کا مقام بھی داخل ہے کلام الٰہی عزوجل سے مامور و ثابت ہے۔ لہذا روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔
غیر مقلدوں کے امام ابن قیم لکھتے ہیں۔ المواطن السادس من مواطن الصلوٰۃ علی النبیﷺ بعد اجابتہ الموذن وعنہ الاقامۃ
ترجمہ: یعنی حضور سید عالمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مواقع میں چھٹا موقع ہے موذن کی اذان سننے کے بعد اور اقامت سے پہلے (جلاء الافہام، ص 308)
امام قاضی عیاض مالکی رحمتہ اﷲ علیہ رقم طراز ہیں۔ ومن مواطن الصلوٰۃ علیہ عند ذکر و سماع اسمہ و کتابہ او عند الاذان
ترجمه: نبی کریمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مقامات میں سے یہ ہے کہ آپﷺ کے ذکر کے وقت آپﷺ کا نام مبارک سننے کے وقت یا آپﷺ کے نام مبارک لکھنے کے وقت یا اذان کے وقت۔ (شفاء شریف فصل فی المواطن الخ جلد 2، ص 43، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ علی قاری فرماتے ہیں:
عند الاذان ای الاعلام الشامل للاقامۃ
ترجمہ: اذان سے مراد اعلام ہے جو اذان شرعی و اقامت دونوں کو شامل ہے (شرح الشفائ، جلد 2، ص 114)
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں: یستفاد منہ بظاہرہ استحبابہ عند شروع الاقامۃ کما ہو معارف فی بعض البلاد
(الاسعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ باب الاذان ج 2، ص 41، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) امام سید ابی بکر المشہور باسید البکری رحمتہ اﷲ لکھتے ہیں:
ای الصلوٰۃ والسلام علی النبیﷺ قبل الاذان والاقامۃ
ترجمہ: اذان و اقامت سے پہلے رسول اﷲﷺ پر درود و سلام بھیجنا مسنون و مستحب ہے (امانۃ الطالبین علی فتح المعین جلد 1، ص 232، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح میں علامہ شیخ احمد طحطاوی فرماتے ہیں: وفی الدرۃ المنیقۃ: اول من احدث اذان اثنین معابنو امیۃ واول لازیدت الصلوٰۃ علی النبی ﷺ بعد الاذان علی المنارۃ فی زمن حاجی بن الاشراف شعبان بن حسین بن محمد بن قلاون، باامر المستحب نجم الدین الطنبدی وذلک فی شعبان سنۃ احدی وتسعین وکذا فی الاوئل للسیوطی
(حاشیۃ الطحطاوی جلد 1، ص 271، مطبوعہ قاسم پبلی کیشنز کراچی)
فتاویٰ امجدیہ سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جس سے اظہر من الشمس وابین من الامس، روز روشن سے زیادہ ظاہر گزشتہ کل سے زیادہ واضح ہوجائے گا۔
اذان و اقامت سے پہلے اور بعد میں درود و دعا و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔ صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمتہ اﷲ القوی لکھتے ہیں: اذان کے بعد جو دعا احادیث میں وارد ہے۔ اس کا پڑھنا اتباع سنت و موجب برکات ہے۔ اس کے پڑھنے کے لئے احادیث میں شفاعت کا وعدہ فرمایا گیا۔ انبیاء علیہم السلام پر درود و سلام پڑھنا موجب ثواب و برکات اور درود کے ثواب جو احادیث میں وارد ہیں، اس کا مستحق ہے۔ احادیث میں درود پڑھنے کی فضیلت موجود ہے اور اذان کے بعد درود کی ممانعت نہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ اس کو (درود و سلام اذان و اقامت سے پہلے یا بعد میں پڑھنے کو) ناجائز و بدعت قبیحہ کہنے والے ایمان و انصاف سے بولیں کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنا کس حدیث میں منع کیا۔ کس صحابی نے منع کیا یا تابعین و تبع تابعین یا ائمہ مجتہدین میں سے کس نے ناجائز کہا۔ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو یہ حکم احداث فی الدین و بدعت قبیحہ ہے یا نہیں ضرور ہے اور وہ تمام احادیث جو مجوزین کے حق میں ذکر کی گئیں۔ سب مانعین کے حق میں ہیں۔ بالجملہ صلوٰۃ وسلام (اذان واقامت سے پہلے ہو یا بعد میں) پڑھنا جائز ہے کسی دلیل شرعی سے اس کی ممانعت نہیں۔
اب نجدیوں نے موقوف کردیا ہے ورنہ صدیوں سے حرمین طیبین مکہ و مدینہ دیگر بلاد اسلامیہ میں رائج و معمول بنارہا اور علماء و مشائخ بنظر استحسان دیکھتے رہے اور عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ماراہ المسلمون حسنا فہو عندﷲ حسن لہذا یہ جائز و مستحسن ہے۔
در مختار و ہدایہ، فتاویٰ قاضی خان، عالمگیری و غیرہ کتب فقہ میں اس کے جواز بلکہ استحسان کی تصریح ہے۔ التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخر سنۃ سبع مانۃ واحدی وثمانین فی عشاء لیلۃ الاثنین ثم یوم الجمعۃ ثم بعد عشر سنین حدث فی الکل الا المغرب ثم فیہا مہ تین وہو بدعۃ حسنۃ
علماء جب اسے اس ہیئت خاصہ کے ساتھ بدعت حسنہ کہتے ہیں تو اسے بدعت سیئہ قرار دے کر منع کرنا سخت غلطی ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، ص 67, 66, 65 مطبوعہ مکتبہ رضویہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اذان کے بعد یا اذان سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجنا جائز و مستحب امر مستحسن ہے کما حردناہ فی اوائلہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا
الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود میں ارقام کرتے ہیں کہ نماز جمعہ اور نماز فجر و مغرب کے سوا باقی سب نمازوں سے پہلے اور اذان کے بعد مساجد کی میناروں پر رسول اﷲﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی جو عادت اہل اسلام میں رائج ہے۔ ا سکو سلطان صلاح الدین بن ایوب رحمتہ اﷲ علیہ نے جاری کیا تھا۔ نماز جمعہ اور نماز فجر میں اذان سے پہلے پڑھا جاتا تھا اور نماز مغرب کا وقت تنگ ہونے کی وجہ سے اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھا جاتا تھا۔ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ اس عمل کی ابتداء مصر اور قاہرہ میں 791ھ سے ہوئی ہے کہ بعض معتقدین نے خواب میں اس کو دیکھا تھا۔ ان مورخین کا یہ بیان اس طریقہ کے اس سے قبل جاری ہونے کے مخالف نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین بن ایوب کی وفات کے بعد مذکورہ تاریخ تک اس کو ترک کردیا گیا ہو اور اس تاریخ کے بعد دوبارہ اس پر عمل کیا گیا ہو یا سلطان صلاح الدین نے صرف جمعتہ المبارک کی رات اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہو اور مذکورہ تاریخ کے بعد باقی ایام میں بھی اس کو معمول بنادیا گیا ہو۔ مزید لکھتے ہیں کہ بعض متاخرین نے اس عمل کو درست قرار دیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ اس پر عمل کرنے والے کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔ حضرت امام احمد بن محمد بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ کے شیخ حضرت شیخ الاسلام ذکریا رحمتہ اﷲ علیہ کا قول اس کے قریب ہے۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا ہے کہ اس کی اصل مستحب ہے اور کیفیت بدعت (حسنہ) ہے (انظرنی الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود ص 325)
نیز اسی میں ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا جس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا۔ اس کا کوئی دین نہیں۔
اس حدیث کو المروزی نے تخریج کیا۔ اس کی سند میں ایک راوی کا نام ذکر نہیں (الدر السمنن ص 308)
انداز لگایئے کہ درود پاک نہ پڑھنے والے پر اس وعید شدید ارشاد فرمائی گئی۔ ان بدبختوں کا انجام کیا ہوگا جو اپنے دقیانوسی خیالات فاسدہ جاہلانہ اعتراضات کے تیر برسا کر اذان سے پہلے اور بعد میں درود سلام پڑھنے کو منع کرتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ آخرت میں ان کا انجام کیا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو سمجھنے اور حق توفیق عطا فرمائے۔
خدام الدین ستمبر 1963ء میں لکھا ہے کہ اس درود سے منع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حاجی امداد اﷲ صاحب نے فرمایا ہے کہ اس کے جواز میں شک نہیں (مولانا محمد صدیق ملتانی) (تقاریری نکات ص 463 بتغیر مطبوعہ کرانوالہ بک شاپ لاہور)
حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہ الکریم فرماتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رحمت کونین نانائے حسنینﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ایک طرف کو نکلا تو میں نے دیکھا کہ جو درخت اور پہاڑ سامنے آتا ہے۔ اس سے السلام علیک یارسول اﷲ کی آواز آتی ہے اور میں خود اس آواز کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا (سنن الترمذی الحدیث 3464، ج 5ً ص 359)