مبحث أول : حکم کے بیان میں
پہلی بحث حکم کے بارے میں ہے۔ حکم کی تعریف درج ذیل ہے:
'' الخطاب المتعلق بأفعال المکلفین بالاقتضاء أو التخییر أو الوضع.''
'' حکم سے مراد شارع کا وہ خطاب ہے جو مکلف بندوں کے أفعال سے متعلق ہو' طلب یا تخییر یا وضع کے ذریعے.'' ( اقٹضاء سے مراد اللہ کی طرف سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ اور تخییر سے مراد اللہ کی طرف سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے میں بندے کو اختیار دینا اور وضع سے مراد اللہ کی طرف سے کسی شیء کو کسی حکم کا سبب' شرط یا مانع مقرر کرناہے۔)
اس تعریف میں طلب، وجود ( کسی کام کو کرنے کے مطالبے یعنی أمر ) اور عدم ( کسی کام کو نہ کرنے کے مطالبے یعنی نہی ) دونوں کو شامل ہے اور ( شارع کی طرف سے ) یہ طلب و مطالبہ یا تو بالجزم ہو گی ( یعنی لازمی مطالبہ ہو گا ) یا اس طلب و مطالبہ کو ترک کرنا جائز ہو گا ( یعنی مطالبہ تو ہو گا لیکن مکلفین کے لیے اسے پورا کرنا لازمی نہ ہو گا)۔ پس اقتضاء میں چار حکم داخل ہیں : واجب یعنی فرض' محظور یعنی حرام ' مندوب یعنی مستحب اور مکروہ۔ جبکہ تخییر سے مراد اباحت ہے۔ اور وضع سے مراد ( کسی حکم کا ) سبب' شرط یا مانع ہے۔
پس أحکام تکلیفیہ پانچ ہیں کیونکہ شارع کا خطاب یا تو جازم ( یعنی تاکیدی اور پُر زور انداز میں ) ہو گا یا جازم نہ ہو گا۔ پس اگر شارع کا خطاب، جازم ہو گا تو اس میں یا تو کسی کام کے کرنے کا مطالبہ ہو گا یا کسی کام سے روکا گیاہو گا۔ پہلا حکم 'ایجاب' ہے اور دوسرا 'تحریم'۔
اگر تو شارع کا خطاب غیر جازم ہو گا تو اس میں طرفین ( یعنی اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کے دونوں پہلو ) برابر ہوں گے اور اس کو 'اباحت' کہتے ہیں یا ان میں سے ایک پہلو یعنی اس فعل کو کرنے یا نہ کرنے کا راجح ہو گا' اگر کرنے کا پہلو راجح ہو گا تو 'ندب' اور اگر نہ کرنے کا پہلو راجح ہو تو 'کراہت' کہتے ہیں۔یہ کل آٹھ قسمیں ہوئیں جن میں سے پانچ حکم تکلیفی اور تین حکم وضعی کی أقسام ہیں۔
حکم تکلیفی کی وجہ تسمیہ
حکم تکلیفی کو 'تکلیفی' کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کی اکثر اقسام میں تکلیف پائی جاتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حکم تکلیفی کی ہر قسم میں تکلیف نہیں ہوتی جیسا کہ اباحت میں کسی قسم کی تکلیف شرعی موجود نہیں ہے بلکہ جمہور کے نزدیک 'ندب' اور کراہت تنزیہی میں بھی تکلیف شرعی نہیں ہے ( کیونکہ جمہور کے نزدیک تکلیف سے مراد
'الزام ما فیہ مشقة' یعنی مشقت والی چیز کو لازم قرار دینا ہے اور ندب اور کراہت میں کسی فعل کو لازم قرار نہیں دیا جاتا جبکہ تکلیف کی ایک تعریف
'طلب ما فیہ مشقة' یعنی اس شیء کا مطالبہ کہ جس میں مشقت ہو' بھی کی گئی ہے اس تعریف کے مطابق ندب اور کراہت بھی حکم تکلیفی میں شامل ہیں کیونکہ دونوں میں شارع کی طرف سے مطالبہ موجود ہے۔) بقیہ تین أحکام کو حکم وضعی کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ شارع نے ان کو حکم شرعی کے وجود اور عدم وجود کے لیے بطور علامت وضع یا مقرر کیا ہے۔