• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو زبان کے اچھے ناول

شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
السلام علیکم..
ناول پڑھنا کیا خلاف شرع ہے؟اگر ہاں تو اس کی عادت کیسے ختم کر سکتے ہیں؟؟
کیا کوئی اردو زبان کے اچھے ناول بتا سکتا ہے؟ نسیم حجازی کے علاوہ؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
شرعی جواب تو علما ہی دے سکتے ہیں ۔۔
لیکن عام فہم انداز میں جو مجھے سمجھ آتی ہے ۔۔۔ناولوں کی اکثریت چونکہ غیر شرعی مواد ۔۔۔یعنی جھوٹ ، فحش گوئی ، پر مشتمل ہوتی ہے ۔۔۔اس لئے ایسے ناول تو ظاہر ہے ’’لھو الحدیث (یعنی ایسی چیزیں جو آپ کو غافل کردیں) کے زمرے میں ہی آئیں گے۔۔۔تو پھر ان کو پڑھنا بھی صحیح نہیں۔۔۔
نسیم حجازی صاحب کے ناولوں (خصوصاََ محمد بن قاسمؒ ) بہت سی غیر صحیح باتوں پر مشتمل ہے ۔۔۔
یعنی انہوں نے تاریخی واقعات کو افسانوی ادب کے روپ میں ڈھال دیا ۔۔۔اور ناجانے کیا اضافہ کیا ۔۔۔کیا کمی کی۔۔۔
یعنی وہ صرف ناول ہی ہے ۔۔۔اس کا اعتبار کوئی نہیں ۔۔۔
غلط اس لئے ہے کہ انہوں نے کوئی فرضی کردار نہ چنا ۔۔۔صحیح کردار چن لیا۔۔۔
نتیجتاََ کئی لوگ ۔۔۔محمد بن قاسمؒ سے متعلق معلومات کے لئے ۔۔۔ان کی کتاب کا حوالہ دے دیتے ہیں۔۔۔جو کہ بالکل غلط ہے ۔۔
تاریخی ناول کے اعتبار سے خان آصف مرحوم ایک اچھے صاحب قلم مصنف تھے ۔۔۔
انہوں نے بت شکن (محمود غزنویؒ پہ ) اور اسی طرح سلطان صلاح الدین ایوبیؒ پہ ان کا تاریخی ناول اچھا ہے ۔۔
خان آصف اس لحاظ سے ٹھیک ہیں کہ کوئی واقعہ گھڑ کے نہیں بیان کرتے ۔۔۔اور تاریخ واقعات ۔۔۔ایک تاریخ محقق کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔۔۔
البتہ وہ واقعے کو اپنے الفاظ میں لمبا اور خوبصورت کر کے پیش کرتے ہیں ۔۔۔یعنی چار ستری واقعہ ہوگا تو اس کو ادبی لسانی رنگ بھر کر طویل بیان کریں گے۔۔۔
ایسی کتابوں کو بس تاریخی ناول کے طور پر ہی دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔اسلامی ریفرنس کے طور پر نہیں۔۔۔
ہاں اگر کسی عالم کی کتاب باحوالہ ان مسلم جرنیلز پر ہو تو وہ سب سے اچھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ایک استثنا اور بھی ہے جاسوسی ، فکشن دنیا میں ۔۔۔
وہ ہیں ۔۔۔اشتیاق احمد مرحوم ۔۔۔جو کہ روزنامہ اسلام کے ساتھ شائع ہونے والے ’’ بچوں کا اسلام‘‘ کے مدیر تھے ۔۔
ان کے ناول اردو ادب میں بچوں بڑوں میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔۔۔
وہ تمام دوسرے جاسوسی اور فکشن مصنفین کے برعکس مذہبی آدمی تھے ۔۔۔۔اور ان کے بچوں کے ناول ۔۔۔فیملی کے سامنے پڑھے جاسکتے ہیں۔۔۔اور ان کے ناولوں میں بھی شروع کی بنسبت آخری ناولوں میں مذہبی رنگ زیادہ ہے ۔۔۔
اگرچہ یہاں بھی وہی تنبیہ ہے کہ وہ پھر بھی کوئی عالم نہیں تھے ۔۔۔اس لئے ان کے ناولوں میں بھی بہت غلطیاں ہیں۔۔۔
لیکن وہ عجیب استثنا تھے کہ اس فضول و فحش (چاہے بہت معمولی ہی ہو ) لٹریچر کے دور میں اپنا نام منوا گئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اوپر والے ناول باقیوں سے کچھ بہتر ہیں ۔۔۔ان کے ساتھ ساتھ ۔۔۔سیرت اور تاریخ کی کتب مثلاََ ۔۔۔سیرت النبیﷺ ، الفاروقؓ ۔ شبلی نعمانی ، سیر الصحابۃؓ ۔حیاۃ الصحابۃؓ ۔۔۔وغیرہ کا مطالعہ کریں ۔۔۔اس سے حقیقی واقعات کی طرف توجہ بڑھے گی ۔۔۔ان شاء اللہ
یہ باتیں جو میرے ذہن میں تھیں ۔۔۔عرض کر دی ہیں۔۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم..
ناول پڑھنا کیا خلاف شرع ہے؟اگر ہاں تو اس کی عادت کیسے ختم کر سکتے ہیں؟؟
کیا کوئی اردو زبان کے اچھے ناول بتا سکتا ہے؟ نسیم حجازی کے علاوہ؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
ناول کے بارے میں کوئی فتوی دینے سے قاصر ہوں۔تاہم یہ ضرور ہے کہ چند ایسے ناول ہیں جو نئی نسل بالخصوص وہ لوگ جو مذہب کو فیلڈ سمجھتے ہیں ان کے لیے بہترین ہے، بعض دفعہ انداز بیاں سے تحریر اثر کر جاتی ہے، حالانکہ بات وہی ہوتی ہے ،
عمیرہ احمد کا "پیر کامل" ، "ایمان امید محبت"، اور نمرہ احمد کا "مصحف" اور "جنت کے پتے" اچھی کاوش ہیں ، اور جہاں تک بات ان میں کچھ اختلافی مسائل کی ، تو ہم میں اتنی لچک تو ہونی چاہیئے کہ کم ازکم ہم کسی کو برداشت کر سکیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ادب کو ادب سمجھ کر پڑھنا چاہئے، دین و مذہب سمجھ کر نہیں۔ ادب صاف ستھرا بھی ہوتا ہے، اصلاحی اور تفریحی بھی اور فحش و خراب بھی۔ صاف ستھرے، اصلاحی بلکہ تفریحی ادب پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ادب پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنا مدعا اچھے اور پر اثر الفاظ میں بیان کرنا، بالخصوص لکھنا آجاتا ہے۔ ورنہ بہت سے ایسے عالم، فاضل، اسکالر، ماہرین علوم ہیں، جو اپنے اپنے علم پر اتھارٹی تو ہیں لیکن وہ انہیں عوام میں پر اثر طریقہ سے بیان کرنے اور لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یا ان کا لکھا عوام کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
فسانہ آذاد:
چونکہ شاید آج مشکل سے اسے ناول کا درجہ مل سکے ہم ابتدائی اردو ناولوں مثلاً مولوی نذیر احمد کے مراۃ العروس (1869) کو چھوڑ کر ایک شاہکار ناول کی بات کریں گے جسے پنڈت رتن ناتھ سرشار نے لکھا تھا۔
'فسانہ آزاد' (1878) میں منظرِ عام پر آیا اور اس پر عام اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ اس میں حقیقی پلاٹ کی کمی ہے اور اس کی ضخامت اسے بہت بھاری بھرکم ناول میں تبدیل کرتی ہے۔ لیکن دنیا کے عظیم ترین ناولوں کے ساتھ بھی یہی کچھ معاملہ ہے جن میں ' وار اینڈ پیس' اور ' دی برادرز کراموزوف' قابلِ ذکر ہیں۔
اس میں خالص اردو میں لکھنو تہذیب کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ایک مسخرا نما کردار خوجی کا بھی ہے جسے اردو ادب کے اولین مزاحیہ کرداروں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔
امراؤ جان ادا: 1899 میں لکھا گیا یہ ناول، اردو ناولوں کے عروج کی ایک لحاظ سے علامت اور اشارہ تھا۔ ناقدین کی رائے اب بھی اس پر تقسیم ہےکہ امراؤ کوئی اصلی کردار تھا بھی یا نہیں لیکن یہ ناول مرزا ہادی رسوا کی فکشن پر زبردست مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ بظاہر یہ ایک طوائف کا زندگی نامہ ہے لیکن اسے انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں لکھنؤ کے تہذیب اور معاشرے کا عکاس ناول قرار دیا جاسکتا ہے۔
گئودان: منشی پریم چند کے تمام ناولوں میں سے گئودان (1936) کو سب سے بہترین کام کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دو زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔
پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا۔ لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ بھی بہترین اردو ناولوں میں سے ایک۔
آگ کا دریا: اسے اردو زبان کا سب عظیم ناول بھی قرار دیا جاتا ہے۔ معروف ناول نگار ، قراۃ العین حیدرکی تخلیق آگ کا دریا (1957) نے ایسے کئی تنازعات کو جنم دیا جو آج بھی ختم نہیں ہوئے۔ اس پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ ورجینیا وولف کے سوانحی ناول اورلینڈو سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔ اس ناول کی سوانح عمری تین سو سال پر محیط ہے اور ناول میں مصنفہ نے جو خیالات پیش کئے اس پر انہیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا تھا۔ اگرچہ اس کے پہلے دوسو صفحات پڑھنا مشکل ہے لیکن اس ناول میں برصغیر کی 2,500 سالہ تاریخ سموئی گئی ہے اور اگر آپ اسے گرفت میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا تاریخ بھی آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے۔
اداس نسلیں: یہ عبداللہ حسین کا وہ ناول ہے جسے انہوں نے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ اگرچہ قرۃ العین صدیقی نے عبداللہ حسین پر نقل کے الزامات لگائے تھے اور صفحہ نمبر تک کے حوالےدیئے تھے کہ اس میں آگ کا دریا ناول کا اسلوب اور پیراگراف شامل کئے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اداس نسلیں آزادی کے بعد تحریر کئے جانے والے اہم ترین اردو ناولوں میں سے ایک ہے۔ اس میں دہلی اور پنجاب کے درمیان ایک گاؤں کا منظر پیش کیا گیا ہے جس میں میں ہندو، مسلم اور سکھ بستے ہیں۔
آنگن: 1962 میں تصنیف کئے جانے والے اس ناول کو ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ دیگر فکشن کی طرح اسے تاریخ کی طرح نہیں پڑھا گیا ۔ یہی اسٹائل خدیجہ کی مقبولیت اور عظمت کی وجہ بنا ہے۔
خدا کی بستی: اردو کے مقبول ترین ناولوں میں سے ایک خدا کی بستی کو شوکت صدیقی نے تحریر کیا ہے اور اب تک اس کے 50 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور 20 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ہے۔
خدا کی بستی میں پچاس کے عشرے کا کراچی دکھایا گیا اور اس میں کچی بستی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ خدا کی بستی ایک ایسے معاشرے کی کہانی ہے جو معاشی اور سیاسی نشیب و فراز کے باوجود بقا کی جدوجہد میں مصرف ہے۔
اس کی حقیقی زبان اور عامیانہ انداز سے ہر کردار اور منظر حقیقی نظر آتا ہے۔
بستی: انتظار حسین کے بعد ہی ان کا یہ ناول قدرے متنازعہ ہوگیا تھا۔ انتظار حسین پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ بہت ناسٹلجک ہوجاتے ہیں اور یادوں میں گم ہوجاتے ہیں لیکن انتظار حسین کا فن بھی یہی سے شروع ہوتا ہے۔ وہ مایتھولوجی میں حوالہ جات کے ساتھ کہانی کو زبان کی چاشنی سے ایک خوبصورت رنگ عطا کرتے ہیں۔
چاکیواڑہ میں وصال: محمد خالد اختر ایک ممتاز مزاح نگار تھے اور ان کے اس ناول کو فیض احمد فیض نے بھی نامزد کیا ہے۔ اس میں بیان کردہ ہر شے میں طنز و ظرافت کا رنگ موجود ہے۔ لیاری کے علاقے چاکیواڑہ کے پس منظر میں لکھی گئی اس تخلیق میں چاکیواڑہ کے کردار زندہ ہوجاتےہیں۔
** راجہ گدھ:** 1980 کے عشرے میں لکھے گئے اس ناول میں بانوقدسہ نے ایک سماجیاتی نظریہ پیش کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہےکہ کرپشن کی ہر شکل کسی نہ کسی ذہنی عارضےکو پیدا کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بد عنوانی میں گھرا ہے اور اس میں مصنف نےبتایا ہےکہ کسطرح کرپٹ کردار تکلیف اٹھاتے ہیں۔
کئی چاند تھے سرِ آسمان: اگر ناولوں کی اس فہرست میں کوئی دوسرا ہم عصر ہوسکتا ہے تو وہ شمس الرحمان فاروقی کا ناول ' کئ چاند تھے سرِ آسماں ' ہوسکتا ہے۔ اس میں برصغیر کا کلچر اور کردار دکھائے گئے ہیں۔ ناول میں غالب کا سراپا پڑھنے کے قابل ہے۔
(بشکریہ ڈان اردو)
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
ادب کو ادب سمجھ کر پڑھنا چاہئے، دین و مذہب سمجھ کر نہیں۔ ادب صاف ستھرا بھی ہوتا ہے، اصلاحی اور تفریحی بھی اور فحش و خراب بھی۔ صاف ستھرے، اصلاحی بلکہ تفریحی ادب پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
تبصرہ ناول۔۔بحوالہ ڈان اردو
آپ نے کچھ ناولوں پر کسی صاحب کے تبصروں کا مضمون نقل کیا ہے ۔۔۔میرے خیال میں تو
تبصرہ تو اسی کو کرنا چاہیے ۔۔۔جو ناول پڑھ چکا ہو۔۔۔کیونکہ تبصرہ کرنے والا معلوم نہیں کیسے خیالات کا حامل ہوتا ہے۔۔
کسی غلط بات کو غلط سمجھتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ یا اکثر تعریف ہی کر جاتے ہیں ۔۔۔تنقید کرتے ہی نہیں۔۔۔
اور موجوده لٹریچر تو اکثر۔۔۔ادب سے زیادہ بے ادب ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر اردو ادب کی سب سے طویل ترین داستان اور ناول پر میں نے کچھ دن پہلے مختصر تبصرہ کیا تھا۔۔اس میں پھر
کچھ دوستوں نے اس پر اظہار خیال بھی کیا۔۔۔
اس میں بات کچھ لمبی ہوگئی ۔۔۔۔۔اگر کوئی نامناسب یا فضول حصہ ہو تو بیشک ریموو کر دیں۔۔۔
وہ میں پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔اس سارے مکالمہ ٹائپ تبصرہ میں ۔۔۔کچھ ان ناولوں کا بھی نام ہے جو آپ کے نقل کردہ مضمون میں ہیں۔۔۔
اور یہ تبصرہ مکالمہ۔۔کسی اسلامی سائٹ کا نہیں ۔۔۔۔بلکہ ایک بہت بڑی ادبی لٹریچر کی سائٹ کا ہے ۔۔۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
اردو ادب کی طویل ترین بے ادب کہانیاں۔
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اردو ادب کی طویل ترین کہانیوں کے بارے میں کچھ کہنا ہے ۔
مثال میں ۲ سب سے بڑی کو چنا ہے ۔ ایک تو اردو ادب کا بڑا ماخذ تک سمجھی جاتی رہی۔۔اور دوسری ناولوں کے لئے امام سمجھی گئی۔

١- پہلی
ان میں اگرچہ لوگوں کے کہنے کہ اعتبار سے کافی عرصہ سے طویل ترین کہانی ۔۔داستان امیر حمزہ ۔۔سمجھی جاتی ہے ۔
داستان طلسم ہوشربا بھی اسی کا حصہ ہے ۔اور واقعی بہت طویل ہے ۔
کبھی خود تو اس کی طوالت کا اندازہ نہیں لگایا ۔ بتانے والے دس ہزار صفحات کہتے ہیں ۔

٢- دوسری
ماضی قریب کی ڈائجسٹوں میں چھپنے والی ۔۔دیوتا۔۔جو کہ داستان امیر حمزہ سے بھی بڑی ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے وقتوں میں چونکہ ملٹی میڈیا کا دور نہیں تھا ۔انٹرٹینمنٹ کے لئے دوسری چیزوں کو اختیار کیا جاتا تھا ۔
اس لئے داستان امیر حمزہ اس دور میں اس کا بڑا ذریعہ ہو گی۔
اس دور میں داستان گو ہوتے تھے ۔ لوگ ایک جگہہ جمع ہو کر ان سے داستانیں سنتے تھے ۔
البتہ ۔۔دیوتا ۔۔ملٹی میڈیا کے دور میں ہی لوگ پڑھتے رہے ۔
انٹرٹینمنٹ لٹریچر میں پڑھنے کی عمر کے حساب سے یہ ترتیب ہوتی تھی ۔۔میرے خیال میں ۔۔
پہلے بچوں کی کہانیاں چھوٹی عمر میں ۔۔عمروعیار، ٹارزن ، وغیرہ۔۔
تھوڑے بڑے ہوئے تو ساتھ ساتھ جاسوسی ادب میں۔۔۔ اشتیاق احمد ۔۔۔تھوڑی سی کچی عمربڑھتے ہوئے ۔۔چھپتےچھپتے عمران سیریز۔۔۔
اور پھر ڈائجسٹ ۔۔اور ڈائجسٹوں کے مقبول۔۔لیکن نامعقول ۔۔سلسلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے کسی بھی کام کا اصول ہے جو کسی کام میں چاہے ۔۔اچھا ہو ۔۔یا ۔برا ہو۔۔۔اپنی عمر کا اور محنت کا زیادہ حصہ خرچ کرے گا ۔۔اس کو اسی میں کمال حاصل ہو گا۔
ایک عجیب سی مثال ۔۔ذہن میں آرہی ہے۔۔بہت پہلے گھر میں کوئی سیوریج کا مسئلہ تھا ۔۔کوئی گٹر وغیرہ بند تھا ۔۔تو اس کو کھلوانے کے لئے ایک سینیٹری ورکر بلایا اس نے وہ کھول دیا ۔
میں نے اس کے کام بغور مشاہدہ کر رہا تھا ۔۔اس کی کئی باتوں سے حیران تھا کہ اس نے یہ کیسے کر لیا ۔۔لیکن پھر خیال آیا کہ اس نے اپنی عمر اس کام میں صرف کی ہے ۔۔
مثال صرف سمجھانے کے لئے دی جاتی ہے ۔ دوسرے واقعے کی شخصیت سے تقابل نہ کیجئے گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی قاری عمر کا بیشتر حصہ ایک آدمی کی تحریروں کے ۔۔بقول بعض ۔۔سحر میں گرفتار ۔۔رہتا ہے ۔۔اور آخر میں یہ نتیجہ نکال لے کے اس بندے کی تحریروں کو اٹھا کر پھینک دینا چاہیے تو ۔۔۔اور وہ دلائل کی بنیاد پر یہ کہے ۔۔۔
تو وہ میرے ذاتی خیال میں غلط نہیں ہوگا۔۔
میں اس اردو لٹریچر کے ان ادوار سے گزرنے کے بعد ۔۔۔یہ اظہار حق کے طور پر یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ۔۔

اردو ادب کی ۔۔۔ان دو ۔۔۔طویل ترین بے ادب داستانوں ۔۔۔کو اردو ادب سے ۔۔۔اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
داستان امیر حمزہ ۔۔و طلسم ہوشربا ۔۔اور ۔۔۔دیوتا کا ۔۔کانٹینٹ ریٹنگ۔۔۔۱۸ پلس ۔۔ہے ۔۔۔
داستان امیر حمزہ ۔۔و۔۔طلسم ہوشربا۔۔بعض روایات کے مطابق بعض مغل بادشاہوں کی ایما پر لکھی گئی۔۔۔
یا جس طرح بھی لکھی گئی ۔۔جس نے بھی لکھی۔۔
ادبی دنیا میں تو یہاں تک دیکھا کہ ایک اردو لغت کی بہت بڑی سائیٹ ہے اس میں کئی الفاظ کا منبع یا ماخذ بتانے کے لئے
داستان امیر حمزہ کا حوالہ دیا گیا کہ ۔۔۔یہ لفظ وہاں استعمال ہوا۔۔۔
اس میں ۔۔عمرو ۔۔۔کا کردار جس نے بہت شہرت پائی۔۔۔میں اس پر پورا تبصرہ تو نہیں کر سکتا ۔۔نہ وقت ہے ۔۔۔نہ ضرورت۔۔۔
بس کچھ باتیں جو یاد ہیں وہ عرض کر دیتا ہوں ۔۔وہ بھی اس لئے کہ نئی نئی انٹرنیٹ پر اپلوڈ ۔۔۔کی گئی ۔۔ہے ۔۔۔۔۔۔
اپلوڈر نے بڑی محنت کی ہوگی۔۔۔انہوں نے یقیناََ ابھی خود نہیں پڑھی ہو گی ۔۔۔
اور ہمارے دوست بھائی بہنوں ۔۔نے ۔۔جزاک اللہ بھی کہا ہے انہیں۔۔۔کیونکہ ابھی پڑھی نہ ہو گی کسی نے ۔۔۔
سب کے ذہن میں ۔۔۔اس کا خلاصہ۔۔۔مقبول جہانگیر والا ۔۔ہوگا۔۔۔جو کہ بچوں کے لئے لکھا گیا اور اس میں بظاہر قابل اعتراض بات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے مصنفین نے اسلام اور تاریخ کو ۔۔۔فحاشی و بیہودگی کے ساتھ۔۔۔ جادو ۔۔نجوم۔۔۔سحر ۔۔کے ساتھ ملا کر اسطرح مربہ بنا یا ہے کہ۔۔کیا کہا جائے ۔۔
یہ عمرو کا کردار ۔۔۔۔ایک صحابی ؓ۔۔۔کا کردار ہے۔۔۔حضرت عمرو بن امیہ الضمری یا الضمیریؓ
اسی لئے میں نے کسی جگہہ عرض کیا تھا۔۔کہ آج کل بہت مشہور ہو گیا ہے یہ کردار۔۔۔لیکن اس کا تلفظ غلط العام ہو گیا ہے۔۔
تو اس کا فائدہ ہی ہے ۔۔اصل لفظ ۔۔عَمَرو۔۔ہے ۔۔و۔اس میں سائلنٹ ہے ۔۔۔
اور جو مشہور ہے وہ ۔۔عُمرُو ۔۔ ہے ۔۔چلو اچھا ہے صحابیؓ تو بچ گئے ۔۔
امیر حمزہ ۔۔۔پڑھنے والے تو کوئی اور بزرگ سمجھتے ہوں گے۔۔۔کیونکہ بعد میں بچوں کے لئے لکھنے والوں نے ایساہی کیا۔۔۔
لیکن داستان والوں نے۔۔۔۔ہمارے نبیؐ کے چچا۔۔۔حمزہؓ کا کردار چنا تھا۔۔
نوشیرواں ۔۔۔معدیکرب۔۔۔اور کچھ دوسرے نام۔۔۔یہ سب تاریخ کے کردار ہیں
کافی عرصہ پہلے ۔۔۔علامہ شبلیؒ ۔۔کی حضرت عمرؓ پر کتاب ۔۔الفاروقؓ۔۔پڑھ رہا تھا۔۔۔
یوں محسوس ہو ا کہ یہ جنگوں کے واقعات میں نے پہلے کہیں پڑھے ہیں۔۔ ۔غور کرنے پر یاد آیا کہ۔۔۔کچھ داستانیں پڑھ رکھی ہیں۔۔۔ان میں کچھ ایسا ہی تھا۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔اخلاق مانع ہے ۔۔بیہودگی اور جہالت کی مثالیں ۔۔۔جن کو اُس وقت بھی پڑھ کر میں ۔۔سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔۔
اِس وقت بیان نہیں کرسکتا۔۔
-------------------------
دیوتا۔۔۔۔کے بارے میں تو عصر حاضر کے زیادہ ۔۔۔۔دوست ۔۔جانتے ہی ہوں گے۔۔
یہ ایک۔۔۔’’دین کو زندہ کرنے والے‘‘ نواب صاحب کی کتاب ہے ۔۔۔ اللہ ان کو توبہ کی توفیق دے۔۔۔
اگر حیات نہیں تو ان کی اللہ مغفرت کرے۔۔
(یہ اردو ادب ، ڈراموں اور ڈائجسٹوں کے مشہور ترین مصنف محی الدین نواب صاحب کا ذکر ہو رہا ہے ۔۔اس تبصرہ کے کچھ دن بعد وہ فوت ہوئے ۔۔۔یعنی کوئی دو تین ماہ پہلے۔۔)
اس کو دو وجہ سے تبصرہ کے لئے چنا کہ ۔۔۔ایک تو یہ سب سے طویل ہے ۔۔۔دوسری باقیوں کے لئے یہ ۔۔۔قابل تقلید سمجھی گئی۔۔۔اور بعد کو لکھنے والوں نے ۔۔۔اسی کے طرز کو اپنایا۔۔۔وغیرہ
ان کی اس ۔۔۔دیوتا۔۔۔نے ۔۔ڈائجسٹوں کی دنیا میں کتنے عرصہ راج کیا ۔۔۔۔
اور الگ سے کتابی شکل میں بھی ۔۔۔۔۔
ان کے ہیرو کے تمام کردار ۔۔۔بدکرداری ۔۔۔کے اونچے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔۔۔
ان کی۔۔۔دیوتا۔۔۔بیہودگی ۔۔میں بھی ۔۔۔دوسری سلسہ وار کہانیوں کے لئے ۔۔۔اُم۔۔یعنی ماں۔سمجھی گئی۔۔
اور اس سب کے ساتھ ۔۔۔وہ ۔۔۔اس میں ۔۔۔دین کوبھی گھُسانے کی کوشش کرتے رہے ۔۔۔
دین کا راہبوں والا تصور پیش کیا
پھر ہندووں کا ۔۔آواگون ۔۔کا نظریہ یعنی۔۔۔روح کا جسم بدلنا۔۔۔بھی اس میں چلتا رہا۔۔۔
کافی پہلے میں نے چھوڑ دی تھی۔۔۔ایک جگہہ مصنف کا دعوی یاد ہے کہ ۔۔یہ میری آخری سانس تک جاری رہے گی
لیکن کچھ عرصہ پہلے نیٹ پر کہیں میں نے پڑھا کہ مقبولیت میں کمی کی وجہ سے انہوں نے اس کا اختتام کر دیا
اور بھی بہت کچھ کہنے کو ہے ۔۔۔۔لیکن بس اتنا ہی کافی ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے میرے ذاتی خیال میں ۔۔۔۔ان اردو ادب کی ۔۔ان طویل ترین۔۔۔۔بے ادب ۔۔۔داستانوں کو ۔۔۔
ادب میں نہ شامل کریں۔۔۔
ایک مشہور شاعر کا ایک فقرہ تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ ان کے لئے۔۔
’’اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
اِس تہذیب کے انڈے ہیں گندے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان باتوں کا اس لئے اظہار کر دیا کہ کم از کم اردو ادب کے فورم پر یہ سند رہے کہ پڑھنے والے ضروری نہیں کے جو بھی
ملے پڑھ لیتے ہیں اور اس سے متفق بھی ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالٰی سچ کہنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور
اللہ تعالٰی ہمیں سیدھے راستے پر چلائے ۔۔۔آمین
(اس پر جو تبصرے ہوئے وہ میں بعد میں نقل کرتا ہوں)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آپ نے کچھ ناولوں پر کسی صاحب کے تبصروں کا مضمون نقل کیا ہے ۔۔۔میرے خیال میں تو
تبصرہ تو اسی کو کرنا چاہیے ۔۔۔جو ناول پڑھ چکا ہو۔۔۔کیونکہ تبصرہ کرنے والا معلوم نہیں کیسے خیالات کا حامل ہوتا ہے۔۔
کسی غلط بات کو غلط سمجھتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ یا اکثر تعریف ہی کر جاتے ہیں ۔۔۔تنقید کرتے ہی نہیں۔۔۔
اور موجوده لٹریچر تو اکثر۔۔۔ادب سے زیادہ بے ادب ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر اردو ادب کی سب سے طویل ترین داستان اور ناول پر میں نے کچھ دن پہلے مختصر تبصرہ کیا تھا۔۔اس میں پھر
کچھ دوستوں نے اس پر اظہار خیال بھی کیا۔۔۔
اس میں بات کچھ لمبی ہوگئی ۔۔۔۔۔اگر کوئی نامناسب یا فضول حصہ ہو تو بیشک ریموو کر دیں۔۔۔
وہ میں پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔اس سارے مکالمہ ٹائپ تبصرہ میں ۔۔۔کچھ ان ناولوں کا بھی نام ہے جو آپ کے نقل کردہ مضمون میں ہیں۔۔۔
اور یہ تبصرہ مکالمہ۔۔کسی اسلامی سائٹ کا نہیں ۔۔۔۔بلکہ ایک بہت بڑی ادبی لٹریچر کی سائٹ کا ہے ۔۔۔
جزاک اللہ خیرا ۔ آپ کی بات سے صد فیصد متفق ہوں
بس صرف اتنا عرض کروں گا کہ مراسلہ نمبر 6 ان ناولوں پر ”تبصرہ“ نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک ”تعارف“ ہے۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
میرے اس تبصرہ کے مضمون پر دو دوستوں نے کچھ تبصرہ کیا اس پر پھر ادب پر تنقید کے سلسلے میں
مجموعی حوالے سے کچھ باتیں ہوئیں۔۔۔
تبصرہ ۔ اعجاز بھائی نے کہا ہے:
اگرچہ میں نے یہ دونوں داستانیں مکمل پڑھی ہیں، لیکن واقعی کبھی اس معنوں میں غور ہی نہیں کیا۔
بس ان کو بطور کہانی ہی پڑھتا رہا۔
جو تجزیہ آپ نے کیا، بہت خوب کیا۔ اور بالکل درست کیا۔
البتہ ایک چھوٹی سی پرابلم ضرور آتی ہے کہ اگر منٹو، بانوقدسیہ کے افسانوں کو ادب کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے، ان میں بھی ناجائز مراسم عروج پر ہیں۔
عمران سیریز میں بھی جو مظہر کلیم صاحب یا ابنِ صفی مرحوم نے نہیں لکھیں، میں پرانے لکھاریوں کی بات کر رہا ہوں، جیسے ایس قریشی، ساجد، اسد کلیم، اظہر کلیم وغیرہ، نے بھی جاسوسیت میں تخلیوں کی بہت کاروائیاں بیان کی ہیں۔
ان کو جاسوسی ادب میں شامل کیا جا سکتا ہے تو پھر ان کو بے ادب ہی قرار دینے دیں۔
البتہ نہ پڑھنے کی ترغیب ضرور دیں۔

کہ یہ ہمارے دین کو، ہمارے اخلاقیات کو بگاڑنے میں ضرور حصہ لیتی ہیں
تبصرہ ۔ ندیم بھائی نے کہا ہے:
ڈایجسٹ کے سلسلوں اور اس میں چھپنے والی تخلیقات کو ہمارے بڑے ادیب ویسے ہی ادب سے باہر ہی رکھتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے فحش نگاری کی تو اب سلسلہ میں رائٹر ڈیمانڈ ہی ایسی ڈال دے اور اس کو مسلسل چلائے بھی تو پھر قاری کیا کرے۔ بڑے ادبا کی داستانیں بڑے فورمز اور بڑے پبلشرز کے تھرو چھپتی رہی ہیں اور ان بڑے ادبا میں زیر تزکرہ بھی رہیں ہیں تو ویسے افسانے کہانیاں فحش نگاری کے زمرے میں نہیں آتیں؟
ان تمام بکس کو بھی بین کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
’’البتہ ایک چھوٹی سی پرابلم ضرور آتی ہے کہ اگر منٹو، بانوقدسیہ کے افسانوں کو ۔۔۔۔۔
پرانے لکھاریوں ایس قریشی، ساجد، اسد کلیم، اظہر کلیم وغیرہ، نے بھی جاسوسیت میں ۔۔۔۔ ‘‘


عنوان۔۔بے ادب کہانیاں۔۔۔۔ اور نتیجے۔۔۔۔ادب سے باہر پھینکیں۔۔۔ کو چھوڑیں ۔
نہ کوئی موجود معاشرے میں ادب کے کوئی قوائد ہیں۔۔۔نہ کسی نے باہر پھینکنا ہے۔۔۔اندر کیا ۔۔اور باہر کیا۔۔۔بس اپنے خیالات کا اظہا ر ہے ۔۔
نہ میں ادب کے مقرر کردہ لوازم سے واقف ہوں ۔۔کہ کیا ادب ہے یا کیا نہیں ۔۔
بس اتنا دیکھا ہے کہ موجودہ معاشرے میں ہر اردو کی تحریر اردوادب میں شامل کرلی جاتی ہے ۔۔۔۔
ہاں اس کا عنوان ۔۔۔بچوں کا ادب۔۔۔بڑوں کا ادب۔۔۔۔صحافتی ادب۔۔۔اور بڑوں کا ادب۔۔اور پھر’’بڑوں ‘‘ کا ادب۔۔۔
جاسوسی ادب ۔۔رومانوی ادب۔۔۔یہ ادب ۔۔وہ ادب۔۔
اور افسوس۔۔۔اسلامی ادب۔۔۔ کے عنوانات دے کر ۔۔ادبی فرقے ۔۔۔بنا دیے گئے ہیں۔۔
منٹو صاحب کو کبھی نہیں پڑھا ۔۔۔لیکن جنہوں نے پڑھا ۔۔۔سنا ہے انہوں نے ان کی غلطیوں۔۔۔گوشت۔۔ وغیرہ پر خوب خبر لی۔۔۔
کیا عجیب نہیں۔۔۔کسی کی تحریروں سے متاثر ہونے والے ان کی ۔۔۔ اور ۔۔۔کئی اور کی۔۔۔مے نوشی ۔۔۔کو بھی ادب میں شامل کر لیتے ہیں۔۔
یہ جو عمران سیریز کے پرانے رائٹر آپ نے بتائے ہیں۔۔۔یہ اور ان کی کتابیں اب پڑھی نہیں جاتیں ۔۔۔لائبریریوں میں دفن ہوگئیں۔۔ان پر اب کیا تبصرہ کرنا۔۔
البتہ ۔۔۔ابن صفی۔مظہر کلیم۔۔او راب ۔۔ظہیر احمد ۔۔۔ان پر تنقیدی توجہ دینی چاہیے
بانو قدسیہ کی کتب میں نے تو نہیں پڑھیں ۔۔۔البتہ دیکھا ہے کہ آج بھی چھپتی ہیں۔۔۔
ان کے بارے میں یہی سنا کہ ان کی کتب کا مرکزی مضمون کوئی معاشرتی برائی۔۔ہوتی تھی ۔
اس کے ضمن میں ۔۔۔کچھ ہوتا ہوگا۔۔۔۔
یہ حسن ظن میں اشفاق احمد مرحوم کی وجہ سے رکھ رہا ہوں۔۔
ورنہ جنہوں نے پڑھا ہے ۔۔۔وہ اس پر تبصرہ کریں اور ضرور کریں۔۔۔
اچھی بات کی تعریف ۔۔۔۔اور بری بات کا ۔۔۔پوسٹ مارٹم ۔۔۔۔ضرور کرنا چاہیے۔۔

بلکہ ۔۔۔پڑھنے والے کو تو۔۔۔ناولوں کے محتاط ترین مصنف ۔۔۔۔اشتیاق احمد پر بھی ۔۔۔پورا تبصرہ کرنا چاہیے ۔۔۔۔
مجھے ان کی کئی باتوں سے اختلاف ہے ۔۔۔اس کا کبھی ذکر کریں گے۔۔۔بحرحال ان کی کتب میں ’’خیر‘‘ غالب ہے ۔۔خصوصاََ آخری دور تک۔۔
اعتراض صرف ۔۔۔بیہودگی پہ نہیں ۔۔۔اور بھی باتوں میں ہوتا ہے ۔۔۔۔دوست کرتے رہتے ہیں۔۔۔
لیکن اشتیاق احمد مرحوم کا مزاج یو ں ہی محسوس ہوتا تھا۔۔۔اگر ان کی کسی غلطی کے بارے میں ان کو متوجہ کیا جاتا ۔۔۔تو ۔۔وہ رجوع کرلیتے۔۔
جوانی میں ۔۔۔انہوں نے ۔۔۔کچھ زمانے سے متاثر ہو کر ۔۔۔بڑوں کے ناول کچھ لکھے۔۔اس میں جاسوسی کے ساتھ اس طرح کے جملے تھے جیسے عمران سیریز وغیرہ میں ہوتے ہیں ۔۔اس پر ایک خاتون نے ان کی خوب خبر لی اور انہیں خط بھیجا۔۔۔
اشتیاق احمد ۔۔۔نے ۔۔۔اُس وقت بھی ۔۔۔انصاف کامظاہرہ کیا اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید والا خط انہوں نے پورا شائع کر دیا۔۔۔بعد میں تو خیر وہ بالکل ہی ایسے طرز سے دور ہو گئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ڈایجسٹ کے سلسلوں اور اس میں چھپنے والی تخلیقات کو ہمارے بڑے ادیب ویسے ہی ادب سے باہر ہی رکھتے ہیں

جہاں تک میں نے دیکھا۔۔۔ ادیب انہیں ادب سے باہر نہیں رکھتا۔۔۔ہاں کیٹیگری بنا دیتا ہوگا۔۔

جہاں تک بات ہے فحش نگاری کی تو اب سلسلہ میں رائٹر ڈیمانڈ ہی ایسی ڈال دے اور اس کو مسلسل چلائے بھی تو پھر قاری کیا کرے۔
بقول بعض
گلہ رائٹر سے اتنا نہیں‘‘
ہمیں توقاری نے ہی مار ڈالا‘‘
اکثر قارئین سے یہی تو گلہ ہے۔۔۔پڑھ کے سوچتے ہیں ۔۔۔چلو چلو آگے چلو۔۔۔

بڑے ادبا کی داستانیں بڑے فورمز اور بڑے پبلشرز ۔۔۔۔۔۔

ادبا کا حال ان شاعروں کی محفل جیسا ہے ۔۔۔جس میں سب کوایک دوسرے کی واہ واہ کرنی پڑتی ہے
پبلشر ز کے بارے میں کیا تبصرہ کریں۔۔۔آپ لوگ خوب جانتے ہیں۔۔۔

ان تمام بکس کو بھی بین کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔

بین تو کچھ نہیں ہوسکتا ندیم بھائی۔۔۔نہ ہی اس دور میں کرنا چاہیے ۔۔
اگلا اور مشہور ہو جاتا ہے
اور اس کو بھی کریڈٹ بنا لیتا ہے۔
جیسے آج کل کے سیاستدان اگر جیل میں رہے ہوں تو اسے اپنی سی وی میں ضرور لکھتے ہیں۔
سوچنا چاہیے تو۔۔۔اپنے پڑھنے کے انداز کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
 
Top