• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو ترجمہ ارشاد الفحول از امام شوکانی رحمہ اللہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شرط کی تعریف
شرط کی تعریف درج ذیل ہے:
'' ھو الحکم علی الوصف بکونہ شرطا للحکم.''
'' شرط سے مراد کسی وصف پر کسی شرعی حکم کے لیے شرط ہونے کا حکم لگاناہے۔''
شرط کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے عدم وجود سے حکم کا عدم لازم آئے ( یعنی اگر شرط نہ ہو تو مشروط یعنی حکم بھی نہ ہو لیکن اس کے وجود سے حکم کا وجود لازم نہ ہو جیسا کہ سبب میں ہے۔ مثلاً وضو نماز کے لیے شرط ہے اور اس کے عدم وجود سے نماز کا وجود بھی نہ ہو گا لیکن اس کے وجود سے نماز کا وجود لازم نہیں ہے یعنی یہ لازم نہیں ہے کہ جب بھی انسان وضو کرے تو نماز پڑھے )۔

پس شرط ایک ایسا ظاہری اور منضبط ( یعنی ضابطے اور قاعدے میں آنے والا ) وصف ہے جس کا عدم حکم کے عدم کو مستلزم ہو ( جیسا کہ وضو کے عدم سے نماز کا عدم لازم آئے ) یا اس کا عدم ( حکم کے ) سبب کے عدم کو مستلزم ہو کسی ایسی حکمت کی وجہ سے جو اس شرط کے معدوم ہونے میں ہو اور یہ حکمت، حکم یا سبب کی حکمت کے منافی ہوتی ہے۔( جیسا کہ حد رجم کے لیے زنا سبب ہے اور اس سبب یعنی زنا کے لیے احصان یعنی شادی شدہ ہونا شرط ہے۔ پس عدم احصان یعنی شادی شدہ نہ ہونے سے ایسا سبب یعنی زنا بھی نہ پایا جائے گا جو حد رجم کے حکم کا سبب ہے۔ پس شرط کے عدم سے سبب کا عدم اور سبب کے عدم سے حکم کا عدم لازم آیا۔)

اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سال کا گزر جانا زکوة کے واجب ہونے کے لیے شرط ہے۔ پس شرط یعنی سال کا نہ گزرنا حکم ( یعنی زکوة ) کے وجوب کے عدم کو مستلزم ہے۔ اسی طرح بیع کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ ( بائع یعنی بیچنے والا ) مبیع ( یعنی جس چیز کو بیچا جا رہا ہو ) کو کسی دوسرے شخص کے حوالے کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ پس قدرت (تسلیم یعنی حوالہ کرنے کی قدرت و طاقت ) کی عدم موجودگی سے حکم ( یعنی صحت بیع ) بھی معدوم ہو گا۔ علاوہ ازیں شادی شدہ ہونا، اس زنا کے لیے شرط ہے جو رجم کا سبب ہے۔ پس اس شرط کا معدوم ہوناحکم کے عدم کو مستلزم ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مانع کی تعریف
مانع کی درج ذیل تعریف کی گئی ہے :
'' ھو وصف ظاھر منضبط' یستلزم وجودہ حکمة' تستلزم عدم الحکم' أو عدم السبب.''
'' مانع سے مراد وہ ظاہراور منضبط وصف ہے جو ایسی حکمت کو مستلزم ہو جس کا وجود عدم حکم یا عدم سبب کو مستلزم ہو۔''
اس کی مثال ' أبوت' یعنی باپ ہونا ہے کیونکہ باپ اگر اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو ' أبوت' باپ سے عدم قصاص کو مستلزم ہے کیونکہ باپ اپنے بیٹے کے وجود کا سبب ہے لہذا یہ مناسب نہیں ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے عدم کا سبب بن جائے۔

جمہور أصولیین نے مانع کی بحث میں اس مثال کا تذکرہ کیا ہے حالانکہ ہمارے نزدیک یہ مثال محل نظر ہے کیونکہ جو سبب باپ سے قصاص لینے کا تقاضا کرتا ہے وہ اس کا 'فعل قتل' ہے نہ کہ 'بیٹے کا وجود' یا 'عدم وجود'۔ پس یہ درست نہیں ہے کہ ' أبوت' کو ایسی حکمت قرار دیا جائے جو قصاص لینے میں مانع ہو۔ البتہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ شریعت ( یعنی روایات ) میں فرع ( یعنی بیٹے کے لیے ) اپنی أصل( یعنی باپ ) سے قصاص لینا ثابت نہیں ہے۔( لیکن بحث یہ ہے کہ یہ شریعت سے ثابت تو ہے لیکن کیا یہ مسئلہ مانع کی تعریف میں داخل بھی ہے یا نہیں؟)

مانع کی اس سے بہتر مثال نمازی کے بدن یا کپڑوں میں مجمع علیہ نجاست ( یعنی ایسی نجاست جس کے نجاست ہونے میں کسی عالم کا اختلاف نہ ہو اور اس کے نجاست ہونے پر اتفاق ہو) کی مثال دی جائے کہ یہ نماز کی عدم صحت کا سبب ہے۔ یہ مثال ان علماء کے نزدیک ہے جو طہارت کو نماز کے لیے شرط قرار دیتے ہیں ( بعض علماء طہارت کو شرط کی بجائے واجب بھی قرار دیتے ہیں اور واجب حکم تکلیفی کی قسم بن جاتا ہے)۔ پس اس مثال میں شرط یعنی طہارت معدوم ہے اور مانع یعنی نجاست موجود ہے۔( لہذا مانع یعنی نجاست کی وجہ سے شرط حکم یعنی طہارت معدوم ہوگئی اور شرط حکم یعنی طہارت کے عدم سے حکم یعنی صحت صلاة معدوم ہو گئی۔) جو علماء طہارت کو نماز کے لیے صرف واجب قرار دیتے ہیں ( اور شرط نہیں بناتے ) تو ان کے نزدیک یہ مثال درست نہ ہو گی۔

جہاں تک اس مانع کا تعلق ہے جس کا وجود ایک ایسی حکمت کا تقاضا کرتا ہے جو ( حکمت ) سبب کی حکمت کے منافی ہو تو اس کی مثال وہ قرض ہے جو زکوة کے واجب ہونے میں مانع ہے۔ پس اس مثال میں سبب زکوة ( یعنی غنی ) کی حکمت اپنے زائد مال سے فقراء اور مساکین کی دلجوئی کرنا ہے جبکہ قرض کی صورت میں کوئی زائد مال ایسا نہیں رہتا جس سے غرباء کی دلجوئی کی جا سکے۔ یہ مثال ان علماء کی رائے کے مطابق ہے جو قرض کو مانع قرار دیتے ہیں۔

( اس مثال میں وجوبِ زکوة، حکم ہے اور اس کا سبب 'غنی' ہے اور مانع قرض ہے۔غنی کو وجوب زکوة کا سبب بنانے کی حکمت 'غرباء کی دلجوئی' ہے جبکہ مانع کی صورت میں عدم ِ وجوبِ زکوة کی حکمت 'عدم مال' ہے۔ پس مانع کی حکمت یعنی 'عدم مال' سبب کی حکمت یعنی 'غرباء کی دلجوئی' کے منافی ہے۔
بعض معاصر علماء نے اس کو یوں بیان کیا ہے کہ مانع کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم کا مانع وہ ہے جو کسی حکم کے سبب کا مانع ہو اور سبب کے عدم سے حکم بھی معدوم ہو جائے جیسا کہ 'صاحب نصاب' ہونا وجوب زکوة کا سبب ہے لیکن اگر کوئی شخص مقروض بھی ہے اور قرض کی ادائیگی کی صورت میں وہ صاحب نصاب نہیں رہتا تو قرض کے وجود سے سبب یعنی صاحبِ نصاب ہونے کا عدم لازم آیا اور جب کوئی شخص صاحب نصاب نہ ہو گا تو حکم یعنی وجوب زکوة بھی ہو گا۔ مانع کی دوسری قسم وہ ہے جو براہ راست کسی حکم میں مانع ہو ۔اس کی مثال یہ ہے کہ حکم قصاص کا سبب 'ظلماً قتل عمد'ہے لیکن باپ اگر اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر ظلماً یعنی بغیر کسی شرعی وجہ کے قتل کردے تو' أبوت' باپ سے قصاص لینے میں مانع ہے۔ اس مثال میں حکم قصاص کا سبب یعنی 'ظلماً قتل عمد' باقی رہتا ہے لیکن مانع کی وجہ سے حکم لاگو نہیں ہوتا۔)

( نوٹ : بعض اصولیین کا کہنا ہے کہ حکم تکلیفی کی طرح حکم وضعی کی بھی پانچ قسمیں ہیں اور کل دس قسمیں ہیں۔ یہ اہل علم حکم تکلیفی میں واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کو شامل کرتے ہیں اور حکم وضعی میں سبب، شرط، مانع کے علاوہ صحت و بطلان اور رخصت و عزیمت کو بھی شامل کرتے ہیں جبکہ بعض اصولیین نے موخر الذکر دو قسموں کو حکم تکلیفی میں بھی شامل کیا ہے۔
بعض اصولیین کا کہنا یہ بھی ہے کہ اصل حکم واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح نہیں ہے بلکہ وجوب، حرمت، ندب، کراہت اور اباحت یعنی مصدری معنی کو حکم تکلیفی قرار دیں گے۔
اصولیین اور فقہاء کے مابین یہ جوہری اختلاف ہے کہ اصولیین کے نزدیک حکم شرعی سے مراد 'خطاب الہی' ہے جبکہ فقہاء کے حکم شرعی سے مراد 'خطاب الہی کا اثر' ہے۔ مثلا 'اقیمصوا الصلوة' میں اصولیین کے نزدیک یہی عبارت یا متن یا ٹیکسٹ حکم الہی ہے جبکہ فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اس متن یا عبارت یا کلام سے جو بات ہمیں سمجھ آئی ہے یعنی وجوب صلوۃ یا نماز کا فرض ہونا یہ حکم شرعی ہے۔ پس آسان الفاظ میں اصولیین کی تعریف کے مطابق نصوص اور عبارتیں احکام شرعیہ ہوتی ہیں جبکہ فقہاء کے نزدیک ان عبارتوں سے فقیہ کو سمجھ آنے والا مفہوم حکم شرعی ہوتا ہے۔ اس بارے اصولیین کا قول راجح ہے کیونکہ فقیہ کی سمجھ یا فہم کو اللہ کا حکم قرار دینا ایک مشکل امر ہے۔)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسری بحث : حاکم کے بارے میں
دوسری بحث حاکم کے بارے میں ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ بعثت و نبوت اور نبی کی دعوت پہنچ جانے کے بعد کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں ہے کہ حاکم صرف شریعت اسلامیہ ہی ہوتی ہے۔ جبکہ نبوت و بعثت سے پہلے ( یعنی زمانہ جاہلیت میں یا اس زمانے اور علاقے کے لوگ کہ جن تک نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو ) کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔

أشاعرہ کا کہنا یہ ہے کہ نبوت اور بعثت سے پہلے اللہ کا کوئی حکم مکلف بندوں کے افعال سے متعلق نہیں ہوتا۔ پس اس حالت میں نہ تو کفر کرناحرام ہو گا اور نہ ہی ایمان لانا واجب قرار پائے گا۔ اس کے برعکس معتزلہ کا کہنا یہ ہے کہ اس حالت میں اللہ کا حکم بندوں کے افعال کے ساتھ متعلق ہوتا ہے کیونکہ انسان کی عقل کسی شیء میں اچھائی یا برائی کا ادراک کر لیتی ہے ( یعنی عقل یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ فلاں کام اچھا ہے یا برا ہے ) اور انسان کا یہ ادراک اس شیء کی ذات یا اس کی صفات یا کچھ اور پہلوؤں کے اعتبار سے ہوتا ہے جیسا کہ اس بارے تفصیلات میں ان کا بھی اختلاف ہے۔ معتزلہ کا کہنا یہ ہے کہ شریعت کے وارد ہونے سے پہلے عقل جس چیز ( یعنی جن أحکام الہی ) کا ادراک کر لیتی ہے' شریعت بعد میں اس کی وضاحت اور تصدیق کرتی ہے۔

اس مسئلے میں اشاعرہ اور معتزلہ کا اتفاق ہے کہ دو چیزوں میں عقل اچھائی اور برائی ( یعنی حُسن و قبح ) کو معلوم کر لیتی ہے :
١۔ کوئی شیء طبیعت کے موافق یا مخالف ہو' پس جو چیز انسانی طبیعت کے موافق ہو گی وہ عقل کے نزدیک اچھی اور جو انسانی طبیعت کے خلاف ہو گی وہ بری ہو گی۔
٢۔ دوسری شیء صفات کمال اور صفات نقص ہیں۔ پس ایسی صفات جو انسانی شخصیت میں کمال پیدا کریں عقل کے نزدیک اچھی ہیں اور جو صفات انسان میں عیب شمار ہوں وہ عقل کے ہاں قبیح ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
أشاعرہ اور معتزلہ کا اختلاف
جبکہ ان دونوں گروہوں کا اختلاف اس بارے ہے کہ انسان کے کسی فعل کی مدح و مذمت یا اس پر جزا و سزا یا اس کو جلدی یا دیر سے کب کیا جاتا ہے؟ اگرچہ اس مسئلے میں جمہور متاخرین کا اتفاق ہے لیکن متقدمین سے اس بارے میں کافی کچھ اختلاف مروی ہے۔

اشاعرہ اور ان کے ہم خیال علماء کا کہنا یہ ہے کہ کسی انسانی فعل کی مدح' مذمت' جزا' سزا' عجلت یا تاخیر شریعت کے مطالبے کے بغیر ثابت نہیں ہوتی جبکہ معتزلہ اور ان کے موافقین کا قول یہ ہے کہ اس مسئلے کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان کا کوئی فعل کسی خاص طریقے سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس فعل کا فاعل مذمت کا مستحق بن جاتا ہے۔ معتزلہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ بعض اوقات عقل اس مخصوص طریقے کا ادراک کر لیتی ہے اور بعض اوقات نہیں کر پاتی۔ جہاں تک پہلی صورت کا معاملہ ہے ( یعنی جب عقل انسان کے کسی فعل کے مخصوص طریقے سے وقوع پذیر ہونے کے بارے کوئی رائے قائم کر سکے ) تو عقل اس میں نفع بخش سچائی کا حسن اور ضرر رساں جھوٹ کی برائی معلوم کر لیتی ہے اور غور و فکر کے بعد ضرر رساں سچائی کی اچھائی اور نفع بخش جھوٹ کی قباحت بھی معلوم کر لیتی ہے۔ دوسری صورت کی مثال رمضان کے آخری دن کا روزہ رکھنا ایک اچھاکام ہے جبکہ آخری دن کے بعد ( یعنی عید کے دن ) کا روزہ رکھنا ایک بر اکام ہے۔ ایسے کاموں کی اچھائی یا برائی عقل سے معلوم نہیں ہو سکتی لہذا شریعت میں جب اس بارے حکم وارد ہوا تو ہمیں ان دونوں افعال کے حُسن و قبح کا علم ہوا۔

معتزلہ کے اس استدلال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان اشیاء کا قبیح ہونا یا تو اضطراری صورت حال میں ہو گا یا پھر اتفاقاً ہو گا۔ اور دونوں ہی صورتوں میں ان کے بارے قبیح کے لفظ کا اطلاق مناسب نہیں ہے۔( کیونکہ حالت اضطرار اور اتفاق میں کسی فعل کا ارتکاب حسن و قبح سے خالی ہوتا ہے' ظاہری بات ہے جب کسی فعل کے ارتکاب میں انسان کا ارادہ داخل نہ ہو تو اس انسان کے نزدیک ا س فعل کا حسن و وقبح کیا معنی رکھتا ہے؟ کیونکہ حالت اضطرار و اتفاق میں کیے جانے والے افعال میں انسان کا ارادہ داخل نہیں ہوتا ہے۔)

پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ کسی قبیح فعل کا فاعل اسے ترک کرنے کی قدرت رکھتا ہو گا یا نہیں۔
١۔ پس اگر اس میں قبیح کو ترک کرنے کی قدرت نہیں ہے تو وہ مضطر ہے ( اور اضطرار میں کسی فعل کے کرنے سے ا س کی قباحت عقلاً ثابت نہیں ہوتی)۔
٢۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس میں قبیح فعل کو ترک کرنے کی قدرت ہو ۔
پس دوسری صورت کی بھی آگے مزید دو صورتیں بنتی ہیں :
یا تو اس قبیح فعل کو کرنے کا رجحان اسے ترک کرنے کی نسبت کسی مرجح ( یعنی وجہ ترجیح ) کی بنیاد پر ہو گا
یا وجہ ترجیح کی بنیاد پر نہ ہو گا۔ اگر نہیں ہو گا تو یہ فعل قبیح کا ارتکاب اتفاقی کہلائے گا نہ کہ اختیاری کیونکہ اس میں ارادہ موجود نہیں ہے۔( اور اتفاق یعنی بلا ارادہ کسی قبیح فعل کا ارتکاب عقلاً قباحت ثابت نہیں کرتا)۔

جبکہ پہلی صورت ( یعنی کسی مرجح کی بنیاد پر کسی قبیح کو ترک کرنے ) میں بھی تین صورتیں ہیں:
الف ؛ یا تو وہ مرجح ( یعنی وجہ ترجیح ) بندے کی طرف سے ہوگی
ب ؛ یا اس کے غیر کی طرف سے ہو گی
ج ؛ یا دونوں کی طرف سے نہ ہو گی۔

صورت 'الف' محال ہے کیونکہ اس میں بھی وہی بحث ہے جو اوپرپہلی صورت میں ہے۔ پس اس صورت میں تسلسل لازم آئے گا اور وہ عقلاًمحال ہے۔ ( تسلسل سے مراد 'ترتیب أمور غیر متناھیة' یعنی لامتناہی أمور کا مرتب ہونا تسلسل ہے اور یہ باطل ہوتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔)

صورت 'ب' میں یوں کہا جائے گا کہ اس مرجح کے حصول کے وقت اس کے اثرات کو قبول کرنا لازم ہو گا یا نہیں۔ پس اگر اس ( مرجح عن الغیر ) کے اثرات کو قبول کرنا لازم ہو گا تو اس سے اضطرار ثابت ہو جائے گا کیونکہ اس مرجح کے وجود سے پہلے اس فعل کا وقوع ناممکن تھا ( کیونکہ وجہ ترجیح نہ ہونے کی وجہ سے اس فعل میں فاعل متوقف تھا ) اور اس ( یعنی مرجح ) کی موجودگی کے وقت اس کا وقوع لازم ہو گیا ( پس مرجح ارتکاب فعل پر مجبور کرنے کا موجب بناہے)۔ علاوہ ازیں اس مرجح ( عن الغیر ) کا بندے پر واقع ہونا حتمی نہیں ہے پس بندے کے لیے فعل کو کرنے یا ترک کرنے میں کسی شیء پر قدرت نہ رہی اور اسی کو اضطرار کہتے ہیں۔
اگر اس مرجح ( عن الغیر ) کا حصول واجب نہ ہو ( یعنی اس کے اثرات کو قبول کرنا لازم نہ ہو ) تو ( بندے کی طرف سے ) کبھی فعل کی موجودگی ممکن ہو گی اور کبھی اس کی عدم موجودگی' پس موجودگی کے پہلو کو عدم موجودگی کے پہلو پر ترجیح دینا یا تو کسی مرجح پر موقوف ہو گا یا نہیں ہو گا۔ اگر یہ ( مرجح ) پر موقوف ہو گا تو اس سے پہلے حاصل ہونے والا مرجح تام نہ ہو گا حالانکہ ہم نے اسے پہلے ہی سے کامل مرجح فرض کر لیا ہے۔ اور اگر موقوف نہیں ہو گا تو سرے سے ترجیح ہی نہ ہو گی ا ورپہلی قسم لوٹ آ ئے گی۔

اور صورت 'ج' میں اگر اس مرجح کا حصول نہ تو بندے کی طرف سے ہو اور نہ ہی اس کے غیر کی طرف سے تو اس وقت یہ مرجح واقع تو ہو گا لیکن کسی موثر چیز کی بناء پر نہیں لہذا یہ مرجح اتفاقی ہو گا۔

معتزلہ نے اس جواب کا جواب الجواب یہ دیا ہے کہ صاحب قدرت کسی فعل کے کرنے کو اس کے ترک کرنے پر بغیر کسی مرجح کے ترجیح دے گا۔

جبکہ معتزلہ کو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تو صاحب قدرت کی ترجیح کا مفہوم اس کے قادر ہونے کے سواء کچھ اور بھی ہے ( یعنی بالفعل ترجیح دینا مجرد ترجیح پر قادر ہونے کے برابر تو نہیں ہے بلکہ قادر ہونے سے زائد ایک کام ہے۔) تو یہ بات ہمارے نزدیک بھی قابل تسلیم ہے کیونکہ فعل کو ترک کرنے اور اس کو سر انجام دینے کا رجحان اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ( مجرد ) قادر ہونے کے ساتھ ساتھ کسی اور شیء ( مثلاً ارادہ وغیرہ ) کا اضافہ نہ کردیاجائے ( اور اگر ایسا ہی ہو ) تو اس بارے بحث سابقہ کلام میں گزر چکی ہے ۔
اس کے برعکس اگر تو صاحب قدرت کی ترجیح کا مفہوم ( مجرد) اس کے قادر ہونے سے زائدکچھ نہیں ہے تو یہ بات ہمارے نزدیک قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ تمہارا قول یہ ہے کہ صاحب قدرت ایک شیء کو دوسری شیء پر صرف اس وجہ سے ترجیح دیتا ہے کہ اس کی صفت قدرت تمام زمانوں میں جاری ہوتی ہے ( یعنی وہ ہر وقت ترجیح پر قادر ہوتا ہے)۔ پھر اس صاحب قدرت کی صفت قدرت بعض اوقات موثر ہوتی ہے ( مثلاً جب وہ ترجیح دے رہا ہوتا ہے ) اور بعض اوقات موثر نہیں ہوتی ہے اور ( جب وہ صفت موثر ہوتی ہے تو ) صاحب قدرت شخص نہ تو ترجیح دے رہا ہوتا ہے اور نہ ہی اس نے ترجیح کا قصد کیا ہوتا ہے اور اسی کو تو اتفاق کہتے ہیں ( یعنی بغیر کسی قصد و ارادے کے ایک شیء کو دوسری پر ترجیح دینا)۔

( امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں) اس جواب میں جو تکلف کیا گیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے کیونکہ اس جواب سے مرجح کی مطلق طور پر نفی لازم آتی ہے جبکہ ہر صاحب عقل یہ بات بدیہی طور پر جانتا ہے کہ ظلم' جھوٹ اور جہالت وغیرہ عقل کے ہاں قبیح شمار ہوتے ہیں اور سچائی' عدل اور علم عقل کے نزدیک پسندیدہ ہیں۔ لیکن عقل اس 'قبیح' کی برائی اور 'حسن' کی اچھائی کے بارے صرف یہی معلوم کر سکتی ہے کہ اس 'قبیح' کا فاعل مذمت اور 'حسن' کا فاعل مدح کا مستحق ہے۔ لیکن یہ کہ اس قبیح کے ارتکاب سے آخرت میں کوئی عذاب ہو گا یا اس 'حسن' کے فاعل کے لیے کوئی أخروی ثواب ہے تو اسے معلوم کرنا عقل کے بس میں نہیں ہے۔

جو لوگ عقلی تحسین اورتقبیح کے قائل ہیں ( یعنی معتزلہ ) انہوں نے اپنے موقف کے حق میں یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر 'حسن' و 'قبح' شریعت سے پہلے معلوم نہ ہوتے تو شریعت کے آ جانے کے بعد ان کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا۔ کیونکہ اگر شریعت کے آنے سے پہلے عقل انسانی کو ان دونوں کا علم نہ ہوتا اور شریعت کے آنے کے بعد حسن و قبح بھی وارد ہوتے تو یہ ایک ایسی شیء ہوتی جو سامع کی عقل اور تصور سے خارج ہوتے ( یعنی جب سامع نے اس پہلے نہ ان کے بارے سنا اور نہ ہی ان کا تصور کیا تو شریعت کے ساتھ ا ن کا نزول ایک نئی چیز کا علم ہوتا ) اور یہ محال ہے۔ پس شریعت سے قبل ان کا معلوم ہونا ضروری ہوا۔

معتزلہ کو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حسن و قبح کا تصور شریعت پر موقوف نہیں ہے کیونکہ شریعت کے نزول سے پہلے انسانوں کے ہاں کسی فعل کی مدح یا مذمت یا اس پر جزا و سزا کا تصور ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوت ا( جیسا کہ اس کی سب سے بڑی مثال اہل مغرب ہیں جن کے ہاں بغیر کسی وحی اور آسمانی تعلیما ت کی روشنی کے بھی بعض افعال کے اچھے یا برے یا قابل جزا و سزا ہونے کا تصور موجود ہے۔ اسی لیے ان کے وضعی انسانی قوانین میں بھی بعض افعال پر جزا و سزا کے قوانین موجود ہیں مثلاً بلاوجہ زیادتی سے کسی انسان کو قتل کرنا ہر معاشرے اور سوسائٹی میں برا سمجھا جاتا ہے اور ملکی قوانین میں اس کے لیے باقاعدہ سزائیں بھی مقرر ہیں۔) پس حسن و قبح کا تصور شریعت پر موقوف نہیں ہے بلکہ شریعت پر تو اس کی تصدیق موقوف ہے۔

( یعنی اللہ تعالی اس فعل پر کوئی اجر و ثواب دیں گے جسے عقل عام اچھا سمجھتی ہے اور اس فعل پر کوئی سزا جاری فرمائیں گے جسے عقل عام برا سمجھتی ہو' اس کا علم عقل سے نہیں ہو گا بلکہ شریعت یعنی اللہ کے بتلانے سے ہو گا۔ پس عقل کسی فعل کاحسن و قبح تو پہچان لیتی ہے لیکن اس پر اللہ کی طرف سے جزا و سزا کا فیصلہ صادر نہیں کر سکتی' یہ اہل سنت میں سے ماتریدیہ اور سلفیہ کا موقف ہے۔ اس کے برعکس معتزلہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جس چیز کو عقل اچھا سمجھے اس کے کرنے پر اللہ کے ہاں اجر و ثواب لازماً ملے گا اور جس کو عقل بر اسمجھے اس کا مرتکب اللہ کے ہاں مستحق عذاب ہے یعنی أخروی اجر و ثواب کا تعین بھی عقل ہی کاکام ہے۔ اہل سنت میں سے اشاعرہ یہ کہتے ہیں کسی فعل کا حسن و قبح بھی عقل سے معلوم نہیں ہوسکتا یہاں تک شریعت اس کو حسن یا قبیح کہہ دے۔
اہل سنت کی اصطلاح تین معانی میں استعمال ہوتی ہے۔ اگر یہ 'اہل تشیع' کے بالمقابل استعمال ہو تو اس سے مراد معتزلہ' خوارج' ماتریدیہ' اشاعرہ اور سلفیہ وغیرہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اس سے مراد 'فرقہ ناجیہ' ہو تو اس سے مراد تین گروہ ہیں : اشاعرہ' ماتریدیہ اور سلفیہ اور اگر اس سے مراد وہ جماعت یا گروہ ہو جو صحابہ' تابعین اور أئمہ أربعہ کے عقیدہ پر ہے تو وہ صرف سلفیہ ہیں۔)


اور ان دونوں باتوں ( یعنی حسن و قبح کا بذریعہ عقل پہچاننا اور ان پر اللہ طرف سے جزا و سزا کا ہونا ) آپس میں دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ عقلی تحسین و تقبیح کے قائلین ( یعنی معتزلہ ) نے اپنے موقف کے اثبات میں یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ اگر حسن و قبح صرف شریعت سے ہی معلوم ہو سکتا ہو تو پھراللہ کی طرف سے ہر چیز ہی 'حَسن' ہو گی ( کیونکہ اللہ سے قبیح کا صدور نہیں ہوتا)۔ اور اگر ( یہ مقدمہ مان لیا جائے کہ) اس کی طرف سے ہر شیء ہی قابل تحسین ہے تو جو معجزہ اللہ تعالی نبوت کے جھوٹے داعی کے ہاتھ پر ظاہر فرمائیں گے تو وہ بھی قابل تحسین ہو گا اور اگر ایسے خرق عادت واقعات بھی حسن کہلانے لگیں تو ہمارے لیے نبی اور متنبی ( یعنی جھوٹے نبی) میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا اور جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو ایک چھوڑ تمام شریعتیں باطل ہو جائیں گی۔ ( اور اگر حسن و قبح کو عقل کا خاصہ مان لیا جائے تو یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں عقل جھوٹے نبی سے صادرہونے والے معجز ے پر قبیح کا حکم لگا رہی ہو گی اور اس سے صادر ہونے والے اس خرق عادت کی نسبت بھی اسی کی طرف کرے گی۔ یہ واضح رہے کہ معتزلہ کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک انسان کے اچھے برے افعال کا خالق اللہ ہی کی ذات ہے جبکہ انسان ان کا صرف فاعل ہوتا ہے۔)

اس کا جواب معتزلہ کو یہ دیا گیا ہے کہ معجزہ کے ذریعے کسی نبوت کی صداقت پر استدلال کرنا اس بنیاد پرقائم ہے کہ اللہ تعالی نے اس معجزے کو نبوت کی صداقت ہی ( معلوم کرنے ) کے لیے پیدا کیا ہے اور جس کی اللہ سبحانہ و تعالی تصدیق فرما دیں تو وہ صادق ہے۔ اسی طرح عقل کسی جھوٹے آدمی کے ہاتھ پر معجزہ جاری کرنے کو مطلقاً ممنوع قرار دیتی ہے کیونکہ نبوت کا دعوی کرتے وقت معجزہ دکھانا اس بات کا اشارہ ہے کہ مدعی کا مقصد اپنی نبوت کی تصدیق چاہنا ہے۔ پس اگر نبوت کا مدعی جھوٹا ہو گا تو ( اس معجزے کے اس کے ہاتھوں ظہور سے ) ایک جھوٹے کی تصدیق کی طرف اشارہ ہو گا اور یہ ایک قبیح فعل ہے اور اللہ تعالی سے کوئی قبیح فعل صادر نہیں ہوتا۔

تحسین و تقبیح کے قائلین نے اس بات سے بھی استدلال کیا ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے ہر شیء ہی حسن ہو گی تو پھر اللہ کاجھوٹ بولنا بھی قبیح نہیں کہلائے گا اور اگر اس بات کو مان لیا جائے تو اللہ تعالی کے کسی وعدے یا وعید پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔

اس کا جواب معتزلہ کو یہ دیا گیا ہے کہ یہ استدلال تو الٹا ان کے خلاف جاتا ہے کیونکہ جھوٹ بعض اوقات مستحسن بھی ہوتا ہے مثلاً کسی شخص کو ظلماً قتل کیا جا رہا ہو تو جھوٹ بول کر اس کی جان بچانا ایک مستحسن أمر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو یہ دھمکی لگائے کہ وہ اس پر ایسا ایسا ظلم کرے گا اور بعد میں یہ ظلم نہ کرے ( تو اس سے وہ جھوٹا تو کہلائے گا ) لیکن اس کا یہ جھوٹ حسن ہو گا اور اس صورت میں اس کا سچ قبیح شمار ہو گا۔

اس کا جواب معتزلہ نے یہ دیا ہے کہ بعض اوقات کسی رکاوٹ اور مانع کی وجہ سے مطلوبہ چیز پر حکم جاری نہیں ہوتا اور ( ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ) جو چیز شاذ و نادر ہو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اس بات کا بھی پورا پورا امکان موجود ہے کہ جو شخص کسی ناجائز کام کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے اس کام سے باز رکھنے کے لیے کچھ ذرائع اور موانع سے کام لیا جائے اوراس طرح یقیناً جھوٹ سے بچاؤ ممکن ہے ( مثلاً کسی ظالم کو کوئی شخص ظلم سے روک دے تو اب ایک خارجی مانع کی وجہ سے وہ ظالم اپنی بات پوری کرنے سے عاجز آیا ہے لہذا خارجی مانع اور رکاوٹ کی وجہ سے وہ جھوٹا شمار نہیں ہو گا )۔

معتزلہ نے اپنے موقف کے استدلال میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر کسی صاحب عقل سے یہ کہاجائے کہ اگر تو سچ بولے گا تو میں تجھے ایک دینار دوں گا اور اسی طرح اگر تو جھوٹ بھی بولے تو پھر بھی تجھے ایک دینار دوں گا۔ پس یہ بات اظہر من الشمس ہے اس صورت میں وہ عاقل سچ بول کر ایک دینار لینا پسند کرے گا۔ اگر سچ بولنا اس کے نزدیک حسن نہ ہوتا تو وہ اس کو جھوٹ پر ترجیح نہ دیتا۔

معتزلہ کو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس صورتِ واقعہ میں تو سچ کو جھوٹ پرترجیح حاصل ہو گی کیونکہ اہل علم کا جھوٹ کی قباحت اور سچ کے اچھا ہونے پر اتفاق ہے۔ علاوہ ازیں پوری کائنات کا نظام اسی قاعدہ کلیہ کے مطابق چل رہا ہے۔ پس جب انسان نے ایک ایسے معاشرے میں پرورش پائی جس میں یہ ا عتقاد پختہ اور جاری و ساری ہو ( کہ سچ ایک اچھی اور جھوٹ بری شیء ہے ) توبلاشبہ اس معاشرے میں پرورش پانے والا ہر عاقل سچ کو جھوٹ پر ترجیح دے گا۔ ( یعنی عقل سے سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں ہوئی بلکہ سماجی اقدار [Social Values]سے ہوئی ہے)۔

معتزلہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے نفس کو ( معاشرتی ) مانوسیت' رسم و رواج' مذہب اور اعتقاد سے خالی کر لے اور اس کے سامنے پھر یہ قضیہ رکھا جائے تو اس صورت میں بھی وہ بالجزم سچ ہی کو ترجیح دے گا۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ اس مسئلے میں بحث و مباحثہ بہت ہوا ہے اور عقل کے لیے محض اس بات کو بھی ماننے سے انکار کر دینا کہ وہ کسی فعل کی قباحت یا حسن کو پہچان لیتی ہے' ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عقل یہ بھی معلوم کر لیتی ہے کہ فلاں فعل آخرت میں ثواب ہو گا اور فلاں عمل اللہ کے ہاں قابل سزا ہے' تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ عقل یہ معلوم کر سکتی ہے کہ فلاں فعل حسن اور اس کا فاعل قابل مدح ہے اور فلاں فعل قبیح اور اس کا فاعل قابل مذمت ہے۔ ( جہاں تک اس فعل پر ثواب اور عذاب کا معاملہ ہے تو اس کو معلوم کرنا عقل کے بس کی بات نہیں ہے )۔ پس یہ بات ( یعنی کسی فعل کے حسن و قبح کی معرفت ) اور فعل کا جزا و سزا سے متعلق ہونا لازم و ملزوم نہیں ہے۔

اس مسئلے میں بعض آیات قرآنیہ سے مثلاً وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَ‌سُولًا ﴿١٥﴾ اور وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَ‌بَّنَا لَوْلَا أَرْ‌سَلْتَ إِلَيْنَا رَ‌سُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَىٰ ﴿١٣٤﴾ اور لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّ‌سُلِ ۚ وغیرہ سے بھی استدلال کیاگیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسری بحث : محکوم بہ کے بارے میں
تیسری بحث محکوم بہ کی ہے اور اس سے مراد مکلف کا فعل ہے۔ پس ایجاب کے متعلق کو 'واجب' اور ندب کے متعلق کو 'مندوب' اور اباحت کے متعلق کو 'مباح' اور کراہت کے متعلق کو 'مکروہ' اورتحریم کے متعلق کو 'حرام' کہتے ہیں اور ان سب کی تعاریف پہلے گزر چکی ہیں۔
اس بحث میں تین مسئلے ہیں :
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پہلا مسئلہ
جس فعل کا اللہ تعالی اپنے بندوں کو مکلف بنائیں' وہ ایسا فعل ہونا چاہیے جس کا کرنا ممکن ہو۔ جمہور علماء کے نزدیک اللہ کی طرف سے بندوں کو ناممکنات کا مکلف بنانا درست نہیں ہے اور یہی قول حق ہے۔ اور ناممکن سے مراد اس کی دونوں قسمیں ہیں :
یا تو وہ فعل اپنی ذات کے اعتبار سے محال ہو
یا پھر اس اعتبار سے محال ہو کہ مکلف بہ کی قدرت کا اس سے تعلق ناممکن ہو۔

اکثر اشاعرہ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے لیے اپنے بندوں کو مطلق طور پر مکلف بنانا جائز ہے ( چاہے یہ تکلیف ان کی استطاعت اورقدرت سے زائد ہی کیوں نہ ہو) جبکہ اشاعرہ کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں ناممکن اور محال ہو تو اس کا مکلف بنانا تو درست نہیں ہے لیکن اگر کوئی شیء اس وجہ سے محال ہو کہ مکلف بہ کی قدرت کا اس سے تعلق ناممکن ہو تو اس کے ساتھ تکلیف دینا جائز ہے۔

جمہور علماء نے اپنے موقف کی یہ دلیل پیش کی ہے کہ اگر ناممکن کا مکلف بنانا جائز ہوتا تو اس ( یعنی ناممکن ) کا حصول مقصود ہوتا اور محال کا حصول باطل ہے کیونکہ ناممکن کی ذات سے جو ذات لازم آتی ہے یعنی عدم حصول وغیرہ' اس ( یعنی عدم حصول ) کے تصور کی عدم موجودگی میں' ناممکن کی ذات کا تصور رکرنا' اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس (یعنی ناممکن ) کی ذات' اس ( یعنی ناممکن ) کی ذات نہیں ہے اور اس طرح حقائق کو تبدیل کرنا لازم آئے گا۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ محال کی صورت عقل میں حاصل نہیں ہوتی۔ پس عقل کے لیے ایسی شیء کا تصور کرنا ناممکن ہے جس میں نقیضین کا اجتماع ہو۔ پس ایسی شیء کا تصور ( کہ جس میں اجتماع نقیضین ہو ) یا تو تشبیہ کے طور پر ہو گا مثلاً ایک شخص سیاہی اور سفیدی کو جمع کرنے کا تصور کرے اور پھر یہ کہے کہ اس قسم کی جمع کا تصور سیاہی اور سفیدی کے مابین حاصل نہیں ہو سکتا یا پھر اس کا یہ تصور نفی کے طریقے سے ہو گا یعنی وہ ( بغیر کسی تشبیہ کے براہ راست ہی ) یہ تصور کرے کہ سیاہی اورسفیدی کا یکجا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ من جملہ بات یہی ہے کہ اسے ( یعنی اجتماع نقیضین کو ) اس کی ماہیت( یعنی حقیقت ) کے اعتبار سے سمجھنا ناممکن ہے بلکہ اسے کچھ اور پہلوؤں سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ ' تکلیف ما لا یطاق' کی قباحت بدیہی طور پر معلوم ہے لہذا اس مسئلے میں کسی لمبے چوڑے استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ جو علماء ' تکلیف ما لا یطاق' کے قائل ہیں انہوں نے کوئی ایسی قابل ذکر دلیل پیش نہیں کی ہے کہ جسے احاطہ تحریر میں لا کر اس کا رد کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جو علماء اس کے قائل بھی ہیں ان کی اکثریت کا کہنا بھی یہی ہے کہ محال کا وقوع ناممکن ہے ( یعنی ان کے نزدیک اللہ تعالی کا اپنے بندوں کو ' تکلیف ما لا یطاق' شرعاً جائز ہے لیکن عملاً ناممکن ہے ) پس یہ علماء ' تکلیف ما لا یطاق' کے قائل ہیں اور جبکہ اسے ناممکن الوقوع بھی سمجھتے ہیں۔

وہ دلائل جو اس مسئلے میں واضح ہیں' میں درج ذیل آیات بھی شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ
' اللہ تعالی کسی بھی جان کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی طاقت اور قدرت کے مطابق۔''

ایک اور آیت میں ارشاد ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ
''اللہ تعالی کسی بھی جان کو مکلف نہیں بناتا مگر اس میں کہ جو اس نے اسے عطا کیا ہے ( یعنی اس کی صلاحیت کے مطابق )۔''
ایک اور آیت میں ارشاد ہے:
رَ‌بَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ
''اے ہمارے رب! ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کہ ہم طاقت نہیں رکھتے۔ ( یعنی ہمیں اس فعل کا مکلف نہ بنا جس کی ادائیگی کی ہم میں قدرت نہیں ہے)۔''

( اگرچہ آخری آیت مبارکہ بندہ مؤمن کی ایک دعا ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے کلام میں نقل کیا ہے ) لیکن صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسی قرآنی دعاؤں پر اللہ سبحانہ و تعالی یہ فرماتے ہیں : 'قد فعلت' یعنی میں نے ایسا کر دیا ہے اور یہ دعا قبول کر لی ہے۔ یہ واضح رہے کہ اس قسم کی جتنی بھی آیات ہیں وہ ' تکلیف ما لا یطاق' کے عدم وقوع پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ اس کے عدم جواز پر۔ علاوہ ازیں اگر تو اختلاف صرف ' تکلیف ما لا یطاق' کے جواز اور عدم جواز میں ہو ( اور اس کے عدم وقوع پر اتفاق ہو ) تو پھر یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔

' تکلیف ما لا یطاق' کے ثبوت کے جو علماء قائل ہیں' ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ' تکلیف ما لا یطاق' صحیح نہ ہوتی تو پھر عملاً واقع بھی نہ ہوتی۔ حالانکہ ہماری شریعت میں ' تکلیف ما لا یطاق' ہے اور اس کی مثال نافرمان کو ایمان کا حکم جاری کرنا ہے اور یہ نافرمان کا ایمان لانا ایک ناممکن أمر ہے کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ وہ ایمان نہ لائے گا اور اللہ کی معلومات کے خلاف کسی شیء کا واقع ہونا محال ہے۔ ( پس اللہ تعالی نے ایک ایسے شخص سے ایمان کا مطالبہ کر کے 'تکلیف ما لا یطاق' کا اظہار کیا ہے جو اس کے علم کے مطابق ایمان لانے والا نہ ہو۔) کیونکہ اگر اللہ کی معلومات کے خلاف کچھ واقع ہوجائے تو اللہ کے لیے ( معاذ اللہ !) جہالت لازم آئے گی۔ اور یہ لازم ( یعنی اللہ کا جاہل ہونا ) باطل ہے پس ملزوم ( یعنی اللہ کی معلومات کے خلاف کسی شیء کا واقع ہونا ) بھی باطل ہے۔

اسی طرح ان علماء نے کہا ہے کہ اگر ' تکلیف ما لا یطاق' جائز نہ ہوتی تو واقع بھی نہ ہوتی جبکہ یہ واقع ہوئی ہے۔ مثلاً اللہ سبحانہ و تعالی نے ابو جہل کو ایمان کا مکلف بنایا ہے اور ایمان سے مراد اللہ کے رسول جس کو بھی لے کر آئے ہیں' اس کی تصدیق کرنا ہے۔ اور اللہ کے رسول ۖ جس کو لے کر آئے ہیں اس میں یہ بات شامل ہے کہ ابو جہل آپ کی تصدیق نہ کرے گا۔ پس اللہ تعالی نے ابو جہل کو اس بات کا مکلف بنایا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کرے کہ وہ تصدیق نہ کرے گا اور یہ ناممکن ہے۔

پہلی دلیل کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ ( دلیل نافرمان سے ایمان کے ) وقوع کے تصور کو مانع نہیں ہے یعنی نافرمان سے ایمان واقع ہوسکتا ہے ( کیونکہ جس شخص کو من جملہ تمام چیزوں کا مکلف بنایا گیا ہو اس سے ایمان واقع ہو سکتا ہے ) چاہے وہ نافرمان ہی کیوں نہ ہو ( لیکن جو ذات غیر مکلف ہو ) یعنی اللہ سبحانہ و تعالی ( اس کی طرف سے اس کے کامل علم وغیرہ کی بنا پر ) نافرمان کا ایمان لانا ( ناممکن ہو سکتا ہے ) پس بندے یعنی مکلف کے پہلو سے دیکھیں تو نافرمان کا ایمان لانا ممکن أمرہے کیونکہ نافرمان ایمان لانے کی قدرت اور صلاحیت رکھتا ہے اور اگر اللہ تعالی کے پہلو سے دیکھیں تو نافرمان کا ایمان لانا ناممکن ہے کیونکہ اللہ کے علم میں اس کا ایمان کے بغیر دنیا سے چلے جانا لکھا ہواہے۔ ( پس یہ بحث محل نزاع ہی نہیں ہے ) کہ غیرمکلف ( یعنی اللہ کے نزدیک ) نافرمان کا ایمان لانا ایک ناممکن أمر ہے۔

دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ابو جہل کو صرف تصدیق کا مکلف بنایا ہے ( نہ کہ اس کا کہ وہ یہ تصدیق کرے کہ وہ تصدیق نہ کرے گا کیونکہ یہ نتیجہ تو اللہ کا علم ہے نہ اللہ کی تکلیف ) پس ابو جہل سے تصدیق فی نفسہ ممکن ہے اور اس تصدیق کے وقوع کا تصور کیا جا سکتا ہے مگر اللہ کے نزدیک ( جو کہ غیر مکلف ہے ) ابو جہل کی تصدیق ایک ناممکن أمر ہے کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے اللہ کو علم ہے کہ وہ ( اپنی زندگی میں ) تصدیق نہیں کریں گے اور یہ مثال بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ نافرمان کی مثال پہلے گزر چکی ہے۔

یہ تو ' تکلیف ما لا یطاق' کی بحث ہوئی' جہاں تک اس تکلیف کا معاملہ ہے کہ جس کے بارے اللہ تعالی جانتا ہو کہ وہ واقع نہ ہو گی تو اس کی عدم صحت اور عدم وقوع پر علماء کا اجماع ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسرا مسئلہ
مکلف بنانے میں شرعی شرط کا حصول ( مثلاً مؤمن ہونا ) اکثر شافعیہ اور عراق کے حنفیہ کے نزدیک لازم نہیں ہے ( یعنی کفار بھی شرعی احکام کے مکلف ہیں ) جبکہ اہل علم کی ایک جماعت امام رازی' امام غزالی' قاضی ابو زید دبوسی اور امام سرخسی رحمہم اللہ وغیرہ کے نزدیک شرعی شرط کا حصول ( یعنی ایمان وغیرہ ) مکلف بنانے میں ایک لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مسئلے میں جو اختلاف ہے وہ عمومی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ ایک جزئی مسئلے میں ہے کیونکہ جنبی اور بے وضو کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ وہ نماز کا مخاطب ہے ( یعنی شریعت نے صرف باوضو اور غیر جنبی ہی کو نماز کا مکلف نہیں بنایا ہے بلکہ جنبی اور بے وضو کو نماز پڑھنے کے حکم کا مکلف بنایا گیا ہے اگرچہ اس مسئلے میں شرعی شرط یعنی وضو اور غسل جنابت موجود نہیں ہے ) اور وہ جزئی مسئلہ یہ ہے کہ کفار شرائع اسلامیہ یعنی عبادات کے فروعی مسائل کے عملاً مخاطب ہیں یا نہیں ؟ پہلے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ کفار ( ایمان کے ساتھ ساتھ ) فروعی مسائل کے بھی مخاطب ہیں جبکہ دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ کفار شرائع اسلامیہ کے مخاطب نہیں ہیں ( بلکہ ان سے اصل مطالبہ ایمان کا ہے اور شرائع اسلامیہ کے مخاطب اہل ایمان ہوتے ہیں)۔ علماء کی ایک تیسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ کفار صرف نواہی کے مخاطب ہیں کیونکہ ( شارع کی طرف سے مقرر کردہ ) جن سزاؤں میں زجر و توبیخ پائی جاتی ہے وہ نواہی کے لیے موزوں ہیں نہ کہ أوامر کے لیے ( یعنی سزاؤں اور زجرو توبیخ کا تذکرہ نواہی کے ارتکاب پر ہے نہ کہ أوامر کے عدم ارتکاب پر' لہذا نواہی کے مخاطب کفار بھی ہیں)۔ ( امام شوکانی کی رائے میں ) پہلی رائے صحیح اور حق ہے اور یہی جمہور کا بھی قول ہے۔

علماء کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جمیع کفار ایمان کے مخاطب ہیں کیونکہ اللہ کے رسول ۖ تمام نوع انسانی کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اسی طرح کفار معاملات کے بھی مخاطب ہیں ( اور اس پر بھی تقریباً اتفاق ہے)۔ عبادات کے فروعی مسائل میں کفار کے مخاطب ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان سے آخرت میں ان عبادات کی بناء پر محاسبہ اور مواخذہ ہو گا اگرچہ یہاں شرعی شرط یعنی ایمان موجود نہ بھی ہو۔

پہلا قول
پہلے گروہ کے قائلین نے اپنے موقف پر عمومی دلائل سے استدلال کیا ہے جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں ارشادباری تعالی ہے:
اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾
''اے لوگو! تم اللہ کی عبادت کرو۔''
اس قسم کی اور بھی آیات ہیں جن میں خطاب تمام نوع انسانی سے ہے۔ ( پس کفار بھی عبادت الہی کے مخاطب ہیں۔)

اسی طرح ان علماء نے ان آیات سے بھی استدلال کیا جن میں کفار کے لیے عبادت ترک کرنے پر وعید جاری ہوئی ہے۔ ایک جگہ سورۃ المدثر میں ارشاد باری تعالی ہے:
فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ الْمُجْرِ‌مِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ‌ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾
'' ( جب کافرمجرموں سے سوال ہو گا ) تمہیں کس شیء نے جہنم میں داخل کیا تو وہ جواب دیں گے : ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔''
اس استدلال کا اگر یہ جواب دیا جائے کہ اس بات کا امکان ہے کہ کفار جھوٹ بول رہے ہوں اور جب وہ جھوٹے ہوں گے تو ان کا یہ قول کیسے حجت ہو گا؟۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے جھوٹ بولا ہوتا تو اللہ کی طرف سے ان کا جھوٹ واضح کر دیا جاتا۔

اسی طرح اس موقف کے قائلین نے درج ذیل آیات کو بھی بطور دلیل پیش کیا ہے۔ سورۃ فصلت میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٦﴾ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ
'' اور ہلاکت ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوة ادا نہیں کرتے۔''
ایک اور جگہ سورۃ الفرقان ارشاد ہے:
وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾
''اور جو یہ گناہ ( یعنی اللہ کے ساتھ شرک' قتل ناحق یا زنا ) کرے گا تو اس کی سزا پا لے گا اور قیامت کے دن اس کا عذاب کئی گنا کر دیا جائے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہو کر پڑا رہے گا۔''
اس مضمون کی آیات اس قدر ہیں کہ ان کا احصاء ممکن نہیں ہے۔

دوسرا قول
جبکہ اس کے برعکس موقف کے حاملین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اگر کفار عبادات میں فروعات کے مکلف ہوتے تو ان کی طرف سے ان اعمال کی ادائیگی صحیح قرار پاتی کیونکہ ( کفار کے ) ان اعمال کا صحیح قرار پانا أمر ( الہی کے ) موافق ہے۔ ( نہ کہ مخالف یعنی اگر اللہ کی طرف سے کفار بھی اس کے أوامر کے مخاطب اور مکلف ہیں تو اگر کوئی کافر نماز پڑے یا صدقہ خیرات کرے تو اسے اس پر اجر وثواب ملنا چاہیے حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ پس جمیع علماء کے نزدیک کافر کے اعمال باطل ہیں الا یہ کہ ایمان لانے کے بعد وہ یہ اعمال کرے۔ پس جب اللہ کے حکم پر عمل کے بعد بھی کافر کا عمل باطل قرار پائے گا تو وہ اللہ کے حکم کا مکلف کیسے ہو گیا؟) یا ( کافر کی طرف سے ) ان اعمال ( صالحہ ) کا بجا لانا ممکن ہوتا ہے کیونکہ ( کسی فعل کا ) امکان ( مکلف بنانے میں ) شرط ہے۔ ( یعنی انسان کو اسی فعل کا مکلف بنایا جاتا ہے جس کا کرنا انسان کے لیے ممکن ہو یا اس کی قدرت میں ہو۔) حالانکہ یہ اعمال ان کی طرف سے صحیح نہیں ہیں کیونکہ کفر ان اعمال کی صحت میں مانع ہے۔ پس حالت کفر میں ایک کافر کے لیے ان اعمال کا بجا لانا ممکن نہیں ہے کیونکہ کفر بطور مانع موجود ہے اور اسی طرح اس مانع ( کفر ) کی عدم موجودگی یعنی موت کے وقت بھی ان اعمال کا بجالانا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس وقت اس کافر سے شارع کا خطاب ساقط ہو جاتا ہے ( اور اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے )۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ ایمان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے حالت کفر ( کافر کے ) فعل کے لیے قید نہیں ہے ( کہ اس حالت کی وجہ سے کافر بے بس ہوجائے اور کوئی کام نہ کر سکے ) جیسا کہ یہ لوگ مکلف بنانے سے حالت کفر میں مکلف بنانا مراد لیتے ہیں۔ پس کافر اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایمان لائے اور ان واجبات کو ادا کرے جیسا کہ جنبی اور بے وضو آدمی' یہ دونوں نماز پڑھنے کے پابند ہیں اگرچہ ان کے ساتھ ایک مانع بھی موجود ہے۔ پس ان دونوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ مانع کو دور کریں تا کہ ان کی نماز صحیح ہو۔ اور امتناع وصفی ( یعنی کسی وصف کا نہ ہونا ) امکان ذاتی ( یعنی ذات کے وجود ) کے منافی نہیں ہوتا۔ ( پس شرعی واجبات کی ادائیگی میں حالت کفر ایک مانع ہے لہذا کافر کو چاہیے کہ وہ اس مانع کو دور کر کے شرعی واجب کو ادا کرے)۔

کفار کے مکلف نہ ہونے کے قائلین نے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کفار مکلف ہوتے تو ( ایمان لانے کے بعد ) ان پر فرائض کی قضاء واجب ہوتی ( مثلاً کسی نو مسلم پر حالت کفر کی نمازوں کی قضاء نہیں ہے۔ قرآن وسنت سے اسی مسلک کی تائید ہوتی ہے اور جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے)۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ دونوں ( یعنی کفار کا مکلف ہونا اور ان پر فرائض کی قضاء کا واجب ہونا ) لازم و ملزوم نہیں ہیں کیونکہ اس ( یعنی کفار کے مکلف ہونے ) اور تکلیف کے واقع ہونے اور اس ( یعنی کفار کے لیے تکلیف ) کے صحیح ہونے میں کوئی منطقی ربط موجود نہیں ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے قول کے مطابق جو یہ کہتے ہیں کہ قضاء ایک نئے حکم کے ساتھ واجب ہوتی ہے۔ ( حنفی اصولیین کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ کسی فرض کی اداء اور قضاء ایک ہی سبب سے واجب ہوتے ہیں اور اس سبب سے مراد وہ أمر الہی ہے جس سے جمہور علماء کے نزدیک اداء واجب ہوتی مثلاً 'أقیموا الصلاة'۔ لیکن عراق کے حنفی اصولیین کا قول یہ ہے کہ قضاء ایک ایسے أمر سے واجب ہوتی ہے جو اداء کے أمر کے علاوہ ہو جیسا کہ روزہ کی مثال میں روزے کی اداء تو 'کتب علیکم الصیام' سے فرض ہوئی اور قضاء 'فعدة من أیام أخر' سے فرض ہوئی ۔)

اس کا ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ بعض آیات مبارکہ کفار کے ایمان لانے کے بعد پر ان پر فرائض و واجبات کی قضاء کی نفی کرتی ہیں۔ سورۃ الانفال میں ارشاد باری تعالی ہے:
إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ‌ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ ﴿٣٨﴾
'' اگر وہ باز آجائیں ( یعنی ایمان لے آئیں ) تو جو کچھ ان سے ہو چکا وہ معاف کر دیا جائے گا۔''
تیسرا قول
تیسرا قول ان علماء کا تھا جو اس مسئلے میں تفصیل کے قائل ہیں۔ ان کے بقول کفار أوامر کے تو مخاطب نہیں ہیں لیکن نواہی کے مکلف ہیں۔ ان علماء کی دلیل یہ ہے کہ نہی اس فعل کو چھوڑ دینے کا نام ہے کہ جس سے روکا گیا ہو اور ایسا کرنا کفر کے ساتھ بھی ممکن ہے۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کفر کسی کام کو چھوڑ دینے میں بھی اسی طرح مانع ہے جیسے کہ کسی کام کے کرنے میں رکاوٹ ہے۔ کیونکہ ( نہی پر عمل کی صورت میں ) ترک فعل بھی عبادت ہے اور اس پر بندے کو اجر و ثواب ہو گا اور ایسا ( ترک فعل کہ جس پر اجر و ثواب ہو ) ایمان کے بعد ہی صحیح ہو گا۔ اسی طرح 'نہی' میں جس چیز کا مکلف بنایا گیا ہے' وہ ( کسی شیء سے ) رک جانا ہے اور 'رک جانا' بھی ایک قسم کا فعل ہی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسرا مسئلہ
تکلیف بالفعل ( یعنی کسی فعل کا مکلف بنانا ) بالاتفاق کسی فعل کے حدوث ( یعنی واقع ہونے ) سے پہلے ثابت ہوتی ہے اور اس فعل کے حدوث ( یعنی واقع ہونے ) کے بعد ختم ہو جاتی ہے ( مثلاً ظہر کی نماز کی ادائیگی سے پہلے انسان کے ساتھ ظہر کی نماز کی تکلیف ثابت ہے اور جیسے ہی اس نے نماز ادا کر لی تو اس سے یہ تکلیف ساقط ہو گئی )۔

اور تکلیف بالفعل سے مراد ( انسانی ) قدرت کا وہ اثر ہے جسے جوہر کہہ سکتے ہیں اور اس سے مراد وہ تاثیر نہیں ہے جو اعراض نسبیہ ( یعنی نسبتی صفات ) میں سے ایک عرض ( یعنی صفت ) ہے۔ ( یعنی تکلیف ایک relative termنہیں ہے جو افراد کے اعتبار سے تبدیل ہوتی رہے بلکہ یہ انسانی قدرت کا اثر ہے اور یہ اثر جوہر یا جسم ہے نہ کہ کسی قسم کی کوئی صفت )۔

اور جو شخص طرفین میں اختلاف کرتا ہے ( یعنی کسی فعل کے حدوث سے پہلے تکلیف کو ثابت یا کسی فعل کے حدوث کے بعدمنقطع نہیں مانتا ) تو اس کا اختلاف معتبر نہ ہو گا۔ پس ایسا قول مردود ہے۔ اور جو ( لوگ فعل کے حدوث کے بعد تکلیف کے منقطع ہونے کے قائل نہیں ہیں ) انہوں نے یہ دلیل دی ہے کہ اگر ( فعل کے حدوث کے بعد ) تکلیف منقطع ہوجائے تو اس طرح وہ طلب ( یعنی اللہ کا أمر ) بھی معدوم ہوجائے گا جو اس ( یعنی اللہ ) کی ذات کے ساتھ قائم ہے حالانکہ اللہ کی صفات ابدی ہیں ( اور اللہ کا أمر یعنی اس کا کلام بھی اس کی صفت ہے لہذا ابدی ہوا پس اس صورت میں وہ بھی معدوم ہو جائے گا )۔

ان افراد کی یہ دلیل رد کی جائے گی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا کلام واحد ہے اور اس کلام سے متعلق حادث صفات کا متعدد ہونا جیسا کہ کلام اللہ کا أمر یا نہی کی صورت میں ہونا یا ان دونوں سے خالی ( یعنی خبر وغیرہ کی صورت میں ہونا ) تو ان حادث صفات سے کلام اللہ کا ختم ہونا لازم نہیں آتا۔ ( یعنی کلام اللہ ایک شیء ہے اور اس میں اللہ کا أمر ایک اور شیء ہے اور یہ دوسری شیء پہلی کی صفت حادث ہے۔ پس أمر الہی، کلام اللہ سے متعلق ہوا اورکسی فعل کے حدوث کے بعد جب تکلیف شرعی منقطع ہو جاتی ہے تو أمر الہی یعنی کلام اللہ کا مفہوم منقطع ہو جائے گا نہ کہ کلام اللہ خود کیونکہ 'أقیموا الصلاة' میں 'أقیموا الصلاة' تو کلام الہی ہے لیکن اس کا مفہوم 'ایجاب صلاة' ایک حادث شیء ہے جو کلام اللہ تو نہیں لیکن اس سے متعلق ضرور ہے۔)

علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ جب فعل واقع ہو رہا ہو تو اس وقت تکلیف باقی رہتی ہے یا نہیں ( مثلاً ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا ہے تو کیا اس دوران اس پر ظہر کی نماز کی تکلیف باقی ہے یا ساقط ہو گئی ہے؟)۔ اس مسئلے میں جمہور اشاعرہ کا قول یہ ہے کہ فعل کے حدوث کے وقت تکلیف باقی رہتی ہے ( یعنی انسان اس وقت تک مکلف رہتا ہے جب تک اس فعل کو مکمل طور پر ادا نہ کر لے ) جبکہ معتزلہ اور امام جوینی رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں تکلیف باقی نہیں رہتی ۔

اور جو علماء ( فعل کے حدوث کے وقت ) تکلیف کے باقی رہنے کے قائل ہیں' ان کا کہنا یہ نہیں ہے کہ تکلیف بالفعل کا تعلق اس ( یعنی فعل ) کی ذات سے ہوتا ہے اور یہ ( یعنی تکلیف ) کبھی منقطع ہوتی ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ ( فعل کے حدوث کے بعد بھی ) تکلیف کو پورا کرنا باقی رہتا ہے کیونکہ موجود کو وجود میں لانے کا مکلف بنانا محال ہے ( اگر ایک شخص ظہر کی نماز کا مکلف ہے اور اس نے نماز ادا کرلی ہے اور اس ادائیگی کے بعد بھی اگر تکلیف باقی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک موجود چیز یعنی ظہر کی نماز کو وجود میں لانے کا مکلف بنایا جا رہا ہے اور یہ ناممکن ہے ) اور یہ ( یعنی موجود کو وجود میں لانے کا مکلف بنانا ) ایک ایسا مطالبہ ہے جو حاصل نہ ہونے والے مقصود کا تقاضا کرتا ہے اورمحال کا مکلف بناناہے ( جو صحیح نہیں ہے )۔

اسی طرح ان کی یہ بھی مراد نہیں ہے کہ قدرت فعل کے ہوتے ہوئے ہو گی ( یعنی جب انسان ایک فعل ادا کر رہا ہو گا تو اس میں اس کی ادائیگی کی قدرت ہو گی مثلاً دوران نماز' نماز کی ادائیگی کی قدرت وغیرہ ) کیونکہ اگر ایسا ہو ( یعنی قدرت فعل کے حدوث کے وقت تو ہو لیکن اس سے پہلے نہ ہو ) تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ( اس فعل کے حدوث سے پہلے ) کوئی تکلیف نہیں ہے اور یہ اجماع اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ پس جو شخص بیٹھا ہوا ہو ( اور نماز نہ پڑھ رہا ہو تو ) وہ نماز کے لیے کھڑا ہونے کا مکلف ہے۔ بلکہ ان علماء کا کہنا درحقیقت یہ ہے کہ تاثیر کے وقت تکلیف باقی رہتی ہے لیکن ان کے نزدیک تاثیر سے مراد أثر ہی ہے ( یعنی جب تک انسان میں قدرت اور صلاحیت کا جوہر موجود ہے اس پر من جملہ تکلیف باقی رہتی ہے )۔

( جو علماء فعل کے حدوث کے وقت تکلیف کے قائل ہیں ) انہوں نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ فعل اپنے حدوث کے وقت انسان کے بس میں ہوتا ہے کیونکہ وہ ( انسان کی ) قدرت کا اثر ہے اور اس ( یعنی قدرت ) کے ساتھ ہی پایا جائے گا ( یعنی انسان میں قدرت ہو گی تو فعل بھی ادا ہوگا )۔ اور چونکہ اس ( یعنی فعل کے حدوث کے ) وقت وہ ( یعنی فعل ) انسان کے بس میں تھا لہذا اس کے ساتھ مکلف بنانا صحیح ہو گا کیونکہ سوائے عدم قدرت کے اور کوئی مانع یہاں موجود نہیں ہے اور وہ یہاں ختم ہو چکا ہے۔

( جو علماء فعل کے حدوث کے وقت تکلیف کے قائل نہیں ہیں انہوں نے ) اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس سے ایک موجود چیز کو وجود میں لانے کا مکلف بنایا جائے گا جو محال ہے۔ ( مثلاً ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا ہے تو ظہر کی نماز وجود میں آ رہی ہے لہذا اس وقت اسے ظہر کی نماز کا مکلف بنانے کا معنی ایک موجود شیء کا مکلف بنانا ہے۔)

( جو علماء فعل کے حدوث کے وقت تکلیف کے قائل ہیں انہوں نے ) اس کا رد یہ کیا ہے کہ یہ لازم نہیں آتا کیونکہ محال تو صرف یہ ہے کہ کسی شیء کو اس کے سابقہ وجود کے ساتھ وجود میں لانے کا مکلف بنایا جائے جبکہ یہاں تو اسے ایک حاصل وجود کو وجود میں لانے کا مکلف بنایا جا رہا ہے( جو محال نہیں ہے )۔
 
Top