ہاں جی حدیث سے متعلق ہر علم پڑھایا جاتا ہے لیکن قرآن کے خلاف جانے والی حدیث سے متعلق ہمارا اصول جو ہے وہ عام طور پر دوسرے مسالک بشمول اہلحدیث کو قبول نہیں ، اسی پر مرزا صاحب اور مولوی حسین بٹالوی صاحب کا مناظرہ ہوا تھا جو اس وقت
الحق لدھیانہ کے نام سے شائع ہوا اور آج تک ہماری کتب میں موجود ہے ۔
احسان صاحب !کیوں جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سچ کیوں نہیں بتاتے آپ کے مرزا صاحب تولکھتے ہیں کہ
’’اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت ﷺ سے احکام پوچھتے ہیں اور ان میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے پھر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور آنحضرت جبرائیل سے وہ مسئلہ جس کی ولی کو حاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کو بتا دیتے ہیں یعنی ظلی طور پر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہو جاتا ہے ‘پھر شیخ ابنِ عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت ﷺ سے احادیث کی تصیح کرا لیتے ہیں بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور بہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرت ﷺ کے قول سے بذریعہ کشف صحیح ہو جاتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 77‘78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 177‘178)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ
’’میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یا اہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمد قادیانی جلد 2 صفحہ 45 طبع چہارم)
لیجیے قارئین ! مرزا صاحب اور اس کے پیروکار تو محدثین کی جرح سے تو آزاد ہو ہی گئے ہیں۔ اسی تناظر میں چند اور حوالہ جات پیش کر کے آگے بڑھتے ہیں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بیان ہے کہ
"دوسری وجہ سلب ایمان کی یہ ہوتی ہے کہ ولی اللہ خداتعالی کے مقرب ہوتے ہیں کیونکہ ولی کے معنی قریب کے ہیں ۔ یہ لوگ گویا اللہ تعالی کو سامنے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ ایک محجوب کی طرح ہوتے ہیں جن کے سامنے ایک دیوار حائل ہو ۔اب یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک تو ان میں سے ایسا ہے جس کے سامنے کوئی پردہ ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سب کچھ روشن نظر آتا ہے وہ جو کچھ بیان کرتا وہ حقائق اور معارف ہوتے ہیں وہ احادیث شریفہ کی جو تاویل کرتا ہے وہ صحیح ہوتی ہے کیونکہ وہ براہ راست بھی آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے سن لیتا ہے اور اس طرح وہ اس کی اپنی روایت ہوتی ہے حالانکہ دوسرے لوگوں کو تیرہ سو برس کے وسائط سے کہنا پڑتا ہے پھر ان ہر دو میں کیا نسبت ہو سکتی ہے۔"
(ملفوظات جلد اول صفحہ 230 طبع جدید)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ
"یہ پکی بات ہے کہ آنے والا اسی امت سے ہو گا اور حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص مثیل مسیح بھی تو ہو اگرچہ محدثین اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں مگر اہل کشف کی یہ بات مانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے کشف سے بعض احادیث کی صحت کر لیتے ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح نہ ہوں اور بعض کو غیر صحیح قرار دے سکتے ہیں ۔ یہ حدیث اہل کشف نے جن میں روحانیت اور تصفیہ قلب ہوتا ہے صحیح بیان کی ہے۔"
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 97 طبع جدید)
احسان صاحب !تمام تر تلاش بسیار کے باوجود بندہ ناچیز کو کسی بھی محدث کی ایسی کوئی تحریر نہیں مل سکی جس میں محدثین نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیان کردہ اس اصول کو درست تسلیم کیا ہو کہ اہل کشف محدثین کی جرح کے پابند نہیں ہوتے بلکہ براہ راست نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے احادیث کی صحت کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں اس لیے میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ مندرجہ بالا تحریر میں مرزا قادیانی نے محدثین کی طرف بھی ایک جھوٹ منسوب کیا ہے۔
محترم قارئین ! ایک طرف تو مرزا صاحب خود کو اہل کشف قرار دیتے ہوئے احادیث کو پرکھنے کے حوالے سے محدثین کے پیش کردہ اصول و ضوابط سے قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف خود کو حکم و عدل قرار دیتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ
"جب مدت دراز گزر جاتی ہے اور غلطیاں پڑ جاتی ہیں تو خدا ایک حکم مقرر کرتا ہے جو ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے ۔آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم حضرت مسیحؑ کے سات سو برس بعد آئے اس وقت ساتویں صدی میں ضرورت پڑی تو کیا اب چودہویں صدی میں بھی ضرورت نہ پڑتی اور پھر جس حال میں کہ ایک ملہم ایک صحیح حدیث کو وضعی اور وضعی کو صحیح بزریعہ الہام قرار دے سکتا ہے اور یہ اصول ان لوگوں (محدثین) کا مسلم ہے تو پھر حکم کو کیوں اختیار نہیں ہے؟ ایک حدیث کیا اگر وہ ایک لاکھ حدیث بھی پیش کریں تو ان کی پیش کب چل سکتی ہے؟"
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 276,277طبع جدید)
مزید ایک مقام پر لکھا کہ
"اہل کشف جو لوگ ہوتے ہیں وہ احادیث کی صحت کے لیے محدثین کے اصول تنقید احادیث کے پابند نہیں ہوتے بلکہ وہ بعض اوقات ایک صحیح حدیث کو ضعیف ٹھہرا سکتے ہیں یا ضعیف کو صحیح کیونکہ وہ براہ راست اللہ تعالی یا رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے اطلاع پاتے ہیں جب یہ بات ہے تو پھر مسیح موعود جو حکم ہو کر آئے گا کیا اس کو یہ حق نہ ہو گا کہ وہ احادیث کی صحت اس طریق پر کر سکے؟"
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 378 طبع جدید)
مرزا غلام احمد قادیانی مزید ایک مقام پر کہتا ہے کہ
"میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے ۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمان نزاعین جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں حو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہو گی۔"