• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو زبان کے اچھے ناول

شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
تبصرہ ۔۲ ۔ندیم بھائی نے کہا ہے:
ایک آپ بیتی تھی علی پور کا ایلی اور اس کا اگلا حصہ اس کو شاید آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔مین بالغ ہوتے ہوئے بھی اس کو ابھی تک نہ پڑھ سکا۔ عثمان بھائی بہت سے مثالیں ہیں اسی طرح
خدا کی بستیہے۔جانگلوسہیں
یہ انتہائی حد تک سچے واقعات ہیں جن کو رائڑ نے ناول شکل میں سمویا۔ہمارے دہہی معاشرے کی عکاسی کرتی یہ داستانیں فحش ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے قریب ہیں۔میں نے دیوتا کو آغاز سے انجام تک پورا پڑھا ھے موت کے سوداگر بھی مکمل پڑھی۔........یہ میری زاتی راِئے ھے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں میں نے اس جیسا ناول آج تک نہیں پڑھا۔فکشن میں یہ مجھے بہت بہترین لگا۔منٹو کے بہت سے افسانے سبق آموز تھے۔لیکن لوگوں کو گوشت ہی یاد رہا۔
ایک آپ بیتی تھی علی پور کا ایلی۔۔۔خدا کی بستی ،جانگلوس ۔۔۔ سچے واقعات ہیں جن کو رائڑ نے ناول شکل ۔۔۔
معاشرے کی عکاسی کرتی یہ داستانیں فحش ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے قریب ۔۔


ان تینوں کو تمام بک شاپس پہ دیکھا۔۔۔خود نہیں پڑھا۔ان جیسی پر اوپر بانو قدسیہ کے ضمن میں کچھ عرض کیا ہے ۔
ویسے فی الحال میرے تبصرہ میں نہیں ۔۔
یاد پڑتا ہے ۔۔۔ان پر تو شاید ڈرامے بھی بنے
ہیں جنہوں نے پڑھا ہے ۔
اس پر ناقدانہ تبصرہ کریں۔۔تعریفیں تو ہوتی رہتی ہیں

منٹو کے بہت سے افسانے سبق آموز تھے۔لیکن لوگوں کو ۔۔گوشت۔۔ ہی یاد رہا۔

جیسا کہ میں نے بتایا ۔۔میں نے نہ منٹو کو پڑھا ۔نہ ارادہ ہے ۔۔
اعجاز بھائی نے ان کا نام لیا۔۔۔وہی اس پر تبصرہ کریں۔۔
میں نے البتہ یہ ذکر کیا کہ جب کسی مشہور سے غلطی ہو ۔۔تو اسے بیان کردینا چاہیے
منٹو کا جب بھی تذکرہ سنا ساتھ ہی ۔۔اس بیہودگی کا بھی
اور البتہ ایک اور تبصرہ کسی نے کیا کہ۔۔۔منٹو کے افسانوں میں تو بہت سے بیہودہ افسانےاور بھی ہیں ۔۔لوگوں کو ۔۔گوشت کا ہی پتا ہے
.......................................
اتنی بات منٹو صاحب کی یاد ہے۔۔جن کی وجہ سے ہمارے نزدیک وہ مجرم ٹھہرے کہ ایک مشہور اور قابل احترام شخصیت ابو الکلام آزادؒ پر شراب پینے کا الزام لگایا۔۔
اور اس سے پہلے یہ کہتے ہوئے خود کو گواہی کے معیار سے گرایا۔کہ میں تو پیتا ہی تھا۔
پھر گواہی دی کہ۔میرے سامنے انہوں نے بھی پی۔

یہ میری زاتی راِئے ھے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں میں نے اس جیسا ناول آج تک نہیں پڑھا۔فکشن میں یہ مجھے بہت بہترین لگا۔

اس بات کا میں نے بالکل شروع میں تذکرہ کیا ہے ۔ اور میں نے اقرار کیا ہے کہ یہ ڈائجسٹوں کے سلسلہ وار ناولوں کی ماں ہے
ڈائجسٹوں پر راج کیا ہے۔ اس نے اور موت کے سوداگر نے۔۔اس کی وجہ بھی لکھی کہ
دنیا کے کسی بھی کام کا اصول ہے جو کسی کام میں چاہے ۔۔اچھا ہو ۔۔یا ۔برا ہو۔۔۔اپنی عمر کا اور محنت کا زیادہ حصہ خرچ کرے گا ۔۔اس کو اسی میں کمال حاصل ہو گا۔
لیکن ندیم بھائی اس کی تعریفیں تو ہوتی رہیں۔۔کسی نے تنقید بھی کی ۔۔۔سوائے اس کے کہ ۔۔’’بور ہو گئی ہے اب‘‘۔۔
آپ بھی چونکہ اس سے متاثر ہیں ۔۔اس لئے ایسی صورت میں عموماََ ۔کمزوریوں پر کم دیہان جاتا ہے۔یا آدمی کوئی تاویل کر لیتا ہے ۔۔
دیوتا ۔۔کے کانٹینٹ میں معاشرتی برائیاں تو بہت کم ضمناََ تھیں۔۔۔البتہ ہیرو اور اس کے بیٹے تمام بد کردار ہی دکھائے گئے۔میں یہ نہیں کہ رہا کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل تھے ۔۔بلکہ اس سے بڑھ کر جسٹیفائیڈ بد کرداری کا شکار تھے۔
بس اب تبصرہ کی آخری سطورسمجھیں ۔۔۔اتنی بھی مجبوراََ لکھیں۔۔۔
یہ ایسا ہی ہے کہ ۔۔۔کسی میں برائی ہو تو ۔۔۔اس کو ۔۔چھپانے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔
لیکن وہ ایسا شخص ہو کہ ۔۔۔اس کی اس برائی سے دوسرےمتاثرہوں تو ۔۔۔۔لوگوں کو آگاہی ۔۔کی نیت سے بتانا۔۔
اور اس لئے بھی کہ اس طرح کی تنقید اس پر ہوئی نہیں۔۔اسلئے۔۔ضروری سمجھا۔۔
لیکن اس کی تکرارمناسب نہیں۔۔۔ بس قارئین سمجھدار ہیں کہ اشارے سمجھ جائیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
تبصرہ ۔۳ ۔ندیم بھائی نے کہا ہے:
اس کے متعلق جو اظہار اعجاز بھائی نے کیا تھا میں اس سے متفق ہوں
لیکن ناول سلسلہ وار کہانیاں افسانے ہم میں سے کتنے افراد ہیں جو صرف سبق حاصل کرنے کے لئے پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بالکل صحیح کہا۔۔انٹرٹینمنٹ لٹریچر۔۔کو کوئی بھی سبق حاصل کرنے کے لئے نہیں پڑھتا۔۔فکشن سے سبق حاصل ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔رئیلیٹی سے سبق حاصل ہوتا ہے۔۔۔
لیکن لٹریچر جیسا بھی ہو ۔۔۔اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔۔۔
ہر آدمی پہ ۔۔اس کے حساب سے ہی ہوتا ہے۔
جیسے ۔۔کارٹونزاور گیمز۔۔کا اثر بچوں پر
ڈراموں کا اثر ۔۔۔عورتوں پر
اور فلموں کا اثر نوجوانوں پر ۔۔ہوتا ہےکہ نہیں ۔۔۔سب ہی متفق ہوں گےمیرے خیال میں۔۔
اسی طرح عمرو ٹارزن ۔۔۔۔۔۔کا اثر بچوں پر
خواتین ڈائجسٹوں کا اثر ۔۔۔۔خواتین پر
عام ڈائجسٹوں ۔۔کا اثر ۔۔۔نوجوانوں پر ۔۔۔ہوتا ہے
اگر ترتیب مختلف کر دیں تو ۔۔۔۔یعنی کارٹون یا گیمز یا ٹارزن کو خواتین دیکھیں پڑھیں۔
یا ۔۔ڈرامہ ،خواتین کے ڈائجسٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد ۔۔۔۔دیکھیں پڑھیں
تو صورتحال مختلف ہو گی۔
میچور آدمی ظاہر ہے۔۔۔اس طرح اثر نہیں لیتا ۔۔جس طرح نوخیز
اور دوست خوب جانتے ہیں ۔۔۔کہ ۔۔۔کتنے پڑھنے والے میچور ہوتے ہیں۔۔اور کتنےنہیں
اثر تو ۔۔میچور پر بھی ہوتا ہے۔۔چاہے کم ہو ۔۔
بری چیز کے اثر کی مثال ۔۔۔آگ کی بھٹی یا۔۔تندور کی سی ہے۔۔اس سے بچ بھی جاؤ۔۔تو دھواں تو لگے ہی لگے
اچھی چیز کی مثال ۔۔مُشک۔۔کی ہے۔۔جتنا بھی بچے ۔۔۔خوشبو تو ۔۔آہی جائے گی۔
لٹریچر پر تنقید ۔۔۔تو۔۔۔اس کے معاشرے پہ مجموعی اثر کو مد نظر رکھ کر ہی کی جانی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(اس تحریر کے کچھ دن بعد ہی جن مصنف پر تنقید ہو رہی تھی ۔وفات ہوگئی اس پر یہ سطور لکھیں)

انسان کا عمل مرنے کے بعد منقطع ہو جاتا ہے ۔لیکن اس کا وہ جاری کیا ہوا طریقہ برا یا اچھا۔
کتاب لکھنے والے مصنفین دنیا سے چلے جائیں ۔لیکن ان کی تحریریں موجود رہتی ہیں ۔
میڈیا ،پرنٹ میڈیا ، لٹریچر چھاپنے والے چاہے کسی کی کتنی ہی تعریف کریں ۔۔اس کو خراج تحسین پیش کریں ۔ انٹرویو لیں ۔
اس سب کے پیچھے صرف کمائی ہوتی ہے ۔وہ اس کو بیچتے ہیں ۔
لیکن حقیقی تبصرہ تو اسی کا ہو گا ۔جس کو اس تبصرے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ وہ واقعی عقیدت مند کہلائے گا۔
انسان اپنی زندگی میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے ۔ مختلف نظریات رکھتا ہے ۔
لیکن اس کا اصل نظریہ اس کا آخری عمر والا ہی مانا جانا چاہیے ۔
لیکن کیا کیجئے کہ اگر اس کی پچھلی تحریریں زندہ رہیں ۔اس کو نیا آدمی نئے سرے سے پڑھتا ہے ۔
اگر یہ عزر نہ ہوتا تو اس تھریڈ کی ساری تحریر ریموو کر دیتا ۔
اور اتفاق سے اشتیاق احمد جیسے دیندار بلکہ مولوی ٹائپ مصنف پر بھی اسی تھریڈ میں تنقید موجود ہے ۔

حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو فوت ہو جائے اس کی برائیاں نہ ظاہر کی جائیں بلکہ اچھائیوں کا تذکرہ کیا جائے (ترمذی

اس تھریڈ میں جن صاحب پر تنقید کی گئی ہے ۔ وہ اللہ کےپاس چلے گئے ۔
اللہ تعالیٰ ہماری اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے ۔ گناہوں کو معاف فرمائے ۔
اور مجھے ہدایت کے راستے پر چلائے کہ ابھی اس دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ادب بالخصوص اردو ادب سے متعلق اس احقر کے چند تاثرات، جس سے قارئین کا غیر متفق ہونا ضروری نہیں۔ ابتسامہ
  1. جب انگریز متحدہ ہندوستان میں آئے تو یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ نہ صرف مسلمانوں کی زبان فارسی تھی بلکہ سرکاری زبان بھی فارسی تھی۔ ہندوستان میں علم و ادب ہی کی نہیں بلکہ دولت کی بھی فراوانی تھی۔ لوگ یہان علم حاصل کرنے بھی آتے تھے اور دولت کمانے بھی۔ انگریز یہاں آئے تو دولت کمانے تھے مگر یہاں سونے کی چڑیا کو دیکھ کر اس پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی۔ یہاں کے حاکم بن کر یہاں کی دولت انگلستان منتقل کیا اور یہاں کی زبان فارسی کو ختم کرکے اپنی انگریزی کو نافذ کیا۔
  2. بطور سرکاری زبان، انگریزی کو نافذ تو کردیا، مگر یہاں کے عوام الناس انگریزی سے دور ہی رہے۔ چنانچہ انگریزوں نے ”عوامی زبان“ کے طور پر ”اردو زبان“ کی سرپرستی کی۔ ۔ ۔ اردو سے انگریزوں کی سرپرستی دیکھ کر شیعہ علماء و فضلاء نے اردو ادب میں مہارت حاصل کرنی شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب کی شاندار اور جاندار ایک ایسی عمارت کھڑی کردی، جس کی بنیادیں عشق و عاشقی اور واقعات کربلا پر مشتمل تھیں۔ چنانچہ اردو ادب میں کوئی مقام حاصل کرنے لئے یہ ضروری ہوگیا کہ کسی نہ کسی شیعہ اردو ادیب یا شاعر کی شاگردی اختیار کی جائے، عشق و عاشقی کی تفصیلات پر مبنی تحریریں لکھی جائیں یا کربلا کہانی میں اپنے تحریری جوہر دکھلائے جائیں۔
  3. بعد ازاں اردو میں جتنے بھی اصناف ”تخلیق“ کئے گئے، ان سب کا ”مرکزی خیال“ یا تو عشق رہا یا کسی نہ کسی طرح ”شیعہ ازم“ کو بالواسطہ یا بلا واسطہ فروغ دینے کا سبب بنا۔ گو بعض ”سنی ادیب و شاعر“ بھی منظر عام پر آئے اور انہوں نے اپنی جدا راہیں اپنانے کی کوششیں کیں۔ لیکن پہلے انگریزوں نے اور بعد میں ہندو کی بھارت سرکار نے اور پاکستان میں ”اسلام بیزار قوتوں“ نے بھی سنی ادیب و شاعر کو شیعہ ادیب و شاعر کی صف کے پیچھے ہی جگہ دی۔
  4. آپ اردو دنیا کے سو بڑے اور مشہور و معروف ادیب و شاعر کی فہرست بنائیے۔ پھر یہ تحقیق کیجئے کہ ان میں کتنے شیعہ ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ستر اسی فیصد ادیب شیعہ ہیں اور بیشتر نے قلمی ناموں کی آڑ میں اپنا مسلک چھپا رکھا ہے۔ انہی کا تخلیق کردہ ادب، ادب عالیہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ سنی ہیں اور ادب عالیہ تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو انہی کی ”نقالی“ کرکے ہی ایسا کرسکتے ہیں۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
سیکھنے کے لئے ناول پڑھیں یہ بطور ادب ہیں
اگر منع ہوتا تو تقریبا مدارس کےنصاب میں مقامات دیوان وغیرہ شامل نہ ہوتے
بطور ادب کےجائز ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اردو کے بہترین ناول
--------------------
"علی پور کا ایلی": اگر میرے پاس اس کی ہارڈ کاپی ہوتی تو کسی پکوڑے سموسے بیچنے والے کو ہدیہ کر دیتا کہ اس کا صحیح استمعال یہی ہے کہ ضخیم بھی کافی ہے، شاید اردو ادب کا سب سے ضخیم ناول ہے۔۔۔۔۔
"آگ کا دریا": ایک دل تو کرتا ہے کہ ابو الکلام آزاد کو عالم برزخ میں تحفے میں بھجوا دوں کہ رات ہی عالم نیند میں برزخ سے ان کا اڑھائی صفحات کا ایک تعریفی خط موصول ہوا ہے کہ جس میں انہوں نے راقم کی ایک تحریر کی ستائش فرمائی ہے۔۔۔۔ اور ایک دل کرتا ہے کہ کسی اچھے سنکسرت جانے والے کو ہدیہ کر دوں کہ اس کے پہلے دو سو صفحات کا اردو ترجمہ کر دے۔۔۔۔
"اداس نسلیں": بس ٹھیک ہے۔۔۔۔ اس لیے ضرور پڑھنا لینا چاہیے کہ اسے اردو کے دس بہترین ناولوں میں شمار کیا گیا ہے۔۔۔۔ پڑھ کر وقت اچھا گزر گیا لیکن کوئی خاص اثر نہ ہوا۔۔۔۔
"راجہ گدھ": ایک اچھا ناول ہے۔ بہترین دماغوں اور سوچنے سمجھنے والے اذہان کے لیے اردو ادب میں ایک عمدہ تحفہ ہے۔۔۔۔ پڑھنے کے بعد تقریبا ایک ہفتہ تک اس کے اٹھائے گئےفلسفیانہ سوالات کے سحر میں شدت سے مبتلا رہا۔۔۔
"خدا کی بستی": عمدہ اور بہترین ناول ہے۔۔۔۔ ضرور پڑھنا چاہیے۔۔۔۔ پڑھ کر یہ اثر ہوا کہ ختم کرنے کے بعد دو رکعت نماز ادا کی اور سجدے میں خوب رویا۔۔۔۔
"قیصر وکسری": اردو زبان کا شاہکار ناول۔۔۔۔ ہر ایک کو ضرور پڑھنا چاہیے۔۔۔۔ پڑھ کر یہ اثر ہوا کہ اب کے زندگی بامقصد معلوم ہونے لگی۔۔۔۔
(فیس بک سے)​
 

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
اوپر یوسف بھائی نے لکھا کہ ادب کو ادب سمجھ کر پڑھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا
میں نے یہی موضوع اپنے شوہر سے ڈسکس کیا تو کہنے لگے ادبی لٹریچر کا مزاج کم و بیش تمام زبانوں میں ایک ہی ہے عربی زبان کو ہی لے لیں تو میں عربی شاعری نہیں پڑھی لیکن بقول ان کے فحاشی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی
لیکن اس کے ساتھ اچھا ادبی ذوق بھی موجود ہے اور یہ ہر زبان میں موجود ہے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
دو سال پہلے تک ابن صفی کو پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا. کسی نے بتایا کہ ناول خصوصی طور پر جاسوسی ناول پڑھنا صحیح نہیں. تب سے میں نے ابن صفی کو خیر باد کہ دیا.
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دو سال پہلے تک ابن صفی کو پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا. کسی نے بتایا کہ ناول خصوصی طور پر جاسوسی ناول پڑھنا صحیح نہیں. تب سے میں نے ابن صفی کو خیر باد کہ دیا.
وجہ ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ادب، ادبی کہانیاں، افسانے اور ناول کیوں پڑھے جاتے ہیں ؟
  1. زبان سیکھنے کے لئے۔ کسی زبان کا ادب پڑھے بغیر آپ کو اُس زبان میں لکھنا نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے شعبہ علم میں مہارت اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باوجود بہت سے ڈاکٹرز، انجینئرز، معاشیات دان، عالم دین وغیرہ اُس زبان میں اپنے ہی علم سے متعلق موضوعات پر پُر اثر اور جامع تحریر نہیں لکھ سکتے، اگر انہوں نے اُس زبان کے ادب کا مطالعہ نہیں کیا ہوا ہو تو۔ (استثنیٰ کے علاوہ)
  2. کہانیاں، افسانے اور ناول بذات خود اتنے ”دلچسپ“ ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتے ہیں۔
  3. ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی ”سبق“ ضرور ہوتا ہے۔ بالخصوص معیاری کلاسیکل ادب تو ”سبق“ سے کبھی عاری نہیں ہوتا۔
  4. تعلیم و تربیت: کہانیوں اور ناول کے کردار اپنے قارئین کو تعلیم بھی دیتے ہیں اور تربیت بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ”تعلیم و تربیت“ مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔
  5. ادبی کہانیوں میں چھوٹی عمر کا قاری اُن واقعات و تجربات سے ”پیشگی آگاہ“ ہوجاتا ہے، جو بڑے ہونے پر اُس کے ساتھ پیش آنے ہیں۔ اور ابھی اُس نے اس کا مشاہدہ اپنے گرد و پیش میں بھی نہیں کیا ہے۔ اسے یہ سب کچھ کہانیوں کے مختلف اقسام و عمر کے کرداروں کے ”قول و عمل“ سے مل جاتا ہے۔ یہ سارے ”اچھے بُرے نظری تجربات“ مستقبل میں اُس کے کام آتے ہیں۔
  6. کہانیوں میں معاشرے کے جملہ اقسام کے کردار پائے جاتے ہیں۔ جبکہ قاری کی زندگی میں یہ کردار بہت تاخیر سے آتے ہیں۔ گویا وہ بہت کم وقت میں معاشرے کے اچھے بُرے ہر قسم کے کرداروں سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔ جو اس کی عملی زندگی میں اُس کی معاونت کرتا ہے۔
  7. عقل و شعور کا ارتقا: کہانیاں اور ناول عموماً عقل و شعور کی بلند تر سطح پر لکھی جاتی ہیں۔ چنانچہ کم تر درجہ کے عقل و شعور کے حامل قارئین انہیں پڑھ کر اپنے عقل و شعور میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
  8. مسائل کا حل تلاش کرنا: ناولوں میں بالخصوص مسائل و مشکلات میں گھرے افراد جد و جہد اور مختلف طریقوں سے اپنے مسائل سے چھٹکارا پالیتے ہیں۔ انہیں پڑھ کر قارئین کو بھی اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔
  9. جاسوسی ناولز سے ذہنی ارتقاء: جاسوسی ناولز ایسے قارئین پسند کرتے ہیں جنہیں پیچیدہ مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرنا پسند ہو۔ ان ناولز کے ذریعہ وہ نت نئے چیلنجز کو ڈیل کرنا سیکھتے ہیں۔
  10. رومانی ناولز: ان ناولز کے ذریعہ سماجیات سے متعلق وہ باتیں بھی سیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں بالعموم ہمارے بڑے اور اساتذہ بھی ”بتلانا یا سکھلانا“ پسند نہیں کرتے۔ لیکن ایک کامیاب مصنف خود پردہ میں رہ کر اپنے قارئیں تک یہ باتیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر سکھلا دیتا ہے۔
مجھے تو کہانیاں پڑھنا بہت پسند ہیں۔ میں ”ہر قسم“ کی کہانیاں بچپن ہی سے پڑھتا رہا ہوں۔ جنوں بھوتون والی بھی اور پریوں والی بھی۔ حقیقی بھی اور غیر حقیقی بھی۔ چند صفحات والی بھی اور سینکڑوں صفحات والی بھی۔میرے لاشعور اور تحت اشعور مین اتنی کہانیا ں ”ذخیرہ“ ہیں کہ مجھے عملی زندگی میں جب بھی کوئی ”نئی صورتحال“ کا سامنا ہوتا ہے تو مجھے اسی صورتحال سے ملتی جلتی کہانی یاد آجاتی ہے۔ کہانی پڑھتے وقت تو اس کی جزیات، عملی ہدایات اور اس کے انجام وغیرہ پر ”نظر“ نہیں گئی تھی۔ لیکن آج جب وہ کہانی یاد آتی ہے تو یہ سب کچھ بآسانی ”ری کور“ کرلیتا ہوں۔ یوں کسی بھی ”نئی صورتحال“ سے ڈیلنگ میں انہی کہانیوں کی بدولت بہت آسانی ہوجاتی ہے۔
 
Top