کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ضمیمہ ارسال الیدین
عبدالوکیل ناصر
امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’ اعلام الموقعین‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کی نقل کرنا دو قسم پر ہے ۔ اور دونوں سنت ہیں، ایک ان کا صراحت سے یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کر دیا، اسے اختیار نہیں کیا‘‘۔
دوسری قسم ترک کی یہ ہے کہ کسی فعل کی نقل نہ ہو باوجود یہ کہ اسباب ایسے موجود ہوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کرتے تو ضرور لوگ اسے روایت کرتے یا تو سب ہی روایت کرتے یا کم از کم کوئی نہ کوئی ضرور اسے بیان کرتا۔1۔جیسے کہ شہداء احد کے بارے میں مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں غسل دیا اور نہ ہی ان کے جنازے کی نماز پڑھی۔
2۔نماز عید کے لئے مروی ہے کہ اس کے لئے نہ اذان ہوتی تھی نہ اقامت ہوتی تھی اور نہ ہی منادی ہوتی تھی۔
3۔دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے موقعہ پر مروی ہے کہ ان دونوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل و سنت پڑھے نہ ان میں سے کسی کے بعد وغیرہ وغیرہ ۔
اور جب کسی نے بھی اسے بیان ہی نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی اصل ہے ہی نہیں۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین) ایسے نہ تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو امت تک نہ پہنچائیں،کوئی کسی بھی وقت کہیں بھی اسے بیان نہ کرے۔ یہ بالکل نہ ممکن ہے۔ اس کی مثالیں سنئے:
1۔نماز کے شروع میں نیت کے الفاظ زبان سے نہ کہنا۔
2۔ہمیشگی اور پابندی کے ساتھ صبح اور عصر کی نماز کے بعد یا پانچوں نمازوں کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا نہ مانگنا اور مقتدیوں کا آمین نہ کہنا۔
3۔صبح کی نماز کے آخر میں بعد از رکوع ہر رکوع ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا کر دعا ئے قنوت ’’ اللھم اھدنا‘‘ کے ساتھ نہ مانگنا اور سب مقتدیوں کا آمین نہ کہنا۔ (یہ نا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام مواظبت کے ساتھ کریں روزانہ کریں اور پھر کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا کوئی مرد کوئی عورت اس( کام) کو نقل نہ کرے، بیان نہ کرے)
4۔مزدلفہ میں رات گذرانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔
5۔شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔
6۔طواف زیارت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ان وقتوں میں غسل کو مستحب کہتے ہیں ان کا قول غلط ہے اور ان موقعوں پر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے۔ کیوں کہ ترک فعل بھی سنت ہے جس طرح کسی فعل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرنا سنت ہے۔ پس جب ہم کسی ایسے کام کا کرنا مستحب مانیں گے۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو تو ایسا ہی برا ہوگا جیسے ہم کسی ایسے کام کے نہ کرنے کو مستحب جانیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا ہو۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر اس پر یہ اعتراض ہو کہ نبی علیہ السلام نے اسے (یعنی کام کو) نہیں کیا۔ اس پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ کیوں کہ عدم نقل عدم فعل کو مستلزم نہیں۔
اسی طرح ہو سکتا ہے کوئی کہہ دے کہ ہر نماز کے لئے غسل بھی واجب ہے تم کہو کہ یہ منقول نہیں۔ وہ کہے گا منقول نہ ہونے سے فی الواقع غسل کا بھی نہ ہونا لازم نہیں آتا اور کیوں جی اگر کوئی کہے کہ اذان کے آخری کلمے’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے بعد ’’ رحمکم اللہ‘‘ کہنا بھی مستحب ہے تم اگر انکار بھی کرو گے تو زیادہ سے زیادہ تمہاری دلیل یہی ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہیں۔ وہ آپ کا یہ قاعدہ پیش کر دے گا کہ منقول نہ ہونا یہ ثابت نہیں کرتا ہے کہ دراصل موجود ہی نہ ہو۔تو ہم جواب دیں گے کہ یہ اعتراض سنت و طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناشناسی پر مبنی ہے۔ اور اگر آپ کو اسی پر اصرار ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی تراویح کی نماز کے لئے بھی اذان کو مستحب بتلائے تو آپ اسے کیا جواب دیں گے؟ وہ بھی آپ سے کہہ سکتا ہے( جو آپ نے ہم سے کہا) کہ اس کے مستحب نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ اس کا منقول نہ ہونا ہی اس کے عدم استحباب کی دلیل ہے تو وہ پلٹ کر آپ کو کہے گا کہ کرنے کی روایت کا نہ پایا جانا نہ کرنے کا تقاضہ ضروری طورپر نہیں کرتا۔
اگر کوئی کھڑا ہو کر یہ کہنا شروع کر دے کہ سیاہ لباس اور طیلسانی کپڑا پہننا جمعہ کا خطبہ دینے والے خطیب کے لئے ضروری ہے اور خطیب جب گھر سے چلے تو اس کے آگے چاؤش ہوں اور جب کبھی وہ اللہ اور اس کے رسول کا نام لے تو مؤذن بھی اپنی آواز بلند کریں۔ سب مل کر یا الگ الگ تم انکار کرو تو وہ تم سے دلیل طلب کرے تم کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا ہونا مروی نہیں تو وہ کہے کہ مروی نہ ہونے سے واقعہ میں ایسا نہ ہونا ضروری نہیں ہو سکتا۔
کوئی کہے شعبان کی پندرہویں شب کو رجب کے پہلے جمعہ کی شب کو ساری رات نماز میں گزارنا مستحب ہے اور تمہارے انکار پر وہ تمہیں وہی کہے جو تم نے ہمیں کہا تھا تو آخر تمہارا جواب کیا ہوگا؟
الغرض اگر تم نے یہ اصول جاری کیا تو بدعتوں کا دروازہ کھل جائے گا اور ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے اس کو دلیل بنالے گا، سند بنالے گا۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے کام کرنا سنت ہے اسی طرح آپ کے چھوڑے ہوئے کام چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔(اعلام الموقعین ،عربی جلد۲، اردو جلد اول)
(رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھنا اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سنت ترکیہ قرار پاتا ہے۔واللہ اعلم)
امام شاطبی رحمہ اللہ ، امام ابن القیم رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں بہت سی چھوٹ جانے والی رہ جانے والی سنتوں کی نشاندہی کی اور ساتھ ساتھ ان بدعات کا بھی قلع قمع کیا جو سنت کے مفقود ہونے سے وجود میں آئی تھیں۔ فجزاھم اللہ خیر الجزائ۔امام ابن القیم رحمہ اللہ کی اس گفتگو کے بعد غور کیجئے کہ نماز کے مسائل کس قدر واضح ہیں۔ ان میں کوئی بھی ابہام و اشکال اور اخفاء نہیں رہاہے۔ ائمہ کرام علماء عظام (رحمہم اللہ وشکرسعیھم) ہر دور میں چند ایک مخصوص( نماز کی) غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ حتی کہ امام احمد رحمہ اللہ نے نماز میں پائی جانے والی کم و بیش سو غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی اور پھر سنت سے ان کی اصلاح کی بھی کوشش کی۔(جیسا کہ عندالعلماء معروف ہے)
مگر اتنی محنتو ں کے باوجود زیر نظر مسئلہ’’ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا‘‘ (جس کے مقابلے میں ارسال الیدین بعد الرکوع کو خلاف سنت قرار دیا جا رہا ہے) کہیں بھی کسی بھی تصنیف میں دکھا ئی نہیں دیتا۔(اصحاب علم و ذوق اس کی تفصیل اعلام الموقعین اور الاعتصام میں دیکھ سکتے ہیں)
اگر ازراہ انصاف دیکھا جائے تو محدثین کے ابواب و تراجم ، احادیث کا سیاق و سباق اس سلسلے میں بالکل واضح ہے کہ ہاتھ باندھنے کا عمل قیام قبل الرکوع میں ہے۔اضطراب لحیۃ تک بیان کر دینے والے سے یہ( اگر واقعی یہ کوئی مسئلہ تھا) تو مخفی کیسے رہ گیا؟
اگر رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھناغلطی تھی ،کوتاہی تھا، سنت کی موت تھی تو پھر امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے ذکر کردہ سو مسائل میں اسے ذکر کر کے اس کی اصلاح کیوں نہ کی؟ بلکہ اس کے بر عکس بعد الرکوع کے مسئلے میں اختیار دیدیا کہ باندھ لو تو بھی صحیح چھوڑ دو تو بھی صحیح آخر کیوں؟
وہ کون سے دلائل تھے جن کی بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ جیسے محدث و فقیہ نے اس مسئلہ میں گنجائش کا راستہ اختیار کیا؟ کیا آج وہ دلائل ارسال والوں کو کفایت نہیں کر رہے؟ جو انہیں( وضع الیدین والے) آئیں بائیں شائیں کا حامل قرار دیتے ہیں۔
کیا امام احمد رحمہ اللہ کی طرح وضع الیدین والے بھی اتنے معتدل مزاج ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آئیں بائیں شائیں اور خلاف سنت کے فتوے کس بنیاد پر؟
وضع کے حق میں انہی سابقہ باتوں کو گھما پھرا کر بار بار چھاپنا (جبکہ ان تمام باتوں کا جواب شافی و کافی ہو چکا ہے) کیا معنی رکھتا ہے؟
حتی کہ ایک صاحب نے( جن کی کتاب ابھی تک چھپی نہیں ہے) یہاں تک لکھ دیا کہ ارسال والے اپنے عمل کو سنت کہہ کر’’ من کذب علی متعمدا۔۔۔۔۔‘‘ کی رو سے جہنم کے ایندھن ہیں۔ نعوذباللہ من ذلک
اور موصوف کی سب سے وزنی دلیل( ان کے زعم میں ) یہ تھی کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ فطری عمل ہے جبکہ ارسال ایک غیر فطری عمل ہے۔ سبحان اللہ
اسی طرح امت مسلمہ کا عملی تواتر بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور یہ بات فریق ثانی کو بھی تسلیم ہے کہ تواتر عملی کسی ثابت شدہ عمل کا مؤید ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کچھ روایتوں میں مطلقا ہاتھ باندھنے کا ذکر آیا ہے تو اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کیا جائے گا۔ اور ہاتھ باندھنے کا عمل قیام قبل الرکوع کے ساتھ مقید ہے۔ کما لا یخفی علی اھلم العلم والمعرفۃ
اس مسئلہ میں احباب وضع الیدین (بعدالرکوع) کی طرف سے چند شبھات پیش کیئے جاتے ہیں۔ تو اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت محسوس ہوئی کہ مختصراً و اجمالاً شبھات کو مع الجواب جمع کر دیا جائے۔ تاکہ متلاشیان علم و حق کی تشنہ لبی کے لئے سیرابی کی راہ ہموار ہو سکے۔ ملاحظہ کیجئے۔ واللہ ولی التوفیق